رومینٹک ناول
Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 12
خمارِ جاں از حناء شاہد
قسط نمبر 12
“چلو آج کہیں باہر آؤٹنگ پہ چلتے ہیں۔”
انہوں نے خوشگوار موڈ میں کہا تو اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔“کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
جہاں تم بولو۔۔۔۔۔۔۔!”
لہجے میں بے انتہاء محبت تھی۔
“لیکن ! میں تو گھر میں ہی آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔”
وہ منہ نیچے کیے بچوں کی طرح لاڈ کر رہی تھی۔
“چلو ٹھیک ہے جیسے میری گڑیا کی خوشی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
انہوں نے اس کے سر پہ دستِ شفقت رکھا تو وہ ان کی مشفقانہ نظروں میں جھانکنے لگی۔
“بابا! میں جو بھی کہوں گی آپ وہی کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انداز استفہامیہ تھا۔
“ہاں ! میری گڑیا کی خوشی جس بات میں ہو گی میں وہی کام کروں گا۔”
اس کی آنکھوں سے ایک موتی چھلکا وہ اپنے روم میں قالین پہ بیٹھی تھی اسے بابا کی یاد آ رہی تھی۔ خضر کے الفاظ اس کی سماعتوں میں گونجے۔
“یہ شادی صرف ایک سمجھوتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔! صرف ایک سمجھوتہ۔۔۔۔۔۔۔!”
اسے وہ رات یاد آئی جب وہ خضر کی زندگی میں شامل ہو کر اس کے گھر میں اس کے برابر حیثیت رکھتے ہوئے اس کے کمرے میں آئی۔ اسے یہ کہہ کر اس کمرے میں بٹھایا گیا کہ یہ اس کا کمرہ ہے۔ وہ خضر کی زوجہ کی حیثیت سے اس گھر میں اور روم میں رہے گی۔ لیکن اسی رات اس پہ یہ حقیقت بھی افشاں ہوئی کہ یہ نکاح اس کی لائف میں ایک سمجھوتےکے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
“آپ کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر عام لڑکیوں کی طرح حسین خواب مت سجائیے گا۔”
عاشر کے لہجے کی درشتی اس کے منہ میں کڑواہٹ بڑھ گئی۔
“میری زندگی میں ہر چیز میری مرضی سے کرنے والے میرے بابا آج مجھے ایک ایسے رشتے اور ایک ایسے شخص کے ساتھ باندھ کر رخصت ہو گئے ہیں جس کی حیثیت میں میرا کوئی مقام ہی نہیں ہے۔”
اس کی آنکھیں نم تھیں۔ اسے نہیں سمجھ آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور کیا نہیں۔ اسی اثناء میں ڈور اوپن ہوا اور کوئی تیزی سے اس کے سامنے آیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ہائے ! ایوری ون۔۔۔۔۔۔۔!!!”
سارہ کیبنز ایریا میں خوشگوار موڈ میں داخل ہوئی تو عاشر نے بڑی سرعت کے ساتھ فائلز کو ایک سائیڈپہ رکھتے ہوئے اس کی آواز کے تعاقب میں اپنی نظریں فوراً سے اس کے وجود پہ ٹکائیں۔ بلیو جینز کے ساتھ ہالف سلیوز لائننگ شرٹ پہ ہمیشہ کی طرح ایک چھوٹا سا شفون کا دوپٹہ مفلر کی طرح گلے کے گرد لپیٹے وہ گولڈن براؤن بال شانوں پہ پھیلائے ایٹریکٹو لگ رہی تھی۔
“او ہائے۔۔۔۔۔۔!!!”
عاشر بے اختیار بولا۔
“ہیلو! ہاؤ آر یو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اپنے قریب آتی سارہ کو خوشگوار موڈ میں دیکھتے ہی عاشر نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور پوچھا۔
“ایم فائن ۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ چہرے پہ تبسم سجائے بولی
“اوہ! گڈ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ دھیمے سے سر جھکائے کچھ سوچنے لگا۔
“خیر ہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! کل تو اجڑے گلستاں کی مانند یہاں سے نکلی تھی اور ابھی صبح صبح ایسے ہنستے مسکراتے خوشگوار موڈ میں آ رہی ہے۔ لگتا ہے سر پہ کوئی چوٹ لگی ہو گی رات میں۔ یا پھر۔۔۔۔۔۔۔!!!
