رومینٹک ناول
Trending

Ishaq m Jhulli Romantic Novel by Hina Shahid Episode 1 Complete

تنہا کیسے گزرتا ہے ، جدا ہو ہمسفر جس کا وہ اس کو یاد کرتا ہے نہ ہو جس کا کوئی وہ ملنے کی فریاد کرتا ہے

 

 

 

انتباہ۔۔۔۔۔

اس ناول کے کاپی رائٹس حناء شاہد آفیشیل ویب سائٹ کے پاس محفوظ ہیں اس ناول کے کسی بھی حصے کو کاپی کرنا یا رائٹر کی اجازت کے بغیر اس ناول کےکسی بھی حصے کوسوشل میڈیا پہ  نشر کرنا غیر قانونی ہے۔ ایسی کسی بھی شکایت پہ رائٹر حناء شاہد آپ کے خلاف قانونی کاروائی کر سکتی ہے۔ شکریہ۔

 

 

 

عشق میں جھلی    از    قلم حناء شاہد

 

قسط نمبر 1 مکمل

” اڑان بھرنے کی کوشش میں ایک لمحے کے لیے ادھر بھی دیکھیے اور تھوڑا تحمل سے سوچیے اس محل کے تمام راستے گھوم پھر کے دوبارہ اسی دالان کی طرف آتے ہیں اور اس دالان کا داخلی و خارجی راستہ بس اسی ایک کمرے کی جانب کھلتا اور بند ہوتا ہے جس کمرے کی آپ رانی ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔!!! ہائے یہ ماری قسمت جس در کی جانب آپ لمحے بھر کو نہیں دیکھتی ہیں اسی در کے پار آپ کی دنیا بسائی گئی ہے۔ “

روشنی نے ایک سرد آہ بھری اور نم دیدہ پلکوں کی جھالر اٹھا کردلآویز کی جانب دیکھا جو اداس آنکھیں فرش پہ ٹکائے نامعلوم کن سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔

” درد کا یہ عالم کبھی تو ختم ہو گا ۔ کبھی نا کبھی ہم اس پنجرے کی قید سے آزاد ہوں گے اور کھلی فضاؤں میں سانس لیں گے۔ “

ایک سرد آہ زبان کے دریچوں کو چھوتی باہر آئی۔ روشنی نے دل آویز کی آنکھوں میں چھپے درد کی سنگینیوں کو قریب سے محسوس کیا ۔ اس کا دل پسیج سا گیا۔ لیکن افسوس کہ دلآویز کی حسرتوں پہ سوائے آہ و فغاں اور نالوں کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔

“آنکھوں میں کبھی وہ خواب نہیں سجانے چاہئیے جن کی تکمیل کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔”

اس نے حسرت سے کڑھتے لہجے میں کہا۔ روشنی تھوڑا سا سرکی اور اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ سفید دودھیہ ہاتھوں پہ سرخی چھوڑتی مہندی بہت دلکش لگ رہی تھی ۔ اس کے ہاتھوں کی دلکشی کو مزید سرخ نارنجی چوڑیوں نے دلفریب بنا دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے نئی نویلی دلہن کے ارمان مہندی اور چوڑیوں کی شکل میں خصوصی انداز اپنائے اک مسرت اور خوشی کی صورت میں سب کو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں ۔

“آپ کے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں۔ “

روشنی نے حسرت بھری نگاہوں سے اس کے ہاتھوں کی دلکشی پہ نظرِ التفات ڈالی اور مانوسیت سے بولی۔

“کاش! ہمارے ہاتھ خوبصورت نہ ہوتےَ”

اس نے آنکھوں میں موتی سجا کر اپنے دودھیہ سفید ہاتھوں کی جانب حقارت سے دیکھا اور نفرت سے بولی۔ اس کا دل چاہا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی یہ دلنشین ہاتھ جلا ڈالے۔ لیکن وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اس کی سانسوں پہ اس کے وجود پہ کسی کی حکومت تھی اور وہ اس بادشاہ کی غلام تھی۔ ایک زرخرید غلام ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جو خود سے شاید سانس بھی نہیں لے سکتا۔

“ایسے تو مت بولیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپ کو اتنی دلکشی سے نوازا ہے۔”

روشنی نے حیرت سے اسے سمجھایا۔

“اگر ہمارے ان ہاتھوں پہ ہادی سلیمان کی نظر نہ پڑی ہوتی تو آج ہمارے ہاتھ اس کے نام کی چوڑیوں کی زنجیر کے ساتھ بھی جکڑے نہ ہوتے۔”

خوبصورت پلکوں کی جھالر  مزید نم دیدہ ہوگئی۔ بڑی بڑی آنکھوں  میں چھلکتے سفید موتی روشنی کی نظروں سے چھپ نہ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“آپ کدھر جا رہے ہیں اس وقت۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

