رومینٹک ناول
Khumarey Jaan novel by HINA SHAHID episode 4
خمارِ جاں
از
حناء شاہد
قسط نمبر 4۔۔۔۔۔!!!
“خضر ابھی تک آیا نہیں آفس سے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ابی نے فکرمندی سے پوچھا تو پاس ہی بیٹھی ثمن بیگم نے چائے کا کپ ہونٹوں کے ساتھ لگایا اور ایک سِپ لیتے ہوئے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔
“وہ صبح بول کر گیا تھا رات کو دیر سے آؤں گا۔”
“ہممم۔۔۔۔۔۔۔۔۔! تو آپ نے اسے اس کے نکاح والی بات سے باخبر کر دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انہوں نے استفہامیہ انداز سے پوچھا تو ثمن بیگم نے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا اور ابی کی طرف دیکھنے لگیں۔ ابی نے بھی ان کے اس انداز کا بغور جائزہ لیا لیکن ان کے جواب کے انتظار میں خاموش بیٹھے رہے۔
“جی ہاں ! ابھی صبح اسی بات پر وہ کافی خفا بھی ہوئے ہیں ہم سے کہ کیسے ہم ان کی اجازت کے بغیر ان کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ کر سکتے ہیں۔”
ثمن بیگم نے استفسار کیا تو ابی نے ان کے لہجے میں چھپی فکرمندی کو خوب بھانپ لیا اور تحمل مزاجی کے ساتھ ان کی بات کا جواب دیا۔
“دیکھیے ! میرا فیصلہ حتمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔! اور آپ اس بات کو بخوبی جانتی ہیں کہ آج تک ہم نے جو بھی فیصلہ کیا ہے اس میں ہمارے بچوں اور خاندان کی ہمیشہ بہتری ہی ہوتی ہے۔ افتخار صاحب میرے بہت اچھے دوست کے جاننے والے ہیں۔ آپ کیا سمجھتی ہیں میں نے اپنے شہزادوں سے بھی زیادہ لاڈلے بیٹے کے لیے کوئی ایسی ویسی لڑکی دیکھی ہو گی۔ مرجان بلاشبہ میرے خضر کے شایانِ شان لڑکی ہے اور خوبصورت ، خاندانی اور رکھ رکھاؤ میں کسی سے بھی کم نہیں ہے اور تو اور گاؤں میں رہنے کے باوجود وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب ہے۔ میں نے خود دو سے تین بار اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے وہ بے شک ہمارے خضر کی دلہن بننے کے لائق ہے۔ “
ابی پُراعتماد انداز کے ساتھ بڑے جوش و خروش کے ساتھ مرجان کی خوبیوں کے پُل باندھ رہے تھے۔ اور ثمن بیگم سنجیدگی کے ساتھ ان کی ہر بات سن بھی رہی تھیں۔ پھر وہ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد بولیں۔
“وہ سب میں بھی جانتی ہوں ابی! لیکن اگر ہمارا خضر ہی ہمارے اس فیصلے سے خوش نہ ہوا تو پھر ایسے ہی کسی لڑکی کی زندگی خراب کرنے سے ہمیں کون سا ثواب ملنا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ بہت دور کی سوچتے ہوئے ابی سے سوال کر رہی تھیں۔ ابی کی شخصیت کی سب سے بڑی خاصیت یہ تھی کہ وہ بارعب شخصیت کے مالک ضرور تھے لیکن ہر معاملے میں تحمل مزاجی کا دامن تھامتے ہوئے اس مسئلے کا بخوبی حل نکالتے اور ہمیشہ مثبت انداز میں سوچتے ۔
“مجھے پورا یقین ہے کہ مرجان ایک نا ایک دن اپنی ساری خوبیوں کے ساتھ ہمارے خضر کا دل جیت بھی لے گی اور زمانے میں اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلے گی۔ اور ایک بات آپ ہمیشہ یاد رکھیے گا آپ کا یہی لاڈلہ خضر ایک دن مرجان کی محبت میں مبتلا ہو کر آپ سے خود بولے گا کہ آپ نے اور ابی نے میری زندگی کا بالکل صحیح فیصلہ لیا تھا۔ میں بہت خوش ہوں۔”
