آرٹیکل
Trending

Kuch Swal Kuch Jwaab By HINA SHAHID

Artical Hina Shahid

Story Highlights
  • جواب: ہم خود سے ہی کسی کو وہ مقام دے دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ فلاں شخس یا فلاں چیز ہمارا سکون ہے اس کو دیکھ کے اس سے بات کر کے ہمیں سکوں محسوس ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص یا چیز ہمیں سکون دے رہی ہے۔ سوال:جب ہم تھک جاتے ہیں تو کیا ہم خیال میں پناہ لیتے ہیں؟ ۔ جواب:خیال کبھی بھی آپ کو پناہ نہیں دیتا کیونکہ خیال میں چلنا پڑتا ہے اور پناہ میں انسان کچھ پل سکون چاہتا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں سکون چاہئیے ہوتا ہے۔ جبکہ خیال تو سوچوں کا میدان ہوتا ہے۔ ابھی خیال کے میدان میں قدم رکھا تو سوچوں کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سوال:کیا

 

کچھ سوال کچھ جواب تحریر حناء شاہد

سوال:آپ کے خیال میں زندگی کیا ہے؟۔

جواب:زندگی مسلسل جہد اور کوشش کا نام ہے۔

سوال:زندگی میں دوسرے انسان کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟ ۔

جواب:ہمیں ہر وقت کسی نہ کسی کی ضرورت رہتی ہے انسان کبھی بھی اکیلا نہیں رہ سکتا ہے۔

سوال: ہمیں سکون کی تلاش کیوں رہتی ہے؟ ۔

جواب: جب ہم مسلسل کسی چیز کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تو ایک ٹائم ایسا آتا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو پھر ہمیں کچھ پل سکون کے لیے چاہئیے ہوتے ہیں تب ہم اس چییز کے پیچھے بھاگتے ہیں جس سے ہمیں سکون ملے۔

سوال :کسی نہ کسی کی ضرورت ہمیں سکون دے سکتی ہے؟ ۔

جواب: ہم خود سے ہی کسی کو وہ مقام دے دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ فلاں شخس یا فلاں چیز ہمارا سکون ہے اس کو دیکھ کے اس سے بات کر کے ہمیں سکوں محسوس ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص یا چیز ہمیں سکون دے رہی ہے۔

سوال:جب ہم تھک جاتے ہیں تو کیا ہم خیال میں پناہ لیتے ہیں؟ ۔

جواب:خیال کبھی بھی آپ کو پناہ نہیں دیتا کیونکہ خیال میں چلنا پڑتا ہے اور پناہ میں انسان کچھ پل سکون چاہتا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں سکون چاہئیے ہوتا ہے۔ جبکہ خیال تو سوچوں کا میدان ہوتا ہے۔ ابھی خیال کے میدان میں قدم رکھا تو سوچوں کی دوڑ شروع ہو گئی۔

سوال:کیا ہمیں سکون تب ملے گا جب کوئی سمجھنے والا انسان میسر ہو؟۔

جواب:دنیا میں کوئی بھی انسان کسی دوسرے انسان کو سمجھ نہیں سکتا۔یہ ایک حقیقت ہے۔

سوال:ہم کیوں کسی گمنامی میں چلے جاتے ہین جہاں ہماری تڑپ شدت اختیار کر جاتی ہے؟۔

جواب:انسان کی عادت ہے دوڑ میں شامل رہنا گمنامی صرف ایک کیفیت کا نام ہے۔ ہر انسان اس حالت سے دوچار ہوتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے جب اس کی تڑپ یا تو اسے صحیح راستے پہ چلاتی ہے یا پھر وہ کسی غلط راستے کا انتخاب کر کے خود بھی گمنام ہو جاتا ہے۔

سوال:تڑپ کو ہمیشہ تسکین کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟۔ جواب: یہ بھی ایک وقتی کیفیت کا نام ہے ۔ انسان جب اس مرحلے سے گزر رہا ہوتا ہے۔ تب اس کی تڑپ میں اضافہ ہوتا ہے۔ اور اس تڑپ کو پانے کی آرزو اسے چین نہیں لینے دیتی۔ اور ایک ٹائم ایسا آتا ہے جب تڑپ کو تسکین ملتی ہے اور پھر وہ تسکین ایک دن اپنی وقعت کھو دیتی ہے۔ جیسے مثال کے طور پہ کسی بچے کو کوئی کھلونا پسند آ جائے تو وہ اس کا پانے کے لیے مچلتا رہتا ہے ۔روتا ہے ضد کرتا ہے اور جیسے ہی اس کو وہ کھلونا حاصل ہوتا ہے چند دن اس سے خوب کھیلتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس کی تڑپ کم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے اور وہ اس کھلونے کو پھینک دیتا ہے۔ یہی تسکین کی آخری حد ہوتی ہے۔