طیبہ بیگم جو سفید قمیض شلوار پہنے اپنے سر کو اچھے سے دوپٹے کے ساتھ ڈھکے ہوئے ہاتھوں میں تسبیح لیے کوریڈور میں ٹہل رہی تھیں۔ ہادی سلیمان کو یوں ٹریک سوٹ میں گاڑی کی چابی گھماتے پورچ کی جانب جاتے دیکھا تو سرعت سے بولیں۔

“بس ایسے ہی لانگ ڈرائیو پہ جانے کا دل ہو رہا تو سوچا باہر کی تازہ ہوا کھا آتا ہوں۔ “

اس نے لائٹ سے موڈ میں مسکرا کر کہا تو طیبہ بیگم کو اس کی مسکان پہ حیرت ہوئے۔

“بابا جانی کو جانتے ہیں اچھے سے آپ اس کے بعد بھی رات کے  اس پہر ایسے یوں جانا مناسب نہیں ہے۔ “

انہوں نے تنبیہاً اسے کچھ سمجھانا چاہا ۔ جبکہ وہ چابی کو گھماتا اسی سادہ مگر پرتاثر مسکان کے ساتھ ہولے سے ان کے قریب آیا اور شانوں پہ ہاتھ دھرے حلاوٹ سے بولا۔

“جانے دیجیے ناں۔۔۔۔۔۔! “

اس کا یوں لاڈ سے بات کرنا اکثر ہی طیبہ بیگم کا دل پگھلا دیتا تھا۔ تو وہ بھی بنا کسی عذر کے مسکرا دیں۔ اور محبت سے اس کے ہاتھوں کو تھاما لبوں سے لگایا اور دھیرے سے بولیں۔

“اچھا جائیں ۔۔۔۔۔! لیکن کوشش کیجیے گا جلدی آنے کی ۔ یہ نا ہو ہمیں آپ کے بابا جانی کی عدالت میں بنا کسی جرم کے مجرم کی طرح صفائیاں دینی پڑ جائیں۔ “

طیبہ بیگم کے انداز پہ وہ لبوں پہ گہری مسکان بھرتا ان کے ماتھے پہ اپنے لب دھر کے بوسہ دیتے ہوئے پیچھے ہٹا۔ گہری مسکان سے اس کے رخسار پہ پڑتے گہرے کھڈے بہت دلنشیں تھے۔ ہادی سلیمان کے وقار اور شخصیت کی دلفریبی اتنی حسین تھی کہ کوئی بھی اس کو دیکھ کے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ اوپر سے واللہ قیامت اس دلفریب شخصیت کو چار چاند لگاتے دونوں گالوں کو پرکشش بناتے یہ ڈمپل نجانے کتنے دلوں کی دھڑکنوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

وہ ایسے ہی مسکان بھرتا کی رنگ کو گھماتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ طیبہ بیگم کی کل کائنات رحمان محل کے یہ چند گل و گلزار ہی  تھے۔ سلیمان صاحب کے جاہ و جلال اور محبت و شفقت کے سائے تلے پرورش پانے والے ہادی سلیمان بڑے بیٹے نعمان سلیمان ان سے چھوٹے اور عنایہ سلیمان ایک صاحبزادی کے روپ میں جہاں وہ ہر  طرح کی آزادی سے لبریز شان و شوکت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے تھے وہیں پہ انہیں ان کی حدود کا بھی باخوبی علم تھا۔ رحمان محل کے اصول کسی پرانے زمانے کے رسم و رواج کی پروان چڑھے کسی پتھر سے کم نہ تھے۔ اور اس محل کے سب باسی انہی اصولوں کے پابند تھے۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“یہ لباس پہن کے جتنا جلدی ہو سکے نیچے محفل میں آ جائیے۔ رونق باخوب ہے اور ہر نظر کو بس آپ کے دلکش و دلفریب روپ کو دیکھنے کی بے تابی ہے۔ “

آئینے میں جلوا افروز سراپا کسی اپسراء سے کم نہ تھا۔ لمبے گھنے سیاہ بالوں میں براؤن لٹیں اور گھنی زلفوں کی چمک کسی کے بھی دل کو اپنی گرفت میں کر سکتی تھیں۔ کاجل کی سیاہ دھار سے سجی سرمئی کانچ جیسی خوبصورت و دلکش نگاہیں قیامت ڈھانے کو تیار تھیں۔ گہری سیاہ پلکوں کی جھالر ان نشیلی آنکھوں کی خوبصورتی پہ چار چاند لگانے کے لیے پہرہ دیے بیٹھی تھیں۔ سفید دودھیہ رنگت پہ چاند بھی آ کے دیکھے تو شاید شرما جائے۔ اس نے نزاکت کے ساتھ گھنے بالوں کو شانے سے پشت پہ کیا اور سرخی مائل مہندی سجے ہاتھوں کے ساتھ اس قیمتی لباس کو چھوا۔ سفید شفون کے لمبے میکسی فراک پہ مہرون اور سبز نگینے سجے ہوئے تھے۔ دامن پہ بس ہلکی سی گوٹے کی لائن سجی تھی۔  مہرون نیٹ کے دوپٹے پہ ہلکا سا کام ہوا تھا جبکہ بارڈر پہ موتیوں کی لڑی لگی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر فراک پہ ڈالی اس کو ہاتھ سے چھوا اور تبسم چہرے پہ سجائے دھیرج سے بولی۔