“خضر آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اچانک سے سارہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تو وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔
“ہاں ! آ گیا ہے وہ کانفرنس روم میں میٹنگ کی تیاری کر رہا ہے۔”
اپنے جیل سے سیٹ بالوں کو ہاتھ سے مزید سیٹ کرتے ہوئے وہ سنجیدہ انداز میں ایکٹننگ کرتے ہوئے بولا تو سارہ نے خشمگیں نظروں سے اس کی حالت کا جائزہ لیا۔
“خیر ہے عاشر۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کے انداز پہ عاشر کھٹکا۔ اور وہ جو سارہ کے ساتھ ہولے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے کانفرنس روم کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سائیڈ پہ مرر وال تھی وہ اچانک سے رکا اور مرر وال میں خود کا جائزہ لینے لگا۔
“کیوں؟ “
اس نے چہرے کو چھوا اور سارہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
“مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
دوبارہ سے مرر وال میں دیکھتے ہوئے وہ سارہ سے سوال کر رہا تھا۔
“اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ چڑ کر بولی۔
“اب کیا ہوا ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
عاشر نے دونوں ہاتھ پھیلا کر اس سے پوچھا تو وہ اس کے پاؤں پہ اپنی ایڑحی زور سے مارتے ہوئے بولی۔
“عاشر ! تمہارا دماغی توازن خراب ہو گیا ہے۔”
ہائے! میں مر گیا۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ فوراً سے تھوڑا نیچے کو جھکا اور اپنے سیاہ بوٹوں پہ ایڑھی کے پڑتے نشان دیکھ کر رونے والی شکل بنا کر بولا۔جبکہ وہ اسے وہیں روتا چھوڑ کر کانفرنس روم کی طرف بڑھ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سن لیا ہم نے فیصلہ تیرا
اور سن کر اداس ہو بیٹھے
ذہن چپ چاپ، آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے
دھندلے دھندلے سے منظروں میں مگر
چھیڑتی ہیں تجلیاں تیری
بھولی بسری ہوئی رتوں سے ادھر
یاد آئیں تسلیاں تیری
دل یہ کہتا ہے ضبط لازم ہے
ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک
اعترافِ شکست کیا کرنا
فیصلے کی گھڑی بدلنے تک
دل یہ کہتا ہے حوصلہ رکھنا
سنگ رستے سےہٹ بھی سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے
جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں
اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے
یا مناظر بجھے بجھے دیکھیں
اک طرف تُو ہے اک طرف دل ہے
دل کی مانیں کہ اب تجھے دیکھیں
دل سے بھی کشمکش سی جاری ہے
راہ میں تیرا غم بھی حائل ہے
چاک در چاک ہے قبائے حواس
بے رفو سوچ ، روح گھائل ہے
تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے
غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے
ورنہ یوں ہے کہ دامنِ دل میں
چند سانسیں ہیں گن کے جی لیں گے
“یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر بولیں۔۔۔۔۔۔۔!”
خضر کا مخمور لہجہ اس کے دل و دماغ میں گونجا۔ تو وہ اس لمحے کے سحر میں کھو سی گئی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا ۔
“مرجان! میری جان کیسی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟”
رمشا کی پرجوش آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ جو اپنے ہی حواسوں میں گم بیٹھی تھی۔ اچانک سے رمشا کی آواز سن کر وہ حیرت زدہ رہ گئی۔
” رمشا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ جوش سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور اسے کے گلے لگ گئی۔ بلوری آنکھوؐ میں جو نمی دھر آئی تھی اس میں تیزی آ گئی۔ رمشا کو اپنا شانہ قدرے بھیگا بھیگا محسوس ہوا تو فوراً سے اسے خود سے الگ کیا اور مرجان کے چہرے کا جائزہ لینے لگی۔
“مرجان ! ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ جو نظریں جھکائے آنسو بہانے کا مشغلہ ادا کر رہی تھی رمشا کے ٹوکنے پر اپنی بلوری آنکھوں پہ پہرا کرتی گہری پلکوں کی جھالر اٹھائی اور اپنے نین اس کے نینوں سے ملائے۔
“کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے فکر مندی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ دھیرے سےسر ہلائے بچوں کی طرح اپنے آنسو صاف کرتی بولی رمشا کو وہ اس وقت ایک معصوم سی بچی ہی لگی۔
“پھر رو کیوں رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ متجسس انداز میں مسلسل اسے گھور رہی تھی۔ جبکہ مرجان اس کی نظروں کی تپش سے خود کو بچاتے ہوئے صوفے پر بیٹھ گئی۔
“و۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔۔! بابا بہت یاد آ رہے ہیں مجھے۔!”
