رومینٹک ناول
Trending

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 15

Hina Shahid Novelist

Story Highlights
  • "اور اگر میں ایسا نہ کروں تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟" انداز استفہامیہ تھا۔ خضر کو اس کی ہمت پہ ہنسی آئی وہ ہاتھ چھوڑ کر سیدھا ہوا اور اس کی جانب قدم بڑھائے خضر کو اپنی اور آتے دیکھ کر مرجان کی ساری ہمت اڑن چھو ہو گئی اور وہ تیزی سے پیچھے ہٹنے لگی۔ "دیکھ کر اب کی بار آپ نیچے گریں تو خضر بیگ آپ کو بچانے نہیں آئے گا۔" خضر نے چوٹ کی تو اس نے فوراً سے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا  جہاں دو قدم کے فاصلے پہ دیوار تھی۔ "مجھے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔"

خمارِ جاں از حناء شاہد قسط نمبر 15

“یہ تمہاری کلائی پہ نشان کیسا ہے؟”

رمشا جو اس کے قریب ہی بیٹھی تھی اچانک سے اس کی نظراس کی سرخی مائل کلائی پہ پڑی تو فکرمندی سے تھامتے ہوئے پوچھا۔

“کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”

مرجان نے بے دلی سے کہا تو رمشا نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں ناامیدی کے گہرے سائے چھائے ہوئے تھے۔

“مرجان! بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”

وہ اس کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔

“خضر کو پتہ نہیں دو دن سے کیا ہوا ہے مجھ پہ اپنا حق جتانے لگے ہیں۔”

مرجان نظریں جھکا کر بولی تو رمشا اس کی بات سن کر کھلکھلا کر ہنسی۔

“تو اس میں برائی کیا ہے تم ان کی بیوی ہو۔”

مرجان نے اس کے قہقہے پر اس کی طرف تشنہ نگاہ ڈالی تو رمشا نے فوراً سے اپنی ہنسی پہ قابو کیا اور سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔

“کیسی بیوی؟ کہاں کی بیوی۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں صرف ایک سمجھوتہ ہوں ان کے لیے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! زبردستی اور مجبوری میں کیا جانے والا سمجھوتہ۔۔۔۔۔۔۔! جسے بس وہ نبھا رہے ہیں۔”

اس کی آنکھوں میں نمی امڈ آئی وہ ضبط کا دامن تھامے اپنے دل کی بھڑاس نکالنے لگی اور کتنے ہی نشتروں سے بھرے سوال اس کے سامنے رکھ گئی۔

“وہ مجھ پہ اور میرے وجود پہ اپنا حق جتانے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں جبکہ وہ مجھے اپنی زندگی میں بلااجازت داخلے کی اترنی بڑی سزا سنا چکے ہیں کہ ایک ہی روم میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے ساتھ انجان لوگوں کی طرح رہ رہے ہیں۔”

رمشا خاموشی سے اس کی روداد سن رہی تھی۔

“مجھے میری حیثیت سے واقف کروا کر آج وہ میری ذات پہ حق جتا رہے ہیں۔ “

اس نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا لیا اور سسکیاں بھرنے لگی۔ رمشا فوراً سے اٹھی اور مرجان کو اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کرتے ہوئے اس کی پشت تھپتھپانے لگی۔

“مرجان! نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے۔ دو لوگوں کو ایک کرنے کی طاقت۔۔۔۔۔۔! اور یہ سب تو حکمِ خداوندی سے ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خضر بھائی کو تم سے محبت ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ اسے سمجھاتے ہوئے بس اتنا ہی بول پائی کہ مرجان نے ایکدم ہی اپنا وجود اس کی گرفت سے آزاد کیا اور نظریں رمشا کے چہرے پہ گاڑے غصے سے چلائی۔

“یہ محبت نہیں ہے حوس ہے بس حوس۔۔۔۔۔۔۔! محبت تو تب ہوتی جب وہ نکاح کے بعد مجھے وہی عزت دیتے جو ہر منکوحہ کو ملتی ہے لیکن نہیں خضر نے تو مجھے اس رات میری حیثیت سے آگاہ کر کے مجھے اس جرم کی سزا دی جو میں نے کیا ہی نہیں۔”

وہ ایک بار پھر سسکیاں بھرنے لگی ۔ رمشا کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا فجر کی اذان کے بعد وہ دونوں ہیلان میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ جب رمشا نے اس کی کلائی پہ پڑے نشان کے متعلق اس سے پوچھا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی رمشا کو اپنے رشتے کی حقیقت سے واقف کر گئی۔ لیکن ان دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ خضر جو جاگنگ کرنے کے لیے روزانہ صبح جلدی اٹھتا تھا اور آج تو عجیب ہی دل مضطرب کے سبب وہ کچھ زیادہ ہی جلدی اٹھ گیا تھا اور لان کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس نے مرجان کی سسکیاں سنیں تو اس کے قدم وہیں کے وہیں رک سے گئے اور پھر مرجان کے اور اپنے رشتے کی حقیقت کا رمشا کے سامنے عیاں ہونا اسے مزید تپا گیا۔ وہ دونوں پشت کیے بیٹھی تھیں اس لیے انہیں معلوم نہیں تھا کہ کوئی ان کی باتیں سن رہا ہے۔

“اب میں بتاؤں گا تمہیں مس مرجان ہوس اور محبت  میں کیا فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ غصے سے منہ میں بڑبڑایا اور سرعت سے قدم بڑھا گیا۔

                             ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“سائیں ! آج کی مصروفیات کیا ہیں آپ کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

