آرٹیکل
hmarey nizamey taleeem m tabdeeli ki zaroort h (artical) by Hina Shahid
آرٹیکل:
“ہمارے نظامِ تعلیم میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔!!!”
تحریر
حناء شاہد
ہمارے نظامِ امتحانات میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
اگر ہو جذبۂ تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
اے جذبۂ دل گر تو چاہے
تو ہر چیز مقابل آ جائے
دو گام چلوں منزل کی طرف
اور سامنے منزل آ جائے
یہ قانونِ قدرت ہے کہ ہر شے میں جہاں خوبیاں ہیوتی ہیں وہیں ان میں کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نظام امتحان جہاں طلباء کی قابلیت کو جانچنے کا بہترین ذریعہ ہے وہیں اس میں کچھ خامیاں بھی موجود ہیں۔
ہمارا نظامِ امتحان کچھ اس طرح سے وضع ہے کہ اس میں معروضی حصہ زیادہ ہے۔جس کی بدولت نمبروں کی بھرمار حاصل کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں رہا ہے۔ امتحانی سنٹر میں نگران عملہ بھی موجود ہوتا ہے جو اپنے فرائض خوس اسلوبی کے ساتھ نبھا رہے ہوتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ نقل کروانے کا فریضہ بھی بوٹیوں کی بدولت سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔
جس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وہ طلبہ و طالبات جو سارا سال دن رات دل لگا کر پڑھائی کرتے ہیں امتحانی سنٹر میں ان کا پرچہ مکمل ہونے کے فوراً بعد نامعلوم وہ کتنے نالائق طلبہ طالبات کے پیپر کی زینت بنتا ہے۔ حقدار سے اس کا حق چھین کر کسی نالائق کو دے دینا اور پھر اس طالبعلم کا کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو کر ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا یہ کہاں کا انصاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
لیکن افسوس صد افسوس امتحانی سنٹر میں سالہا سال سے یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جگہ جگہ بک شاپس پر جب کبھی کبھی ہم جاتے ہیں تو بھاری مقدار میں ہمیں ایسی کتب کے سٹالز ملتے ہیں جن پر جلی حروف میں گیس پیپرز کی چھاپ لگی ہوتی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
نسلِ نو کا مستقبل جگہ جگہ پچاس ساٹھ روپے کا لیبل لگائے فروخت کیا جاتا ہے۔ اور یہ کھلی منڈی اسی نسلِ نو کی تربیت کرنے والے اساتذہ کرام کے ہاتھوں سے مرتب ہو کر جگہ جگہ بیچی جاتی ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے آج کی نسلِ نو سارا سال محنت کے جذبے سے عاری ہو کر امتحانات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی گیس پیپرز کے جھنجھٹ میں پڑ کر کامیابی کے زینے پر قدم رکھتی ہے۔
کیا ہم میں سے کسی نے کبھی تنہائی میں بیٹھ کر یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ ہم اپنی نسلِ نو کو کس راست پر چلا رہے ہیں ۔ یہ وہ راستہ ہے جسے عرفِ عام میں شارٹ کٹ کہا جاتا۔ محنت مشقت ، سے عاری راستے اور سوچ معاشی تنزلی کا باعث بنتے ہیں۔ اور یہ معاشی تنزلی ہمیں مستقبل قریب میں بربادی کی آخری حد تک لے کر جائے گی۔
نظامِ امتحانات کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ دو سال کی پڑھائی کا نچوڑ سراسر تین گھنٹوں میں لے لیا جاتا ہے۔ تین گھنٹے میں تمام سوالوں کے جواب لکھنا درحقیقت اس بات کا امتحان نہیں ہے کہ طالبعلم نے سارا سال کتنا پڑھا ہے بلکہ درحقیقت اس بات کا امتحان ہوتا ہے کہ طالبعلم کتنی تیز رفتاری کے ساتھ لکھ سکتا ہے۔اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ کم رفتاری کی بھینٹ ہمیشہ دو تین سوال تو چڑھ ہی جاتے ہیں۔
کسی بھی نظام کی ترقی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس نظام کا نگران اور نظام میں کام کرنے والے کتنی دیانتداری سے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔
لیکن افسوس ہمارے نظامِ امتحانات میں دیانتداری کا کہیں کوئی عنصر موجود نہیں ہے۔ خدارا اس نظام کو اس قابل بنائیں کہ اہلِ ہنر لوگ اپنے حق سے محروم نہ ہوں اور نااہل لوگ عہدہ نہ پا سکیں۔ بلکہ ہمیں ایک ایسا نظام مرتب دینا ہو گا جس میں ہر ایک کو اس کا حق مل سکے ۔ جیسا امتحان دے کر آئے اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی ہو۔ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو اپنے تمام مسائل کو ہم خود حل کر سکتے ہیں۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
بقول شاعر:
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا
لیکن اس سب کے باوجود اگر کچھ ہمت ہمارے امتحانی نگران اور ان کے ماتحت کام کرنے والا عملہ بھی کرے اور اس کے ساتھ ساتھ تمام طالبعلم شارٹ کٹس ڈھونڈنے کی بجائے دل لگا کر سارا سال محنت کریں تو ہم سب مل کر اس نظام کو خامیوں سے پاک ضرور کر سکتے ہیں۔ یہ وہی طالبعلم ہیں جن کے آباؤاجداد نے دشت و صحراء میں گھوڑے دوڑا کر فتح حاصل کی تھی۔ یہ نسلِ نو کم کوش ہے لیکن اگر دل لگا کر محنت کرے تو ترقی خود ان کے قدم چوم سکتی ہے۔
بقول اقبال:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
طالبعلم اپنی ذہنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو بروئے کار لائیں تو وہ ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ کیونکہ یہی طالبعلم قوم کے معمار ہیں اور انہی نے ہمارے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ لیکن اگر یہی طالبعلم محنت سے جی چرائیں گے تو قوم کی عمارت کیسے تعمیر ہو گی۔ نظامِ امتحانات کی خامیوں کو دور کرنا صاحبِ شعور لوگوں کا اہم فریضہ ہے ہمیں ایسے چہروں کو بے نقاب کرنا ہو گا جو رشوت ستانی، سفارش جیسے غلیظ پانی میں ہاتھ دھو کر قوم کا مستقبل برباد کرنے پہ لگے ہیں۔ اور ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جو محنت سے دور بھاگ کر آسان راستے اختیار کرتے ہوئے معاشرتی خرابیوں کا سبب بنے گی۔ ایسے چہروں اور ایسے لوگوں کی سرزنش کر کے ہی ہم اپنے نظامِ امتحانات میں تبدیلی لا سلتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ اہلِ دانش کو اس بات پر غور کرنا ہو گا ایسا کون سا نظام متعین کیا جائے جو سارے سال کی محنت کا صحیح نچوڑ کر سکے تاکہ امتحانی سنٹروں سے کامیابی حاصل کر کے عہدوں پر فائز ہونے والے لوگ اس قابل ہوں کہ وہ وطنِ عزیز کی ترقی کے لیے صحیح معنوں میں کوشش کر سکیں۔
؎ یہ خوب کیا ہے؟ یہ زشت کیا ہے؟ جہاں کی اصلی سرشت کئا ہے؟
بڑا مزہ ہو اگر کوئی تمام چہرے بے نقاب کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ختم شد