Novellette
Amaal ki Fasal by HINA SHAHID
اعمال کی فصل
از
حناء شاہد
اعمال کی فصل از حناء شاہد
پروفیسر لالہٰ رُخ بخاری صاحبہ کے افسانے؛
“تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا “
سے ماخوذ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
شہر کے عین وسط میں بےحد مصروف شاہراہ پر واقع ریسٹورنٹ کے فرسٹ فلور پر بنے فیملی کیبن میں اس وقت وہ دونوں بھی موجود تھے۔ اور چند لمحوں سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بالکل ساکت بیٹھے تھے۔ پھر تبسم نے اس خاموشی کے قفل کو توڑا اور نظریں کافی کے کپ پر مرکوز کرتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے بولی۔
“تمہاری زندگی کا کیا مقصد ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کا انداز سوالیہ تھا۔ جو ہارون کو حیرت زدہ کر گیا۔
“میری زندگی کا مقصد۔۔۔۔۔! اپنی ماں کے خواب کو پورا کرنا ہے-”
ہارون نے مسکرا کر کہا اور کافی کا کپ ٹیبل پر رکھ دیا-
” تو کیا تمہاری اپنی کوئی سوچ نہیں ہے——-؟؟؟ جو تم اپنی ماں کے خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کر رہے ہو—-!”
وہ حیرت سے گویا ہوئی- جس پر وہ اس کے انداز اور اس کی کہی ہوئی بات پر دھیرے سے مسکرا دیا-
” ہاں—-! میری والدہ بہت اچھی ہیں- انہوں نے ہمیشہ میری ہر خواہش کو پورا کیا ہے- اب میرا فرض بنتا ہے کہ میں بھی اپنی والدہ کی اس خواہش کو، اس خواب کو پورا کروں- پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بنوں اور اپنے ماں باپ کا نام روشن کروں-”
وہ پُرعزم انداز میں بول رہا تھا- جس پر وہ نہایت سنجیدہ تاثرات چہرے پر سجائے قدرے توقف سے بولی-
” ہر انسان کی اپنی لائف ہے- اپنی خواہشات اور اپنے مقاصد ہیں——! تو کیا تمہاری اپنی کوئی خواہش نہیں ہے——-؟؟؟” تبسم نے قدرے سنجیدگی سے استفہامیہ انداز میں پوچھا-
” ایسا نہیں ہے کہ ڈاکٹر بننا صرف میری ماں کا خواب ہے- بلکہ یہ میری بھی خواہش ہےاور میں اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا ہوں-”
ہارون نے وضاحت سے جواب دیتے ہوئے سنجیدہ لب و لہجے میں کہا تو وہ اس کی بات سن کر جھٹ سے بولنے لگی-
“میں کبھی بھی اپنے ماں باپ کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے اتنی قربانی نہ دوں- ڈاکٹر بننا میری بھی خواہش ہے اور یہ فیصلہ میں نے خود لیا ہے-”
وہ اٹل لہجے میں خودغرضانہ انداز میں بولی- وہ اس کی بات سن کر حیرت زدہ رہ گیا-
“تو کیا تمہارے والدین کل کو آسانی کے ساتھ تمہاری شادی میرے ساتھ کرنے پر رضامند ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ہارون نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا- جس پر وہ زوردار قہقہہ لگا کر ہنسی – ایک سیکنڈ کے لیے تو وہاں موجود ہر شخص نے اس کی طرف دیکھا۔ جس پر اس نے اپنی ہنسی پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کی- ہارون اس کے اس انداز پر حیران رہ گیا- اور پھر وہ اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے بولی-
“یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاہیے—- تمہارے پیرنٹس راضی ہو جائیں گے——؟؟؟ ممی ڈیڈی بچہ تم ہومیں نہیں ہوں۔”
تبسم نےمسکراتے مسکراتے پھر سنجیدگی سے ہارون سے پوچھا-
” یہ سچ ہے کہ میری زندگی میں میرے ماں باپ کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ میری مدر ہمیشہ سے بہت کیرنگ رہی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ میرا بہت خیال رکھا ہے۔ مگر اب جس ماحول میں میں رہ رہا ہوں۔ میں اس کا بھی عادی ہو رہا ہوں۔ سو میرا خیال ہے کہ مجھے خود پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اپنے فیصلے خود لینے چاہئیں۔”
وہ کافی کا سِپ لیتے ہوئے مسکراتے ہوئے پُراعتماد لہجے میں گویا ہوا۔
“خوداعتمادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ میرے پیرنٹس نے ہمیشہ مجھے ایک روبوٹ کی طرح استعمال کیا۔ مجھے رائٹس تو دیے مگر فیصلہ کرنے کا اختیار ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔ میں ایک روبوٹ کی طرح سروائیو تو کر رہی تھی۔مگر میرا پورا کنٹرول ان دونوں کے ہاتھ میں تھا۔ یہ کرو، وہ نہ کرو۔۔۔۔۔۔۔! یہ صحیح ہے۔۔۔۔۔! یہ غلط ہے۔۔۔۔۔۔! اُف مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔!!! ایک عرصہ تک تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟ پھر جب میرے اندر خواہشات نے پنپنا شروع کیا تو مجھ پر زندگی کے مقاصد عیاں ہوئے۔ ان سب نے مجھے صحیح اور غلط کے چکر سے تو نکال دیا۔ لیکن پھر مجھے ایک سبق بھی سکھا دیا کہ انسان کی زندگی میں سب سے اہم چیز اس کی خواہشات اور اغراض ہوتی ہیں اور ان کو پورا کرنے کے لیے اسے ہر حد کو پار کرنا چاہیے۔”
تبسم نے ایک لمبی سانس خارج کی۔ اور پھر کپ میں سے اُڑنے والی بھاپ کے گرد گول دائرہ بنانے لگی۔
” ہاں ! تم نے سچ کہا ہے۔ جب خواہشات اور اغراض کو پورا کرنا ہی مقصدِ حیات قرار پائے تو انسان کو ہر حد سے گزر جانا چاہیے۔”
ہارون نے تبسم کی کہی ہوئی بات پر اتفاق کرتے ہوئے ایک بات کہی اور اپنی بات مکمل ہونے پر تمسخرانہ ہنسا تو وہ بھی اس کی بات سن کر مسکرانے لگی۔
“آج ہر انسان روپے پیسے کی دوڑمیں شامل ہو کر جہاں اخلاقیات سے گر جاتا ہے۔ وہیں وہ رشتوں سے بے بہرہ ہو جاتا ہے۔ وہ روپے پیسے کی اس دوڑ کو جیتنے کے لیے اپنے قدموں تلے اپنے رشتوں کو روند ڈالتا ہے اور اسے اس کی پروا بھی نہیں ہوتی۔”
وہ تاسف سے گویا ہوا۔ سنجیدگی اس کے چہرے سے صاف عیاں تھی۔
“اس میں ہرج کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ آج کے دور میں جو جیتتا ہے وہی سکندر کہلاتا ہے اور یہ رشتے جن کی تم دہائی دے رہے ہو۔ یہ ہمیشہ اس بھنورے کی مانند چراغ کے گرد منڈلاتے ہیں۔ جو جل رہا ہوتا ہے۔ کبھی بجھتے چراغوں کے گرد بھنورے دیکھے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ یقینا تمہارا جواب نہیں ہو گا۔ بالکل اسی طرح یہ رشتے ہمیشہ چڑھتے سورج کو سلام کرتے ہیں۔ ہارنے والے، آسمان سے زمین پر گرنے والے ہمیشہ خالی ہاتھ رہتے ہیں۔ تو پھر عقلمندی اسی میں ہے کہ ریس کو جیتنے کی کوشش کی جائے۔ کسی کی بھی پروا کیے بغیر۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ بےاعتنائی برتتے ہوئے مادہ پرست معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کو بیان کر رہی تھی۔ جو یا تو صرف اس کی اپنی سوچ تھی یا پھر معاشرے کا وہ آئینہ جس کا زیادہ تر حصہ اسی سوچ کی عکاسی کر رہا تھا۔ جس کا وہ اس وقت ہارون سے پرچار کر رہی تھی۔
” ہاں ! شاید۔۔۔۔۔۔! تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں نے بھی اپنی زندگی میں بہت سارے رشتوں کو محض دولت، روپیہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم سے منہ موڑتے دیکھا ہے۔ ہماری زندگی میں اخلاقیات اور تہذیب کی بجائے صرف روپیہ پیسہ اور سٹیٹس معنی رکھتا ہے۔ جس کے پاس روپیہ پیسہ ہے صرف وہی انسان مہذب ہے اور اخلاقی طور پر میل ملاقات کا حقدار ہے۔”
ہارون نے استہزائیہ انداز میں جواب دیا تو تبسم بھی اس کی بات سن کر مسکرانے لگی۔ دراصل وہ دونوں ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا کر خود کو سب سے زیادہ معاشرہ شناس ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ درحقیقت ہارون اور تبسم نے جس معاشرے میں تربیت حاصل کی تھی۔ وہاں پر انسان اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ اور اس کے عوض وہ ہر حد کو پار کر جانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دونوں مادہ پرستی کا سبق سیکھتے سیکھتے کب مادہ پرست ذہن کے مالک ہو گئے۔ اس کا اندازہ انہیں خود بھی نہیں ہوا۔ اسی لیے ایک دوسرے کی قربت ان کے لیے باعثِ مسرت ہو گئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ تصویر کا دوسرا رُخ دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ جو ان کی کم علمی کا اعلیٰ ثبوت تھا۔
——————————————————
تعلیم مکمل ہونے اور ملازمت مل جانے کے بعد دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔ ذات پات تبسم اور ہارون کے لیے معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس لحاظ سے وہ خود کو براڈمائنڈڈ سمجھتے تھے۔لہذا تبسم اور ہارون کے پیرنٹس نے باہمی رضامندی سے ان کی شادی کروا دی۔ شادی کے بعد وہ دونوں الگ الگ جگہوں پر ملازمت کر رہے تھے۔ لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کے ساتھ خوش اور مطمئن تھے۔ وقت گزرتا گیا اور بہت ہی جلد ان کی زندگی نے ایک حسین موڑ لیا اور اب کوئی اور بھی تھا جو ان کی زندگی میں شامل ہونے والا تھا۔
