رومینٹک ناول
Trending

Choori Khunki Romantic Novel by Ibn-e-Sheesh Episode 1,2,3 | UrduBooks | FamousUrduNovels | UrduRekhta

چوڑی کھنکی از قلم ابنِ شیش رومینٹک ناول

چوڑی کھنکی  از قلم ابن شیش قسط نمبر 1 مکمل 

Novel Name: Choori Khunki 

Writer Name : Ibn-e-Sheesh 

Category : Romantic Novel

https://www.hinashahidofficial.com/koe-tasweer-mukamal-nhi-hony-paie-poetry-amjadislamamjad-viralpoetry-wasishah-urdushairy/

 

Hina Shahid Official start a journey for all social media writers to publish their writes. Welcome to all Writers , test your writing abilities. They write romantic novels, forced marriage , hero police officer based urdu novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, urdu novels, best romantic urdu novels, full hot romantic urdu novels, famous urdu novels, romantic urdu novels list, romantic urdu novels of all, best urdu romantic novels.

 Choori Khunki Romantic Novel Written by Ibn-e-Sheesh is available here to online reading.

 

Give your feedback

 

ان سب ویب بلاگ، یوٹیوب چینل، اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ حناء شاہد آفیشیل اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔

 

Copyright reserved by Hina Shahid Official

 

 

 

 

ناول پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے پیج پر کلک کریں۔

 

 

 

 

ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیں کہ آپ کہ یہ ناول کیسا لگا۔ شکریہ

چوڑی کھنکی از قلم ابن شیش

قسط نمبر 1 مکمل

 

مہندی کی تقریب پورے عروج پر تھی-پورا لان برقی قمقموں اور پھولوں سے سجایا گیا تھا-چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنے لہنگے سنبھالتی ہاتھوں میں مہندی کی تھالیاں لیے اِدھر اُدھر گھوم رہی تھیں-مدھم سی آواز میں بجتا میوزک ہر طرف ایک فسوں بکھیر رہا تھا-لڑکے والے مہندی لے کر آچکے تھے اور اِس وقت مہندی کی رسم ہو رہی تھی- ایک طرف بنے اسٹیج پر ہرے اور پیلے غرارے میں ملبوس گھونگھٹ اوڑھے بیٹھی ماریہ کو چاروں طرف سے عورتوں اور لڑکیوں نے گھیر رکھا تھا-ہانیہ نے ایک نظر اپنے اطراف میں ڈالی کوئی بھی اُس کی طرف متوجہ نہیں تھا ہر کوئی اپنے اپنے کام میں مگن نظر آرہا تھا-وہ بے دلی سے اپنی چوڑیوں سے کھیلنے لگی-چوڑیوں کی کھنک اُس کی پسندیدہ آوازوں میں سے ایک تھی-اُسے چوڑیوں سے عشق تھا-عید ہو یا شادی ہر فنکشن میں وہ چوڑیوں سے اپنی کلایاں بھرتی-عام روٹین میں بھی اُس نے کانچ کی کالی اور سفید چوڑیاں پہنی ہوتیں-فارغ وقت میں وہ اُن سے کھیلتی اور اِس وقت بھی وہ یہی کر رہی تھی-تبھی اُس نے عائشہ کو اپنی طرف آتے دیکھا-

“ہانی کی بچی تم یہاں بیٹھی ہو میں تمہیں ہر جگہ تلاش کر کے آئی ہوں”-عائشہ نے اُس کے سامنے والی چئیر پہ تقریباً گرتے ہوئے کہا “ہر جگہ تلاش کرنے کی کیا ضرورت تھی تم یہاں تلاش کر لیتی تو میں تمہیں پہلے ہی مل جاتی”- وہ شرارت سے بولی تو عائشہ کا دل چاہا کوئی چیز اُٹھا کہ اُس کے سر پہ دے مارے-

تم کبھی نہیں سدھرو گی ہانی”-عائشہ نے ایک تاسف بھری نگاہ اُس پہ ڈالتے ہوئے کہا-

“تو تم سدھار دو”- وہ اُس کو تنگ کرنے والے انداز میں بولی-عائشہ کا پارہ بہت جلد ہائی ہو جاتا تھا اور ہانیہ اُسے جان بوجھ کہ تنگ کرتی تھی-

“میں پاگل تھوڑی ہوں جو یہ ذمہ داری لوں تم تو پتہ نہیں سدھرو گی کہ نہیں مگر تمہیں سدھارنے کے چکروں میں میرا دماغ ضرور خراب ہو جائے گا”-اُس کی بات پر عائشہ تڑخ کر بولی تو ہانیہ نے چھت پھاڑ قہقہ لگایا جس پر عائشہ اُسے گھور کر رہ گئی-

“عاشی تجھے ایک بات بتاؤں؟ “- ہانیہ کو کچھ یاد آیا تو فورا پوچھنے لگی-

“کونسی بات؟ “-وہ متجسس ہوئی تھی-بے تابی سے ہانیہ کو دیکھنے لگی جس کا انداز بتا رہا تھا کہ کوئی خاص بات ہے-

“مجھے محبت ہو گئی ہے”-اُس نے اپنی طرف سے دھماکہ کیا تھا-

“تمہیں کتنی محبتیں ہونی ہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے ایک ہی بار بتا دو”-عائشہ اُس کی بات پر سخت بدمزہ ہوئی تھی-وہ سمجھ رہی تھی کہ ناجانے کونسی اہم بات بتانے لگی ہے-مگر اتنی فضول بات کی امید نہیں تھی اُسے ہانیہ سے

“یہ سچ والی ہے عاشی میرا یقین کرو”- اُس نے عائشہ کو یقین دلانا چاہا-

“تجھے تو روز سچی محبت ہوتی ہے”-عائشہ نے طنز کیا-

“جیسے کہ تمہیں ماریہ کی بلی سے محبت ہوئی حارث کے طوطے سے ہوئی، کرن کے سرخ سوٹ سے اور بھی پتہ نہیں کس کس چیز سے ہوئی”-وہ انگلیوں پہ گنتے ہوئے بتانے لگی-

“اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ دوسروں کی چیزوں سے محبت ہوتی ہے”- عائشہ نے اُس کی پوری بات سنے بغیر اپنی سوچ کہ مطابق مطلب نکالا تھا-وہ ہانی کی ہر خوبصورت چیز پہ فدا ہونے والی عادت سے اچھی طرح واقف تھی-اب بھی وہ یہی سمجھی تھی کہ اُسے کسی کی چیز سے پھر محبت ہو گئی ہے۔نہیں یار اِس بار مجھے کسی چیز سے نہیں بلکہ ایک انسان سے محبت ہوئی ہے”- اُس نے فورا مطلب کی بات بتا دی کہ اس سے پہلے وہ کوئی اور مطلب نکالتی-

“ہانی۔۔۔۔۔”- عائشہ تو جیسے اُس کی بات پر سپرنگ کی طرح اچھلی تھی-حیرت اور صدمے سے اُس کو دیکھا-

“ہاں عاشی اب مجھے سچی والی محبت ہوئی ہے”-

“کون ہے وہ؟ “-عائشہ نے فورا پوچھا-

“ماریہ کے سسرال سے آیا ہے طلحہ بھائی کا کزن ہے میران شاہ”-وہ مزے سے بولی-

“تو نے اتنی جلدی نام بھی پتہ کر لیا”-عائشہ مشکوک ہوئی تھی-

“ہاں اُس کا کوئی کزن اُس سے باتیں کر رہا تھا تو وہ بار بار اُس کا نام لے رہا تھا تو میں نے سن لیا”- 

“ہر وقت جاسوس بنی رہتی ہو مگر ایک بات دیہان سے سن لو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرنے والی اِس معاملے میں”- عائشہ جانتی تھی اب وہ اُسے بھی گھسیٹے گی اس لئے وہ فورا لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے بولی-

“عاشی کی بچی”- ہانیہ چلائی تھی-اُسے عائشہ سے اس قدر طوطا چشمی کی اُمید نہیں تھی-

“ہاں جی مجھ سے واقعی کوئی امید مت رکھنا تمہاری محبت کا تو پتہ نہیں کیا بننا مگر مجھے بہت جوتے پڑنے ہیں اگر کسی کو پتہ چل گیا تو”-عائشہ نے صاف صاف انکار کر دیا تھا-وہ اپنی بات کہہ کہ وہاں سے چلی گئی-

“اس کو تو میں بتاؤں گی”- وہ دانت پیستے ہوئی بولی-

اُس نے اپنے سامنے رکھا اپنا کلچ اُٹھایا اور اسٹیج پر جانے کے ارادے سے اُٹھی-مگر جونہی مڑی تو ساکت رہ گئی- اُس سے چند قدم دور پڑے ٹیبل کے گرد رکھی کرسی پر بیٹھا میران شاہ اُسے ہی دیکھ رہا تھا-اُس کا رنگ فق ہوا-اب پتہ نہیں اُس نے کیا کیا سنا تھا دیکھنے کے انداز سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ سب سن چکا ہے-ہانیہ نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی-مگر پوری مہندی کی تقریب میں اُس کا ذہن الجھا ہی رہا تھا اور اس کے بعد اس نے میران شاہ کا سامنا کرنے کی غلطی نہیں کی تھی-رات دھیرے دھیرے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی-ہر سو ہو کا عالم تھا-رات کا تیسرا پہر تھا-مہندی کی تقریب رات کے دو بجے ختم ہوئی تھی-اِس وقت ہر کوئی نیند کے نشے میں اپنے ہواس سے بیگانہ سو رہا تھا مگر اُس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی-اُس نے کئی بار آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام ہو جاتی-اُس نے بے بسی سے اپنے سے کچھ فاصلے پر سکون سے سوتی عائشہ کو دیکھا-

“عاشی اُٹھو۔۔۔”- ہانیہ نے اُسے ہلایا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی-

کک کیا ہو گیا؟ “-اُس نے نیند سے بند ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھولتے ہوئے ہانیہ سے پوچھا-

“مجھے نیند نہیں آرہی”- وہ منہ بناتے ہوئے بولی-

“ہائیں ۔۔۔۔اتنی رات کو بھی نہیں آرہی”- وہ آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بولی-

“نہیں ۔۔۔”-اُس نے بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے-

“وجہ بھی تو بتاؤ نہ”- عائشہ کو کوفت ہوئی-

“میران شاہ مجھے سونے ہی نہیں دے رہا کیا کروں”- اُس نے معصومیت سے جواب دیا-

“ہانی کی بچی۔۔۔۔”-عائشہ نے پاس پڑا تکیہ اُٹھا کر اُس کی دھلائی شروع کر دی-وہ اُس سے بچنے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگی مگر عائشہ اندھا دھند اُس پر تکیے برسا رہی تھی-

“تو نے آدھی رات کو مجھے یہ بتانے کے لیے جگایا ہے”-عائشہ کا بس نہیں چل رہا تھا اُس کو کچا چبا جاتی-ہانیہ نے بمشکل تکیہ اُس کے ہاتھ سے چھینا-

“قسمے عاشی بہت یاد آرہا ہے -بتاؤ کیا کروں؟”-ہانیہ نے تکیہ گود میں رکھ لیا-

“چلو بھر پانی میں ڈوب مرو آئی سمجھ”-عائشہ کہتے ساتھ ہی کمبل میں واپس گھس گئی-

“اور سنو خبردار جو اب مجھے اُٹھانے کی غلطی کی تو”-اُس نے ایک لمہے کے لیے منہ باہر نکال کر اُس کو وارننگ دی اور پھر منہ کمبل میں غائب کر لیا-