“آپ جائیے سجیلہ خالہ ہم بس کچھ ہی لمحوں کے توقف سے آپ کی محفل کو لوٹ لیں گے۔ اور پھر آپ ساری رات نوٹوں کی گھٹریاں اٹھانے اور انہیں گننے میں گزار دیجئے گا۔ “

آنکھوں میں اک کرب سجائے وہ آنسوؤں پہ قابو رکھے کس ادائے بے نیازی سے بولی تھی یہ صرف وہ جانتی تھی۔ سجیلہ خالہ جو ایک بازارو عورت تھی ۔ کسی بھی درد سے انجان وہ اس اپسراء کی اذیت کو پسِ پشت ڈال کر اس کی کہی ہوئی بات پہ خوشی سے پھولے نہ سمائے جارہی تھی۔

“جیتی رہیے ۔۔۔۔۔! خوش رہیے۔۔۔۔۔۔۔! آباد رہیے اور میرے اس کوٹھے کی رونق کو صدا آباد رکھیے۔۔۔۔۔۔۔۔! آپ کی  سجیلہ خالہ کی دعا ہے۔ خدا آپ کے  حسن کو چار چاند لگائے اور آپ کے حسن کے دیوانے یونہی اپنی زندگی بھر کی کمائی آپ کے حسن پہ نچھاور کرتے رہیں۔”

نجانے کون کون سی دعائیں تھیں جو وہ اپسراء کو دیتے کمرے کی چوکھٹ سے باہر آئیں۔                                    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

“طبیعت ٹھیک ہے تمہاری۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ہادی سلیمان نے حیرت و پریشانی سے پوچھا۔

“ہاں! لگ رہا ہے کہ ٹھیک ہی ہوں۔”

ناصر حیات نے قدرے غمگین و افسردہ لہجے میں کہا۔

“جہاں تک تیرے حلیے سے لگ رہا ہے میں محسوس کر سکتا ہوں تُو ٹھیک نہیں ہے۔ “

ہادی سلیمان نے طنز کیا۔ جس پہ ناصر حیات نے گردن گھماتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

“میں چاہتا ہوں ایک ہی لمحے میں میں اپنا درد بھول جاؤں۔”

ناصر حیات نے نظریں فورا سے جھکا لیں۔ ہادی سلیمان کو اس پہ یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی خوش باش ، کسی کی بھی پروا نہ کرنے والا ٹائم پاس لڑکا ہے۔ جس کے افئیرز کی تعداد کو اگر وہ گننا بھی شروع کرے تو شاید گنتی ختم ہو جائے ۔ لیکن اس کے افئیرز کبھی ختم ہی نہ ہوں۔

“اور یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔۔۔۔؟ ” ہادی سلیمان نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے طنزیہ پوچھا۔

“ایک جگہ ہے جہاں جا کر میں کیا ہر انسان اپنا درد بھول سکتا ہے۔”

ناصر حیات کی آنکھوں میں عجیب سی چمک امڈ آئی۔

“وہ کون سی جگہ ہے؟  ہادی سلیمان نے تعجب سے پوچھا۔

“تُو وعدہ کر مجھے ابھی لے کے جائے گا۔ مجھے پتا ہے میں نے تجھے اگر جگہ کا بتایا تو تُو نہیں لے کے جائے گا۔”

وہ ڈرتے ڈرتے گویا ہوا۔ جس پہ ہادی سلیمان جھٹ سے بولا۔

“اچھا ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں لے کے جاؤں گا۔ لیکن اپنی یہ شکل ٹھیک کر۔ تجھے دیکھ کر مجھے فیل ہو رہا ہے جیسے عرصہ دراز کی کہانیوں میں چھپے رومیو جولیٹ پھر سے زندہ ہو گئے ہیں۔ “

ہادی سلیمان کی بات سن کر دونوں نے زوردار قہقہہ لگایا۔ اور فضاؤں میں ان کے قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔

                                                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

پردوں کی جھلمل  کی اوٹ دھنوں کی برسات تھی۔ ہر کوئی لہلہا کے اپنے جلووں کے عکس بکھیر رہا تھا۔ سب کی کوشش تھی کہ بس آج کی رات وہ یہ محفل لوٹنے میں کامیاب ہو جائیں۔ تاکہ  سجیلہ بیگم کی چہیتی  بن جائیں ۔ لیکن ابھی تک یہ بات کوئی نہیں جانتا تھا کہ سجیلہ بیگم جو پچھلے تیس سالوں سے دلنگری  کی ملکہ بنی بیٹھی تھیں اور اس نگری کے نگینوں کو پرکھنا بھی خوب جانتی تھیں۔ وہ کیسے جمعے کی خصوصی رات کو سجائی جانے والی مخصوص محفل میں عام سی رقاصاؤں کو اس محفل کی باگ دوڑ  سنبھالنے کا ذمہ دے دیں۔ وہ اس رات کی اہمیت  سے بخوبی واقف تھیں۔ اسی لیے تو وہ اس رات اپنی نگری کے سب سے حسین نگینوں کو اس محفل کی شان بنا کر سب کے روبرو کرتی تھیں۔ اور اس دلنگری کی خاص روایتوں میں سے ایک روایت یہ بھی تھی کہ اس رات کو سجنے والی محفل میں عام لوگوں کی شرکت بھی ممنوع ہوتی تھی۔ مخصوص اور خاص لوگ یا پھر بڑے بڑے گھرانوں کے  لوگ اس رات دلنگری کی محفل میں براجمان ہوا کرتے تھے۔ اور دلنگری کی اپسراؤں پہ اپنا تن ، من ، دھن لٹاتے تھے۔  محفل بخوب تھی۔ دالان میں شمعیں روشن تھیں۔ طبلوں پہ ہاتھوں کا سُر بکھیرنا اور پھر ان تھاپوں پہ رقص کرتے سترنگی پاؤں محفل کی جان تو نہیں بن رہے تھے۔ بحرحال شائقین کے دلوں کو حوصلہ ضرور دے رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاڑی  تیزی سے آ رہی تھی۔ کہ اچانک اس نے بریک گائی اور گاڑی کے ٹائروں کی چرچراہٹ چار سو سنائی دی۔ لیکن روڈ پہ موجود کسی بھی شخص کی توجہ گاڑی اپنی جانب مبذول نہ کروا سکی کیونکہ وہاں پہلے ہی اتنا شور تھا کہ کوئی بھی انسان اس شور کے علاوہ کوئی بھی  آواز باآسانی نہیں سن سکتا تھا۔ ہادی سلیمان نے حیرت سے ناصر حیات کی جانب دیکھا۔ اس کی نگاہوں  کی سرخی ناصر حیات کو بخوبی چبھی۔

” یہ کون سی جگہ ہے؟”

ہادی سلیمان نے شکن ماتھے  پہ چڑھائے ناصر حیات سے نہایت ہی سنجیدگی سے سوال کیا۔

“دیکھو ! تم نے وعدہ کیا تھا کہ جہاں میں  بولوں گا تم میرے ساتھ وہاں چپ چاپ چلےآؤ گے۔ “

اس نے گھبراتے ہوئے ہادی سلیمان کو اس کی ہی کہی ہوئی بات یاد دلائی۔   ہادی سلیمان نے گھورتے ہوئے ناصر حیات کی جانب دیکھا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ابھی اسی وقت اپنے سب سے قریبی دوست کی جان اپنے ہی ہاتھوں سے لے لے۔  لیکن وہ اپنے ہی دل کے ہاتھوں اپنی ہی فطرت کے ہاتھوں مجبور کسی اپنے کو کبھی کوئی تکلیف دینا تو بہت دور کی بات ہے اسےتکلیف میں دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ گہرا سانس لیتا فرنٹ سیٹ کا ڈور اوپن کیے اب گاڑی سے باہر آن کھڑا ہوا تھا۔   ناصر حیات کے بھی سانس قدرے بحال ہو چکے تھے۔ ورنہ ہادی سلیمان تو اس کی جان لینے ہی والا تھا۔ یہ سب ناصر حیات کی اپنی ہی سوچ تھی جس کی بنا پہ وہ ہادی سلیمان کی قہر آلود نگاہوں سے ڈر رہا تھا۔

باہر کا منظر بھی بہت عجیب ہی تھا۔ ناصر حیات کا تو یہاں اکثر ہی آنا جانا تھا۔ لیکن ہادی سلیمان کے لیے یہ سب بالکل نیا   تھا۔  جگہ جگہ پان کی تھوک کے نشان اور بکھرے گجرے ہادی سلیمان کی آنکھوں کو یہ سب بہت عجیب لگ رہا تھا۔ وہ انتہائی سنجیدہ انداز میں کھڑا ارد گرد کے ماحول  کو دیکھ رہا تھا۔ ہر دو فٹ کے فاصلے پہ پان شاپ یا پھر گجرے والوں کے تھیلے تازہ گلابوں کی مہک  اسے مصنوعی محسوس ہو رہی تھی۔ اسے یہ سب انتہائی غلیظ لگ رہا تھا۔ خوش رنگ لباس پہنے حسینائیں کم عمر لڑکیاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ کھڑے ہاتھوں سے اشاروں  میں مصروف تھیں۔ تاکہ کسی نہ کسی کی نظرِ التفات ان پہ پڑے اور ان کی رات کی چاندی ہو جائے۔  اور ویسے بھی دل نگری کی ہر حسینہ یہی چاہتی تھی کہ کچھ نا کچھ کر کے وہ بس سجیلہ بیگم کی چہیتی اپسراء بن جائے اور اسی لیے جمعے کی خصوصی رات  ہر لڑکی اپنا پورا زور لگا دیتی تھی۔  اسی لیے تو سب ہی ان رئیسوں  کو لبھانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھیں۔