وجاہت جو اخبار پڑھنے میں مصروف تھا سر جھکائے شکور کی آواز پہ اس نے اخبار ایک سائیڈ پہ رکھی اور چائے کی پیالی منہ سے لگاتے ہوئے ایک سپ لیا اور میز پہ رکھتے ہوئے بولا۔

“بہت ہی اہم کام سے مجھے ایک جگہ جانا ہے بس دعا کرنا میرا وہ کام ہو جائے تو میں تمہارا منہ مٹھائیوں سے بھر دوں گا۔”

وجاہت نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو شکور نے خوشدلی سے پوچھا۔

“سائیں! میری اوقات تو نہیں ہے کہ آپ سے کچھ پوچھ سکوں لیکن پھر بھی دلی دعا ہے آپ کے من کی مراد ضرور پوری ہو۔”

اس نے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا دی تو وجاہت ہنسنے لگا۔

“بس! شکور ! جس کام کے لیے میں یہاں آیا ہوں وہ پورا ہو جائے تو فوراً سے گاؤں جا کے ابا سائیں اور اماں سائیں سے معافی مانگ لوں گا۔”

“کیا مطلب  سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

شکور نے فکرمندی سے پوچھا تو وجاہت جلدی سے بولا۔

“کچھ نہیں شکور! بس میں ناشتہ کر لوں تو ڈرائیور سے بولو گاڑی نکالے مجھے کہیں جانا ہے۔”

وجاہت نے آملیٹ کا ایک بائیٹ لیا اور اسے حکم جاری کیا تو وہ ہاتھ سینے پہ رکھتے ہوئے فوراً سے بولا۔

“جو حکم سائیں آپ کا۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ سینے پہ ہاتھ رکھے باادب انداز میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔ پتہ نہیں وجاہت کے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا تھا۔ وہ اپنی بات کسی کے ساتھ بھی شئیر کرنے والوں میں سے نہیں تھا اسی لیے تو احمددرانی کو بنا بتائے وہ شہر آ گیا تھا۔ اور اب شہر میں وہ جس مقصد کے لیے آیا تھا اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے سب سے اہم کام علی اعظم کے گھر جا کر ان سے مرجان کے سسرال کا ایڈریس لینا تھا۔ جو وجاہت کی نظر میں بالکل بھی مشکل نہیں تھا۔

                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

؎ درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے

ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا

ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا

اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا

پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر

حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا

میرے ویرانہ تن میں گویا

سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں گھل کر

سلسلہ وار پتہ دینے لگیں

رخصتِ قافلہ شوق کی تیاری کا

اور جب یاد کی بجھی ہوئی شمعوں میں

نظر آیا کہیں

ایک پل آخری لمحہ تیری دلداری کا

درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نے نہ ٹھہرنا چاہا

ہم نے چاہا بھی مگر دل نے نہ ٹھہرنا چاہا

وہ شدید غصے میں دوڑ لگا رہا تھا۔ یہ ایک وسیع لان تھا۔ جہاں بڑے ہی عمدہ انداز میں گھاس کی کٹنگ کی گئی تھی۔ تین سے چار فٹ کے فاصلے پر سیٹنگ کی گئی تھی۔ بہت سے لوگ اس سوسائٹی کے بنے ہوئے اس خوبصورت لان میں واک کے لیے آتے تھے۔ خضر پچھلے آٹھ سال سے روزانہ بلا ناغہ صبح جاگنگ کے لیے یہاں آتا تھا اور آج تو وہ مرجان کے منہ سے ہوس کا طوق پہنے آیا تھا۔ اس کا ضبط کہیں تھم سا گیا تھا۔ وہ شدید غصے میں تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ مرجان کا قتل کر دے۔

“میں تمہیں بتاؤں گا ہوس کس کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ غرایا۔

“تمہیں تمہارے ہی وجود سے نفرت نہ ہونے لگی تو میرا نام خضر بیگ نہیں ہے مرجان افتخار۔۔۔۔۔۔!”

اپنے لیے ہوس کا اعزاز حاصل ہونے کے بعد وہ مرجان کے لیے بے پناہ نفرت اور حقارت لیے اسے برباد کرنے کی انتقامی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔

زندگی کے کئی رخ ہوتے ہیں۔ ہم آنسوؤں کی وجہیں ڈھونڈنے کی بجائے ان آنسوؤں کو دور کرنے کی بجائے مزید آنسوؤں کی وجہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ خضر بیگ بھی مرجان کے آنسوؤں کی وجہ ڈھونڈنے کی بجائے اسے مزید آنسو دینے کا سبب بننے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔

                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“یہ کنگن مجھے میری ساس نے منہ دکھائی میں پہنائے تھے۔ اور اب چونکہ آپ اس خاندان کی نسل بڑھانے کی اکلوتی وارث ہیں تو ان کنگنوں پہ آپ کا حق ہے۔”

ثمن نے ابی کی موجودگی میں مرجان کی کلائی میں خوبصورت کنگن پہنائے تو رمشا کو ثمن بیگم پہ بے تحاشا پیار آیا۔ مرجان اپنی کلائی میں پڑے ان کنگنوں کو دیکھنے لگی۔ جو واقعی بے حد خوبصورت تھے۔ خالص سونے کے ساتھ جڑے سرخ اور سبز نگینوں سے مزین یہ کنگن اس کی کلائیوں کی دلکشی کو مزید بڑھا گئے۔

“خدا تمہیں صدا سہاگن رکھے۔”