“ہمیں اب الگ گھر میں شفٹ ہو جانا چاہیے۔”
تبسم نے اچانک ہارون سے کہا۔ یہ بات سن کر پہلے تو وہ چونک گیا۔ پھرمسکراتے ہوئے تبسم کی طرف دیکھنے لگا اور سنجیدگی سے بولا۔ “کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کا انداز سوالیہ تھا اور چہرے پر سنجیدگی تھی۔
“ہماری فیملی بڑھ رہی ہے اور اخراجات بھی بڑھ جائیں گے۔ لہذا میں سوچ رہی ہوں کہ ہم ایسے گھر میں شفٹ ہو جائیں۔ جس کے نیچے والے پورشن کو ہم بطور کلینک استعمال کر سکیں۔ کیونکہ صرف ملازمت پر توکل کر کے بیٹھ جانا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔”
تبسم نے اپنی بات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ہارون کو سمجھایا۔ جس پر وہ دھیمے سے مسکرانے لگا اور چند ثانیے کے بعد وہ گویا ہوا۔
“تمہاری بات میں وزن ہے۔ تم ٹھیک ہی کہہ رہی ہو۔ میں اس بارے میں سوچتا ہوں۔ لیکن ذرا تم بےبی سے فراغت پا لو تو پھر اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کریں گے۔”
ہارون نے تبسم کی بات سے متفق ہوتے ہوئے ایک معقول مشورہ دیا۔ جس پر وہ جھٹ سے بولی۔
“ہمارے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔ میری کولیگ ہیں مسز الیاس۔۔۔۔۔۔! کلفٹن میں ان کا گھر ہے مین سڑک پر، انہیں فوری پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ گھر بیچ رہی ہیں۔ دو پورشن بنے ہیں، نیچے والے پورشن میں دو کمرے ہیں اور ایک برآمدہ ہے۔ جبکہ اوپر والے پورشن میں چار کمرے بنے ہیں۔ ایک باورچی خانہ ہے۔ گھر کی مالیت کچھ زیادہ نہیں ہے۔”
تبسم نے سنجیدگی سے تفصیل بتائی تو ہارون نے ایک نظر تبسم کی طرف دیکھا اور پھر قدرے سنجیدگی سے پوچھا۔
“کل کتنی مالیت ہے اس گھر کی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کا انداز سوالیہ تھا، جس پر تبسم جو اس وقت صوفے پر بیٹھی تھی اور اپنے قریب ہی بیٹھے ہوئے ہارون کا ہاتھ تھامتے ہوئے قدرے التجائیہ انداز میں گویا ہوئی۔
“گھر کی مالیت چاہے جتنی مرضی ہو۔ ہمیں ہر حال میں وہ گھر خریدنا ہے۔”
تبسم نے حکمیہ انداز میں ضد کرتے ہوئے کہا تو ہارون دھیمے سے مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔ اب فوراً بتاؤ کتنی مالیت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ہارون نے سوالیہ نظروں سے تبسم کی طرف دیکھا۔
“تقریباً پچیس لاکھ مالیت کا گھر ہے۔ میں نے کچھ سیونگز کی ہیں اور کچھ تو تم بھی سیو کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔؟ اور باقی رقم ہم بینک سے قرض لے لیں گے۔ ان سب کو ملا کر اتنے پیسے تو ہو جائیں گے کہ ہم وہ گھر خرید سکیں۔”
“تو ٹھیک ہے ہم وہ گھر لے لیتے ہیں۔ ویسے بھی ابھی فی الحال ہمیں دو کمرے کافی ہیں ایک مردانہ مریضوں کے لیے اور ایک زنانہ مریضوں کے لیے ، باقی رہا برآمدہ تو اس میں ایک دیوار کھڑی کر کے اسے دو حصوں میں تقسیم کر لیں گے اور اسے ویٹنگ ایریا بنا لیں گے۔ کمرے کے ایک طرف ایک بیڈ رکھ لیں گے ڈریس وغیرہ لگانے کے لیے اور اگر بعد میں آمدنی بڑھ گئی تو ہم کسی اور جگہ شفٹ ہو جائیں گے اور اس بلڈنگ کو ہم ہسپتال بنا لیں گے۔ ویسے بھی یہ جگہ میں سڑک پر ہے۔ جو ہمارے لیے بہت سودمند ہے۔ ”
ہارون کو سب کچھ معقول لگا تو وہ اگلا لائحہ عمل بنانے لگا۔ وہ دونوں پُرجوش انداز میں مستقبل کی پلاننگ کرنے لگے۔ اور یوں چند ہی دنوں میں وہ اپنے نئے گھر میں شفٹ ہو گئے۔ نیچے والے پورشن میں انہوں نے اپنا کلینک کھول لیا۔ شروع شروع میں ذرا تنگی ہوئی لیکن تبسم کے حوصلے نے ہارون کو ثابت قدم رکھا اور بہت ہی جلد میڈیکل ریپ مختلف کمپنیوں کی آفرز لانے لگے۔ تبسم اور ہارون کا مشترکہ خیال تھا کہ مہنگی ادویات جتنی زیادہ فروخت ہوں گی کمیشن بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا اور یقینا ایسا ہی ہوا۔ امریکہ میں ٹریننگ، گاڑی ، بنگلہ سب دھیرے دھیرے مل گیا۔ تبسم اور ہارون نے جو سوچا تھا انہیں اس سے بھی زیادہ مل گیا تھا۔ وہ دونوں بےحد خوش اور مطمئن تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بہت حسین ہے اور انسان کو اس زندگی میں جو حسین پل نصیب ہوتے ہیں۔ انہیں بھرپور انداز میں جینا ہی اصل زندگی ہے۔ لیکن تبسم اور ہارون شادی کے پانچ سال گزرنے کے بعد ایک بیٹا اور ایک بیٹی کی نعمت سے سرفراز ہونے کے باوجود بھی زندگی کی خوبصورتیوں کو جینے کی بجائے اپنی الگ دنیا بنانے میں مگن تھے۔ تبسم نے ہارون کے والدین کی سرپرستی میں بچوں کو دے دیا۔ کیونکہ تبسم کے لیے ابھی بچے پالنے سے زیادہ اپنے کیرئیر پر فوکس کرنا ضروری تھا۔