سوال: ہم مزاج شخص کی طلب کتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے؟ ۔

جواب: ہم مزاج شخص کی طلب اور اہمیت اپنی جگہ پہ قائم ہے لیکن میرے نزدیک ہم مزاج ہونا یہ بڑی بات نہیں ہوتی۔ اپنے مزاج سے الگ انسان کے ساتھ زندگی گزارنا یہ اہم بات ہے۔

سوال: اپنی تسکین کو پانے کے لیے اتنے بے چین کیوں رہتے ہیں؟۔

جواب:تسکین مل ہی جاتی ہے انسان کو۔بلکہ تسکین کے ساتھ ساتھ انسان کو دنیا میں ہر چیز مل جاتی ہے۔ بس تھوڑا سزا سہنے کے بعد ۔۔۔۔یہ سزا سہنا کیا ہوتا ہے یہ بھی ایک بہت لمبی داستان ہے اس کا جواب پھر کسی پوسٹ میں دوں گی۔ اور کچھ لوگوں کی سزا تب شروع ہوتی ہے۔ جب ان کو وہ چیز مل جاتی ہے جس کے لیے وہ کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ جس کے لیے وہ پاگلوں کی طرح بھاگ رہے ہوتے ہیں۔

  سوال:سکون کتنا اہم ہے ہماری زندگی کے لیے ہمیں کتنا سکون لینا چاہئیے؟۔

جواب: سکون اہم ہے بہت زیادہ لیکن ہمیں اتنا ہی سکون لینا چاہئیے۔ جیسے کبھی کبھی نیند کا خمار آ جائے تو آنکھ لگ جاتی ہے۔ اور ہلکی سی سرسراہٹ سے ہم جاگ جاتے ہیں بالکل اتنا ہی سکون ہمیں لینا چاہیئے۔

سوال: زندگی میں ہم کیوں اتنے تنہاء ہو جاتے ہیں؟۔

جواب: انسان اکیلا آتا ہے۔ اکیلا رہ جاتا ہے۔ اور اکیلا دنیا سے چلا جاتا ہے۔ جب ساری کہانی اکیلے سے شروع ہو کر اکیلے پہ ختم ہو جاتی ہے تو انسان کو اپنی زندگی کے اس ٹائم پیریڈ سے بھی لطف اندوز ہونا چاہئیے جس میں آپ تنہاء ہوتے ہیں۔

سوال: زندگی میں لطف اندوز ہونے کے لیے کیا خیالی ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہے؟ ۔

جواب: خیالی ہمسفر ڈھونڈنا ادیبوں کے نزدیک بے وقوفی کی بات ہے۔ جبکہ خیالی ہمسفر کبھی بھی نہیں ڈھونڈنا چاہئیے۔ اپنی پسند کی روٹی کھانے کے ساتھ ساتھ خدا کی خوشنودی اور رضا بھی چاہئیے یہ کوئی عجیب سی بات نہیں لگتی۔ بہت سے سوالوں کے ساتھ اور بہت سے جوابوں کے ساتھ ایک بار پھر آپ سب کی خدمت میں حاضر ہوں گی۔ اگر کسی سوال کے جواب میں کوئی غلطی آپ کو نظر آئے تو کمنٹس میں ضرور بتائیے گا۔

جزاک اللہ۔۔۔۔۔

Kuch Swal Kuch Jwab Hina Shahid

جواب: ہم خود سے ہی کسی کو وہ مقام دے دیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ فلاں شخس یا فلاں چیز ہمارا سکون ہے اس کو دیکھ کے اس سے بات کر کے ہمیں سکوں محسوس ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص یا چیز ہمیں سکون دے رہی ہے۔

سوال:جب ہم تھک جاتے ہیں تو کیا ہم خیال میں پناہ لیتے ہیں؟ ۔

جواب:خیال کبھی بھی آپ کو پناہ نہیں دیتا کیونکہ خیال میں چلنا پڑتا ہے اور پناہ میں انسان کچھ پل سکون چاہتا ہے جب ہم تھک جاتے ہیں تو ہمیں سکون چاہئیے ہوتا ہے۔ جبکہ خیال تو سوچوں کا میدان ہوتا ہے۔ ابھی خیال کے میدان میں قدم رکھا تو سوچوں کی دوڑ شروع ہو گئی۔

سوال:کیا

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button