شاعری
Dastuk (poetry collection) by Hina Shahid
شاعری کولیکشن:
دستک
از
حناء شاہد
“رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے”
رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ میرے پاس آئے
آج تسکین مشامِ جاں کو
دل کے زخموں کی مہک کافی ہے
یہ مہک آج سرِ شام ہی جاگ اٹھی ہے
اب یہ بھیگی ہوئی بوجھل پلکیں
اور نمناک اداس آنکھیں لئیے
رت جگا ایسے بنائے گی کہ خود بھی جاگے
اور پل بھر کے لئیے میں بھی نہ سونے پاؤں
دیو مالائی فسانوں کی کسی منظر موسمِ گل
راجکماری کی خزاں بخت
ِ دکھی روح کی مانند
بھٹکنے کے لئیے
کو بہ کو ابرِ پریشان کی طرح جائے گی
دورافتادہ سمندر کے کنارے بیٹھی
پہروں اس سمت تکے گی کہ جہاں سے اکثر
اس کے گم گشتہ جزیروں کی ہوا آتی ہے
گئے موسم کی شناسا خوشبو
یوں رگ و پے میں اترتی ہے
کہ جیسے کوئی چمکیلا ، روپہلا سیال
جسم میں ایسے سرایت کر جائے
جیسے صحراؤں کی شریانوں میں
پہلی بارش!
غیر محسوس سروشِ نکہت
ذہن کے ہاتھ میں وہ اسم ہے
جس کی دستک
یاد کے بند دریچوں کو بڑی نرمی سے
ایسے کھولے گی کہ آنگن میرا
ہر دریچے کی الگ خوشبو سے
رنگ در رنگ چھلک جائے گا !
یہ دلآویز خزانے میرے
میرے پیاروں کی عطا بھی ہیں
ان کے ہوتے ہوئے اوروں کی
ضرورت کیا ہے
رات کی رانی کی خوشبو سے کوئی یہ کہہ دے
آج کی شب نہ میرے پاس آئے!
(پروین شاکر)
٭٭٭٭٭٭٭٭
2
کیکر تے انگور چڑھیا
وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا
اس وقت کا کون حساب کرے گا
اک دھوپ چھاؤں کا موسم تھا
کبھی زخمِ جگر، کبھی مرہم تھا
یو ں جان کہ وہ گزری ہوئی عمر
اک لمبی کالی رات تھی
جس کے ماتھے پر
جھوٹے تاروں کی افشاں تھی
اور اس افشاں کو میں نے اپنی مانگ میں بھرنا چاہا تھا
اک لمبی کالی رات کہ
جس کے پہلے پہر کی آنکھوں میں
ادھ کھلے دریچے
اور ان کی بے خوابی تھی،
اور پچھلے پہر کی سانسوں میں
پھر کبھی نہ آنے والوں کے قدموں کی آہٹ
واہمہ بن کر جوگونجتی تھی،
ہر واہمہ تب کس درجہ یقین سا لگتا تھا
میں ایسی شاخ کہ
جو اپنی کچی کلیاں
بارش سے قبل جلا بیٹھی
جب پھول آنے کے دن آئے
بادل کا پیار گنوا بیٹھی
کیسی کیسی بے معنی باتوں میں
شامیں برباد ہوئیں
کیسے بے مصرف کاموں میں
اجلی راتیں برباد ہوئیں
کس درجہ منافق لوگوں میں
دل سچی بات سناتا رہا
وہ جن کے قلوب پہ مہریں تھیں
انہیں روشنیاں دکھلاتا رہا
کیسے کیسے پیارے جذبے
کن ناقدروں کو دان کیے
کیسی بارآور بات نے
بے زر موسم سے پیمان کیے
کن کم ہمت شہزادوں کے وعدوں پہ
بھروسہ کر کے
اپنے نو خفتہ جسم میں سوئیاں گڑوا لیں
کن آسیبوں کے کہنے میں
آبادیاں شہرِ جاں کی تمام اجڑوالیں
کیا کیا دکھ دل نے پائے
ننھی سی خوشی کے بدلے
ہاں کون سے زخم نہ کھائے
تھوڑی سی ہنسی کے بدلے
زخموں کا کون شمار کرے
یادوں کا کیسے حصار کرے
اور جینا پھر سے عذاب کرے
اس وقت کا کون حساب کرے
وہ وقت جو تجھ بن بیت گیا
(پروین شاکر)
٭٭٭٭٭٭٭
3
“محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے ”
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
اس میں تم لکھو کہ
کل کس رنگ کے کپڑے پہننے ہیں
کون سی خوشبو لگانی ہے
کسے کیا بات کہنی،
کون سی کس سے چھپانی ہے
کہاں کس پیڑ کے سائے تلے ملنا ہے
مل کر پوچھنا ہے کیا
تمہیں مجھ سے محبت ہے ؟
یہ فرسودہ ساجملہ ہے
مگر پھر بھی یہی جملہ
دریچوں آنگنوں ،
سڑکوں گلی کوچوں میں چوباروں میں
چوباروں کی ٹوٹی سیڑھیوں میں
ہر جگہ
کوئی کسی سے کہہہ رہا ہے کیا
تمہیں مجھ سے محبت ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
جس میں تم لکھو
کس سے کس جگہ ملنا ہے
کس کو چھوڑ جانا ہے
کہاں پر کس طرح کی گفتگو کرنی ہے
یا خاموش رہنا ہے
کہاں آنکھیں ملانا ہے
کہاں پلکیں جھکانا ہے
یا یہ لکھو
کہ اب کی بار
جب وہ ملنے آئے گا
تو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر
دھنک چہرے پہ روشن ،
جگمجاتی رقص کرتی
اس کی آنکھوں میں اتر جائیں گے
اور پھر گلشن و صحرا کے بیچوں بیچ
دل کی سلطنت میں خاک اڑائیں گے
بہت ممکن ہے
وہ عجلت میں آئے
اور تم اس کا ہاتھ، ہاتھوں میں نہ لے پاؤ
نہ آنکھوں ہی میں جھانکو
اور نہ دل کی سلطنت کو فتح کر پاؤ
جہاں پر گفتگو کرنی ہے
تم خاموش ہو جاؤ
جہاں خاموش رہنا ہے
وہاں تم بولتے جاؤ
نئے کپڑے پہن کر گھر سے نکلو
میلے ہو جاؤ
کوئی خوشبو لگانے کا ارادہ ہو تو
شیشی ہاتھ سے گر جائے
تم ویران ہو جاؤ
سفر کرنے سے پہلے
بے سرو سامان ہو جاؤ
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
آبِ جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے
خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ
لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے
تو منظر اور پس منظر میں
شمعیں جلنے لگتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھولے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
(سلیم کوثر)
٭٭٭٭٭٭٭