وہ چہرہ نیچے کیے تواتر سے کانپتی پلکوں کو جھکائے بولی تو رمشا کو اس پہ بہت لاڈ آیا اس نے ایک بار پھر اسے گلے سے لگا لیا۔
“انکل کیسے ہیں۔۔۔۔۔۔؟ وہ آئے نہیں ہیں کیا تمہاتے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟”
اچانک سے یاد آنے پر وہ اس سے دور ہوتے ہوئے بولی۔
“پاپا! وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ انہیں ایک کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانا تھا تو اس لیے مجھے تمہارے پاس چھوڑ گئے ہیں۔ اب میں کچھ دن ادھر ہی رہوں گی۔”
رمشا نے اسے تفصیل بتائی تو وہ خوش ہو گئی۔ لیکن اس کے چہرے پہ چھائی یہ خوشی رمشا کو مصنوعی سی لگی۔
“مرجان !”
رمشا نے دھیرے سے اس کا نام پکارا۔
“ہوں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ بھی دھیرج سے بولی۔
“تم خوش ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انداز سوالیہ تھا۔
“کس بات سے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے حیرت سے اس کی کیے گئے سوال پہ ہی سوال کر ڈالا ۔
“حد ہے مرجان۔۔۔۔۔۔!”
وہ غصے سے غرائی۔ مرجان نے اس کی طرف دیکھا جو مسلسل اسی کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“یار ! اس شادی سے ، اس گھر سے ، خضر بھائی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔! ان سب سے تم خوش ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ ایک سانس میں کتنے ہی سوال کر گئی تھی۔ مرجان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے کیا بتائے اور کیا نہیں۔ کیا رمشا جو اس کی جان سے بھی اسے زیادہ عزیز تھی اس کو بتا دے کہ خضر نے اسے اس کی حیثیت سے آگاہ کر دیا ہے۔ زبردستی تھوپے جانے والے وجود کی حیثیت ایک کونے میں پڑی ہوئی غیر ضروری چیز کے علاوہ تو کوئی نہیں ہوتی ۔ اسے نہیں سمجھ آ رہا تھا کہ آج بھی اس کو سب بتا دے یا اب چونکہ اس کی زندگی بھی بدل گئی تھی تو کیا وہ بھی بدل جائے۔ رمشا سے منہ پھیر کر اس سے اپنی زندگی کی حقیقت چھپا لے۔ اس کی آنکھوں میں بہت کچھ چل رہا تھا ۔ رمشا اس کی آنکھوں میں ہی تو جھانک رہی تھی۔ پھر اچانک سے مرجان نے نظریں جھکا لیں اور آہستگی سے بولی۔
” ہاں ! خوش ہوں۔۔۔۔۔۔!”
اس کے لہجے میں چھپی بیزاریت رمشا سے چھپ نہ سکی۔
“نہیں ! ادھر دیکھو میری طرف اور بتاؤ کہ تم خوش ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ ضد کرتے ہوئے بولی کیونکہ اسے پتہ تھا جب مرجان کسی بات میں اپنی نظریں جھکا لیتی ہے تو وہ کچھ چھپا رہی ہوتی ہے۔ اور جب مرجان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہے تو وہ سچ بول رہی ہوتی ہے۔
“میں خوش ہوں رمشا۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ الفاظ پہ زور دیتے ہوئے بولی۔
“پھر تمہارے چہرے پہ سہاگنوں والی چمک کیوں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
مرجان اس کے سوال پہ چونکی اور اس کی نظروں سے نظریں ملا کے دیکھنے لگی۔
” اگر تم خوش ہو تو اجڑا باغ کیوں بنی بیٹھی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
مرجان نے اپنے حلیے کی طرف دیکھا بغیر کسی آویزے سے خود کو سجائے بنا کوئی سنگھار کیے وہ اجڑا ہوا گلستان ہی تو بنی بیٹھی تھی۔
“بتاؤ ! مجھے مرجان۔۔۔۔۔۔۔! “
رمشا کے اصرار پر وہ اس کے ساتھ لپٹ کر رونے لگی رمشا نے اسے بازوؤں میں زور سے قید کیا اور اس کی کمر تھپکنے لگی تاکہ آج وہ اپنا سارا غم ان آنسوؤں میں بہا دے۔ وہ رو رہی تھی۔ مسلسل رو رہی تھی۔ جبکہ رمشا اس نے ایک بار بھی اسے خاموش نہیں کروایا تھا۔ کیونکہ وہ یہ جانتی تھی کہ جب دل بوجھل ہو جاتے ہیں تو انہپیں آنکھوں کے دریا ہی ہلکا کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“انڈونیشیا سے جو ٹیم آئی تھی۔ انہیں ہمارا پرپوزل بے حد پسند آیا ہے۔اور انہوں نے اپروول لیٹر ہمیں ای۔ میل کیا ہے۔”
خضر نے کانفرنس روم میں موجود تمام افراد کو ای۔ میل پڑھ کر سنائی تو سب اسے مبارکباد دینے لگ گئے۔
“مبارک ہو مسٹر خضر۔۔۔۔۔۔۔!”