ہانیہ نے دل ہی دل میں اُس پر لعنت بھیجی اور دوپٹہ گلے میں ڈالتی کچن میں آگئی-ارادہ تھا کہ کافی بنا کہ پئیے شاید پھر نیند آجائے-

                _______________________

 

اگلا دن بارات کا تھا-نائیٹ فنکشن تھا اس لیے سب آرام سے پورا دن تیاریوں میں مصروف رہے-رات تک سب لوگ تیار تھے-ہانیہ کا لہنگے کے ساتھ کا دوپٹہ نہیں مل رہا تھا-وہ پاگلوں کی طرح ہر کمرے کے چکر لگا رہی تھی-عائشہ نے گلابوں کے تازہ گجرے پہنتے ہوئے اُسے دیکھا جو بوکھلاہٹ کی حدوں کو چھو رہی تھی۔اگر تمہاری پریڈ ختم ہو گئی ہو تو میں کچھ بولوں؟ “- عائشہ نے اُسے چوتھی بار کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو بالاآخر پوچھ بیٹھی-

“ہاں بولو “-وہ مصروف سے انداز میں گویا ہوئی-الماری کے سارے کپڑے فرش پر بکھرے پڑے تھے-عائشہ نے تاسف سے اُس کی حالت دیکھی-

“تمہارا دوپٹہ وہ آئرن سٹینڈ پہ پڑا ہوا”-اُس نے آئرن سٹینڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو ہانیہ بجلی کی سی تیزی سے اُس طرف بڑھی-پریس شدہ دوپٹہ اس وقت سلوٹوں سے بھرا پڑا تھا-ہانیہ نے جلدی جلدی استری کا پلگ لگایا اور اُسے پریس کرنے لگی-شکر تھا کہ لائیٹ تھی-ورنہ ایسے ہی لینا پڑتا –

“پہلے نہیں بول سکتی تھی”-

“تم نے پوچھا کب تھا مجھ سے”-وہ گجروں کو ناک تک لے جاتے ہوئے بولی-تازہ گلابوں کی مہک نے اُس کی روح تک کو تازہ کر دیا تھا-

ہانیہ دوپٹہ پریس کرنے کے بعد آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر سیٹ کرنے لگی-اُس نے دوپٹہ اس طرح سے پن اپ کیا تھا لہنگے کے اوپر کہ وہ لہنگا کم ساڑھی زیادہ لگ رہی تھی-نیچے تین انچ کی ہائی ہیل پہنے وہ کافی سے بھی ذیادہ لمبی لگ رہی تھی-لمبے بال جو اوپر سے سٹریٹ تھے مگر نیچے آکر کرل ہو جاتے اُس کی پشت پہ بکھرے ہوئے تھے-کانوں میں نیکلس کے ہم رنگ چھوٹے چھوٹے جھمکے پہنے اور پیشانی پر بندیا ٹکائے وہ بلکل ریڈی تھی-ناک میں چمکتی لونگ اُس کے میک اپ ذدہ چہرے کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی-عائشہ نے اوپر سے نیچے تک اُس کا جائزہ لیا-

“میران شاہ ایمپریس نہیں ہونے والا تم سے جتنی مرضی تیاری کر لو”-وہ شرارت سے بولی تو جواباً ہانیہ نے اُسے گھور کہ دیکھا-

“اپی آبھی جاؤ جلدی باہر”-باہر سے فلزا کی آواز آئی تو وہ دونوں باہر کی طرف لپکیں-ہانیہ کو چلنے میں خاصی دشواری ہو رہی تھی-

                _________________________

قسط نمبر 2 

چھوڑی کھنکی

قسط 2

ہانیہ ماریہ کے ہزبینڈ کو گفٹ دے کہ نیچے اُتری ہی تھی کہ کسی سے زوردار ٹکر ہوئی-ہانیہ کا دماغ گھوم گیا آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا-اِس سے پہلے کہ وہ گرتی دو مضبوط بانہوں نے اُسے کسی گڑیا کی طرح سنھال لیا-کئی منٹ تک تو اُس کے حواس ہی قابو میں نہ آئے-کچھ دور کھڑی عائشہ نے یہ منظر دیکھ کر بےساختہ اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا-اردگرد کافی لوگ تھے اِس لئے مقابل نے جلد ہی اُسے چھوڑ دیا-ہانیہ کے ہواس کچھ بحال ہوئے تو مقابل کی ٹھکائی کا خیال آیا-اُس نے اپنے چکراتے سر کو بمشک تھام کر سامنے والے کو دیکھا-میران شاہ کو دیکھ کر اُس کی سٹی گم ہو گئی-تمام الفاظ ہلق میں ہی دم توڑ گیے-بولنے کی ہمت جواب دے گئی-

“تم۔۔۔۔۔”-میران شاہ اُسے ایک سیکنڈ میں پہچان گیا-

“اگر پہلے پتہ ہوتا تو کبھی نہیں سنبھالتا۔۔۔بلکہ جان بوجھ کہ گرا دیتا”-وہ نخوت سے بولا-ہانیہ کا منہ اتنی عزت افزائی پہ پورا کھل گیا-دل چاہا سب کچھ بھول بھال کر اُس کو وہ سنائے کہ بس اُس کی عقل ٹھکانے آ جائے-مگر اگلے ہی لمہے اس خیال کو مسترد کر دیا-یہ رسک نہیں لینا تھا ابھی-

“آپ کو لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے”-اُس نے لہجے کو تھوڑا روکھا اور سخت بنانے کی کوشش کی-مقابل نے اُس کو گھور کہ دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئی-

“جی نہیں مجھے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے اورآپ جیسی لڑکیوں سے بات کرنے کی تو بلکل نہیں ہے”-وہ اُس کے دائیں جانب کھڑا ہوتے ہوئے لاپرواہی سے بولا-وہ اسٹیج پر جانے کی غرض سے آیا تھا مگر وہاں رش دیکھ کر ارادہ ترک کر کہ وہیں کھڑا ہو گیا-