ہارون کے والدین بوڑھے ہو چکے تھے۔اور ہر وقت بچوں کا خیال رکھنا ان کے لیے ممکن نہیں تھا۔ لہذا انہوں نے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک بیوہ خاتون کو گھر پر رکھ لیا۔ جو ہر وقت بچوں کے ساتھ رہتی۔ مہینے میں دو بار تبسم اور ہارون گھر آتے اور بچوں سے مل کر چلے جاتے۔
آج بھی تبسم اور ہارون گھر آئے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد سب ٹی-وی لاؤنج میں چائے پی رہے تھے۔ جب ہارون کی والدہ پُرشکوہ انداز میں گویا ہوئیں۔
“ہارون! ہم تمہارے ماں باپ ہیں اور یہ دونوں بچے تمہارے جگر گوشے ہیں۔ تم دونوں اپنے ہسپتال کو پروان چڑھانے میں اس قدر مصروف رہتے ہو کہ تمہارے پاس ہمارے لیے اور اپنے بچوں کے لیے تھوڑا سا بھی وقت نہیں ہے۔”
والدہ نے رنجیدہ لب و لہجے سے شکوہ کیا۔ یہ بات سن کر تبسم آگ بگولہ ہو گئی۔ اور چائے کی پیالی زور سے ٹیبل پر رکھتے ہوئے غصے سے اٹھی اور اندر کمرے میں چلی گئی۔ تبسم کی یہ حرکت ہارون کے پیرنٹس کو بہت بری لگی۔ جبکہ ہارون اس نے بازو پھیلا کر انگڑائی لی اور مسکراتے ہوئے بے حِس انداز میں بولا۔
“ابھی وقت نہیں ہے ہمارے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! میں نے اور تبسم نے اپنے ہسپتال کو لے کر کچھ خواب دیکھے ہیں۔ پہلے وہ خواب پورے ہو جائیں۔ پھر تو ہمارے پاس وقت ہی وقت ہے۔ ویسے بھی ہم یہ سب کچھ اپنے بچوں کے لیے ہی تو کر رہے ہیں۔”
ہارون نے ایک معقول سی دلیل دی۔ جس پر ہارون کے والد خفگی سے اُٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ جبکہ والدہ بیٹے کو سمجھاتے ہوئے پیار سے بولیں۔ “زندگی میں صرف پیسہ کمانا ہی تو اہمیت نہیں رکھتا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔! ضروری ہے تو یہ تمہارے بچے۔۔۔۔۔۔! اور ان بچوں کو صرف تمہارا اور تبسم کا پیار چاہیے تم دونوں کی محبت اور توجہ ہی انہیں ایک بہتر انسان بنا سکتی ہے۔ انہیں اپنی محبت کا احساس دلاؤ ، ورنہ یہ جذباتی طور پر تم دونوں سے بہت دور ہو جائیں گے۔”
ماں نے محبت بھری نظروں سے ہارون کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی پُشت تھپتھپائی اور اسے حقیقت کا دوسرا رُخ دکھانا چاہا۔ جسے وہ یکسر نظرانداز کر رہا تھا۔
“اچھا ٹھیک ہے۔ میں اور تبسم کوشش کریں گے اور ویسے بھی آپ اور ابا ہیں نا۔۔۔۔۔۔۔! ان سے پیار کرنے والے۔ مجھے یقین ہے آپ دونوں سے زیادہ کوئی بھی بچوں سے اس قدر محبت نہیں کر سکتا۔ ہمارے بچے تو بڑے خوش نصیب ہیں جو آپ جیسے دادا دادی موجود ہیں۔ انہیں محبت دینے کے لیے۔۔۔۔۔۔۔!!!” ہارون نے ماں کا ہاتھ چوما اور اپنی لچھےدار باتوں سے معاملے کا رُخ کسی دوسری جانب کر دیا اور اپنے ہسپتال کی تعمیرات کے بارے میں گفتگو کرنے لگا اور ماں بھی مکمل توجہ سے بیٹے کی باتیں سننے میں مشغول ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ کیا ہے شیراز صاحب۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ غصے سے چلایا۔
“کیا آپ کو اتنی فیس اس لیے ادا کی جاتی ہے کہ بچوں کا رزلٹ یوں گندا آئے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ہارون غصے سے آگ بگولہ ہو گیا تھا۔ جبکہ شیراز صاحب جو بچوں کے ٹیوٹر تھے وہ سر جھکائے خاموشی سے بیٹھے تھے۔ پھر انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور وضاحت دیتے ہوئے بولے۔
“سر۔۔۔۔۔! میں معذرت کرتا ہوں آج کل میرے گھر کا بڑا مسئلہ چل رہا ہے۔ میں اور میری فیملی کرائے کے مکان میں رہتے ہیں اور کرائے دار مکان خالی کروانے پر بضد ہے۔ جبکہ ہمارے پاس کوئی متبادل گھر نہیں ہے۔ بس اسی پریشانی میں میں بچوں پر زیادہ دھیان نہیں دے سکا۔”