عالیان نے کھڑے ہو کر اس کے ساتھ ہاتھ ملایا اور اسے اور اس کی ٹیم کو اس کامیابی پر مارکباد پیش کی۔
“تھینک یو سو مچ مسٹر عالیان۔۔۔۔۔۔!”
اس نے خوشدلی کے ساتھ ان کا شکریہ ادا کیا تو سب نے ایک ساتھ کلیپنگ کر کے اسے مبارکباد پیش کی۔
“اس کامیابی پی پارٹی تو بنتی ہے خضر۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
عاشر نے موقع پہ چوکا لگانا چاہا تو سارہ فوراً سے بولی۔
“بالکل پارٹی تو بنتی ہے سیلیبریشن کرنا بہت ضروری ہے مگر آج نہیں۔”
اس نے ایک حد تک عاشر کی بات کی حمایت کی لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے انکار بھی کر دیا۔ جس پر عاشر نے اس کو تیکھی نظروں سے گھورا۔
“یہ سارہ کبھی کبھی مجھے بلیک کیٹ لگتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! کالی بلی۔۔۔۔۔۔۔! “
وہ دل ہی دل میں جل کر اسے دیکھ رہا تھا۔
“بٹ وائے سارہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
خضر نے حیرت سے پوچھا۔
“بی کوز مسٹر خضر۔۔۔۔۔۔۔! آج میں اور ماما آپ کے گھر ڈنر پہ انوائٹڈ ہیں۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“اوہ اچھا! لیکن مام نے مجھے تو نہیں بتایا۔”وہ ثمن بیگم کی رات کی پلاننگ سے بے خبرتھا۔ اس لیے تعجب سے بولا۔
“وہ دراصل آج آپ کی نئی نویلی دلہن کی منہ دکھائی ہے تو آنٹی نے ہمیں بھی انوائٹ کیا ہے۔”
وہ جلے پہ تیل کا کام کر رہی تھی۔ خضر کے چہرے پہ چھائی مسکراہٹ ایکدم ہی غائب ہو گئی۔
“یہ کب ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
عاشر بھی بیچ میں کود پڑا اور سوالوں کا رخ خضر کی طرف کر دیا۔
خضر ۔۔۔۔۔۔! تم نے سہاگ رات ت ت ت ت ت ت ت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
عاشر کے منہ سے نکلے الفاظ خضر کی خشمگیں نظروں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اور وہ چپ کا چپ ہی رہ گیا ۔ اور اپنی بات نامکمل چھوڑ کر ہی باہر جانے لگا۔ کانفرنس روم میں سب موجود تھے اور عاشر کی بے تکی اور فضول باتیں کرنے کی عادت ہمیشہ سے ہی خضر کو بہت بری لگتی تھی لیکن پھر بھی وہ خضر کا بیسٹ فرینڈ تھا۔ خضر نے نگاہیں جھکا لیں تو سب اس کے چہرے پہ نظریں جمائے اسی کی طرف دیکھنے لگے۔ سارہ نے بھی اس کی طرف دیکھا وہ اپنے غصے پہ ضبط کیے بیٹھا تھا۔
“خضر صاحب ! آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ کی شادی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
عالیان صاحب جو اس سے سینئیر تھے اور آفس میں بھی سب سے سینئیر تھے اس کی شادی کی بات پہم وہ چونک سے گئے تو انہوں سے اس سے سوال کیا۔ خضر کو کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ اب کیسے اور کس کس کے سوالوں کے جواب دے ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا سارہ فوراً سے بولی۔
“وہ گائیز بات دراصل یہ ہے کہ خضر کی شادی ارجنٹ ہوئی تھی اور انشاء اللہ بہت جلد ایک آفیشیل پارٹی ارینج کی جائے گی جس میں مسٹر خضر اپنی وائف سمیت ہوں گے تو ظاہری سی بات ہے آپ سب لوگوں کی ان سے ملاقات ہو جائے گی۔”
سارہ کے اس پھوڑے جانے والے بم نے خضر کو مزید حیرت زدہ کر دیا خضر نے اس کی طرف دیکھا ۔
“پتہ نہیں یہ دونوں میرے دوست ہیں یا دشمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
خضر نے چڑ کر خود سے سوال کیا۔ وہ جو سب کو بہت ہی اچھے طریقے سے رخصت کرنے میں لگی تھی سب کے جانے کے بعد خضر کی طنزیہ نگاہوں کے حصار میں اس نے خود کو محسوس کیا تو ہنستی ہوئی بولی۔
“واٹ ہیپنڈ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ کیا تمہاری بیوی اس قابل بھی نہیں ہے کہ تم اسے کسی آفیشیل ڈنر میں یا پارٹی میں اپنے ساتھ لا کر کھڑا کر سکو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انداز سوالیہ تھا مگر لہجہ طنزیہ۔۔۔۔۔۔۔!
