شاعری
Trending

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا از حناء شاہد

ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا

 

 

وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

ہم تو سمجھے تھے اک زخم ہے بھر جائے گا

 کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا

پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ اردو کی منفرد شاعرہ پروین شاکر کی شہرت بہت کم عرصے میں ملی۔ انہوں نے ڈاکٹر نصیر علی سے شادی کی، طلاق کے بعد لے لی ہے۔ ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔ پروین شاکر کو صدر پاکستان نے پرفارمنس کے علاوہ ادبی اعزازات سے بھی نوازا۔ ان کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ پروین شاکر نے اپنی مختصر سی زندگی میں عظیم جرات اور ان کی اچانک اور المناک موت ان کی شخصیت کی ایک رومانوی چمک ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے کشش کا باعث بنے گی۔ اس صفحہ میں آپ پروین شاکر کی سوانح عمری اردو اور رومن اردو میں پڑھیں گے۔

پروین شاکر کے حالاتِ زندگی:۔

پروین شاکر 24 نومبر 1952 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کو اردو کی منفرید لہجے کی شاعرہ ہونے کی وجہ سے نہایت قلیل عرصے میں وہ شہرت حاصل ہوئی جو بہت ہی کام لوگوں کو ملتے ہیں۔ انگریزی ادب اور زباں دانی میں پروین شاکر نے گریجویشن کیا اور بعدمیں ان مضامین میں کراچی یونیورسٹی سےایم اے کی ڈگری حاصل کی۔پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پھر بعدمیں پروین شاکر نے گورنمنٹ جاب (سرکاری ملازمت) اختیار کرلی۔ سرکاری ملازمت (سرکاری ملازمت) شرو ع کرنے سے پہلے 9 سال شعبہ تدریس سے منسوب رہیں۔اور 1986 میں محکمہ کسٹم، سی بی آر   اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے ٹور پر اپنی خدمت انجام دینے لگیں۔ اس سے پہلے آپ نے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم پی اے (ماسٹرز ا ایڈمنسٹریشن کا کورس مکمل کیا۔ پروین شاکر کی شادی ڈاکٹر، نصیر علی سے ہوئی جن سے بعدمیں طلاق لے لی۔ پروین شاکر کی (وفات) 26 دسمبر 1994 کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں 42 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر کےبیٹے کا نام مراد علی ہے ۔پروین شاکر کی پہلی کتاب (کتاب شائع ہونے سے پہلے ہی ادبی جرید ےمیں چھپنے والی ان کی نظموں اور غزلوں کو بےپناہ مقبویات حاصل ہوئی )اور اسے بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ پروین شاکر کے فکر اور مزے کی خوشبو ملکی حدود سے نکل کر سارےعالم میں پھیل گئی پروین شاکر کی شاعری نوجواں کا کریز بن گئی کچی عمر کے رومانی جذبات کو بڑے فنکارانہ ،شوخ اور کلاسیکی رچاؤکے ساتھ پیش کرنا پروین شاکر کے اسلوب کی پہچان قرار پائی۔خوشبو کے بعد آنے والی کتابوںمیں ان کے مزاج  کی ہما گیری اور فکر گیری اور  پختگی کی حلیم نظر آتی ہے۔

پروین شاکر کے انتقال سے پہلے ان کی کلیات ماہِ تمام کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی کا دکھ جو ان کی ازدواجی زندگی کی ناکامی پر منتہج ہوا تھا، پروین شاکر کی شاعری اور شخصیت میں حزن اور اُداسی کی کیفیات بن کر سامنے آیا۔ پروین شاکر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ انکی کتاب “خوشبو” مانگنے والوں  اور محبوب چہروں کو تحفے کی صورت میں دی جاتی رہی۔ پروین شاکر کو صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ آدم جی ادبی ایوارڈ بھی ملا۔ وفات (موت) سے پہلے وہ پی ایچ ڈی کے لیے “1971 کی جنگ میں زرائع ابلاغ کا کردار” کے موضوع پہ مکالمہ  مکمل کر چکی تھیں۔ جو امریکہ کی ایک یونیورسٹی میں پیش کیا جانا تھا۔ پروین شاکر پاکستان ٹیلی ویژن کے کئی پروگراموں میں اور بلخصوص مشاعروں میں ایک مقبول میزبان تصور ہوتی تھیں۔ انکی شاعری کے ترجمے انگلش اور جاپانی زبان میں کئے گئے ہیں۔پروین شاکر کی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔ پروین شاکر کی شاعری میں جو اظہار محبت کرتی ہوئی بے جھجھک عورت نظر آتی ہے، استعمالی پوربی اور ہندی کی روایتی عورت پر گرہ قرار دیا جا سکتا ہے جو اپنے گیتوں میں مرد محبوب کو مخاطب کر کے اپنے تن من کے روگ بیان کرتی ہے۔۔ . کچھ لوگ اس رویے کو مغرب کے جدیدرویوں کا پرتو قرار دیتے ہیں مگر پروین شاکر کی شاعری کی اصل قوت کہاں اور ہے اس نے اپنی نظر میں بار بار خود کو یونان کی سیفو اور ہندوستان کی میرا کا ہم قافلہ کہا ہے۔پروین شاکر کی شاعری کا منفرید وصف اس کی عورت ہوتی ہے ایک فرد اور مکمل پاگلوں کی ہستی میں سوچنا ہے چنانچہ اس کے اندر کی ماں بیسویں صدی کی ایک ذہین،تعلیم یافتہ اور غیر معمولی عورت کے پہلو با پہلو چلتی ہوئی نظر آتی ہے۔  . مگر مردں کے بنائے ہوئے  اس اقداری نظام میں اس طرح  زندہ رہنا واقعی بڑے حوصلے  کا کام ہے۔ پروین شاکر نے اپنی مختصر  زندگی بڑی ہوصلے سے  گزری اور ان کی اچانک اور المناک موت کو انکی شخصایت  کو ایسا ہی رومانٹک ہالہ بخشا ہے جو آنے والی تمام نسلوں کے لیے بھی کشش کا باعث بن کر رہے گا۔

 

 

************************

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Check Also
Close
Back to top button