ناصر حیات نے ڈرتے ڈرتے  قدم آگے بڑھائے تو ہادی سلیمان بھی اس کی پیش قدمی کرنے لگا۔  جیسے جیسے وہ دلنگری کے قریب آتے جا رہے تھے۔ ویسے ویسے سنگیت کی دھنیں ان کے کانوں میں بجنا شروع ہو رہی تھی۔ پھولوں کی مہک ہادی سلیمان کو بدبو محسوس ہورہی تھی۔  پردوں کی چلمن کو ہاتھ سے پیچھے دھکیلتے وہ اب کھلے دالان کی جانب قدم بڑھا رہے تھے۔ کہ فورا سے  نارنجی دوپٹہ گلے کے ساتھ باندھے بڑی  بڑی آنکھوں  پہ سترنگی میک اپ سجائے لال لپ اسٹک لبوں پہ سجائے  وہ عجیب آواز منہ سے نکالے ہادی سلیمان کا پارہ مزید ہائی کر گئی۔

“ادھر چکنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!  آ تیرے من کی پیاس  آج میں بجھاؤں ۔ “

وہ ہاتھوں کی انگلیاں ہادی سلیمان کے گالوں کےکھڈوں  پہ پھیرتے ہوئے جیسے ہی گویا ہوئی تو ہادی سلیمان نے اس کے نازنین ہاتھوں کو پکڑا اور ایک ہی جھٹکے سے اسے خود سے دور پھینکا۔ ناصر حیات تو دنگ کا دنگ ہی رہ گیا۔  

“شٹ اپ یو بلڈی گرل۔۔۔۔۔۔۔۔!!! “

ہادی سلیمان دھاڑا۔ اس کی اواز دلنگری کی دیواروں سے ٹکڑائی تو سجیلہ بیگم بھاگتی ہوئی دالان کی جانب آئیں۔ بھاری بھرکم جسم کو خوب سلیقے کے ساتھ چادر سے لپٹائے وہ قدرے با تہذیب سی لگیں۔

“کیا ہوا ہے صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔؟ چھوڑیے آپ غصہ نہ کیجئیے۔ اس جھلی کو تو عقل ہی نہیں ہے کہ صاحب لوگوں کے ساتھ بات کیسے کرتے ہیں۔ آپ اس کی باتوں کا غصہ نہ کیجئیے گا۔  آئیے میں خود آپ کو لے کے جاتی ہوں۔ آپ کی مہمان نوازی آج ہم خود کریں گے۔ “

سجیلہ بیگم انتہائی متانت سے پیار سے بولے جا رہی تھیں۔ ناصر حات نے زور سے ہادی سلیمان کو شانے سے پکڑ رکھا تھا۔  کہ کہیں ہادی کا غصہ دل نگری کی دیواروں کو ہی نہ گرا دے۔  بحرحال وہ اپنے ضبط پہ قابو رکھتا ہوا سجیلہ بیگم کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ نگاہیں مسلسل جھکائے وہ انتہائی شرمسار ہو رہا تھا۔ وہاں اور بھی بہت سے اچھے گھرانوں کے لوگ موجود تھے۔ وہ سجیلہ بیگم کے کہنے پہ فرنٹ کی نشست پہ براجمان ہو گیا ناصر حیات ویسے سب کو یہی محسوس کروا رہا تھا کہ وہ اپنی مرضی اور خوشی سے اس محفل میں آیا ہے لیکن اندر ہی اندر سے وہ بے حد ڈر رہا تھا کہ اس محفل سے جانے کے بعد ہادی سلیمان جو اس کے ساتھ سلوک کرے گا وہ شاید اس کی زندگی کا آخری حادثہ ہو گا۔ اس کے بعد نہ تو وہ کبھی کوئی خوشی دیکھ سکے گا اور نہ ہی کوئی تکلیف۔ شاید پھر دوبارہ اسےکوئی گرل فرینڈ بھی نصیب نہ ہو۔ اور نہ ہی ایسا کبھی ہو کے اس کی گرل فرینڈ اس کو دھوکہ دے کر کسی اور کے ساتھ زندگی کو انجوائے کرنے نکل جائے اور یہ گرل فرینڈ کے دھوکے کی تکلیف دل نگری کی محفلوں میں بھلانے کے لیے آ جائے۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گُم بیٹھا تھا ۔ کہ اچانک سے موسیقی کی دھن تبدیل ہوئی۔ طبلے بازوں ی انگلیوں کی دھن  ان کی مہارت کا پتا دے رہی تھی۔   

٭٭٭٭٭٭٭٭

“جب سے آپ ہماری زندگی میں آئے ہیں ہمیں ایسے لگتا ہے ہماری زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔”

دل نے مسکرا کر اطمینان سے کہا تو فون کے دوسری جانب ایک قہقہہ سنائی دیا۔ آواز اتنی زوردار تھی کہ دل کو قدرے حیرانگی ہوئی۔ لیکن وہ اس کشمکش میں مبتلا تھی کہ شاید اس کا اعترافِ جنون اس کے محبوب کی خوشی کا باعث بنا ہے۔