شرمندگی شیراز صاحب کے لب و لہجے سے بھی عیاں ہو رہی تھی۔ جس پر ہارون نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے تحمل سے بات شروع کی۔ “اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔۔! میں آپ کا یہ مسئلہ حل کر دیتا ہوں۔ آپ کے لیے ایک مستقل گھر کا بندوبست ہو جائے گا۔ مگر میرے بچوں پر آپ کو پورا دھیان دینا ہو گا اور جس دن میرے دونوں بچوں کا ایڈمیشن میڈیکل کالج میں ہو جائے گا میں آٌپ کو ڈیفنس میں گھر خرید کر بطور انعام دوں گا۔”
ہارون نے مسکراتے ہوئے شیراز صاحب کو ایک معقول سی پیشکش کی اور شیراز صاحب وہ اپنا ذاتی مکان حاصل کرنے کی غرض سے ہارون کو اس بات کی یقین دہانی کروانے لگے کہ آج سے وہ بچوں پر بھرپور توجہ دیں گے۔ مگر دوسری جانب علشبہ اور حارث اخلاقی اور جذباتی طور پر بےحد کمزور ہو گئے تھے۔ وہ جو دیکھ رہے تھے۔ وہی سیکھ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علشبہ۔۔۔۔۔۔!!! ماما بابا ہم سے محبت نہیں کرتے۔”
حارث غصے میں حسرت سے بولا۔
“ہاں! انہیں تو صرف اپنے اس ہسپتال سے محبت ہے۔ ہم تو جیسے ان کے لیے کوئی غیر ضروری چیز ہیں۔”
علشبہ غصے سے بول رہی تھی۔
” نہیں ! دادا کی جان۔۔۔۔۔۔! ماما بابا آپ سےبے حد محبت کرتے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ آپ کے بہتر مستقبل کے لیے کر رہے ہیں۔”
دادا نے ان دونوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انہیں سمجھانا چاہا۔
“نہیں وہ ہم سے بالکل بھی محبت نہیں کرتے۔ آپ کو پتہ ہے آج انہوں نے ٹیوٹر انکل کو بھی خرید لیا ہے، ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے پہلے انہوں نے گُل آیا کو خریدا تھا اور ڈرائیور انکل کو خریدا تھا، ہمارے لیے۔۔۔۔۔۔۔! کیوں انہیں احساس نہیں ہوتا ہمیں بس ان دونوں کی ضرورت ہے۔”
حارث کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ جس پر دادی نے اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ جبکہ علشبہ کے پوچھے گئے سوال نے انہیں حیرت میں ڈال دیا۔
“کیا آپ ہمارے بابا کو وقت دیتے تھے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ان سے محبت کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
معصومانہ انداز میں پوچھے گئے سوال نے جہاں ان دونوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔ وہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ بچوں کے معصوم ذہنوں میں کیسے کیسے سوال پروان چڑھتے ہیں۔ بیشک بچے جو دیکھتے ہیں ان کی سوچ کے زینے ویسے ہی پروان چڑھتے جاتے ہیں۔ جس میں وہ آگے ہی آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ پھر وہ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتے۔ یہی وقت کا قانون ہے اور یہی زندگی کی حقیقت۔۔۔۔۔۔!!!”
“ہاں ! ہمارا تو سارا وقت تمہارے بابا ہارون کے لیے ہی تھا۔ بلکہ ہماری زندگی تو صرف ہارون کے گرد گھومتی تھی۔”
نجانے کب ہنستے ہنستے دادا دادی کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے اور ماضی کے جھروکے آنکھوں کے سامنے آ گئے۔
“آپ تو بابا کا بہت خیال رکھتے تھے اور ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ جبکہ ہمارے ماما بابا کو ہم سے بالکل بھی محبت نہیں ہے۔ انہیں اگر محبت ہے تو وہ صرف پیسہ کمانے سے ہے۔”
علشبہ دادای کے آنسو پونچھتے ہوئے اپنے اخذ کردہ نتیجے پر خود ہی پختہ ہو گئی۔ جبکہ دادا دادی وہ تو صرف حارث اور علشبہ کے چہرے کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے۔ انہیں کوئی جواب نہ دے سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میرا خیال ہے کہ اب ہمیں بچوں کو ہاسٹل بھجوا دینا چاہیے۔ کب تک وہ تمہارے ماں باپ کی سرپرستی میں رہیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وہ خود پر اعتماد کرنا سیکھیں اور یہ سب کچھ وہ صرف ہاسٹل جا کر ہی سیکھ سکتے ہیں۔”
تبسم اور ہارون جو اس وقت پیکنگ میں مصروف تھے۔ انہیں ایک کورس کے سلسلے میں یو-ایس-اے جانا پڑ رہا تھا۔ تبسم جو ہر مسئلے کا فوری حل نکالنے میں مہارت رکھتی تھی۔ بےدھڑک انداز میں گویا ہوئی۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ ان کے اس فیصلے کا بچوں پر کیا اثر ہو گا۔
“ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔! پہلی فرصت میں ہی یہ کام ہو جائے گا۔”
ہارون نے تبسم کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے حامی بھر لی۔
“ہرگز نہیں۔۔۔۔۔۔! ہم کبھی بھی ہاسٹل نہیں جائیں گے۔”