ابی نے بھی اٹھ کر اس کے سر پہ دستِ شفقت دھرا اور اسے دعا دی تو وہ بامشکل ہی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پہ سجا پائی۔رمشا نے اس کی بے رنگ مسکراہٹ کو فوراً سے محسوس کیا۔

“ارے خضر ! تم آ گئے۔”

خضر کو اندر آتے ہوئے ثمن بیگم نے دیکھا تو مسکرا کر بولیں۔ چہرہ سرخ ہوا تھا ثمن کے پکارنے پہ اس نے ایک تلخ نگاہ مرجان پہ ڈالی وہ جو سر جھکائے بیٹھی تھی اپنے وجود پہ کسی کی نظروں کے نشتر محسوس ہوئے تو فوراً سے نظر اٹھا کر خضر کی طرف دیکھا۔وہ خشمگیں نظریں اس پہ گاڑے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

“کیا ہوا ہے خضر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ابی فوراً سے بولے۔

“کچھ نہیں ابی۔۔۔۔۔۔۔۔!”

ابی کی آواز سنتے ہی وہ فوراً سے بولا اور اپنی نظریں جھکا گیا۔

“بریک فاسٹ ریڈی ہے تم چینج کر کے آؤ پھر ناشتہ ایک ساتھ کرتے ہیں۔”

ثمن بیگم نے اس کے چہرے کو چھوا اور طمانیت سے بولیں۔

“میں چینج کر کے آتا ہوں۔”

وہ سنجیدگی سے بولتا ہوا سرعت سے چلا گیا۔ رمشا کو لگا کچھ ہوا ہے۔ لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ابی نے بھی خضر کا ناگوار رویہ محسوس کیا۔ انہوں نے ثمن کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا لیکن جواب تو ان کے پاس بھی نہیں تھا۔ وہ ابی کی نظروں کا جواب دیتی بھی تو کیا۔ سو چپ کر گئیں۔ مرجان بھی کہاں انجان تھی۔ وہ بھی سب محسوس کر رہی تھی۔ اور نا چاہتے ہوئے بھی وہی اٹھی اور سیڑھیوں کی طرف چل دی۔ ثمن نے اسے روکنا چاہا لیکن ابی کے اشارے نے انہیں چپ کروا دیا۔ وہ دروازہ کھول کر روم میں داخل ہوئی تو وہ وہاں کہیں بھی نہیں تھا۔ شاور کی آواز سے اسے اندازہ ہوا کہ وہ واشروم میں ہے۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ ایک ہی بار اس سے سارے سوال پوچھ ڈالے لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ وہ بہت بہادر بننے کے بعد بھی بہت زیادہ ڈرپوک تھی۔ پھر وہ وہیں بیڈ پر بیٹھ گئی اور اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی جو کچھ ہی لمحوں کے توقف سے باہر آ گیا۔ اور اسے یوں بیڈ پر بیٹھا دیکھ اس کا غصہ مزید آسمانوں کو چھونے لگا لیکن پھر بھی وہ اپنی وجاہت کو قائم رکھتے ہوئے بولا۔

“آپ ادھر کیا کر رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

لہجہ کافی تلخ تھا۔

“آپ کا انتظار۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

مرجان کے منہ سے بے ساختہ لفظ پھسلے تو وہ جو ٹاول سے بال جھاڑ رہا تھا۔ مرجان کی بات پہ استہزائیہ ہنسا اور ٹاول بیڈ پہ اچھالتے ہوئے اس کے بالکل سامنے آ کھڑا ہوا۔ مرجان فوراً سے اٹھی۔ اور نظریں جھکا گئی۔

“زبردستی کے رشتوں میں انتظار۔۔۔۔۔۔۔! کچھ نامناسب سی بات لگتی ہے۔”

خضر نے اس کے ہی الفاظ اس کی جانب اچھالے تو مرجان نے نظر اٹھا کر اس سنگدل کی جانب دیکھا جو ابھی کچھ لمحے پہلے غضب ناک انداز لیے شاور لینے گیا تھا اور اب کس قدر پرسکون دکھائی دے رہا تھا۔

“وہ میرے کہنے کا مطلب تھا ناشتہ پہ سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔”

وہ بھی بے پروائی کی آخری حد پار کرتے ہوئے اس کے چہرے پہ نظریں جمائے بولی تو خضر کو اس کی یہ ادا بے چین کر گئی۔ بلیک شرٹ اور سفید چوڑی دار پاجامے کے ساتھ بلیک نیٹ کا دوپٹہ شانے پہ رکھے بالوں کو جوڑے میں سمیٹے بنا کسی آویزے اور بناؤ سنگھار کے شفاف رنگت کے ساتھ سادہ بلوری آنکھیں خضر اس کے حصار میں مقید ہو گیا تھا۔ وہ دو قدم آگے بڑھا تو مرجان نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن اس کے قدموں کی تیزی اس کا ہی خسارہ کر گئی اور وہ جو پیچھے ہٹنے کے لیے بڑی سرعت سے بڑھی تھی اب بیڈ پہ جا گری تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ خضر کا ہاتھ تھامے خود کو بچاتے بچاتے اسے بھی اپنے ساتھ گرا گئی۔ مرجان کا دل اتنی زور سے دھڑک رہا تھا کہ خضر اس کی دھڑکنوں کی آواز سے ناواقف نہیں تھا۔ وہ آنکھیں بند کیے اس کا ہاتھ زور سے تھامے بیڈ پہ نیم وا تھی خضر بھی اس کے اوپر بس اس کی زور سے بند کی آنکھیں دیکھ رہا تھا۔ بالوں کا جوڑا کھل گیا تھا اور بیڈ پہ بکھری اس کی سیاہ زلفیں خضر کو مقید کر گئیں۔ اس کے وجود سے اٹھنے والی خوشبو اسے اپنے حصار میں باندھ گئی۔ اس کا دل چاہا ابھی اس کے شنگرفی ہونٹوں کا سارا رس پی لے لیکن ابھی بھی وہ ہوش و ہواس قائم رکھے ہوا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ بھٹک جاتا اور کسی حد کو پار کر کے اپنی وجاہت کو ٹھیس لگواتا وہ اس کے ہاتھ کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھڑائے فوراً سے اٹھا اور بولا۔