“مجھے بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ جب سے تم ہمارے ساتھ ہو ہماری زندگی میں ہمیں سب کچھ مل گیا ہے۔ اب زندگی میں کسی اور چیز کی تمنا نہیں ہے ہمیں۔”

ارمان نے کچھ سوچتے ہوئے اپنی مسکراہٹ برقرار رکھتے ہوئے کہا تو دل کے دل کی دھڑکنوں میں قدرے اضافہ ہو گیا۔وہ اپنی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے بولی۔

“آپ پھر جلد از جلد آپنے ماما بابا کو ہمارے گھر بھجوائیے تاکہ جلدی سے ہمارے ان ہاتھوں پہ آپ کے نام کی انگوٹھی سجے اور ہم بھی مان سے بول سکین  کہ اب یہ دل صرف ارمان کی ہے۔ “

وہ تھوڑا سا لجا کے بولی جس پہ ارمان دنگ رہ گیا لیکن قدرے ہوشیاری سے وہ اس کی بات کا اسی کے انداز میں جواب دیتے ہوئے بولا۔

“ابھی ہماری جاب کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور جیسے ہی ہماری جاب لگ گئی ہم اسی دن پنی دل کو اپنے ساتھ لے جائیں گے بس میری جان!!!! بس صبر رکھو ، انتظار کی یہ گھڑیاں جلد ہی ختم ہونے والی ہیں اور بہت جلد آپ ہمارے نکاح میں ہوں گی۔ “

ارمان کا اس طرح اسے اپنی منکوحہ بنانا اسے مزید لجا گیا وہ شرم کے مارے ہونٹوں کو دانتوں تلے زور سے پیسنے لگی پلکوں کی جھالر زور سے بند کیے وہ اب مزید کچھ بول ہی نہ پائی ارمان بھی بس خاموشی سے اس کے دل کی دھڑکنوں کو زور سے سننے لگا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ماما۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!! ماما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!”

عنایہ سلیمان زور زور سے چلاتے ہوئے سیڑھیوں سے بھاگتے ہوئے آ رہی تھی۔

“کیا ہو گیا ہے عنایہ۔۔۔۔۔۔۔؟ “

طیبہ بیگم جو ٹی وہ لاؤنج میں بیٹھی موبائیل میں مصروف تھیں۔ عنایہ کا اس طرھ زور سے چلانا انہیں ڈسٹرب کر گیا وی حیرت سے سوالیہ انداز میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولین ۔ جبکہ عنایہ اب سیڑھیون سے نیچے اتر آئی تھی اور اب ان کے بالکل سامنے کھڑی تھی۔

“ماما۔۔۔! یہ ہادی بھائی کہاں گئے ہیں؟ “

اس کا انداز استفہامیہ تھا۔ جس پہ طیبہ بیگم نے اپنی انگشتِ شہادت اٹھا کے لبوں پہ رکھی اور اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ طیبہ بیگم کے اس انداز پہ عنایہ دنگ رہ گئی کہ ایسی کون سی بات ہو گئی ہے جو ماما اسے ایسے چپ رہنے کا بو؛ل رہی ہیں۔

“ماما! کیا ہو گیا ہے؟ آپ ایسے مجھے چپ کیون کروا رہی ہیں؟ مجھے بتائیں بھائی جان اس وقت کہاں گئے ہیں؟

عنایہ سوال پہ سوال کر رہی تھی۔ تبھی طیبہ بیگم نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑا اور اسے اپنے قریب بٹھاتے ہوئے بولیں۔

“ہادی کا رات کے اس وقت باہر ٹہلنے کا موڈ ہو رہا تھا تو وہ اپنے دوست کے ساتھ باہر گئے  ہیں  ہم نے انہیں منع بھی کیا تھا کہ وہ نہ جائیں لیکن وہ بضد تھے  اور آپ بخعوبی جانتی ہیں کہ ہادی کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات ہم پورا کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں سو ہم نے انہیں باہر جانے کی اجازت دے دی۔”

طیبہ بیگم نے اسے ساری بات بتائی تو وہ اچنبھے میں مبتلا ہو گئی۔

“تو ماما اس میں اتنا ڈرنے والی کیا بات ہے اپ ہمیں پہلے ہی بتا دیتی کہ ہادی بھائی گھر پہ نہیں ہیں۔ ہم نے کون سا شور مچا مچا کے بابا جانی کو بلا لینا تھا۔ “

عنایہ معصوم انداز میں بولی ۔

“گڑیا ! آپ شور مچا کے بلائیں یا پیار سے بلائیں آپ کی ماما کو ابھی تک سمجھ نہیں آئی ہے کہ ہم اس گھر کے سربراہ ہیں اور ہم اس گھر میں موجود ہوتے ہوئے بھی اس گھر میں رہنے والے لوگوں سے بے خبر نہیں رہ سکتے ۔”