“مجھ جیسی لڑکی مطلب۔۔۔”-ہانیہ نے اُس کے سامنے ہوتے ہوئے غصے سے پوچھا-

“یہ تو آپ کو ہی پتہ ہو۔۔۔”-میران شاہ نے اُسے تپانے کی بھرپور کوشش کی-اُس کا سرخ انار جیسا چہرہ دیکھ کر اُسے مزہ آنے لگا-

“آپ بہت ہی بدتمیز قسم کے انسان ہیں”-ہانیہ ذیادہ دیر اپنے غصے پہ قابو نہیں رکھ پائی تھی

کل اسی بدتمیز انسان سے آپ کو محبت ہو گئی تھی شاید”- میران شاہ نے اُسے چھیڑا تھا-وہ اُس کو شرمندہ کرنے کی کوشش کرنے لگا-

“ہنہہہہ آپ سے محبت۔۔۔۔مائی فٹ”-وہ منہ پھیرتے ہوئے بولی-میران شاہ کے لبوں پر دھیمی سی مسکان پھیل گئی-یہ لڑکی اُسے کافی دلچسپ لگی-

“کرنے کی کوشش بھی مت کیجیے گا کیونکہ میں آل ریڈی انگیجڈ ہوں”-وہ بولا تو ہانیہ نے اُس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھا-میران شاہ نے فورا مسکراہٹ دبا لی تھی-

“آپ یہ بات مجھے کیوں بتا رہے ہیں”-وہ دل میں آئے جزبات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولی-

“تاکہ آپ مجھ پر ٹرائی کرنے کی کوشش نہ کریں”-میران شاہ اُسے تپانے کے موڈ میں تھا اور وہ اچھی خاصی تپ بھی چکی تھی-مگر چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا-

“آپ کو بڑی خوش فہمیاں ہیں اپنے بارے میں۔۔۔”-ہانیہ کو وہ ہنستا ہوا زہر لگا تھا-اُس کا دل چاہا اُس کا سر پھاڑ دے-کتنے آرام سے وہ کہہ گیا تھا کہ میں انگیجڈ ہوں اِس بات کی پرواکیے بغیر کہ اُس کا نازک سا دل ٹوٹ گیا تھا-

“بس جی سب کو ہوتی ہیں مجھے بھی ہیں”- وہ ایک ادا سے بولا تھا-

“ویسے کیا آپ کو سچ میں مجھ سے محبت ہو گئی ہے”- میران شاہ نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے شرارت سے پوچھا-

“ہوئی بھی ہو گی تو آپ کو کیا مسئلہ ہے”-ہانیہ تڑخ کر بولی تھی-

“نہیں مجھے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے میں تو ویسے ہی پوچھ رہا تھا کہ اگر آپ اظہار کرنا چاہیں تو میں برا نہیں مانوں گا”-میران شاہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے شرارت سے پوچھا-

“ہانی کی محبت اتنی ارازاں نہیں ہے کہ وہ خود اظہار کرے۔۔۔بلکہ ایسی ہے کہ مقابل اظہار کرے گا”-وہ شان بے نیازی سے بولی تو میران شاہ بے ساختہ اُسے دیکھے گیا-

“اتنا یقین ہے خود پر۔۔۔۔”-وہ گھمبیر سے لہجے میں بولا تھا-

“اِس سے بھی ذیادہ۔۔۔۔”-ہانیہ اُس کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھنے لگی-مگر یہ بس کچھ لمہوں کی بات تھی اگلے ہی لمہے وہ سر جھکا گئی-مقابل کی آنکھوں میں دیکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا-

“اپی آپ کو پھوپھو نے بلایا ہے”-فلزا نے اُسے آکر اطلاع دی تو وہ فورا وہاں سے بھاگی-

میران شاہ کتنے ہی لمہے وہاں سے ہل بھی نہیں پایا تھا-

               !،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

وہ سب کزنز بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے-وہاں ہونے والی بات چیت کا موضوع تھا میران شاہ کی شادی۔۔۔۔ہر کوئی اپنی عقل کے مطابق اُسے مشوروں سے نواز رہا تھا مگر وہ چپ چاپ اُن کی باتیں سننے اور مسکرانے پر اکتفا کر رہا تھا-تبھی اُس نے اپنے سے کچھ فاصلے پر بیٹھتی ہانیہ کو دیکھا-ہانیہ نے ایک نخوت بھری نگاہ اُس پہ ڈالی تھی اور اُس کی طرف پشت کر کہ بیٹھ گئی-میران شاہ کے لبوں پہ پھیلنے والی مسکراہٹ بہت گہری اور معنی خیز تھی-

“ہاں تو آپ لوگ میری شادی کے بارے میں کیا باتیں کر رہے تھے”-وہ سیدھا ہو کہ بیٹھ گیا اور اُن سے پوچھا-اُس کی آواز خاصی بلند تھی-ہانیہ کا رواں رواں سماعت بن گیا-

“یہ سائکل کی فیل بریک نے اچانک کیسے کام کرنا شروع کر دیا”-چاند نے اُسے چھیڑا تھا-میران شاہ ڈھٹائی سے مسکراتا رہا-چاند کی بات پر باقی سب کے بھی قہقے ابھرے تھے-

“ہم کہہ رہے تھے کہ طلحہ بھائی کے بعد آپ کی شادی ہونی چاہیے ۔۔۔ کیونکہ اُن کے بعد آپ کا نمبر آتا ہے”-ایان نے مسکراتے ہوئے کہا-خدیجہ بیگم بھی اُن کی طرف متوجہ ہوئیں تھی-وہ پہلے کسی اور سے باتیں کرنے میں مگن تھیں-اب میران کی شادی میں دلچسپی دیکھ کر اُنہوں نے اپنا رُخ اُن کی طرف موڑا-