“کاش! کہ آپ قدم پیچھے کرتے یہ دیکھ لیتیں کہ اپ جہاں کھڑی ہیں اس کے پیچھے میرا بستر ہے تو ابھی آپ کی بیک پہ درد نہ ہو رہا ہوتا۔ “

مرجان نے خضر کی آواز سنی تو فوراً سے پہلے اپنی آنکھیں کھول دیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ وہ بیڈ پہ نیم دراز تھی۔ بنا دوپٹے کے گرتے ہوئے اس کا دوپٹہ پتہ نہیں کہاں گر گیا تھا۔ خضر اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا اور اسی کے سراپے کو دیکھ رہا تھا۔ وہ جو اپنی اس حرکت پہ خجل تھی اب نظریں جھکائے لیٹی تھی۔ جبکہ خضر رخ موڑ گیا۔ خضر کے رخ موڑتے ہی اس نے چستی کے ساتھ اٹھنے کی کوشش کی لیکن کمر سے اٹھنے والی ٹیس سے ایک آہ اس کے لبوں سے نکلی تو خضر نے استہزائی انداز میں اس کی طرف دیکھا وہ جو نظریں جھکائے معصومانہ انداز اپنائے اٹھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن اٹھ نہ پائی۔ تو خضر نے اس کی مشکل آسان کرنا چاہی اس نے دابارہ سے اس کی جانب قدم بڑھائے اور ہاتھ آگے کیا۔ مرجان نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کے ہاتھ کی طرف۔

“مرضی ہے آپ کی ، اگر میں اکیلا نیچے گیا تو ابی اور مام مجھ سے پوچھیں گے مرجان کہاں ہے تو میں کہہ دوں گا کہ اس نے ناشتے سے انکار کر دیا ہے پھر آپ سوچ لیں ابی اور مام کے ساتھ ساتھ رمشا کے بھی بے تحاشا سوالوں کے جواب آپ کو دینے پڑیں گے۔”

وہ تمسخرانہ انداز میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ ،رجان کا دل چاہا ابھی اس کا ساری مسکراہٹ چھین لے لیکن وہ نازک سی گڑیا کیا کر سکتی تھی۔ اس لیے بنا سوچے ہاتھ آگے کی طرف بڑھا کر اس کے ہاتھ پہ دھرا اور خضر نے ایک ہی لمحے میں زور سے اسے اپنی جانب کھینچا تو وہ نازک سی گڑیا ایک ہی پل میں اس کے سنگ وجود سے ٹکرائی۔بال پشت پہ بکھر گئے۔ کچھ لٹیں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔

“میری آپ کی طرف پیش قدمی مجھے نہیں معلوم کیا ہے لیکن میں اتنا ضرور جانتا ہوں خضر بیگ کی ذات میں کوئی جسمانی ہوس نہیں ہے ۔”

اس کے درشت الفاظ مرجان کی جان نکال گئے۔ اس نے فوراً سے اس کی آنکھوعں میں جھانکا جہاں سرخ ڈورے چھائے تھے۔

“محبت میں اور ہوس میں جو فرق ہے وہ فرق اب آپ کو خضر بیگ بتائے گا۔”

وہ ایک ہی پل میں پیچھے ہٹی لیکن خضر کے ہاتھ کی گرفت مضبوط تھی وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی کلائی اس کے آہنی ہاتھ سے چھڑا نہ سکی۔

“میں چاہوں تو ابھی اسی وقت آپ کو ہوس کا مطلب سمجھا سکتا ہوں لیکن میرا وقار اور ؐیری ماں کی تربیت مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں کسی عورت کی عزت کو پامال کروں۔”

وہ الفاظ نہیں تھے مرجان کے وجود پہ برسنے والے کئی نشتر تھے۔

“یہ محبت اور ہوس والی باتیں تو ابھی صبح صبح وہ اپنے دل کا غصہ نکالنے کے لیے رمشا کے ساتھ کر رہی تھی خضر کو یہ سب کیسے پتہ چلا۔”

اس نے دل ہی دل میں سوچا۔

“آج کے بعد کوشش کیجئیے گا اس کمرے میں ہم دونوں جیسے مرضی رہیں اس بات کا ذکر کسی اور کے ساتھ نہ کجئیے گا۔ مجھے نہیں پسند کوئی بھی مجھے اور میری ذات کو ڈسکس کرے۔”

وہ درشتی سے کہتا ہوا اس کی کلائی پہ اپنی گرفت کمزور کرتے ہوئے اسے شرمندہ کر گیا۔ اور وہ جو بناء کچھ بولے بس نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ کہتی بھی تو کیا ناچاہتے ہوئے بھی وہ اپنی دوست کے ساتھ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر اس کی نظروں میں گر گئی تھی۔ اور وہ اپنی بات مکمل ہوتے ہی اس کے وجود کو اگنور کرتے ہوئے آفس جانے کے لیے ریڈی ہونے لگا۔ ٹائی کی ناٹ باندھ کر بال سیٹ کیے اور لیپ ٹاپ بیگ اٹھاتے ہوئے اس کی نظر جامد کھڑے اس کے وجود پہ پڑی تو استہزائی انداز میں بولا۔