“پتہ نہیں مجھے۔۔۔۔۔۔! “
وہ اکتا کر بولا۔
“کیا پتہ نہیں ہے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ اصرار کرتے ہوئے اس سے پوچھ رہی تھی۔
“فار گاڈ سیک سارہ! مجھے سمجھ نہیں آتی تم اور عاشر میرے دوست ہو یا دشمن۔۔۔۔۔۔۔۔!”
اس نے دونوں ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے طنزیہ انداز میں سوال کیا تو سارہ نے جیرت سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔
“کیا مطلب ہے آف کورس ہم تمہارے دوست ہیں۔کیا تمہیں اب بھی ہم پہ شک ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”
“نہیں بٹ ! عاشر کی حرکت پہ مجھے بہت غصہ آ رہا ہے۔”
اس نے میز پہ زور سے ہاتھ مارا ۔
“کون سی حرکت۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
سارہ اسے کریدنے کی کوشش کر رہی تھی۔
“یہی جو سب کے سامنے سہاگ رات والی بات کرنے لگا تھا۔”
خضر کا پارہ ہائی تھا۔
“تو اس میں کیا ہے تم اب میرڈ ہو اس میں ایسی بھی کون سی کوئی بڑی بات ہے۔”
وہ رخ موڑ کر طنزیہ ہنسی چہرے پہ سجائے بولی۔
“فار گاڈ سیک یار! جس لڑکی سے میں کبھی ملا نہیں۔ اس سے بات تک نہیں کی ایک ہی رات میں کیا ہم وہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ بولتے بولتے چپ کر گیا لیکن سارہ کے سب سوالوں کے جواب اسے مل گئے۔
“تو تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
“ہاں! “
اس نے مختصر انداز میں پاچھے گئے سوال کا جواب بھی بے حد مختصر دیا سارہ کے چہرے پہ تبسم گہرا ہوا۔ پہلی فتح کی خوشی اس سے کہیں کچھ غلط نہ کروا دے ۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔
“عاشر نے بہت غلط کیا ہے میں اسے چھوڑو گا نہیں۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ غصے سے لال چہرے کے ساتھ اپنا کوٹ اٹھائے اور لیپ ٹاپ بیگ میں ڈالے زپ بند کرتے ہوئے بولا اور سارہ کی طرف دیکھے بناء کانفرنس روم سے باہر چلا گیا۔
“خضر۔۔۔۔۔۔! خضر۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ ہمدردی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کا نام پکار رہی تھی۔ جبکہ وہ سیدھا غصے میں چلتا ہی جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ سارہ کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
“اوہ مائی گاڈ! اس کا مطلب ہے کہ وہ لڑکی خضر کے دل میں جگہ ہی نہیں بنا سکی اسی لیے تو خضر نے ابھی تک اسے قبول ہی نہیں کیا۔ اور سارہ کا اپنے آپ سے وعدہ ہے کہ خضر بیگ کبھی بھی اس لڑکی کو قبول نہیں کرے گا۔”
وہ خوش ہوتے ہوئے کئی جال بُن رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسا وہ چاہے گی حاصل کر کے ہی رہے گی۔ جبکہ وہ یہ بات شاید نہیں جانتی تھی کہ ایک ذات آسمانوں کی بلندیوں پہ بیٹھی ہمیں ہماری سوچ سے بڑھ کر عطا کرتی ہے ۔ اچھا برا بھلا بد سب اس کے ایک کُن سے ہوتا ہے۔ انسان کی کیا اوقات کہ کسی کو عطا کی گئی چیز اس سے چھین سکے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چودھرائن! چودھرائن!”
احمد درانی غصے سے انہیں بلا رہے تھے اور وہ جو اپنے کمرے میں خود کو بند کیے آنسو بہانے میں مصروف تھیں احمد درانی کی آوااز سن کر چطونک سی گئیں۔ فوراً سے اپنا دوپٹہ شانے پہ رکھا اور آنسو پونچھتے ہوئے بھاگی بھاگی باہر صحن میں آئیں۔
جی سائیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
مرے ہوئے لہجے میں ادب کے ساتھ وہ بولیں تو احمد درانی نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا جہاں کچھ آنسو ابھی بھی چمک رہے تھے۔
“وجاہت کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انہوں نے سخت لہجے میں سوال کیا۔
“سائیں ! و۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔!”