“بلکل یار میری شادی ہونی چاہیے اب۔۔۔۔مجھے خود بہت جلدی ہے۔۔۔”-وہ شرارت سے بولا تھا-نظریں مسلسل ہانیہ کی طرف تھیں-وہ بنا دیکھے جان سکتا تھا کہ دوسری طرف کیا صورتِ حال ہو گی-

“یہ ایک دم تمہیں شادی کی جلدی کیوں پڑ گئی-پچھلے آدھے گھنٹے سے ہم لوگ پوچھ رہے تھے تب تو تم مشرقی لڑکیوں کی طرح شرمانے میں مصروف تھے-اب اچانک سے کیا سوجھی”-چاند کچھ مشکوک ہوا تھا-

“بس یار کچھ لوگ مجھ جیسے ہینڈ سم بندے پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں اور میں اُن کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا۔۔۔ اِسی لیے میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے”-میران شاہ نے معنی خیز مسکراہٹ لبوں پر سجائے اونچی آواز میں کہا تو سب شرارت سے اُس کی طرف دیکھنے لگے-خدیجہ بیگم نے بھی مسکرا کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا-

“اوئے ہوئے بڑی خوش فہمیاں پال رکھی ہیں”-چاند نے اُسے چھیڑا تھا-

“سب کو ہوتی ہیں مجھے بھی ہیں”-وہ باتیں اُن سے کر رہا تھا مگر نظروں کے حصار میں مسلسل ہانیہ تھی-وہ یہ سب خاص اُس کو سنانے کے لیے کہہ رہا تھا-

“تمہیں تو کچھ ذیادہ ہی ہیں ۔۔۔انٹی اِس کی شادی کا سوچیں یہ واقعی مجھے سیریس لگ رہا ہے”-چاند نے خدیجہ بیگم سے کہا جو مسلسل مسکرا رہی تھیں-

کمینہ کہیں کا”-ہانیہ نے غصے سے کہا تو موبائل کے ساتھ لگی عائشہ نے حیرت سے اُس کو دیکھا-

“کون۔۔۔۔؟”-وہ اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بولی-اُسے لگا شاید اُسے کوئی تنگ کر رہا تھا-مگر اردگرد سب لوگ اپنی باتوں میں مگن تھے-

“کوئی نہیں تم اپنا کام کرو”-وہ بے رُخی سے بولی تو عائشہ اُسے گھور کر پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی-

“ہاں ماما بتائیں پھر آپ میری شادی کب کر رہی ہیں؟”-میران شاہ نے ٹیبل پہ آگے کی طرف جھکتے ہوئے خدیجہ بیگم سے پوچھا-

“کیا بات ہے بڑی جلدی ہے شادی کی ۔۔۔کہیں کوئی لڑکی تو پسند نہیں آ گئی”-چاند کو اُس کی اچانک بےتابی کی یہی وجہ سمجھ میں آئی تھی-

“لڑکی کوئی ایسی ملی ہی نہیں کہ اُسے پسند کروں”-میران شاہ مسلسل شرارت پر آمادہ تھا-وہ جانتا تھا کہ اُس کی باتوں سے دوسری طرف زلزلے کے آثار تیز سے تیز ہوتے جارہے ہیں-

“نیہا سے کر دیں”-خدیجہ بیگم نے اُسے کی کلاس فیلو کا نام لیا تھا جس کے ساتھ اُس کی کافی دوستی تھی-بلکہ اُن دونوں کی بات بھی چل رہی تھی-وہ سب اُسے اکثر نیہا کے حوالے سے چھیڑتے تھے-

“ہاں بلکل اُسی سے کرنی ہے آخر کو وہ میری پہلی اور آخری محبت ہے”-اُس نے کہا تو چاند کو خواہ مخواہ ہی کھانسی شروع ہو گئی-پہلی اور آخری محبت والی بات اُس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی-

“حوصلہ رکھیں چاند بھائی”-ایان نے ہنستے ہوئے اُس کمر تھپتھپائی-

“ویسے اگر نیہا یہ بات سُن لیتی تو خوشی سے پاگل ہو جاتی”-چاند نے اس کے مُسلسل مسکراتے چہرے کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا تھا-

“فکر نہ کرو جاتے ہی پاگل کر دوں گا اُس کو”-وہ اب بھی باز نہیں آرہا تھا-

“چلو اُٹھو کہیں اور چل کہ بیٹھتے ہیں”-ہانیہ کی برداشت جواب دے چکی تھی-اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جا کہ اُس کا منہ توڑ آتی-وہ جانتی تھی کہ وہ یہ سب بس اسے سنانے کے لئے ہی کہہ رہا تھا-

“کیوں۔۔؟”-عائشہ نے حیرت سے اُس کا سرخ چہرہ دیکھا جہاں غصے کے آثار نمایاں تھے-

“وجہ بتانا ضروری نہیں ہے”-وہ اُٹھتے ہوئے بولی-

“پھر میں نہیں جارہی”-عائشہ نے انکار کر دیا تو اُس نے اُس کا بازو پکڑ کر کھینچا-

“ہر وقت ہڈ حرامی نہ دکھایا کرو”-ہانیہ ایک منٹ سے بھی پہلے وہاں سے غائب ہونا چاہتی تھی-

“ہانی۔۔۔۔”-عائشہ نے اپنا بازو کھینچا-اُس کی کئی چوڑیاں اُس کے بے رحم ہاتھوں ٹوٹ چکی تھیں مگر اُسے پروا کب تھی وہ اُسے گھسیٹتی ہوئی وہاں سے لے گئی-میران شاہ اُسے تب تک جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی-

“تم واقعی سیریس ہو؟ “-چاند نے سنجیدگی سے پوچھا-اُسے ناجانے کیوں یقین نہیں آرہا تھا-