“اب کیا سارا دن ادھر ہی کھڑی رہیں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

انداز سوالیہ تھا۔ اور لہجہ طنزیہ۔

“آپ کو کیا لگتا ہے میں آپ کے اشاروں پہ چلوں گی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اپنا ضبط کا دامن توڑ کر وہ ہمت متجمع کرتے ہوئے بولی تو خضر کو اس کے انداز پہ ہنسی آئی۔

“یہ موم کی گڑیا تو بولتی بھی ہے۔”

وہ زیرِ لب مسکرایا۔

“ہاں! ہونا تو یہی چاہئیے کہ آپ کو میرے اشاروں پہ چلنا چاہئیے۔”

وہ لیپ ٹاپ بیڈ پہ رکھے دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے مسکرا کر بولا تو مرجان کو اس کے انداز پہ غصہ آیا۔ اس نے قہر آلود نگاہ اس پہ ڈالی اور بولی۔

“اور اگر میں ایسا نہ کروں تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

انداز استفہامیہ تھا۔ خضر کو اس کی ہمت پہ ہنسی آئی وہ ہاتھ چھوڑ کر سیدھا ہوا اور اس کی جانب قدم بڑھائے خضر کو اپنی اور آتے دیکھ کر مرجان کی ساری ہمت اڑن چھو ہو گئی اور وہ تیزی سے پیچھے ہٹنے لگی۔

“دیکھ کر اب کی بار آپ نیچے گریں تو خضر بیگ آپ کو بچانے نہیں آئے گا۔”

خضر نے چوٹ کی تو اس نے فوراً سے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا  جہاں دو قدم کے فاصلے پہ دیوار تھی۔

“مجھے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔”

وہ غصے سے بولی۔

“یہ تو وقت بتائے گا آپ کو میری ضرورت ہے یا نہیں۔”

وہ اس کے بالکل قریب کھڑا تھا اور اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولا۔ اس کی سانسوں کی گرماہٹ مرجان کے وجود میں سنسناہٹ بکھیر گئیں۔  وہ نظریں جھکائے کانپتے لبوں کے ساتھ دیوار کے اندر کہیں چھپ جانا چاہتی تھی۔ لیکن خضر کو اس کی حالت پہ ترس آ گیا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ پھر اس نے رخ موڑا اور لیپ ٹاپ بیگ بیڈ سے اٹھایا اور سرعت سے روم سے باہر آ گیا۔ جبکہ مرجان نے اس کے پیچھے ہٹتے ہی اپنی آنکھیں فوراً سے کھولیں اس کا کانپتا دل اس کو کچھ باور کروانا چاہتا تھا لیکن وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتی تھی۔

                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“تو پھر کیا سوچا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

عاشر اس کے بالکل قریب کھڑا ہو کر بولا تو اس کی آواز پہ وہ چونک سی گئی۔

“افففففففف!!!”

اس نے نظریں گھما کر کہا ۔ وہ اس کے یوں اچانک آ جانے پہ تھوڑا خفا سی ہو گئی تھی۔

“کس بارے میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے ناگواریت سے پوچھا۔

“میں نے ایک شرط رکھی تھی تمہارے سامنے۔”

وہ اس کے بالکل برابر بیٹھتے ہی بولا۔

“کون سی شرط۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ ایسے محسوس کروا رہی تھی جیسے پچھلی رات عاشر نے اس کے ساتھ جو بھی بات کی تھی وہ سب بھول گئی تھی۔

“حد ہے یار! میں اتنا سیریس ہوں اور تم کسی بات کو سیریس نہیں لے رہی۔”

وہ اکتا کر بولا تو رمشا نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔

“لیکن اس سب میں مجھے کیا فائدہ ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔؟’

رمشا نے سوال داغا تو افسوس سے اس کی  طرف دیکھنے لگا۔
“مجھے بس ایک سوال کا جواب چاہئیے۔”

“کون سا سوال۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے فوراً سے پوچھا تو عاشر سنجیدہ انداز میں بولا۔

“اس دن مارکیٹ میں جب تم میرے ساتھ ٹکرائی تھی تو تمہارے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی مجھے جاننا ہے وہ کون ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

عاشر کے چہرے پہ چھائی سنجیدگی اور پھر اس کے سوال نے رمشا کو حیرت میں مبتلا کر دیا حیرت کے ساتھ ساتھ اسے اس پر شک بھی ہونے لگا۔ کہ وہ کیوں اس کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ سو وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور بولی۔

“لیکن! تم یہ کیوں جاننا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس نے سرعت سے سوال کیا۔ تو عاشر جھنجھلا کر بولا۔

“یار! پلیز بتا دو وہ لڑکی کون تھی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس کے انداز میں التجاء تھی۔

“پہلے مجھے یہ بتاؤ تم کیوں اس کے بارے میں پوچھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟ دیکھو عاشر! اگر کوئی غلط بات ہے تو پہلے ہی مجھے بتا دو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔”

رمشا کی بات سنتے ہی وہ بھی اس کے برابر کھڑا ہو گیا۔ اور اپنے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

“یار! کوئی ایسی ویسی بات نہیں ہے میری گزارش ہے پلیز اس لڑکی کا نام بتا دو وہ کون تھی۔ پھر میں تمہیں بتاتا ہوں اصل بات کیا ہے۔۔۔۔۔!”

اس کا التجائی انداز رمشا کو پریشان کر گیا اور وہ بول پڑی۔

“مرجان تھی اس دن میرے ساتھ مارکیٹ میں وہ ہممممممم۔۔۔۔۔۔۔!”

