رومینٹک ناول

Khumarey Jaan by HINA SHAHID epi 2

 

مکمل ناول ؛

خمارِ جاں

از

حناء شاہد

 

 

 

 

مکمل ناول

خمارِ جاں

از

حناء شاہد

قسط نمبر 2:

“کیا ہوا ہے؟ منہ کیوں پھلائے بیٹھی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے فکر مندی سے پوچھا تو مرجان اپنے لمبے سیاہ بالوں کی چوٹی پیچھے کرتے ہوئے معصومانہ انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

“پتہ نہیں رمشا! کیا مسئلہ ہے۔ میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔مجھے لگ رہا ہے اب کچھ بھی صحیح نہیں ہونے والا میرے ساتھ۔ سب کچھ الٹا پلٹا ہو جائے گا اب۔۔۔۔۔۔۔!”

اس نے اپنی پلکیں جھکا لیں مگر رمشا نے اس ایک ہی پل میں اس کی آنکھوں میں تیرتی نمی کو دیکھ لیا تھا۔ اس کی گوری رنگت پہ ٹماٹر جیسے سرخ گال مزید دہکنے لگے تھے۔ پلکوں کی گہری جھالر ایک تواتر سے کانپ رہی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے آنسوؤں کو روک نہ پائی۔ اور کچھ موتی اس کے رخساروں پہ پھسل گئے۔

“کیا مطلب ہے؟ مجھے تفصیل سے بتاؤ کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا اس کی حالت اور چہرے کی بدلتی رنگت دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔ وہ اس کے قریب صوفے پر بیٹھ گئی۔ اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے سہلانے لگی۔

“میرا دل مطمئن نہیں ہے رمشا ۔۔۔۔۔۔۔! ابا کی طبیعت اتنی خراب ہے اور اوپر سے ابا نے اپنی حالت کی پروا کیے بغیر اتنی جلدی میری شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔”

مرجان نے اپنے آنسو پونچھے اور پریشان کن انداز میں اپنے دل کا حال بتانے لگی۔

“مرجان! میری جان! پریشان نہ ہو تم! اللہ تعالیٰ نے جو تمہارے حق میں فیصلہ کیا ہے اس میں ہی تمہاری بہتری ہو گی۔ اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ جو کرتا ہے اس میں ہی ہماری بہتری ہوتی ہے۔”

وہ اس کا ہاتھ تھامے اسے تسلی دے رہی تھی۔ جبکہ مرجان خاموشی سے نگاہیں جھکائے بیٹھی تھی۔

زندگی نے اچانک سے ایک ایسا رخ موڑا تھا۔ جس پر وہ کوئی ردِ عمل ظاہر ہی نہ کر پائی تھی۔ جمعے کی شام کو اس کا نکاح تھا۔ ایک ایسے انجانے انسان کے ساتھ جسے کبھی اس نے دیکھا نہیں تھا۔ ایسے انسان کی منکوحہ بننے کا اور اس کے ساتھ اپنی پوری زندگی گزارنے کا خیال اسے پریشان کر رہا تھا۔ کہ وہ کیسے تین دن بعد اپنی زندگی کی اتنی بڑی تندیلی کو کیسے قبول کر پائے گی۔ کسی دوسرے انسان کے مطابق زندگی گزارنا ، اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر کسی دوسرے کی خواہش کا خیال رکھنا یہ واقعی ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ اور وہ اس وقت ابا کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے ذہنی طور پر بالکل بھی اس نکاح کے لیے تیار نہیں تھی۔ رمشا اس کی خالہ زاد اور بچپن کی سہیلی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ہر بات شئیر کرتیں۔ ان کی کوئی بھی بات ایک دوسرے سے پوشیدہ نہیں تھی۔

مرجان کے ابا کی حالت ایسی نہیں تھی کہ کوئی بھی ان کے فیصلے کے خلاف آواز اٹھاتا، اسی لیے مرجان نے خاموشی کے ساتھ اپنے ابا کے فیصلے کے سامنے سر تسلیمِ خم کر دیا تھا۔

 

 

 

مرجان افتخار صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی۔ مرجان کی والدہ کا انتقال تین ماہ پہلے ہی ہوا تھا۔ ابھی وہ ماں کے غم سے ہی باہر نہیں آئی تھی کہ افتخار صاحب کی شدید علالت نے اسے مزید نڈھال کر دیا تھا ۔ ان تمام حالات میں افتخار صاحب نے اپنے دوست کے کہنے پر جو مرجان کے خالو بھی تھے مرجان کا رشتہ پکا کر دیا۔ مرجان نے بھی بلا چوں چرا کیے اپنے ابا کے فیصلے کو تسلیم کر لیا۔ لیکن اس کے چہرے پر خوشی کو کوئی رمق نظر نہیں آ رہی تھی۔ وہ اپنی شادی سے زیادہ اپنے ابا کی وجہ سے فکر مند تھی۔ لیکن رمشا نے اسے سمجھایا تو وہ اپنے دل کا حال بیان کر کے کسی حد تک خود کو ہلکا محسوس کر رہی تھی۔

                                ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

“اوکے گائیز! ہوپ سو یہ ڈیلیگیشن ہماری پرفارمنس کی وجہ سے ضرور ہمارے ساتھ ہی ڈیل فائنل کرے گا۔”