طیبہ بیگم کے تو رنگ ہی اڑ گئے۔ سلمان صاحب کیسے اور کب ا گئے اور انہین کیسے پتا چل گیا وہ حیران و پریشان کھڑی کی کھڑی رہ گئیں۔

عنایہ وہ تو باپ کی لاڈلی تھی۔اسے معلوم تھا کہ بابا جانی بھائیوں کو جو مرضی بولیں لیکن اپنی گڑیا کو وہ کبھی بھی کچھ نہیں کہیں گے۔  اسی لیے وہ دھیرج سے لبون پہ تبسم سجائے کھڑی تھی اور سلمان صاھب کی جانب دیکھنے لگی۔

“ایسی بات نہیں ہے سلمان! بچہ ہے اس کا دل چاہا تو اس نے ضد کی میں کیا کرتی آپ تو جانتے ہیں ہادی کی ضد کے سامنے ہم سب ہار دیتے ہیں۔ “

طیبہ بیگم نے سرعت سے جواب دیا تو سلمان صاحب بڑے بارعب انداز میں صوفے پہ آ کے بیٹھ گئے۔

“ہم نے کب منع کیا ہے کہیں آنے جانے سے لیکن یہ خیال رکھیے گا بچے بڑے ہو گئے ہین اور رات کے اس پہر اگر گھر کے مرد گھر سے باہر رہنے لگ جائیں تو سمجھ جائیں ان کی شادی کا وقت  آ گیا ہے۔ لہذا اتنا بھی بیتے کی محبت مین انجان نہ رہئیے گا کہ آپ کا یہ لاڈلا صاحبزادہ کوئی گُل نہ کھلا دے ۔”

ان کا انداز کرخت تھا۔ طیبہ بیگم تو چپ کی چپ ہی رہ گئیں۔ عنایہ بھی خاموش باپ کی بارعب شکصیت مین چھپی اس نسیھت کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔  کچھ نہ کہتے کہتے بھی سلمان صاحب اپنی زندگی اور اپنے بڑون کے تجربات سے بہت کچھ سیکھتے ہوئے  اپنی بیگم کو بہت بڑی نسیھت کر رہے تھے۔ جسے طیبہ بیگم بخوبی سمجھ رہی تھیں۔ لیکن انہیں اپنے ہادی پہ اتنا یقین تھا کہ ان کا لاڈلا بیٹا کبھی بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کرے گا جس سے ان کا یا ان کے خاندان کا سر نیچا ہو۔

ماحول میں کافی سنجیدگی چھا گئی تھی۔سلمان  صاحب ، طیبہ بیگم اور عنایہ گھڑی کی سوئیان دیکھ رہے تھے اور اس کی ٹک ٹک سن رہے تھے۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

مدھم روشنی میں طبلے کی دھنوں پہ موسیقی اور راگ محفل میں موجود شراب کی بھرمار اور حسیناؤن کے جلوے سحر طاری کر رہے تھے۔ کی اچانک سے محفل میں موجود پہلی صف میں  بیٹھے لوگوں کے سامنے نیٹ کے چلمن گرائے گئے۔ ہر کسے کی توجہ اب بس اس اپسراء کا جلوہ دیکھنے کی جانب مبذول تھی جس کے حسن کے چرچے دل نگری سے باہر بھی سنائی دینے لگے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سجیلہ خالہ نے اس اپسراءکے جلوے کی صرف ایک ہی رات مختص کی تھی۔ ہر کوئی بس اسے ہی دیکھنا چاہ رہا تھا ہادی سلمان قدرے بیزار بیٹھا تھا نطریں نیچے جھکائے وہ شرمسار  ہو رہا تھا۔ کہ سب کی سماعتوں میں اس اپسراء کی سریلی آواز سنائی دی۔

تنہاء کیسے گزرتا ہے

خوبصورت انداز میں چہرہ دوپٹے میں چھپائے ہاتھوں  میں  لال مہندی  لگائے وہ سب کی نظرین اپنی جانب مبذول کنے میں کامیاب ہو گئی ہر کوئی اچھل اچھل کے اس پہ پیسے نچھاور کرنا چاہ رہا تھا۔

تنہا کیسے گزرتا ہے

جدا ہو ہمسفر جس کا

وہ اس کو یاد کرتا ہے

نہ ہو جس کا کوئی وہ ملنے کی فریا دکرتا ہے

طبلے پہ انگلیوں کا سر بکھیرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اس اپسراء کا گول دائرے میں دودھیہ رنگت پہ لال مہندی سے سجے خوبصورت ہاتھ اور پاؤں کا رقص کرنا سب پہ اپنا سحر طاری کر گیا۔ شائقین کا دل چاہ رہا تھا کہ اس اپسراء کی نظر ان پہ پڑے اور آج دل نگری کی یہ رات وہ اس اپسراء کی مہمان نوازی میں گزاریں۔

عشق والوں سے نہ پوچھو کہ

ان کی رات کا عالم۔۔۔۔۔۔۔۔!