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کر پاتی عاشر نے فوراً سے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کیا اور خوشی سے جھومنے لگا۔

“چھوڑو مجھے پاگل! “

وہ چلا رہی تھی۔ لیکن عاشر کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا۔ وہ اسے اٹھائے گول گول گھوم رہا تھا۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد جب اسے خیال آیا تو اسے فوراً سے چھوڑ دیا۔  عاشر کے حصار سے آزاد ہوتے ہی رمشا نے اس کا بازو زور سے پکڑا اور بولی۔

“اب بتاؤ مجھے اصل بات کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ سنجیدہ انداز میں پوچھ رہی تھی۔

” خضر مرجان سے محبت کرتا ہے۔”

وہ اپنی خوشی پہ قابو رکھنا چاہتا تھا لیکن رکھ نہ پایا اور رمشا کے سوال کا جواب دے گیا۔

“مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟ خضر بھائی کیسے مرجان سے محبت کرتے ہیں ان دونوں کا نکاح تو زبردستی ہوا ہے۔”

سوال ہی سوال تھے اور اس کے ان سب سوالوں کے جواب صرف عاشر کے پاس تھے۔

“ہاں ! مانتا ہوں یہ نکاح زبردستی ہوا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ خضر نکاح سے پہلے ہی مرجان کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا اور اسے نہیں معلوم کہ جس لڑکی سے وہ محبت کرتا ہے وہی لڑکی اس کی بیوی ہے۔”

وہ پہیلیوں میں اس سے بات کر رہا تھا جبکہ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔

“عاشر! مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا مجھے پوری بات بتاؤ۔”

پہیلیوں کی زبان کب وہ سمجھتی تھی اسے تو عادت تھی صاف اور سیدھی بات کی۔ وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گئی تھی لہذا عاشر کا بازو تھامے وہ تسلی سے ساری بات جاننے کے لیے اسے بول رہی تھی لہذا وہ بھی پرسکون انداز میں اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے سب بتانے لگا ۔ وہ سب جو صرف وہ جانتا تھا۔ کہ جب وہ مارکیٹ میں اس سے ٹکرایا تھا تو اس نے پہلی بار اپنے جگری دوست کو کسی لڑکی پہ نظریں جمائے دیکھا تھا۔ اور اس کی نظروں کی تپش میں پتہ نہیں کب اور کس وقت محبت کی وادی میں قدم رکھتا خضر چند ہی لمحوں میں اس وجود کو پانے کی تڑپ میں مبتلا ہو گیا۔ ساری حقیقت وہ رمشا کے گوش گزار کرتا گیا اور وہ چپ چاپ خضر کی انجان محبت کی کہانی سن رہی تھی۔

“اب میں فوراً سے آفس جاؤں گا اور خضر کو سب سچ بتاؤں گا پھر دیکھنا سارہ کو وہ خود اپنے اور مرجان کے درمیان نہیں آنے دے گا۔”

وہ بے پناہ خوش تھا اور اپنی اس خوشی کو جلد از جلد خضر کو بتانا چاہتا تھا۔ تاکہ خضر کی تشنگی ختم ہو جائے۔ لیکن رمشا کی بات سن کر وہ پریشان ہو گیا ۔

“وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کیا تم نے یہ سوچا ہے کہ ان سب میں مرجان کے کیا جذبات ہوں گے کیا وہ بھی خضر بھائی سے محبت کرتی ہے۔۔۔۔۔؟ جہاں تک میں مرجان کو جانتی ہوں وہ اپنی انا کو ٹھیس نہیں پہنچنے دے گی اور آج صبح وہ جیسے سسکیاں بھر رہی تھی اور خضر بھائی کی پیش قدمی کو ہوس کا نام دے رہی تھی ۔ مجھے نہیں لگتا وہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے خضر بھائی کی محبت کو قبول کر پائے گی۔”

ر،شا کے الفاظ اسے پریشان کر گئے۔

“میں ہوں نا! میں اپنے دوست کی خوشی کے لیے کچھ بھی کر جاؤں گا۔ تم نے بس اتنا کرنا ہے کہ مرجان بھابھی کے دل میں خضر کے لیے جگہ بنانی ہے۔ باقی سب مجھ پر چھوڑ دو۔ اور ویسے بھی جب خضر کو پتہ چلے گا کہ مرجان ہی وہی لڑکی ہے جس کی محبت میں وہ قید ہے تو وہ خودبخود ہی مرجان کے دل میں اپنے اور اپنی محبت کے لیے جگہ بنا لے گا۔ “

وہ پراعتماد انداز میں بولا تو رمشا کو اس کی خوداعتمادی پہ یقین ہو گیا اور وہ دل ہی دل میں مرجان کی اچھی زندگی کے لیے دعا کرنے لگی۔

                                       ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مسلسل ڈور بیل بج رہی تھی لیکن کوئی بھی دروازہ نہیں کھول رہا تھا ۔ پھر دس منٹ کے بعد ساتھ والے گھر کا دروازہ کھلا اور ایک بوڑھا آدمی باہر آیا۔ اسے ڈور بیل بجاتے دیکھ کر اس کے قریب آیا اور بولا۔

“جی ! آپ کوں ہیں بیٹا۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وجاہت نے فوراً سے اس آدمی کی طرف دیکھا اور بولا۔

“جی میں علی اعظم صاحب سے ملنے آیا ہوں مگر کوئی دروازہ کھول ہی نہیں رہا۔”