زبان رک سی گئی الفاظ ادا ہی نہ ہو پائے۔
“میں نے کچھ پوچھا ہے مجھے بتائیں وجاہت کہاں ہے سارے گاؤں کا ایک ایک چپہ چھان مارا ہے مگر میرا شہزافہ کہیں نہیں ہے۔”
وہ فکرمندی سے بول رہے تھے۔ اور مکہتے کہتے پاس ہی رکھی ہوئی چارپائی پہ بیٹھ گئے۔ وجاہت کو اپنے سامنے نہ دیکھ کر وہ پریشان ہو گئے تھے۔
“وہ سائیں ! اپنی ضد پہ آ گیا ہے ۔ صبح صبح اپنا سامان لے کر شہر کی طرف نکل گیا ہے۔”
ثمرینہ نے آنسو چھلکاتے ہوئے انہیں بتایا تو وہ ایکدم ہی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
“کیا مطلب ہے چودھرائن آپ نے اسے جانے کیسے دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اسے روکا کیوں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ درشت انداز سے ان کے شانے پکڑے سوال کر رہے تھے۔ جبکہ وہ آنسو بہاتے ہوئے بولیں۔
“یہ بات سائیں آٌپ بھی جانتے ہیں وجاہت درانی جب ضد پکڑ لیتا ہے تو اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ کہہ کر گیا ہے کچھ بھی ہو جائے مرجان کو اپنے ساتھ ہی لے کر آئے گا۔ وہ بول کر گیا ہے ابا سے کہیے گا میرے پیچھے نہ آئیں میں خود واپس آ جاؤں گا۔”
احمد درانی حیرت سے ان کی ہر بات سن رہے تھے۔ اپنے خون کے جوش کا انداز تھا انہیں ۔ اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اتنی آسانی سے وجاہت خاموش نہیں ہو گا۔
“سائیں ! آپ جاءیں شہر اسے واپس لے کر آئیں۔”
وہ روتے ہوئے ضد کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ اس سے پہلے کہ احمد درانی ان کو کوئی جواب دیتے شکور دوڑتا ہوا آیا ۔
“سائیں ! سائیں!”
اس کا سانس پھولا ہوا تھا۔
“کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
احمد درانی اور ثمرینہ دونوں ہی اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئے تھے۔
“ساءیں ! وہ کھیتوں میں ایک لڑکی بے ہوش پڑی ہے سارے گاؤں والے ادھر جمع ہیں آپ بھی چلیں۔”
شکور نے پھولے سانس کے ساتھ رک رک کر انہیں بتایا تو احمد درانی اس کی بات سن کر بے حد پریشان ہو گئے ۔ اتنے سالوں میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ گاؤں میں کھیتوں میں کوئی لڑکی ایسی حالت میں ملے۔ وہ فوراً سے ثمرینہ کو چھوڑ کر چلے گئے۔
“خدا خیر کرے۔۔۔۔۔۔۔!”
بے ساختہ ثمرینہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔!!! ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
رمشا کے تو منہ سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔
“چشمِ بددور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
ثمن بیگم نے دونوں ہاتھوں سے اس کی بلائیں لیں۔ ثمن بیگم نے رمشا کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ رات کو ڈنر کے لیے مرجان کو ریڈی ہونے میں اس کی مدد کرے۔ ثمن بیگم نے وہی ٹی پنک اور وائٹ کنٹراسٹ والا ڈریس جو انہوں نے دو دن پہلے ہی اسے مارکیٹ سے لے کر دیا تھا وارڈروب میں سے نکالا تو مرجان نے ناگواریت سے رمشا کی طرف دیکھا جبکہ رمشا وہ تو جوڑا دیکھ کر بے حد خوش ہو رہی تھی اور باربار ثمن بیگم کی چوائس کی تعریف کر رہی تھی۔ اب جب مرجان وہ جوڑا پہنے بال سٹریٹ کیے ان کے سامنے ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ ریڈی کھڑی تھی تو انہیں وہ کسی سلطنت کی شہزادی لگ رہی تھی۔ وہ تو بار بار اس کا ماتھا چوم رہی تھیں۔
“ثمن آنٹی ! مجھے لگتا ہے آج تو خضر بھائی مرجان کو دیکھیں گے تو دیکھتے ہی رہ جائیں گے۔”
