- "اگر ہمارے ان ہاتھوں پہ ہادی سلیمان کی نظر نہ پڑی ہوتی تو آج ہمارے ہاتھ اس کے نام کی چوڑیوں کی زنجیر کے ساتھ بھی جکڑے نہ ہوتے۔" خوبصورت پلکوں کی جھالر نم دیدہ ہوگئی۔ بڑی بڑی آنکھوں میں چھلکتے سفید موتی روشنی کی نظروں سے چھپ نہ سکے
عشق میں جھلی از قلم حناء شاہد
اڑان بھرنے کی کوشش میں ایک لمحے کے لیے ادھر بھی دیکھیے اور تھوڑا تحمل سے سوچیے اس محل کے تمام راستے گھوم پھر کے دوبارہ اسی دالان کی طرف آتے ہیں اور اس دالان کا داخلی و خارجی راستہ بس اسی ایک کمرے کی جانب کھلتا اور بند ہوتا ہے جس کمرے کی آپ رانی ہیں۔ لیکن۔۔۔۔۔!!! ہائے یہ ماری قسمت جس در کی جانب آپ لمحے بھر کو نہیں دیکھتیں ہیں اسی در کے پار آپ کی دنیا بسائی گئی ہے۔
روشنی نے ایک سرد آہ بھری اور نم دیدہ پلکوں کی جھالر اٹھا کردلآویز کی جانب دیکھا جو اداس آنکھیں فرش پہ ٹکائے نامعلوم کن سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔
” درد کا یہ عالم کبھی تو ختم ہو گا ۔ کبھی نا کبھی ہم اس پنجرے کی قید سے آزاد ہوں گے اور کھلی فضاؤں میں سانس لیں گے۔ “
ایک سرد آہ زبان کے دریچوں کو چھوتی باہر آئی۔ روشنی نے صغا کی آنھوں میں چھپے درد کی سنگینیوں کو قریب سے محسوس کیا ۔ اس کا دل پسیج سا گیا۔ لیکن افسوس کہ صبغا کی حسرتوں پہ سوائے آہ و فغاں اور نالوں کے علاوہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھی۔
“آنکھوں میں کبھی وہ خواب نہیں سجانے چاہئیے جن کی تکمیل کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔”
اس نے حسرت سے کڑھتے لہجے میں کہا۔ روشنی تھوڑا سا سرکی اور اس کے قریب ہوتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ سفید دودھیہ ہاتھوں پہ سرخی چھوڑتی مہندی بہت دلکش لگ رہی تھی ۔ اس کے ہاتھوں کی دلکشی کو مزید سرخ نارنجی چوڑیوں نے دلفریب بنا دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے نئی نویلی دلہن کے ارمان مہندی اور چوڑیوں کی شکل میں خصوصی انداز اپنائے اک مسرت اور خوشی کی صورت میں سب کو اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔
“آپ کے ہاتھ بہت خوبصورت ہیں۔ “
روشنی نے حسرت بھری نگاہوں سے اس کے ہاتھوں کی دلکشی پہ نظرِ التفات ڈالی اور مانوسیت سے بولی۔
“کاش! ہمارے ہاتھ خوبصورت نہ ہوتےَ”
اس نے آنکھوں میں موتی سجا کر اپنے دودھیہ سفید ہاتھوں کی جانب حقارت سے دیکھا اور نفرت سے بولی۔ اس کا دل چاہا اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے ہی یہ دلنشین ہاتھ جلا ڈالے۔ لیکن وہ ایسا بھی نہیں کر سکتی تھی۔ کیونکہ اس کی سانسوں پہ اس کے وجود پہ کسی کی حکومت تھی اور وہ اس بادشاہ کی غلام تھی۔ ایک زرخرید غلام ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! جو خود سے شاید سانس بھی نہیں لے سکتا۔
“ایسے تو مت بولیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!! اللہ کا شکر ادا کریں اس نے آپ کو اتنی دلکشی سے نوازا ہے۔”
روشنی نے حیرت سے اسے سمجھایا۔
“اگر ہمارے ان ہاتھوں پہ ہادی سلیمان کی نظر نہ پڑی ہوتی تو آج ہمارے ہاتھ اس کے نام کی چوڑیوں کی زنجیر کے ساتھ بھی جکڑے نہ ہوتے۔”
خوبصورت پلکوں کی جھالر نم دیدہ ہوگئی۔ بڑی بڑی آنکھوں میں چھلکتے سفید موتی روشنی کی نظروں سے چھپ نہ سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے انشاءاللہ بہت جلد۔۔۔۔!!!۔
محبت کی ایسی حسین داستاں جو آپ کے دلوں کو چھو کر اس میں اپنی جگہ بنانے والی ہے۔ عشق و محبت کے سفر میں نفرت کی منازل کو طے کرتی اک معصوم پری اور عالمگیر شہزادے کے عشق کی داستاںبہت جلد۔۔۔۔۔۔!!!۔ عشق میں جھلی ازقلم حناء شاہد ناول سے متعلقہ اپ ڈیٹس کے لیے میری ویب سائٹ کے ساتھ جڑے رہیں۔ آپ کی قیمتی رائے کا شدت سے انتظار رہے گا۔
عشق میں جھلی
User Review
( votes)عشق میں جھلی از قلم حناء شاہد
Nice…… 😊