- کبھی عشق ہو تو پتہ چلے کبھی عشق ہو تو پتہ چلے وہ نم آنکھیں وا کیے اسی کے وجود کے حصار میں خود کو قید کرتا نامعلوم کن کن رستوں سے گزرتا عجیب تکلیف اور درد محسوس کر رہا تھا۔ جبکہ وہ دشمنِ جاں کسی معصوم گڑیا کی مانند اس کے سامنے نیند کی وادیوں میں قدم رکھ چکی تھی۔ وہ بار بار اٹھ کر بیٹھ جاتا اور اس کی طرف تشنہ نظروں سے دیکھتا اپنے دل کی بے چینی کو راحت دلانے کی کوشش کرتا اب بے بس ہوتے ہوئے آنکھیں پلکوں کی ڈور سے باندھتا ہوا سونے کی کوشش کرنے لگا۔