حارث اور علشبہ اپنے دادا دادی سے بےپناہ محبت کرتے تھے اور ان کی محبت سے دستبردار ہونے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ جبکہ والدین بضد تھے انہیں ہاسٹل بجھوانے کے لیے۔
“آپ کے دادا دادی اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور کمزور بھی۔۔۔۔۔۔۔ وہ زیادہ دیر تک آپ کا خیال نہیں رکھ سکتے۔” تبسم نے دونوں بچوں کو سمجھانا چاہا۔
“ہماری دیکھ بھال کے لیے گُل آیا موجود ہے، جو آپ دونوں کی کمی کو پورا کر رہی ہے۔”
علشبہ نے تنفر آمیز نگاہوں سے تبسم کی طرف دیکھا۔
“گفتگو کے آداب سیکھو۔۔۔۔۔۔۔! یہ بدتہذیبی تمہیں کس نے سکھائی ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
تبسم نے غصے سے اسے ڈپٹا، پھر کچھ توقف کے بعد اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے نہایت تحمل سے بولی۔
“بیٹا۔۔۔۔۔! میں اور تمہارے بابا صرف تم دونوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہی تو اتنی محنت کر رہے ہیں۔”
تبسم نے ان دونوں کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
“ایسی زندگی ہمیں نہیں چاہیے جس میں آپ دونوں کی محبت اور شفقت نہ ہو۔”
اس بار حارث رنجیدہ انداز میں جھٹ سے بولا۔
“محبت صرف باتیں بنانے یا بچوں کا منہ چوم لینے سے ظاہر نہیں ہوتی۔ بلکہ بچوں کی تمام ضروریات کو بہتر انداز میں پورا کرنے میں ہی یہ محبت جیسے فضول جذبات پوشیدہ ہوتے ہیں۔”
ہارون نے تیکھی نگاہوں سے دونوں بچوں کی طرف دیکھا اور ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہی۔ جو کسی حد تک کارآمد ثابت ہوئی۔
“ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔! اگر آپ دونوں یہی چاہتے ہیں تو ہم ہاسٹل جانے کے لیے تیار ہیں۔”
حارث اور علشبہ نے غصے سے ماں باپ کے اس بےحس فیصلے کو بھی منظور کر لیا اور پاؤں پٹختے ہوئے کمرے سے باہر چلے گئے۔ جبکہ ہارون اور تبسم وہ کسی درجہ مطمئن ہو گئے۔ انہیں یہ گمان تھا کہ ابھی حارث اور علشبہ بچے ہیں۔ جب بڑے ہو جائیں گے تو سب سمجھ جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کا قانون ہے۔ وہ چلتا رہتا ہے کبھی رکتا نہیں ہے۔ حارث اور علشبہ ہاسٹل چلے گئے۔ ہارون اور تبسم نے انہیں ہاسٹل میں بھی فائیو سٹار سہولتیں مہیا کر دیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دونوں جیسے زندگی کی منازل طے کرتے چلے گئے اپنے والدین اور ہر رشتے سے بےنیاز ہوتے چلے گئے۔ پھر ٹیوٹر کی محنت رنگ لائی اور دونوں نے ٹاپ کیا۔
شہر کے سب سے بڑے انسٹیٹیوٹ میں ان دونوں کا ایڈمیشن ہو گیا۔ تبسم اور ہارون نے سکھ کا سانس لیا۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ سکھ کا سانس انہیں بہت بڑے دکھ کے جھٹکے دینے والا ہے۔ وقت کی یہی تو سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ جب ہاتھوں سے پھسل جاتا ہے تب پتہ چلتا ہے کہ کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
تبسم اور ہارون نے بینک میں دونوں بچوں کے نام سے الگ الگ اکاؤنٹ کھلوائے۔ جہاں ماہانہ لاکھوں کے حساب سے پیسے بجھوا دیے جاتے اور اے-ٹی-ایم مشین ان کی ہر ضرورت کو پورا کرتی رہتی۔ وہ خواہشات اور اغراض کو زندگی کا مقصد سمجھنے لگے اور رشتوں کو محض سیروتفریح کا ذریعہٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
دولت کا احساس انہیں خوشی دینے لگا اور رشتوں سے انہیں کوفت ہونے لگی۔
” یار ! تم دونوں کی تو بڑی موج ہے۔۔۔۔۔۔۔!!!”
حارث کے ایک دوست نے انتہائی خوشگوار انداز میں کہا۔ جس پر حارث بےاعتنائی سے گویا ہوا۔
“یہی تو ہمارے پیرنٹس کا پیار ہے اور ایسی محبت سب بچوں کو نصیب نہیں ہوتی۔”
حارث کا انداز تمسخرانہ تھا جس پر علشبہ جھٹ سے بولی۔
“ہاں ! مگر ایسی محبت کی قیمت چکانا پڑتی ہے اور یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔”
علشبہ کے ماتھے پر چند ناگوار شکنیں نمایاں ہوئیں۔ جنہیں اس کی کلاس فیلو نازیہ نے فورا سے دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
“کیا مطلب ہے تمہاری بات کا۔۔۔۔۔۔۔؟”
انداز سوالیہ تھا اور لہجہ تعجب آمیز۔
“چھوڑو مطلب کو۔۔۔۔۔۔ایسی باتوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، چلو اس بار ویک اینڈ پر کہیں چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔!”