وجاہت نے پریشان کن انداز میں کہا تو وہ آدمی دھیمے سے مسکرانے لگا اور بولا۔

“علی اعظم صاحب تو ایک ہفتے کے لیے شہر سے باہر گئے ہیں۔”

اس نے انفارم کیا تو وجاہت فوراً سے بولا۔

“اوہ اچھا! لیکن ان کی بیٹی بھی تو تھی رمشا۔ کیا وہ گھر پہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔؟”

رمشا کا خیال آتے ہی اس نے پوچھا تو وہ آدمی جو ان کا ہمسایہ تھا مسکرا کر بولا۔

“یہ تو مجھے نہیں پتہ بیٹا! دو دن سے تو گھر پہ تالہ پڑا ہے۔ آپ اپنا نام بتا دیں مجھے جیسے ہی علی صاحب آئیں گے میں ان کو بتا دوں گا۔”

“میرا نام وجاہت ہے۔ آپ ایسا کریں میرا نمبر نوٹ کر لیں جیسے ہی علی اعظم صاحب آئیں گے مجھے بتا دیجئیے گا۔ میں آ جاؤں گا۔ “

وہ اپنا ویزیٹنگ کارڈ انہیں دیتے ہوئے جانے لگا تو وہ بولے۔

“آپ ان کے کوئی قریبی رشتہ دار ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

“جی ہاں ! بس ایسا ہی سمجھ لیجئیے۔”

وجاہت نے مسکرا کر کہا اور گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر اس میں بیٹھ گیا۔ وہ دیکھنے میں ہی کافی بارعب لگ رہا تھا۔ اس کے جانے کے بعد وہ بوڑھا آدمی بھی ڈور بند کرتے ہوئے اندر چلا گیا۔ وجاہت کے دل کو کچھ ہوا جس مقصد کو وہ جلد از جلد پورا کرنا چاہتا ہے اس مقصد میں اس قدر دیر اس کے دل کو تکلیف میں مبتلا کر گئی۔

                                                ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“زرینہ نے کچھ کھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

احمد درانی نے فکرمندی سے پوچھا تو ثمرینہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

“پتہ نہیں میری پھول سی بچی کو کس کی نظر لگ گئی ہے سائیں۔ نہ کچھ کھاتی ہے نہ کچھ پیتی ہے شکل پہ کوئی روپ رہا ہی نہیں ۔”

وہ نم آنکھوں کے ساتھ بول رہی تھیں تو احمد درانی کا بھی دل کٹ سا گیا۔ وہ انہیں تسلی دیتے ہو ئے بولے۔

“فکر نہ کریں آپ ٹھیک ہو جائے گی۔ اور اگر ٹھیک نہ ہوئی تو میں اسے شہر لے جاؤں گا، اس کا علاج کرواؤں گا۔ زرینہ بہت ہی جلد ٹھیک ہو جائے گی۔”

احمد درانی کی بات سنتے ہی ثمرینہ کو قدرے تسلی ہوئی تو انہوں نے فوراً سے وجاہت کے بارے میں سوال کر ڈالا۔

“میرے پتر وجاہت کی بھی کوئی خیر خبر رکھنی تھی۔ پتہ نہیں کیا حال ہو گا اس کا۔۔۔۔۔۔؟”

وہ احمد درانی کی طرف التجائی انداز میں دیکھ رہی تھی تبھی احمددرانی درشتی سے بولے۔

“اپنے بیٹے کی فکر نہ کریں آپ ۔۔۔۔۔۔۔! شکور سے بات ہوئی ہے میری بالکل ٹھیک ہے آپ کا لاڈلہ شہر میں ہمارے گھر میں ہے اور بہت خوش ہے۔ آپ فکر نہ کریں شکور ہمیں ان کی ایک ایک پل کی خبر دے گا۔”

آحمد درانی کی بات سن کر ثمرینہ نے اپنے آنسو پونچھے اور بولیں۔

“سائیں ! اگر آپ اجازت دیں تو میں شہر وجاہت کے پاس چلی جاؤں میں اپنے پتر کو سمجھاؤں گی اور اسے اپنے ساتھ واپس لے آؤں گی۔”

وہ خوش فہمی میں مبتلا تھیں انہیں ابھی بھی لگ رہا تھا کہ وجاہت ان کی بات سن کر واپس آ جائے گا اور مرجان کو بھول کر جہاں وہ بولیں گی وہاں چپ چاپ شادی کر لے گا۔ لیکن انہیں نہیں پتہ تھا جب مرد کسی چیز کو حاصل کر لینے کی ضد پکڑ لیتا ہے تو وہ ہر حال میں اس چیز کو حاصل کر کے ہی رہتا ہے۔ وجاہت کا بھی یہی حال تھا۔ وہ مرجان کو حاصل کرنے کے لیے ضد پہ اتر آیا تھا۔ اور اسی ضد میں وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر آ گیا تھا۔ لیکن ابھی بھی احمد درانی کو اس کی اتنی فکر تھی کہ شہر میں ہونے کے باوجود بھی وہ اس کی خبر گوئی کر رہے تھے۔ شکور کے ذریعے وہ اس کی ہر حرکت پہ نظر رکھے ہوئے تھے۔ کیونہ وجاہت ان کا اکلوتا وارث تھا۔ ان کی زمینوں جائیدادوں کی ساری باگ دوڑ وجاہت نے ہی تو سنبھالنی تھی۔ وہ کیسے اس سے بے خبر رہ سکتے تھے۔ لہذا وقت اور حالات کو سمجھتے ہوئے انہوں نے اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیا تھا۔

                                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز۔۔۔۔۔۔۔!”