“کس بارے میں”-وہ انجان بنا تھا-

“شادی کے بارے میں ۔۔۔۔”-چاند حیران ہوا-اچانک سے وہ پھر پلٹی کھا گیا تھا-

“پاگل ہو گئیے ہو کیا”-میران شاہ نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا تو سب نے اچنبھے سے اُس کی طرف دیکھا-

“لو جی سائکل کی بریک پھر فیل ہو گئی”-چاند سخت بدمزہ ہوا تھا-

“پگلا نہ ہو تو”-خدیجہ بیگم نے مسکراتے ہوئے اُس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی اور وہاں سے چلی گئیں-وہ اُن کی سمجھ سے باہر تھا-

                  !،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

“پتہ نہیں کیا سمجھتا خود کو۔۔۔۔باتیں تو ایسے کر رہا تھا جیسے کوئی پرنس ہو”-وہ گھر آتے ہی غصے سے بولی-

“کون؟ “-عائشہ کے خاک بھی پلے نہیں پڑا تھا-

ایک تو پہلے ہی اُس کے اچانک گھر آنے کی وجہ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی اور اب وہ جو بول رہی تھی وہ بھی اُس کی ننھی سی عقل میں نہیں سما رہا تھا-

“وہی میران شاہ۔۔۔۔”-وہ اب کمرے میں غصے سے اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہی تھی-اُس کو جب بھی غصہ آتا وہ یہی کرتی تھی-

“ہیںں۔۔۔۔یہ میران شاہ کہاں سے آگیا”-عائشہ نے پوری آنکھیں کھول کر اُس کو دیکھا جو جلے پیر کی بلی کی طرح چکر لگا رہی تھی-

“پتہ نہیں کہاں سے آگیا میری زندگی میں ۔۔۔”-اُس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ غصے کو کم کرنے کے لئے کیا کرے-

“ایک منٹ ایک منٹ وہی تو میران شاہ نہیں جس کے ساتھ تم ٹکرائی تھی”-عائشہ کو اچانک یاد آیا تو استفسار کیا-

“ہاں وہی نمونہ تھا”-وہ بولی تو اُس کے نمونہ کہنے پر عائشہ کی ہنسی نکل گئی-

“ویسے ہانی بندہ ہے بڑا ہینڈ سم۔۔۔۔”-اُس نے ہانیہ کے زخموں پہ مزید نمک چھڑکا تھا-

“اُتنا ہی بدتمیز اور سڑیل بھی ہے-خود کو ناجانے کونسی مخلوق سمجھتا ہے۔۔۔۔شوخا کہیں کا۔۔۔”-وہ بیڈ پہ دھڑام سے بیٹھتے ہوئے بولی تو عائشہ کا قہقہ کمرے کے درو دیوار میں گونجا-ہانیہ نے کھا جانے والی نظروں سے اُس کی طرف دیکھا تھا-

“تو کس نے کہا تھا اُس سے محبت کرو”-وہ اُس کے گھورنے پر کچھ سنجیدہ ہوئی-

“مت جو میری ماری گئی تھی”-وہ ناک پھلاتے ہوئے بولی-

“اب کیا کرو گی؟ “-عائشہ نے بمشکل اپنی ہنسی روکی تھی-

“اُس کو ناکوں چنے چبواؤں گی۔۔۔۔ہمیشہ یاد رکھے گا کہ کس بلا سے پالا پڑا تھا”-وہ اپنی بات کہہ کہ تن فن کرتی کمرے سے نکل گئی-

“افففف کیا چیز ہے یہ لڑکی۔۔۔۔”-عائشہ کتنی ہی دیر پیچھے اُس کی باتوں پر ہنستی رہی-

                !،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

جاری ہے

اپنے اپنے تبصرے سے ہر کہانی کو خوبصورت بنانا آپ کا کام ہے

آپ سب کے تبصرے انتظار رہے گا۔۔۔

 

__________________________

 

 چوڑی کھنکی  از قلم ابن شیش

قسط نمبر 3 مکمل

ہانیہ بڑے ریلکس انداز میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی-گود میں مونگ پھلی والی پلیٹ رکھی ہوئی تھی- ٹی وی میں اُس کا دیہان اِس قدر ذیادہ تھا کہ وہ مونگ پھلی کے چھلکے پلیٹ میں رکھنے کی بجائے بیڈ پر ہی رکھ دیتی-اُس کا فیورٹ سیریل چل رہا تھا-بیڈ پہ رکھا کمبل آدھابیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا-کرن کمرے میں داخل ہوئی تو کمرے کی ابتر حالت دیکھ کر اُس کا پارہ ہائی ہو گیا-

“ہانی۔۔۔۔”-وہ اُس کے قریب آ کر چلائی-

“جج جی اپی۔۔۔۔”-وہ ڈر کے مارے اُچھل پڑی-مونگ پھلی والی پلیٹ گود سے بیڈ پر گر گئی-ساری مونگ پھلی بیڈ پر بکھر گئی تھی-کرن کے غصے میں مزید اضافہ ہو گیا-

“اپی کی کچھ لگتی یہ کیا حالت بنائی ہوئی ہے کمرے کی ۔۔۔ابھی آدھا گھنٹہ پہلے میں صفائی کر کے گئی تھی اور تم نے سارے کمرے کا ناس مار دیا۔۔۔پتہ نہیں کونسی مٹی لگی ہے جو تمہیں چین سے بیٹھنے ہی نہیں دیتی۔۔۔ہر وقت بندروں کی طرح اچھل کود کرتی رہتی ہو۔۔۔۔غضب خدا کا اتنا گند تو پورے گھر میں سب مہمانوں نے نہیں ڈالا جتنا تم نے اس ایک کمرے میں ڈالا ہوا “-کرن بولنے پہ آئی تو بولتی چلی گئی-وہ اُس کی اچھی خاصی کلاس لینے کے بعد اب چیزیں درست کر رہی تھی-بیڈ پہ دبکی بیٹھی ہانیہ کی ہمت نہیں تھی کہ آگے سے کوئی جواب ہی دے دیتی-