علشبہ نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور اس کی یہ کوشش کامیاب بھی ہو گئی۔
“ہاں ! ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی پھر آخری سمیسٹر شروع ہو جائے گا اور سب دوست امتحان کی تیاریوں میں جُٹ جائیں گے۔” حارث نے پُرجوش انداز میں کہا اور پھر وہ سب دوست ویک اینڈ منانے کے لیے پروگرام بنانے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویک اینڈ کو بھرپور انجوائے کرنے کے بعد جب آخری سمیسٹر کی ڈیٹس اناؤنس ہوئیں تو وہ دونوں امتحانات کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے۔ تبسم اور ہارون دونوں بچوں کو یوں لگن سے پڑھتا دیکھ کر بے حد خوش ہو گئے۔
“بچوں کو یوں لگن سے پڑھتا دیکھ کر مجھے تو اپنا زمانہ یاد آ گیا ہے۔”
تبسم نے مسکرا کر کہا۔ ہارون جو اس وقت چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ تبسم کی بات سن کر دھیمے سے مسکرایا پھر گویا ہوا۔
“ہاں ! شکر ہے، ہمارے دونوں بچے بہت محنتی ہیں۔”
ہارون تشکر آمیز انداز میں بولا۔
“تم ٹھیک کہہ رہے ہو، مگر اس کامیابی میں ان بچوں کے ٹیوٹر کا بہت اہم کردار ہے۔”
تبسم نے تشکرانہ انداز میں کہا تو ہارون نے چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھتے ہوئے تبسم کی طرف دیکھا اور پھر بولا۔
“یہ سب محنت اس ٹیوٹر نے پانچ مرلے کا مکان حاصل کرنے کے لیے کی ہے اور دیکھو میں نے بھی اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔ اسی لیے آج کل وہ بےحد خوش ہے۔”
ہارون نے تفصیل بتائی۔ جس پر تبسم نے ایک سرد آہ بھری۔
“کسی نے سچ ہی کہا ہے۔ دولت اگر پاس ہو تو انسان سب کچھ خرید سکتا ہے۔”
تبسم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جس پر ہارون بھی مسکرانے لگا۔
“مگر یہ دولت، یہ روپیہ پیسہ ہم دونوں نے جس محنت اور مشقت سے حاصل کیا ہے۔ اس بات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔”
ہارون نے سنجیدہ لب و لہجے میں کہا۔ تبسم اور ہارون اس وقت اس روپے پیسے کو اپنی زندگی کا حاصل سمجھ رہے تھے۔ لیکن اس حاصل میں بھی کچھ خالی پن تھا۔ جس کا اندازہ شاید ابھی انہیں نہیں ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی کے سفر نے ایک نیا موڑ لیا۔ حارث اور عمشبہ بطور ڈاکٹر مقامی ہسپتال میں کام کرنے لگے۔ تبسم اور ہارون نے دونوں بچوں کی پسند اورخواہش کے مطابق دھوم دھام سے ان دونوں کی شادی کروا دی۔ پھر اچانک ہارون کے والدین کی روڈ ایکسیڈنٹ میں ہونے والی ڈیتھ نے انہیں دم بخود کر دیا اور وہ کئی دنوں تک اس حقیقت کو قبول نہ کر سکے۔
جوانی کی توانائیاں جب بڑھاپے کی کمزوریوں میں بدلنے لگیں تو تبسم اور ہارون نے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد تبسم اور ہارون نے اپنا ذاتی ہسپتال اپنے دونوں بچوں کے حوالے کر دیا۔ حارث اور علشبہ جنہیں ان کے پیرنٹس نے ہمیشہ اس ہسپتال کی وجہ سے اگنور کیا۔ سوائے ہسپتال سنبھالنے کے وہ اس ہسپتال سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ لہذا انہوں نے ایک نوجوان ڈاکٹر کو ہائیر کر لیا۔ پھر تمام کام ویسے ہی چلنے لگے۔
جیسے ہارون اور تبسم کی سرپرستی میں چل رہے تھے۔ اب زندگی نے وہ وقت دکھایا تھا، جب بوڑھے جسموں میں ایک بچے کی اطوار نے پنپنا شروع کر دیا تھا۔اپنے اعمال کی وہ فصل جسے انہوں نے خوب محنت سے محبت سے سینچا تھا،اسے کاٹنے کا وقت آ گیا تھا۔ مگر وہ اس فصل کو کاٹنے کے لیے بالکل بھی تیار نہ تھے۔ لیکن فصل تو کاٹنی ہی پڑتی ہے۔
“حارث بیٹا۔۔۔۔۔! آؤ ہمارے پاس بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔! آج کھانا ساتھ کھاتے ہیں۔”
ہارون نے معصومانہ انداز میں حارث سے کہا جوکوئی فائل ہاتھ میں تھامے سیڑھیوں سے اُتر رہا تھا۔
“آپ نے کبھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جو میں کھاؤں۔”
حارث نے تنفر آمیز انداز میں طنز کا وہ نشتر چلایا۔ جو ہارون اور تبسم کے وجود کو چھلنی کر گیا۔
“اور ویسے بھی میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ میری ایک اہم میٹنگ ہے اور نائٹ ڈیوٹی بھی ہے۔۔۔۔۔!”
حارث نے ایک نظرِ غلط باپ پر ڈالی اور نخوت سے بولا۔
“ہمارے پاس اب سب کچھ ہے بیٹا۔۔۔۔۔! تمہیں اور علشبہ کو زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
ہارون نے حارث کو سمجھانا چاہا۔ مگر وہ تو وقت کے سارے سبق پہلے ہی سیکھ چکا تھا۔ اسے کوفت ہونے لگی۔ سو وہ حقارت سے گویا ہوا۔
“آپ نے جو روپیہ پیسہ کمایا ہے وہ ناکافی ہے ہمارے لیے اور اب تو آپ دونوں بھی بیکار ہو کر گھر بیٹھ گئے ہیں۔ آپ کا بوجھ بھی تو ہم دونوں نے اُٹھانا ہے اور ویسے بھی آپ دونوں ہی تو کہتے تھے کہ جوانی میں کام کر لیں تو بڑھاپا سکون سے گزرتا ہے۔”
