آرٹیکل

Jadeed Nizamey Taleem ka Firoogh Waqt ki Ahem Zaroorut by Hina Shahid

 

 

 

آرٹیکل:

 

جدید نظامِ تعلیم کا فروغ

وقت کی اہم ضرورت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

تحریر

حناء شاہد

 

 

بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے

آج ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھ چکے ہیں۔ اور جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق علم بھی کئی شاخوں میں بٹ چکا ہے۔ موجودہ صدی یعنی اکیسویں صدی کو جدید ترین سائنس و ٹیکنالوجی نے جس قدر ترقی و ترویج دی اب اس کی تجدید کا عالمی پیمانے پر عہد کیا جا رہا ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ گزشتہ برسوں میں اہلِ یورپ اور خصوصاً امریکہ نے سائنس و ٹیکنالوجی میں جو بے بہا ترقی کی ہے اس سے پوری دنیا کا نقشہ یکسر ہی بدل گیا ہے۔ سائنسی ایجادات نے تو اہلِ دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔     

لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم آج کے جدید دور میں بحیثیت ایک قوم سائنسی میدان میں دوسری اقوام کی بدولت بہت پیچھے ہیں۔ اور اس کی اصل وجہ ہمارا نا قص نظام تعلیم ہے۔

اکیسویں صدی کا اہم ترین تقاضہ ہے کہ پاکستان کے نظامِ تعلیم میں تعلیمِ بالغاں کو فی الفور فروغ دیا جائے۔ تاکہ شرح خواندگی میں اضافہ ہو اور ہم اپنے ملک کی ترقی سے ہمکنار ہو سکیں۔

پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اسے معرضِ وجود میں آئے گو کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن ابھی بھی ہم منزل سے بہت دور ہیں۔ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوش حال ترین ممالک کی صف میں کھڑا کھڑے کے لیے اور اس اپنی الگ جگہ بنانے میں انتھک کوشش اور جہدِ مسلسل کی ضرورت ہے۔ اور جدید تعلیم کے بغیر ایسی جدوجہد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ترقی صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب ہمارے ملک کا ہر شخص چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت ، بچہ ہو یا بوڑھا گو ہر شخص زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو۔

پاکستان اگرچہ اکیسویں صدی میں قدم فرما چکا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سے مسائل بھی اس صدی میں اسے تحفے میں ملے ہیں۔ اور یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں حل کیے بغیر ہم کبھی بھی ترقی کے میدان میں فتح و نصرت حاصل نہیں کر سکتے۔ اور ان مسائل میں سب سے بڑا جدید تعلیم کا ہے۔ اور اس مسئلے میں بھی سب سے بڑا شرح خواندگی میں کمی کا ہے۔ اور جس میں اضافہ کرنا بے حد ضروری ہے۔

ہمارے ملک میں ناخواندگی کا تنساب شرمناک حد تک زیادہ ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں ہر دو میں سے ایک جگہ پر یکساں کیفیت ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ناخواندہ لوگ وقت کے تقاضوں سے آگاہ نہیں ہو پاتے۔ انہیں اس بات کا علم و ادراک ہی نہیں ہوتا کہ اس وقت دنیا کی دیگر قومیں ترقی کے میدان میں کس منزل پر پہنچ چکی ہیں اور یہ کہ انہیں اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہتری ، ترقی اور اجتماعی خوشحالی کے لیے کیا قدم اٹھانے چاہئیں۔

یہی وجہ ہے کہ وہ دنیا میں رائج ہونے والے نت نئے نظریات سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی زندگی کا مقصر صرف کھانا، پینا اور سونا ہی ہے۔ اور اگر آپ آج ہی سروے کروا لیں تو آپ پر یہ حقیقت کھل جائے گی کہ ہمارے ملک کے اسی فیصد لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کا کرنا چاہتے ہیں۔ اور انہیں کیا کرنا چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

یہاں پہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ یہ تمام لوگ جدید طرزِ تعلیم سے محروم ہیں۔ اور اس کی ایک وجہ مہنگا طرزِ تعلیم بھی ہے۔ بحرحال ۔۔۔۔۔۔۔! جدید طرزِ تعلیم کے گروغ میں بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اور ان میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے اقتدار میں بیٹھے لوگوں کی ناقص پالیسیاں بھی ہیں۔ اہل اور قابل افراد کا استحصال کھلے عام کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نااہل لوگ شعبۂ تعلیم میں داخل ہو کر اسے زبوں حالی کا شکار بنا رہے ہیں۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ حکمران طبقے کے جو لوگ منتخب ہو کر اقتدار حاصل کرتے ہیں ان میں سے کئی ناخواندہ ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اکیسویں صدی کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھ کر کیا خاک جدید نظامِ تعلیم رائج کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر ممالک تعلیم کے شعبے پر کم از کم پانچ فیصد اور بعض ممالک اس سے کہیں زیادہ سالانہ بجٹ خرچ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک کی پالیسیوں کا حال تو دیکھیں ذرا ہم اپنے تعلیمی بجٹ میں دیگر ممالک سے ایک فیصد کم ہیں۔

لہذا ہمارے لیے یہ مقام سوچنے کا ہے کہ ہم نے خود کو کیسے اور کس طرح جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اپنے ملک کے تمام مسائل کا حل خود نکالتے ہوئے جدید طرزِ تعلیم کو فروغ دے کر خود کو ترقی یافتہ اقوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔

تعلیمی نظام کو فروغ دے کر ہی ہم اپنے ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ۔ بلاشبہ اس ملک میں اہل افراد کی کوئی کمی نہیں ہے جو اپنے فن سے ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو بس ان کے فن کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کی اور تعلیمی سرگرمیوں کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے تاکہ پڑھی لکھی مہذب قوم کی کھیپ تیار کی جا سکے۔ اور یہ وطنِ عزیز کی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔

الغرض یہ کہ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

علم و حکمت ایک مسلمان کی گمشدہ میراث ہے ۔ اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن سعی کرنی چاہئیے۔ ہم مسلمان علم و حکمت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دیگر اقوام سے آگے نہیں بڑھ سکتے تو ان سے پیچھے بھی نہیں رہ سکتے ۔ ہم خود کو ان کا ہم پلہ ثابت کریں گے ۔ اور خود کو خود ہی ترقی کے راستے پر گامزن کر کے اپنا ایک الگ نام اور مقام بنائیں گے۔
انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

بقول شاعر:

اس روز خلد خود اتر آئے گی دہر میں !

جس روز بن کے دہر میں انسان رہیں گے

 

                                  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button