وہ خوش ہوتے ہوئے بولی تو اس کے اس جملے پہ مرجان نے گھور کر اس کی طرف بلوری آنکھیں کیں تو وہ اپنی ہنسی پہ قابو نہ رکھتے ہوئے مسلسل ہنسی جا رہی تھی۔
“ہاں ! آج تو میری مرجان بہت ہی پیاری لگ رہی ہے۔ خضر کیا سب ہی میری گڑیا کو دیکھتے ہی رہ جا ئیں گے۔”
ثمن بیگم بھی اس کی باتوں میں اس کا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں جبکہ ثمن بیگم کی بات سن کر مرجان شرمانے لگی۔
“شرماتے ہوئے میری گڑیا تو اور بھی پیاری لگ رہی ہے۔ صدا خوش رہو ۔ صدا سہاگن رہو۔”
ان کا حلاوت سے بھرا لہجہ اور محبت سے بھرپور نگاہیں اس کے لیے یہ دنیا بے حد حسین تھی۔ ماں کی ممتا کی کمی کہیں نہ کہیں پوری ہو رہی تھی۔ اسی اثناء میں ڈور بیل بجی ۔ تو وہ اسے رمشا کے ساتھ چھوڑ کر جانے لگی تھیں کہ رمشا فوراً سے بولی۔
“آنٹی ! آپ ادھر ہی رکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔! می دیکھ کر آتی ہوں۔”
رمشا انہی وہی مرجان کے پاس چھوڑ کر روم سے باہر آئی۔ سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ ڈور کے پا آئی اور فوراً سے ڈور اوپن کیا۔
“جی کون۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
سامنے کھڑے شخص سے سوال کرتی وہ اسے مسلسل گھور رہی تھی۔
“پہلے آپ بتائیں آپ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ الٹا سوال کر گیا۔
“ارے ارے۔۔۔۔۔! دروازے میں آپ کھڑے ہیں اور مجھ سے پوچھ رہے ہیں آپ کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ اس کی نظروں میں دیکھتے ہوئے ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی تو وہ اس کی اس ادا پہ فدا قدم آگے بڑھاتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔
“یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ جو اندر آ چکا تھا اور وہ اس کے پیچھے پیچھے تیزی سے چلتے ہوئے غصے سے بولی۔
“مجھے لگتا ہے ہم پہلے بھی کہیں مل چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”
کچھ یاد آنے پر وہ بولا۔ تو اس کا انداز رمشا کو بھی کچھ کچھ کے ساتھ بہت کچھ یاد کروا گیا۔
“اوہ اچھا! تو تم وہی بندر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”رمشا نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور طنزیہ بولی۔ جس پر وہ اس کے بالکل مقابل کھڑا ہو گیا۔
“جی مس چڑیل۔۔۔۔۔۔۔۔! میں وہی بندر ہوں۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ خود کے بندر ہونے کا اعتراف خوش مزاجی کے ساتھ کرتے کرتے جلے ہوئے پہ تیل بھی چھڑک گیا اور اس کو چڑانے کے لیے چڑیل بھی بول گیا۔ جس سے رمشا کجا غصہ مزید ہائی ہو گیا۔
“تم نے مجھے پھر سے چڑیل بولا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ غصے سے غرائی۔
“چڑیل کو چڑیل نہیں بولوں گا تو اور کیا حسینہ بولوں گا۔”
وہ اسے مزید غصہ دلا رہا تھا۔
“میں تمہارا خون پی جاؤں گی۔”
وہ اس کو انگلیوں کے ناخن دکھاتے ہوئے اس کی طرف تیزی سے بڑھی۔
“ہاں ! لیکن پہلے اپنے ہونٹوں کا ذائقہ چکھاؤ۔۔۔۔۔۔! اگر مسٹر عاشر کو پسند آیا تو ضرور تمہیں اپنا خون پلانے کا اعزاز بخشیں گے ہم۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے اس کے غصے میں مزید اضافہ کر گیا تھا۔ وہ جو بڑی تیزی کے ساتھ اس کی جانب قدم بڑھا رہی تھی اس کی بات سن کر ایکدم ہی رک سی گئی۔ اور خون آلود نگاہوں سے اس کو سر تا پاؤں دیکھتے ہوئے بولی۔
“میں بندروں کا خون نہیں پیتی۔۔۔۔۔۔۔!”
