
Aakhri Sauda: Be-imani se Tauba aur Sachai ki Barkat par Mabni aik Sabaq Amoz Kahani | Emotional Urdu Story | Asir-e-Qalam Kahani
Aakhri Sauda" aik dil ko choo lene wali sabaq amoz kahani hai jo humein be-imani ke anjam aur sachai ki barkat ka ehsaas dilati hai. Jab aik shakhs dhokay aur fareb ka rasta ikhtiyar karta hai, to uska zameer kaise usay jagaata hai – aur sach bolne ka aik faisla uski zindagi kis tarah badal deta hai, yeh kahani isi pe mabni hai. Yeh kahani sirf aik sabaq nahi, balkay zindagi ka aik naya rukh bhi dikhati hai. Aakhir mein, kya woh shakhs tauba kar ke nek raasta ikhtiyar karta hai? Janiye is kahani mein jo sachai aur insani zameer ka aaina hai. Yeh kahani Aseer-e-Qalam Musannifa Hania Shahid ki takhleeq hai. Is mein mojood tamam kirdar, waqiaat aur jazbaat musannifa ke takhayyul ka hissa hain.
Aakhri Sauda: Be-imani se Tauba aur Sachai ki Barkat par Mabni aik Sabaq Amoz Kahani | Emotional Urdu Story | Asir-e-Qalam Kahani
آخری سودا
قصبے کی تنگ و تاریک گلیوں میں واقع “رمیز کلاتھ ہاؤس” کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ مگر یہ شہرت ایمانداری یا خلوص کی نہیں تھی، بلکہ چالاکی، چرب زبانی اور دھوکے کی تھی۔ رمیز کا حساب کتاب نفع نقصان سے نہیں، مکاری اور چالاک سودے بازی سے جُڑا تھا۔ وہ کڑک لہجے میں بات کرتا، گاہکوں کو رعب سے متاثر کرتا اور ایسا جادو بولتا کہ خراب کپڑا بھی بہترین دکھنے لگتا۔
ایک دن دُھند سے ڈھکے اُس سرد موسم کی دوپہر میں، دروازہ چرچراتا ہوا کھلا۔ اندر ایک نحیف و نزار ضعیف عورت داخل ہوئی۔ اُس کی آنکھوں میں تھکن اور ہونٹوں پر خاموش دعائیں تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ کاؤنٹر تک پہنچی اور کانپتی آواز میں بولی،
“بیٹا، پوتے کے لیے کچھ گرم کپڑا چاہیے… پیسے کم ہیں، مگر دل میں دعا بہت ہے۔”
رمیز نے ایک لمحے کو اُسے دیکھا، اور پھر نظر پھیر لی۔ دل میں سوچا، “بوڑھی ہے، کیا سمجھے گی کپڑے کا فرق؟ خراب تھان پڑا ہے، اسی میں جان چھڑاتا ہوں۔”
اس نے ایک موٹا سا تھان نکالا، جس کے کنارے جھلّے ہوئے تھے، رنگ بھی کچھ پھیکا تھا۔ مگر چرب زبانی سے کہا،
“ماں جی، یہ سب سے اچھا کپڑا ہے، آپ کی محبت کے لیے کچھ رعایت بھی کر دی ہے۔”
بوڑھی عورت کی آنکھیں بھیگ گئیں، ہاتھ دعا کے لیے اٹھے، “اللہ تمھیں برکت دے بیٹا۔”
اور وہ کپڑا تھامے جھکتے جھکتے دکان سے نکل گئی۔
چند ہی ہفتے گزرے کہ قصبے میں ایک نئی دکان کھلی۔ “صداقت ٹیکسٹائلز” نامی اس دکان میں ایک نرم خو اور خوش اخلاق نوجوان بیٹھا تھا، جو ہر گاہک سے محبت سے بات کرتا، سیدھی بات کرتا اور سچا سودا کرتا۔ لوگ آہستہ آہستہ اُس کے دیوانے ہونے لگے۔ رمیز کے گاہک کم ہونے لگے۔ ہر آتے جاتے شخص کی نظریں اب نئی دکان کی جانب ہوتیں۔
رمیز کی نیندیں اُڑ گئیں۔ ایک دن اُس نے فیصلہ کیا کہ جا کر دیکھے، آخر یہ جادو کیا ہے؟ وہ نئی دکان میں داخل ہوا تو وہی ضعیف عورت سامنے بیٹھی تھی—مسکرا رہی تھی، مطمئن نظر آ رہی تھی۔
رمیز کی حیرت دیدنی تھی۔ اُس نے نوجوان سے پوچھا،
“یہ کاروبار کیسے چلا لیا؟ اتنی جلدی اتنی ترقی؟”
نوجوان نے ادب سے کہا،
“اللہ کا کرم ہے… اور میری ماں کا۔ اُنہوں نے اپنی زندگی بھر کی پونجی میرے ہاتھ میں رکھ کر کہا تھا، ‘بیٹا، سچائی سے کام کرنا، بے ایمانی کا مال کبھی دیرپا نہیں ہوتا۔'”
رمیز کی سانس جیسے رک گئی ہو۔ وہ لمحہ اُسے برسوں پر بھاری لگا۔ اُسی لمحے اُسے وہ خراب تھان، وہ چالاک سودا، وہ جھوٹی رعایت یاد آئی۔
دل جیسے پھٹنے لگا۔
چہرے پر پسینہ، دل میں ندامت…
وہ بنا کچھ کہے واپس پلٹا۔
اُس دن رمیز نے کوئی سودا نہیں کیا۔ اُس نے دکان بند کی، سیدھا مسجد کا رخ کیا، اور آنکھوں سے برسنے والے آنسوؤں کے ساتھ سچے دل سے توبہ کی۔
آخری سودا وہی تھا… جس نے اُسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
سبق:
سچائی کا سودا شاید مہنگا پڑتا ہے، مگر زندگی بھر کے سکون کا سرمایہ بن جاتا ہے۔
بے ایمانی کی کمائی ہمیشہ کے لیے عزت، اعتماد اوربرکت چھین لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#AskhriSauda #SabaqAmozKahani #BeimaniKaAnjam #SachaiKuBarkat #UrduStory #MoralStory