ابی نے مسکرا کر کہا تو ثمن بیگم کے منہ سے بلا ساختہ آمین نکلا۔
“آمین۔۔۔۔۔۔۔۔۔! انشاء اللہ۔۔۔۔۔! ایسا ہی ہو گا۔”
پھر وہ دھیمے سے مسکرائیں اور مسکراتے ہوئے بولیں۔
“ویسے ابی ! یہ بات بالکل سچ ہے مرجان ہے بہت پیاری بچی، جب میں نے اس کو پہلی بار دیکھا تو دل کیا اس گڑیا کو ابھی اپنے ساتھ لے جاؤں ۔”
وہ خوشدلی کے ساتھ بول رہی تھیں تو ابی بھی جھٹ سے بول پڑے۔
“ہاں ! آپ نے صحیح کہا ہے بلاشبہ مرجان بہت پیاری بچی ہے۔ اسے تو دیکھتے ہی اس بچی پہ پیار آنے لگتا ہے۔ آپ دیکھنا جس دن خضر اس کو پہلی بار دیکھے گا اس کا دیوانہ ہو جائے گا وہ بھی۔ آگے پیچھے پھرے گا اس کے آپ ابھی سے لکھوا لیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”وہ خوش ہوتے ہوئے پر امید انداز کے ساتھ انہیں ایک بہت اچھے اور خوشیوں بھرے مستقبل کی نوید سنا رہے تھے تو ثمن بیگم کی بھی ساری پریشانی اڑن چھو ہو گئی۔
“انشاء اللہ! ایسا ہی ہو گا ابی۔۔۔۔۔۔۔! آپ کی باتوں نے تو میری ساری پریشانی دور کر دی ہے۔”
ابی کی باتوں سے انہیں کچھ تسلی ہوئی تو وہ ٹینشن فری ہو گئی تھیں۔
“اچھا ! یہ سب تو بعد کی باتیں ہیں مجھے ابھی صرف یہ بتائیے کہ آپ نے نکاح کی تیاریاں کر لی ہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”ابی کے سوال پر وہ یکدم ہی چونک گئیں۔ اور افسردگی سے بولیں۔
“نہیں ! ابی ! میرے تو ذہن میں ہی نہیں رہا کہ پرسوں نکاح ہے اور میں دلہن کے لیے کوئی جوڑا ہی خرید لوں۔”ان کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی شادی بڑی دھوم دھام سے کریں اور ہر ماں کی طرح انہوں نے بھی اپنے بیٹے کی شادی کو لے کر بےحد ارمان سجائے تھے۔ لیکن پھر اچانک سے ہونے والے رشتے اور پھر افتخار صاحب کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیشِ نظر ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے وہ خواہش تو ادھوری رہ گئی لیکن اس سب میں ثمن بیگم یہ بھی بھول گئی تھیں کہ بیشک نکاح سادگی کے ساتھ ہو رہا تھا لیکن اس سب کے باوجود انہیں مرجان کے لیے کچھ شاپنگ تو کرنی چاہئیے تاکہ جب وہ رخصت ہو کر آئے تو اسے کچھ بھی عجیب محسوس نہ ہو اسے یہی لگے کہ وہ اپنے ہی گھر میں ہے۔ ثمن بیگم نہایت ہی نفیس طبیعت کی مالک تھیں۔ خوش رہنے والی اور سب کو خوش رکھنے والی ، احساس کرنے والی خوبصورت دل کی مالک خاتون تھیں وہ۔۔۔۔۔۔۔! خاندان بھر میں ہر کوئی ان کی تعریف کرتا ہر کسی کو بس یہی آرزو تھی کہ ثمن بیگم نے خاوند کی وفات کے بعد ابی کا اور ان کے گھر کا اچھے سے خیال رکھا اور پھر اس خاندان کے اکلوتے وارث خضر بیگ کی تربیت اس خاندان کی روایات کے مطابق کی کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھتا اور یقیناً سب کی خواہش تھی کہ خضر بیگ کے ساتھ رشتہ جوڑ کر اس خاندان کے رکھ رکھاؤ اور عزت سے مستفید ہوا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ ابی نے بروقت سب کی نظروں میں آئے بغیر خضر کے لیے بہت ہی مناسب لوگوں کا انتخاب کیا۔ سادگی جن کی ذات کا خاصہ تھی۔ لالچ، حرص اور ہوس سے عاری سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے والے افتخار صاحب نے اپنی بیٹی کو بھی انہی خصوصیات سے نوازا تھا۔
