Batey Kuch Adhoori c by Hina Shahid
باتیں کچھ ادھوری سی۔۔۔۔۔۔
تحریر حناء شاہد
حرف ملتے ہیں تو لفظ بنتے ہیں۔ لفظ ملتے ہیں تو عبارت بنتی ہے۔ ہر عبارت ایک کہانی کے قفس میں قید ہوتی ہے۔ اور ہر کہانی کسی نہ کسی جذبے کی ترجمانی کر رہی ہوتی ہے۔ بعض جذبے ٹحوکروں کی شدت برداشت نہیں کر پاتے اور گہری چوٹ کے باعث مدفن ہو جاتے ہیں۔
جبکہ بعض جذبے بڑی سے بڑی چوٹ کی شدت کو سہہ کرایسے کندن بنتے ہیں کہ دنیا انہیں کبھی بھلا نہیں پاتی۔ان کی شہرت کا چرچا عالم دیکھتا ہے۔ اور ان کی دید کے لیے لوگ دور دور سے چل کر آتے ہیں۔ زندگی کی کٹھنائیاں برداشت کر کے دنیا کی آنکھوں میں انکھیں دال کر دیکھنے والے دنیا سمیت آخرت کی کامیابی بھی سمیٹ لیتے ہیں۔ یہی اصولِ کائنات ہے۔
جو جتنا پستا ہے وہ اتنا ہی صابر و شاکر ہو کر اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اور جو جگہ جگہ پہ ماتم کنائی شروع کرتا ہے وہ انسان اپنی زندگی میں کبھی کوئی منزل پا نہیں سکتا۔ منزل پہ پہنچنے کے لیے خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور جو انسان اس اصول پہ کارفرما ہو ۔۔جاتا ہے وہ انسان زندگی میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض انسان اتنے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ ان کے دامن میں ہیرا پڑا ہوتا ہے اور وہ اس ہیرے کی طرف نہیں دیکھتے۔ انہیں دوسرے لوگوں کی فکر ہوتی ہے۔ انہیں دوسروں کی پروا ہوتی ہے۔ جبکہ وہ ہیرا دنیا کی نظر میں ہیرا ہوتا ہے۔ لیکن جس دامن میں وہ پڑا ہوتا ہے۔
اس دامن کے مالک کو وہ ہیراکوئلہ لگ رہا ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے وہ ہیرا دنیا کی نظروں میں ایسا جگمگاتا ہے اسکی چکاچوند اس ہیرے کے مالک کی آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ اور جب وہ آنکھیں وا کرتا ہے تو تب پتا چلتا ہے کہ وہ اب اپنے دامن میں اس ہیرے کو کھو کر سب سے بڑا نقصان اٹھا چکا ہے۔
یہ بھی معاشرے کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ دنیا کا ایک روپ یہ بھی ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے گرد موجود اچھے لوگوں کی قدر نہیں کرتے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم ان اچھے لوگوں کو کھو دیتے ہیں۔ پھر بیٹھ کے افسوس کرنے سے تو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا انسان کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا میں دنیاوی چیزوں کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ جب انہیں کوئی عہدہ ملتا ہے تو وہ اس عہدے کی چکاچوند کو سنبھالتے سنبھالتے اس قدر ڈانواں ڈول ہوتے ہیں کہ اپنے چھوٹے چھوٹے رشتوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔
چھوٹی چھوٹی خوشیاں ان کے لیے اہمیت نہیں رکھتیں ہیں۔ اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے۔ ۔جب عہدے کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ وقتی جاہ جلال وہ وقت عیش و عشرت سب فنا ہو جاتی ہے۔ اور پھر جب وہ عہدے کا ڈسا ہوا انسان پلٹ کر اپنے رشتوں کے درمیان واپس آتا ہے تو اس کے حصے میں کچھ بھی نہیں آتا۔
اس لیے کوشش کرنی چاہئیے زندگی میں سہولیات اور آسائشات کو سمیٹنے میں اتنا مگن نہیں ہو جانا چاہئیے کہ زندگی میں سب کچھ ہو لیکن جن سے زندگی خوبصورت ہوتی ہے آپ کے پاس وہ رشتے ہی موجود نہ ہوں تو کیا فائدہ ایسی آسائشات کا اور ایسی زندگی کا تو کوشش کریں زندگی کو رشتوں کے ساتھ خوبصورت بنائیں۔
انشاء اللہ ۔۔۔۔۔۔!!! (سلسلہ جاری رہے گا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ انسان اپنی زندگی میں کبھی کوئی منزل پا نہیں سکتا۔ منزل پہ پہنچنے کے لیے خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور جو انسان اس اصول پہ کارفرما ہو ۔۔جاتا ہے وہ انسان زندگی میں کامیابی حاصل کر لیتا ہے۔
Batey Kuch Adhoori c by Hina Shahid