“سوری اپی۔۔۔”-وہ منمناتے ہوئے بولی تو کرن نے اُس کو گھورا-

“چلو نکلو یہاں سے۔۔۔۔دادا جان نے بلایا تمہیں ۔۔۔”-کرن نے اُسے وہاں سے بھگایا-ہانیہ نے ایک لمہہ ضائع کیے بنا وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی-

وہ وہاں سے سیدھی دادا جان کے کمرے میں آئی-وہ صوفے پر بیٹھے کسی رسالے کے مطالعہ میں مصروف تھے-ہانیہ نے دروازے کو ہلکا سا کھٹکھٹایا تو وہ اُنہوں نے رسالہ سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اُسے اندر انے کو کہا-وہ دھیمے دھیمے قدم اُٹھاتی اُن کے پاس چلی آئی-اِس وقت وہ ڈھیلے سے کرتے اور چوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی-دوپٹہ بے ترتیبی سے ایک سائیڈ پہ لٹک رہا تھا-سر پہ لینے کی وہ کم ہی تکلیف اُٹھاتی تھی-بالوں کی ڈھیلی چوٹیا کی ہوئی تھی جس میں سے آدھے سے ذیادہ بال باہر تھے-وہ ایسی ہی تھی من موجی لاپرواہ قسم کی۔۔۔کسی بات کی ٹینشن نہیں لیتی تھی-ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتی-

“آپ نے بلایا مجھے دادا جان۔۔۔”-وہ اُن کے بائیِں طرف بیٹھتے ہوئے سعادت مندی سے بولی-

“ہاں میں نے بلایا ہے”-اُنہوں نے اپنا چشمہ اُتار کر ایک طرف رکھتے ہوئے کہا-

“عائشہ بتا رہی تھی کہ تم ماریہ کو لینے نہیں جا رہی”-وہ اُس کی طرف متوجہ ہوئے-آج ماریہ کا ولیمہ تھا-نائٹ فنکشن تھا سب لوگ اُس کو لینے جارہے تھے مگر ہانیہ نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اُن کے ساتھ نہیں جائے گی-عائشہ سمجھ گئی تھی کہ اُس کو پھر دورہ پڑا ہے اِس لئے اُس نے جانے کے لئے فورس نہیں کیا تھا بلکہ آکر دادا جان کو بتا دیا تھا-کیونکہ وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر اُس نے ایک بار منع کر دیا تو پھر ہزار منتوں کے بعد بھی نہیں مانے گی-

“جی وہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے”-وہ مسکین سی شکل بنا کر بولی-آواز کو بھی کسی حد تک مدھم کر لیا-ساتھ ہی دل میں عائشہ کو ڈھیروں گالیوں سے بھی نوازا جس نے یہ حرکت کی تھی-

کیا ہوا طبیعت کو۔۔۔زیادہ تو نہیں خراب ۔۔اگر ہے تو میں حارث سے کہتا ہوں وہ تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے جاتا ہے”-وہ فورا تشویش میں مبتلا ہوئے-

“نہیں ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے میں آرام کروں گی تو ٹھیک ہو جاؤں گی”-اُس نے فورامنع کر دیا-اُس حارث کے بچے کو وہ اچھے سے جانتی تھی وہ ایک سیکنڈ میں اُس کا جھوٹ پکڑ لیتا تھا-

“چلو جاؤ آرام کرو اور اب جب تک ٹھیک نہ ہو جاؤ ہلنا مت بستر سے”-اُنہوں نے اُسے ہدایت کی تو وہ جی اچھا کہہ کر وہاں سے چلی آئی-

“یاہو۔۔۔۔۔اب تو کوئی مجھے فورس نہیں کر سکتا۔۔۔۔اُس میران شاہ کو تو میں بتاؤں گی ناجانے کیا سمجھتا خود کو۔۔۔اُسے لگتا میں اُس کے بغیر مر جاؤں گی۔۔۔”-وہ دل ہی دل میں سوچتی ہوئی اپنے کمرے تک آئی-

“کیسے کہہ رہا تھا کہ اگر مجھ سے اظہار کریں گی تو میں برا نہیں مناؤں گا”-اُس نے اُس کی نقل اُتاری-

             !،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

شادی کے ہنگامے سرد پڑے تو حالات پھر سے پہلے والی ڈگر پر آگئے-ماریہ دو دن پہلے آئی تھی اور طلحہ بھائی اُسے چھوڑ کہ چلے گئے تھے-ہانیہ سارا دن ماریہ کے ساتھ باتوں میں لگی رہتی وہ آجکل کالج سے فری تھی-سیکنڈ آئیر کے پیپرز دے کہ رزلٹ کے انتطار میں تھی-

عائشہ اور کرن باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتی تھیں-وہ دونوں شام کو ہی آتی تھیں-اُن کے بغیر وہ بہت بور ہوتی تھی مگر اب ماریہ کے آنے سے اُس کا دل بہل گیا تھا-

ماریہ اپی نے اُسے ڈرائنگ روم میں کچھ لینے کے لئے بھیجا تو وہ اندھا دھند دوڑتی ہوئی آئی مگر ڈرائنگ روم کے دروازے پر ہی کسی سے ٹکر ہو گئی-اُس کا سر مقابل کے سینے سے اتنی شدت سے ٹکرایا تھا کہ درد کی لہریں فورا اُٹھی-غلطی سراسر اُس کی تھی-مقابل کا غصے سے برا حال ہو گیا-وہ جس طرح بھاگتی ہوئی آئی تھی وہ اُسے دیکھ چکا تھا-