“چلیں ! کوئی بات نہیں کل لازمی کچھ نا کچھ شاپنگ کر لیجئیے گا ۔ اور پھر جب مرجان آ جائے گی تو بیشک ہر چیز اس کی پسند سے ہی لے آئیے گا۔ آخرکار وہ نوید بیگ کے خاندان کا ایک فرد بننے جارہی ہے تو سب کچھ اس کی حیثیت کے شایانِ شان ہی ہونا چاہئیے”“آپ فکر ہی نہ کریں ابی! میں اپنی بہو کے شایانِ شان ہی سب چیزیں لے کر آؤں گی۔”
ثمن بیگم نے خوشدلی کے ساتھ کہا تو ابی کو بھی تسلی ہو گئی اور وہ ان کی بات سن کر مسکرانے لگے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے تیرے ہونٹوں کے سراب
دشتِ تنہائی میں دوری کے خس و خاک تلے
کھل رہے ہیں تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اٹھ رہی ہے کہیں قربت سے تیری سانس کی آنچ
اپنی خوشبو میں سلگتی ہوئی مدھم مدھم
دور افق پار چمکتی ہوئی قطرہ قطرہ
اس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح ِ فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
“سوری بھائی! آپ پلیز اسے معاف کر دیں یہ بچی ہے اور فضول میں ایسی حرکتیں کرتی ہے۔پلیز! آپ اس کو معاف کر دیں۔”
اچانک سے مدھم گھبرائی ہوئی آواز اس کی سماعتوں میں رس گھولنے لگی تو کچھ یاد آنے پر وہ زیرِ لب مسکرایا۔ خضر اس وقت کانفرنس روم میں اکیلا بیٹھا تھا اور میز پر بکھری فائلوں کے جھرمٹ میں کھویا ہوا تھا جب اس کے ذہن میں ایک عکس ابھرا اور وہ نا چاہتے ہوئے بھی ان لمحات کی یادوں میں کھو گیا۔ جب وہ معصوم چھوٹی سی نازک سی گڑیا بنا کسی غلطی کے گھبرائے لب و لہجے کے ساتھ اپنی دوست یا بہن کے بچپنے پر خود کو اور اسے تماشے سے بچاتے ہوئے معذرت کر رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ اپنی چادر کے پلو کے ساتھ اپنا منہ ڈھانپنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔ سوائے اس کی بلوری آنکھوں کے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ گہری کاجل کی دھار سے مزین اس کی بلوری آنکھیں خضر کے دل میں کہیں جا بیٹھی تھیں۔ سیاہ پلکوں کی کانپتی جھالر نے خضر کے وجود کو اپنے حصار میں لے لیا تھا۔ خضر کے دل میں ایک خواہش ابھری اور وہ زیرِ لب دھیمے سے بولا۔
“اے کاش! اس کے چہرے سے چادر سرکتی اور میں اس گڑیا کا دیدار بھی کر لیتا جو نا چاہتے ہوئے بھی میرے دل میں کہیں سما گئی ہے۔”
اس نے حسرت سے کہا اور بال پوائینٹ میز پر بکھرے کاغذوں پر رکھ دی۔ پھر چئیر کے ساتھ ٹیک لگائے خلاؤں میں نظر نہ آنے والی شے کو مسلسل گھورنے لگا۔
“جس کی آنکھیں اس قدر حسین ہیں وہ خود بھی کس قدر حسین ہو سکتی ہے۔”
اس نے خود سے خود ہی سوال کیا اور لمبی سانس کھینچتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کر گیا وہ کچھ لمحے اسی کے خیالوں کے حصار میں رہنا چاہتا تھا۔ اس کے من میں کہیں خواہش ابھری کہ کاش ! وہ اسے جی بھر کے دیکھ سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ابا ! طبیعت کیسی ہے آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
مرجان نے فکرمندی سے پوچھا۔ افتخار صاحب کو پچھلے دس منٹ سے مسلسل سانس لینے میں دشواری محسوس ہو رہی تھی۔ وہ انہیلر بھی استعمال کر چکے تھے مگر دائیں جانب سینے میں ہلکا سا درد بھی ہو رہا تھا اور ساتھ ساتھ وہ لمبے لمبے سانس بھی کھینچ رہے تھے۔ مرجان ان کے پاس کھڑی ان کی پشت تھپتھپا رہی تھی۔
“چھوڑ دو۔۔۔۔۔ میری جان۔۔۔۔۔۔۔! اب میں ٹھیک ہوں۔”