حارث نے نفرت کی آخری حد کو پار کر دیا۔ اس کے لہجے میں پوشیدہ حقارت کو بھانپتے ہوئے تبسم نے غصے سے بیٹے کو ڈپٹا اور گویا ہوئی۔
“صاف صاف بولو۔۔۔۔۔۔! تم ہمارے پاس بیٹھنا ہی نہیں چاہتے، کھانا کھانا تو دور کی بات ہے۔”
حارث نے غصیلی نگاہوں سے ماں کی طرف دیکھا۔ تبھی علشبہ بیرونی دروازہ کھول کر اندر آئی اور حارث کو یوں ٹی-وی لاؤنج میں کھڑا دیکھ کر غصے سے چلائی۔
“حارث ! تم یہاں پر کھڑے اپنا وقت کیوں ضائع کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟ چلو جاؤ فورا وہاں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!” علشبہ نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اسے فورا وہاں سے چلے جانے کا کہا تو وہ خاموشی سے وہاں سے چلا گیا۔
“آؤ علشبہ ! آؤ بیٹا بیٹھو۔۔۔۔۔!!! تمہاری ملازمت کیسی چل رہی ہے۔۔۔۔۔؟ اور گھر میں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔؟”
ہارون کے لہجے میں بیٹی کے لیے بےپناہ محبت تھی۔ اس لیے اس کے اچانک آنے پر انہوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ جبکہ علشبہ نے ان سارے سوالوں کو اگنور کرتے ہوئے ماں باپ دونوں سے استفہامیہ انداز میں پوچھا۔
“آپ نے کھانا کھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
لہجے سے بےاعتنائی چھلک رہی تھی۔
“ہاں ! کھانا تو گُل آیا نے ہمیں کھلا دیا ہے۔”
تبسم نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ ان دونوں کو ایک لمحے کے لیے یہ گمان ہوا کہ بیٹے کو نہ سہی مگر بیٹی کو تو ہمارا خیال ہے۔مگر ان کی یہ خوش فہمی زیادہ دیر رہنے والی نہ تھی۔
“اچھا ! تو گل آیا نے آپ کو دوا بھی کھلا دی ہو گی۔ اور کسی چیز کی ضرورت ہو گی تو گل آیا سے کہہ دیجیے گا۔ آپ تک وہ چیز پہنچ جائے گی۔” علشبہ نے انتہائی کرخت لہجے میں بےاعتنائی برتتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے کی اس تلخی کو ہارون اور تبسم اگنور کر رہے تھے یا پھر جان بوجھ کر سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔
“ہاں ! تمہاری اور حارث کی محبت اور توجہ کی ضرورت ہے ہمیں۔”
تبسم نے نہایت آہستگی اور حلاوت آمیز انداز میں کہا۔ جس پر علشبہ کے چہرے پر تمسخر جھلکا اور وہ کسی ایٹم بم کی طرح پھٹ پڑی۔ “آپ نے ہم پر پیسہ خرچ کیا اور ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا۔ ہمیں ہر طرح کا آرام آسائش مہیا کرتے رہے۔ اور بقول آپ کے یہی آپ کا پیار تھا۔ ہم نے تو جیسے ہوش سنبھالا یہی سبق تو سیکھا ہے مگر حارث اور میں تو ہمیشہ اس محبت اور شفقت کی حسرت میں جلتے رہےجو دوسرے بچوں کے والدین انہیں دیتے تھے۔”
ہارون اور تبسم خاموشی سے بےسدھ ہو کر بیٹھے تھے۔
“میں اور حارث آپ کے بےحد مشکور ہیں۔ آپ نے ہماری ہر آسائش کا خیال رکھا۔ ہماری ہر ضرورت کو پورا کیا۔ مگر محبت، شفقت اور توجہ سے ہمیں ہمیشہ محروم رکھا۔”
وہ نہایت تحمل سے بول رہی تھی۔ جبکہ وہ دونوں بُت بنے بیٹھے تھے۔ اور ماضی کے جھروکوں کی یاد میں کھونے لگے۔
“اب ہمارا بھی یہی فرض ہے کہ ہم آپ کی صحت کا پورا خیال رکھیں۔ آپ دونوں کی ہر ضرورت کو پورا کریںاور یہی ہمارا پیار ہو گا آپ کے لیے۔۔۔۔۔۔!!!”
علشبہ کے لہجے میں حقارت اور چہرے پر بےپروائی تھی۔جیسے اس کے سارے احساسات سرد ہو چکے تھے۔ پھر وہ کچھ لمحے خاموش رہنے کے بعد دوبارہ سے بولی۔
“وقت دینا اور آپ کے پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنا یہ سب ہمارے لیے ایک فضول کام ہے۔۔۔۔۔! یہ سب وقت کا ضیاع ہے۔ آپ دونوں کو تو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم نے آپ کو اولڈ ہوم نہیں بھجوا دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے آپ نے ہمیں خود سے دور کر دیا تھا اور ہاسٹل بھجوا دیا تھا۔۔۔۔۔۔!”
ہارون اور تبسم نے ایک نظرِ غلط اُٹھا کر بیٹی کی طرف دیکھا جو انہیں شرمندگی کی سیڑھیوں سے دھکا دے کر ندامت کے کھڈے میں پھینک چکی تھی۔
“اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیل بجا دیجیے گا۔ گُل آیا آئے گی اور آپ کی ہر ضرورت کو پورا کر دے گی۔ بالکل ایسے ہی جیسے وہ ہماری ضرورتوں کو پورا کرتی تھی۔”
علشبہ کرخت انداز میں کہتے ہوئے صوفے سے اُٹھی اور اونچی ایڑھی کی سینڈل سے کھٹ کھٹ کرتی ہوئی بیرونی دروازے کو پار کر گئی۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔!!!
تبسم اور ہارون کو پشیمانیوں کے گورکھ اندھیروں میں دھکا دے گئی۔ تاکہ وہ صدا پچھتاووں کی آگ میں جھلستے رہیں۔ دولت اور مادیت پسندی نے انہیں شاید سب کچھ دے دیا تھا۔ مگر پھر بھی وہ خالی ہاتھ رہ گئے تھے۔ اعمال کی فصل کٹ چکی تھی مگر ان دونوں کا دامن بالکل خالی تھا۔
————————————————————-
————————————————————–
excellent
Summary
One Comment