“آپ کو شرم نہیں آتی یوں بچوں کی طرح بھاگتے ہوئے”-اُس نے غصے سے کہا-

ہانیہ نے سر اُٹھا کر آگ اگلنے والے کو دیکھا تھا-

“تم۔۔۔”-میران شان نے کھا جانے والی نظروں سے اُسے دیکھا-

“تمہیں شرم کہاں آئے گی تمہارا تو کام ہی لوگوں سے ٹکریں مارنا ہے”-میران شاہ اُسے سامنے پاکر ایک دم سے آگ بگولا ہوا تھا-

“ہاہ۔۔۔۔”-ہانیہ نے پوری آنکھیں اور منہ کھول کر اُس کو دیکھا-“آپ اپنی غلطی کتنے آرام سے دوسروں کے سر پر تھوپ دیتے ہیں”-وہ اُلٹا اُس پہ چڑ دوڑی-

“محترمہ ہوش کے ناخن لیں ۔۔۔۔۔شیر سے ریس تو آپ نے لگائی ہوئی تھی میں تو انسانوں کی طرح اپنے دیہان سے باہر نکل رہا تھا”-میران شاہ کو وہ لڑکی پاگل لگی تھی-

“ہاں تو آپ سامنے سے ہٹ جاتے”-ہانیہ بنا شرمندہ ہوئے بولی تو میران شاہ نے ایک گہرا سانس بھرا-

“آپ نے ہٹنے کا موقع دیا کب تھا”-وہ شریر ہوا تھا-یہ لڑکی جب جب اُس سے ملی تھی اُس حیرت میں مبتلا کر گئی تھی-وہ اُس سے ملنے کے بعد بھی گھنٹوں اُسی کے بارے میں سوچتا رہتا-

“آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ “-اُسے اچانک یاد آیا تو سوال کیا-

“آپ سے ملنے آیا تھامگر مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ بھی میرے انتظار میں بیٹھی ہیں۔۔۔اور اتنی شدت سے منتظر ہوں گی کہ ملتے ہی گلے لگ جائیں گی”-میران شاہ نے شوخ نظروں سے اُس کو دیکھا تھا-

“مجھے آپ کا دماغ درست نہیں لگ رہا”-ہانیہ اُس کے اتنے بے باک انداز پر کنفیوز ہوئی تھی-

“آپ درست کر دیں”-میران شاہ کو اُس کی حالت مزہ دینے لگی-وہ اُس کے چہرے پر آئے دھنک رنگوں کو بڑی دلچسپی سے دیکھنے لگا-وہ جتنا بہادر بننے کی کوشش کر رہی تھی اُتنی وہ تھی نہیں۔۔۔وہ اُس کے نگاہیں جھکانے پر زیر لب مسکرایا-

ہانیہ نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی-وہ مڑی ہی تھی کہ میران شاہ نے اُس کی کلائی تھام لی-ہانیہ کی ساری جان اُس کلائی میں ہی اٹک گئی-فل ناول کا لنک حاصل کرنے کے لیے میسج کریں

“آپ ولیمے والے دن کیوں نہیں آئی تھیں؟ “-وہ اُس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا تھا اور یہ فاصلہ اُس نے خود رکھا تھا-

“میری مرضی آپ کو اس سے کیا”-اُس نے ایک ہی جھٹکے میں کلائی چھڑواتے ہوئے کہا-میران شاہ کا مقصد بس اُس کو روکنا تھا اِس لئے اُس نے ہانیہ کے ہلکے سے احتجاج پر ہی فورا اُس کا بازو چھوڑ دیا-

میں نے ویسے ہی پوچھا تھا”-وہ سنجیدگی سے بولا تھا-

ہانیہ نے ایک نظر مڑ کہ اُس کو دیکھا تھا-وہ اُسی کو دیکھ رہا تھا-چہرے پر پہلے والی شرارت اب نہیں تھی-شاید اُسے ہانیہ کی بات بری لگی تھی-ہانیہ بنا کچھ بولے وہاں سے آگئی-میران شاہ نے بھی سر جھٹک کر اپنے قدم باہر کی جانب بڑھا دیے-وہ ماریہ کو کچھ سامان دینے آیا تھا اور اب اُس کا کام ہو چکا تھا-

            !،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،!

دن سست روی سے گزر رہے تھے-کبھی کبھی تو وقت پر لگا کر اڑ جاتا ہے اور کبھی کبھی رینگنا شروع کر دیتا ہے-ہانیہ کے پاس آجکل کرنے کے لئے کوئی کام نہیں تھا وہ پورا دن کسی بھٹکی ہوئی اتما کی طرح پورے گھر میں بوکھلائی بوکھلائی پھرتی تھی-ماریہ اپنے سسرال جا چکی تھی-گھر میں بس سناٹوں کا راج تھا-

ہانیہ کافی کا مگ لے کر ٹیرس پر آگئی-موسم کافی خوشگوار تھا-ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی-اُس نے اپنے بال کھول دیے-ہوا کے دوش اُڑتے بال بار بار اُس کے چہرے پر آنے لگے-

وہ سامنے پھیلے وسیع لان میں اِس قدر محو تھی کہ ہاٹ کافی کے کولڈ ہونے کا بھی پتہ نہ چلا-تبھی اچانک اُسے اپنے چہرے پر کسی کی گہری نگاہوں کی تپش کا احساس ہوا تو اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا-اُن کے برابر والے بنگلے کے لان میں کھڑا وہ اجنبی کیمرے سے کھٹا کھٹ اُس کی تصویریں لینے میں مگن تھا-ہانیہ کا دماغ بھک سے اُڑ گیا-وہ جتنی مرضی بولڈ سہی مگر یہ حرکت اُسے سخت ناگوار گزری تھی-

“اِس ارسطو کی اولاد کا دماغ تو میں ٹھکانے لگاتی ہوں”-وہ کافی کا کپ وہیں رکھ کر غصے سے بڑبڑاتی ہوئی سیڑھیاں اُترنے لگی-

جاری ہے۔۔۔۔۔

 

کیسا لگ رہا آپ کو ناول؟؟؟

 

 

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button