تنہاء کیسے گزرتا ہے

جدا ہو ہمسفر جس کا

وہ اس کو یاد کرتا ہے

نہ ہو جس کا کوئی

وہ ملنے کی فریاد کرتا ہے

گول دائرے میں گھومتے گھومتے تیز قدموں کے ساتھ گھنگھروؤں کی آواز میں  اب وہ بالکل سامنے فرش پہ بڑی مہارت سے آ بیٹھی تھی ۔ بڑے ہی ارام سے اس نے گھونگھٹ کو اٹھا اور سفید نیٹ کا دوپتہ اپنے چہرے کے سامنے سے ہٹاتے ہوئے وہ سب کو اپنا جلوہ دکھا رہی تھی۔ ہر کسی نے اسے نظر بھر کے دیکھا ناصر حیات تو بس اسے ہی دیکھتا جا رہا تھا ۔ شراب کی ایک حد سے بھی زیادہ مقدار وہ پی چکا تھا اور اب بالکل بھی اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا۔ ہادی سلیمان نے بھی ایک بار اس اپسراء کو نظر اٹھا کے دیکھا تھا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اپنی نگاہیں جھکا گیا۔

سلامِ عشق ! میری جان ذرا قبول کر لو

اپنے دودھیہ ہاتھوں سے اس نے مھفل مین موجود ہر شخص کو سلام کیا

سلامِ عشق ! میری جان ذرا قبول کر لو

تم ہم سے پیار کرنے کی ذرا سی بھول کر لو

میرا دل بے چین ہے

ہمسفر کے لیے

میرا دل بے چین ہے ہمسفر کے لیے

شائقین اس پہ پیسے ایسے نچھاور کر رہے تھے جیسے دن بھر وہ محنت اسی لیے کرتے ہیں کہ رات ایسے ہی کسی محفل میں نچھاور کر سکیں۔

میں سناؤں تمہیں  بات اک رات کی

ہر کسی نے توجہ کے ساتھ اس کو زوردار انداز میں کہا

“جی ! جی ! سنائےیے ہم اپ ہی کی تو سننے آئے ہیں۔”

ناصر حیات بھی اپنے آپ سے باہر ہو رہا تھا جبکہ ہادی سلیمان دوستی نبھاتے ہوئے ناصرحیات کو سنبھال رہا تھا۔

میں سناؤں تمہیں بات اک رات کی

میں سناؤں تمہیں بات اک رات کی

چاند بھی اپنی پوری جوانی پہ تھا

میں سناؤں تمہیں  بات اک رات کی  

چاند بھی اپنی پوری جوانی پہ تھا

دل میں طوفان تھا

ایک ارمان تھا

دل کا طوفان اپنی روانی پہ تھا

ایک بادل ادھر سے چلا جھوم کے

دیکھتے دیکھتے چاند پاس آ گیا

چاند بھی کھو گیا

اس کی آغوش میں

اُف یہ کیا ہو گیا

جوش ہی جوش میں

اُف یہ کیا ہو گیا

جوش ہی جوش میں

میرا دل دھڑکا،

میرا دل دھڑکا، کسی ہمنظر کے لیے

میرا دل تڑپا کسی کی نظر کے لیے

میرا دل تڑپا کسی کی نظر کے لیے

سلامِ عشق میری جان! ذرا قبول کر لو

سلامِ عشق میری جان! زرا قبول کر لو

تم ہم سے پیار کرنے کی ذرا سی بھول کر لو

قدموں کا اس انداز مین جھومنا کہ مھفل میں موجود ہر شخص اس رقص کے سحر میں کھو سا گیا سوائے ہادی سلیمان کے۔ ہادی کو اس اپسراء سے نکوت ہو رہی تھی اس کا دل چاہ رہا تھا اس اپسراء کا گلہ گھونٹ کر اس کی آواز کو ہمیشہ کے  لیےبند  کر دے ۔ وہ ایسے ہی تیزی سے گھمومتے گھومتے اب عین فرش پہ جا بیتھی تھی۔ آنکھوں مین انجانے سے انسوؤن کی لریاں تھیں۔ اس کے اندر لگی آگ کو کوئی بھی جان نہیں سکتا تھا وہ اسی تپش میں جھلس کر مر جائے گی شاید اسےت خود بھی معلوم نہیں تھا۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

عشق میں جھلی از قلم حناء شاہد قسط نمبر 1 مکمل آپ کو ناول کہ پہلی قسط کیسی لگی اپنی قیمتی رائے سے ضرور آگاہ کیجئیے گا۔ آپ کے کمنٹس پہ ہی ناول کی دوسری قسط اپلوڈ کی جائے گی۔ آپ سب کی قیمتی رائے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ شکریہ۔۔۔۔۔۔!!!۔ ناول کو ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پہ کلک کریں۔

 

عشق میں جھلی از حناء شاہد

 

Now Download this Novel free pdf 

 

hinashahidofficial.com/…/عشق-میں-جھلی-از-حناء-شاہد.pdf

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button