- کبھی ہم نے بھی خواب دیکھے تھے کبھی ہم نے بھی کچھ اپنے بنائے تھے کبھی ہم بھی تیرے پیچھے ننگے پاؤں فرشِ گل پہ بھاگے تھے
کبھی ہم نے بھی خواب دیکھے تھے
کبھی ہم نے بھی اپنے بنائے تھے
جن کے سنگ چل کہ
ہم نے صرف دکھ اٹھائے تھے
کبھی ہم بھی ننگے پاؤں
فرشِ گل پہ بھاگے تھے
کبھی ہم نے بھی
تیری راہ کے کانٹے چنے تھے
جن کو اپنا سمجھ کے اپنایا تھا
انہی گلوں نے ہمیں صدا ستایا تھا
آنکھوں کی پُتلیوں کی سرخی یہ بتاتی ہے صنم
آنکھیں نہیں تُ
و نے تو خواب ہی نوچ ڈالےتھے
سادگی میں بھی حسن کے جلوؤں کی بات کرتے تھے
کچھ لہجے بڑے بے صبر لگتے تھے
اشجار کے سائے تلے رہنے والے
اکثر بے گھر ہی رہتے تھے
جن نشیمنوں کے دیے چرا لیے جاتے ہیں
وہ گھر اکثر بے گھر ہی رہتے ہیں
اور
ہم تو چپ چاپ
خاموشی سے چلے تھے تیرے سنگ
تجھے سب نظر آئے چلتے ہوئے
نہیں آئے تو ہم نظر نہیں آئے
بے سبب روٹحنا بھی رشتوں کو بگاڑ دیتا ہے
اگر ایک جھک جائے
تو دوسرا بھی ہاتھ بڑھا نے کے لیے آئے
ہم نے خوابوں کو تسبیح کی طرح
دانوں میں پرویا تھا صنم
اور تم نے تو
ایک ہی جھٹکے میں دھاگا کھینچ ڈالا
جنہیں نبھانے کا ہنر آتا ہے
وہ لوگ اکثر
بھیگی پلکیں سجائے
سرخ آنکھیں لیے پھرتےہیں
تیرگی کی تشنگی سے واقف نہیں ہے جو
وہ زندگی میں اکثر
ہر جام بے نام پی جاتا ہے
کبھی ہم نے بھی خواب دیکھے تھے
کبھی ہم نے بھی کچھ اپنے بنائے تھے
شاعری
حناء شاہد
٭٭٭٭٭٭٭
کبھی ہم نے بھی خواب دیکھے تھے کبھی ہم نے بھی کچھ اپنے بنائے تھے
Kabhi hum n bhi Khawab dekhy thy
کبھی ہم نے بھی خواب دیکھے تھے
کبھی ہم نے بھی کچھ اپنے بنائے تھے