انداز تحمل آمیز تھا عاشر کی ہنسی چھوٹنے لگی تھی لیکن ابھی وہ مزید مزا لینا چاہتا تھا۔
“اچھا ! تو آپ صرف خون ہی پیتی ہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انداز تمسخرانہ تھا۔
“شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ زور سے چلائی۔
“کیا ہو گیا ہے رمشا! کون آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ثمن بیگم جو لاؤنج سے آنے والے شور کو سن کر نیچے آ رہی تھیں سیڑھیاں اترتے ہوئے انہوں نے اسے آواز لگائی۔
“تو حسینہ کا نام رمشا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے اس کے سراپے پہ نظریں ٹکائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
“پتہ نہیں آنٹی یہ موصوف کون ہیں۔۔۔۔۔۔! بلا اجازت ہی گھر میں گھس آئے ہیں۔”
وہ اس کی باتوں سے اور اس کی موجودگی سے تپ کر بولی اتنے میں ثمن بیگم سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہی عاشر کو لاؤنج میں دیکھ کر خوش ہو گئیں۔
“عاشر ! مائی ڈئیر کیسے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔؟آج ہم کیسے یاد آ گئے تمہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انہوں نے فوراً سے اسے گلے سے لگا لیا۔ اور وہ شرویرانہ انداز میں اسے آنکھ مارتے ہوئے ہنستے ہنستے بولا۔
” بس آنٹی ! مجھے پتہ چلا گھر میں منہ دکھائی کی رسم ہے تو میں نے سوچا ہم بھی آج ذرا اپنی بھابھی کو دیکھ لیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ کے ہاتھوں کے مزے مزے کی ڈشزبھی تو کھانے کو ملیں گی۔”وہ گلے تو ان سے مل رہا تھا مگر مسلسل رمشا کی طرف دیکھ رہا تھا جو کچھ دیر پہلے خونخوار چڑیل بنی ہوئی تھی اور اب خجل نظروں کے ساتھ کبھی اسے اور کبھی ثمن بیگم کی طرف دیکھ رہی تھی۔
“اوہ! میں تم دونوں کا تعارف کروانا تو بھول ہی گئی۔”
ثمن بیگم کو کچھ یاد آیا تو وہ فوراً سے بولیں۔
“آنٹی! اصل کام تو آپ اخچر ہی بھول جاتی ہیں۔”
اس نے دل میں سوچا اور ٹاءی کی ناٹ صحیح کرتے ہوئے سیدھا کھڑا ہو گیا۔
“ڈرامے باز۔۔۔۔۔۔۔۔!”
رمشا کے دل سے آواز آئی۔
“یہ خضر کا بیسٹ فرینڈ اور میرا اکلوتا بھانجا ہےعاشر ۔۔۔۔۔۔۔!”
ثمن بیگم نے تعارف کروایا تو وہ خوش ہوتے ہوئے ایک ہاتھ سینے پہ باندھ کر تھوڑا سا نیچے کو جھکا۔
“اور عاشر! یہ تمہاری بھابھی مرجان کی سہیلی ہیں رمشا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
“او ہائے! کیسی ہیں آپ مس رمشا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
عاشر نے پُر تلکف انداز میں کہا تو وہ اس کے انداز پہ حیرت زدہ رہ گئی۔
“اصل میں بھی بندر ہی ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ منہ میں بڑبڑائی۔
“اچھا! چلو اب ادھر بیٹھو تم لوگ میں جوس منگواتی ہوں۔”
ثمن بیگم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ رمشا کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے صوفے کے قریب آیا اور دھیرے سے اس کے کان کے پاس چہرہ کرتے ہوئے بولا۔
“کچھ کہا آپ نے مس چڑیل۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ جو اچانک سے اس کی آواز سن کر چونک سی گئی۔
“ہوں ۔۔۔۔۔!”
“کیا ہوا رمشا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟”
ثمن بیگم نے استفہامیہ انداز میں پاچھا تو وہ ہڑبڑا کر بولی۔
“کچھ نہیں آنٹی! آپ ادھر بیٹھیں میں مرجان کے پاس جاتی ہوں۔”
وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی ۔
“اچھا ٹھیک ہے جاؤ آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔! لیکن جاتے جاتے شمائلہ سے بولنا عاشر کے لیے فریش جوس لے کر آئے۔”
ثمن بیگم نے اس سے درخواست کی تو وہ سر ہلاتے ہوئے جانے ہی لگی تھی کہ عاشر فوراً سے بولا۔
“سنئیے۔۔۔۔۔۔۔!”
رمشا نے مڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
“مجھے فریش ریڈ گریپس جوس پینا ہے ۔”
رمشا اس کی بات سن کر اس کی طرف خشمگیں نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
“اوکے۔۔۔۔۔۔۔!”
منہ سے بس اتنا ہی بول پائی۔ اور تیزی سے رخ موڑ گئی۔
“اس بندر کی بک بک سن کر تو میں پک ہی گئی ہوں۔”
وہ منہ میں بڑبڑا رہی تھی۔ جبکہ عاشر بات تو بثمن بیگم کی سن رہا تھا لیکن دیکھ مسلسل رمشا کی طرف رہا تھا جو پہلے کچن میں گئی اور شمائلہ کو میسیج دیتے ہوئے اب سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)