عاشر نے پر اعتماد انداز میں کہا تو کانفرنس روم میں موجود سب لوگوں نے اس کی حوصلہ افزائی کے لیےاس کے لیے تالیاں بجائیں۔سب لوگ آج کی میٹنگ کی وجہ سے بہت خوش تھے۔ عاشر، خضر اور ریحان سب نے مل کر اس پراجیکٹ پر دن رات محنت کی تھی۔ اور انڈونیشیاء سے ایک کمپنی ان کے اس پراجیکٹ میں انویسٹمنٹ کرنے کے لیے دس دن بعد پاکستان آ رہی تھی۔ لیکن آج سب نے محسوس کیا تھا کہ خضر آج میٹنگ میں آؤٹ آف مائنڈ بیٹھا تھا۔ پچھلے دو گھنٹے سے جاری اس میٹنگ میں سب نے کسی نہ کسی پوائنٹ پر اپنی رائے دی تھی۔ لیکن خضر خاموش بیٹھا تھا، ٹیبل پر پڑی فائل کو گھورنے میں مصروف تھا۔ میٹنگ کب کی ختم ہو چکی تھی۔ اور تمام لوگ باری باری اپنی فائلز اٹھائے کانفرنس روم سے باہر آ چکے تھے۔ اور اپنے اپنے کیبنز میں بیٹھ کر کام میں مشغول ہو گئے۔ لیکن خضر ابھی بھی کانفرنس روم میں بیٹھا تھا۔ جب عاشر نے اس سے اس کے اس الجھاؤ کی وجہ پوچھی۔

“مسٹر خضر! خیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

عاشر کا انداز استہزائیہ تھا۔ خضر نے ہاتھ میں پکڑا بال پوائنٹ غصے سے اچھالا۔تو اس کے اس عمل پر عاشر یکدم ہی چونک گیا۔ اس نے آج تک خضر کو اس حد تک غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں انگارے دہکا رہی تھیں۔ لیکن وہ خاموش بت بنا بیٹھا تھا۔ عاشر نے اپنے سانس بحال کیے اور انگارے اگلتی چٹان کے روبرو کھڑے ہو کر اس سے اس افتاد کی وجہ پوچھی۔ تو خضر نے بھی ایک نظرِ غلط اس پر ڈالی۔اور قہر آلود نگاہوں سے اسے گھورا ۔ عاشر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ لیکن پھر بھی ہمت جمع کرتے ہوئے بولا۔

“بھئی کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ کیوں انگاروں پر بیٹھے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

عاشر نے استفہامیہ انداز اپنایا اور دونوں بازو باندھ کر کھڑا ہو گیا۔

“پتہ نہیں یار! ابی کو بھی پتہ نہیں کیا سوجی ہے۔ جو گاؤں کی جاہل گنوار لڑکی کے ساتھ میری بات پکی کر دی اور تو اور اس جمعے کو میرا نکاح بھی ہے۔”

اب کے خضر کے لہجے میں ناامیدی اور بیزاریت تھی۔ وہ حالات سے ہار بیٹھا تھا۔ اس کی بات سن کر تو عاشر کے حواس ہی باختہ ہو گئے۔ کیونکہ اس نے بچپن ہی سے خضر کی نہایت دھوم دھام کے ساتھ شادی کے خواب دیکھے تھے۔ اور اب یوں اچانک خضر کی شادی کی خبر اس پر کسی بم کی طرح گری۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ لیکن پھر وہ ایک زوردار قہقہہ لگا کر ہنسا۔ پیٹ پہ ہاتھ رکھے وہ بے ساختہ ہنسی جا رہا تھا۔

“تو اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ایک تو استہزائیہ انداز میں ہنسنا اور پھر خضر کی شادی کی بات کو اس قدر لائٹ لینا عاشر کا یہ انداز خضر کو ایک آنکھ نہ بھایا اس نے غصے سے فائل اٹھا کر عاشر کی طرف اچھالی۔ وہ تو عاشر کی قسمت اچھی تھی کہ وہ بال بال بچ گیا۔

“ارے۔۔۔۔۔۔۔! ارے۔۔۔۔۔۔۔! کیا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟ بچے کی جان لو گے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”عاشر نے سنجیدگی کی ایکٹنگ کی تو خضر کا پارہ مزید ہائی ہو گیا۔

“اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔۔۔۔! ادھر تیرے دوست کی زندگی اس گنوار لڑکی کے پلو سے باندھی جا رہی ہے اور ادھر تو میری حالتِ زار پہ ہنس رہا ہے۔تو دوست کے روپ میں دشمن ہے عاشر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! دشمن ہے تو۔۔۔۔۔۔۔!”

خضر دونوں بازو میز پہ ٹکائے گرجدار انداز میں بولا تو عاشر نے معصومانہ شکل بنائی اور میز پر ہاتھ رکھتے ہوئے تھوڑا نیچے کو جھکا اور پھر مسکرا کر بولا۔

“ہنسوں نہیں تو اور کیا تمہاری طرح چیخوں چلاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ اب تو ہی بتا اگر ابی نے تیرے حق میں کوئی فیصلہ کیا ہو گا تو کیا وہ غلط ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ مجھے نہیں لگتا کہ وہ ایسے ہی کسی لڑکی کو تیرے پلو سے باندھ دیں گے ۔ تیری عادات سے ، تیری طرزِ زندگی سے وہ بخوی واقف ہیں۔ میں یہ بات قطعی ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ وہ کبھی بھی تمہارے لیے کوئی غلط فیصلہ کریں گے۔ سو پلیز! تم بھی کول ڈاؤن ہو جاؤ اور اپنی اس جلدی میں ہونے والی شادی کو انجوائے کرو یار! جَسٹ چِل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

وہ مسکراتے ہوئے اسے کول ڈاؤن رہنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ لیکن خضر کا پارہ بہت ہائی تھا۔ بحرحال عاشر کی بات سن کر وہ خاموش ہو گیا اور شادی نام کا کڑوا گھونٹ پینے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنے لگا۔ اور عاشر وہ اس کی خاموشی کو دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔

                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(جاری ہے)

انشاءاللہ۔۔۔۔!!!

www.hinashahidofficial.com

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

One Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button