افتخار صاحب نے بمشکل مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اس کا نازنیں ہاتھ تھامتے ہوئے کہا اور اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ وہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتی تھی۔ اور یہ بات حقیقت بھی ہے کہ بیٹیوں کو ہمیشہ اپنے باپ سے زیادہ اانسیت ہوتی ہے۔
“میں ٹھیک ہوں اب۔۔۔۔۔! پریشان نہیں ہو میری جان۔۔۔۔۔۔۔!”انہوں نے اس کا ہاتھ سہلاتے ہوئے اسے تسلی دینی چاہی تو اس نے بے ساختہ افتخار صاحب کا ہاتھ پکڑا اور لبوں سے لگا کر چومنے لگی۔ اس کی بلوری آنکھوں میں نمی تھی۔ افتخار صاحب سے ان کی گڑیا کی پریشانی اور نم آنکھیں کہاں چھپ سکتی تھیں۔
“پریشان نہیں ہو میری جان۔۔۔۔۔! ایک نا ایک دن سب نے یہاں سے چلے جانا ہے۔”
ابھی صرف اتنا ہی کہنا تھا کہ مرجان نے اپنا ہاتھ افتخار صاحب کے لبوں پر دھر دیا اور روہانسی ہوتے ہوئے بولیں۔
“ابا! ایسا نہ کہیں۔۔۔۔۔۔اللہ آپ کو میری عمر بھی دے دے۔”
“اچھا! چھوڑو یہ ساری باتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ایک بات کا سچ سچ جواب چاہئیے۔”
انہوں نے بیڈ کراؤن کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ کہا تو مرجان نے نظر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بولی۔
“جی پوچھیں ابا۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
“تمہیں اس نکاح سے کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اچانک سے پوچھے گئے اس سوال سے وہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اور پھر کچھ سوچتے ہوئے قدرے توقف سے بولی۔
“ابا! آپ نے میرے لیے جو بھی فیصلہ لیا ہو گا وہ صحیح ہو گا۔ اگر آپ کی مرضی یہی ہے تو مجھے اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
نامعلوم کہاں سے اتنا حوصلہ اکٹھا کر کے وہ بول پائی تھی۔ وہ یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اس کے ابا کے پاس وقت کم رہ گیا تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق ان کا دل صرف 20 پرسنٹ ورک کر رہا تھا۔ اور ڈاکڑتز نے سختی کے ساتھ ہدایات کی تھیں کہ انہیں کسی بھی قسم کے سٹریس سے دور رکھا جائے ۔ ان کی کسی بھی کو رد نہ کیا جائے ۔ جتنا ہو سکے انہیں خوشی دینے کی کوشش کی جائے ۔ اور اسی لیے اس نے اپنے باپ کے فیصلے کو اپنی قسمت سمجھتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ دل سے نہ سہی مگر اس نے اپنے باپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس نکاح کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار بھی کر لیا تھا۔ وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اپنی رضامندی ظاہر کر چکی تھی اور افتخار صاحب اپنی بیٹی کی رضا مندی جان کر بے حد خوش ہو گئے تھے۔
“اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے تم اسی طرح ہنستی مسکراتی رہو اور اپنے گھر پر راج کرو۔”
وہ دل ہی دل میں اسے دعائیں دے رہے تھے ۔ پھر انہوں نے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اس کے سر پر دھرا ۔ تو اس نے بھی اپنے باپ کے چہرے پر بکھری خوشی کی بہار دیکھ کر اس کا دل بھی کہیں نہ کہیں مطمئن ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے
www.hinashahidofficial.com