ریحان کو کانفرنس روم میں داخل ہوتے دیکھ کر خضر نے اٹھ کو اس کا استقبال کیا اور آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگایا۔ سارہ بھی اسے دیکھ کر خوش ہو گئی۔ وہ پچھلے چار مہینوں سے انڈونشیا کی کمپنی کے ساتھ اسی ڈیلیگیشن کے سلسلے میں کام کر رہا تھا اور اسی سلسلے میں اسے وہاں جانا پڑا اور اب جبکہ ڈیل فائنل ہو چکی تھی اور سارا پیپر ورک کمپلیٹ ہو چکا تھا تو وہ واپس آ گیا تھا ۔ لیکن اس نے کمپنی میں کسی کو بھی کچھ نہیں بتایا تھا۔ خضر کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ آج کی فلائٹ سے پاکستان آ رہا ہے۔ اور اب یوں اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ مسرت سے اسے گلے لگا کر خوش ہو رہا تھا۔

“اور مائی ڈئیر سارہ تم کیسی ہو۔۔۔۔۔۔؟”

“ایم فائن گڈ۔۔۔۔۔۔! “

وہ مسکرا کر بولی تو ریحان نے اس پہ کومنٹ کیا۔

“یو آر لوکنگ سو پریٹی۔۔۔۔۔۔۔۔!”

“تھینکس۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی تو خضر فوراً سے بولا۔

“اوکے یار اب یہ سارہ کی تعریفوں کے پل باندھنے بند کرو گے تو بتاؤ تمہارے لیے کافی منگواؤ یا چائے۔”

نو! نو! نو! میری تو ہر صبح سارہ کی تعریف کرنے میں ہی گزرتی ہے۔ جب تک میں سارہ کی نتعریف نہ کر دوں مجھے چین نہیں آتا۔”

ریحان مسکرا کر سارہ پہ نظریں جمائے بولا تو خضر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔

“اوہ اچھا بھائی کر لینا سارہ کی تعریفیں پہلے کچھ کھا پی لے۔”

اچھا! ٹھیک ہے جو دل کرتا ہے منگوا لے لیکن پہلے مجھے یہ بتا وہ ہمارا شرارتی بچہ کدھر ہے۔۔۔۔۔؟”

کون۔۔۔۔۔۔؟ عاشر۔۔۔۔۔۔؟”

سارہ نے حیرت سے پوچھا۔

“ہاں عاشر اور میں نے کس کا پوچھنا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”

ریحان نے مسکرا کر کہا تو خضر فوراً سے بولا۔

“وہ موصوف میرے گھر پہ ہیں۔”

خضر نے بتایا تو دونوں نے ہی ایک ساتھ خضر کی طرف دیکھا۔

“تمہارے گھر میں ۔۔۔۔۔۔۔؟ خیر تو ہے۔ عاشر اور وہ بھی خضر کے گھر پہ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

سارہ فوراً سے بولی تو رعیحان نے بھی حیرت سے خضر کی طرف دیکھا۔

“کوئی نہیں ابھی آ جائے گا وہ میں تم دونوں کے لیے کافی منگواتا ہوں۔”

خضر نے بات ٹالی تو ریحان سارہ کی طرف دیکھنے لگا۔ فرط جذبات میں ڈوبی آنکھیں بہت کچھ کہہ رہی تھیں سارہ سب جان کر بھی انجان بن رہی تھی۔

“میرے پاس تمہارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔”

سارہ نے مسکرا کر کہا تو ریحان فوراً سے بولا جبکہ خضر جو سیکرٹری کو تین سٹرانگ کافی کا بول کر ریسیور رکھ رہا تھا سارہ کی بات پہ فوراً سے اس کی طرف دیکھنے لگا سارہ نے بھی اس کی طرف دیکھا اور نظروں سے اسے اشارہ کیا۔

“فار واٹ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ریحان نے سوال کیا اور باری باری خضر اور سارہ کی طرف دیکھا خضر اسے کچھ بتانے سے منع کر رہا تھا جبکہ سارہ بضد تھی کہ وہ ریحان کو بتا کر ہی رہے گی۔

“یہ تم دونوں کیا اشاروں میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے ہو کوئی مجھے بھی بتائے گا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

“بتاتی ہوں صبر رکھو! خضر کی شادی ہو گئی ہے۔”

سارہ کی بات سن کر اس نے اچنبھے سے خضر کی طرف دیکھا۔

“یہ کب ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟’

“وہ یار ابی نے سب اتنا جلدی کیا مجھے خود بھی پتہ نہیں چلا۔”

وہ منہ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی ایمبیرسمنٹ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔ تو سارہ سرعت سے بولی۔

” خضر کو تو ابھی بھی پتہ نہیں چل رہا کہ وہ میریڈ ہے۔ “

وہ استہزائی انداز میں ہنسی تو خضر کو لگا جیسے وہ اس کی انسلٹ کر رہی ہو۔

“اوکے! گڈ! پھر کب ملواؤں گے ہمیں ہماری بھابھی سے۔۔۔۔۔۔۔؟”

وہ جو سارہ کی طرف خشمگیں انداز میں دیکھ رہا تھا ریحان کے سوال پہ چونک گیا اور کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

“انشاء اللہ بہت جلد۔۔۔۔۔۔!”

“ریحان! تمہیں نہیں لگتا خضر کو ایک آفیشل پارٹی ارینج کروانی چاہئیے۔ ہماری کمپنی کو اتنی شاندار کامیابی ملی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ خضر کو اپنے تمام آفیشل فرینڈز میں اناؤنس کرنا چاہئیے کہ ناؤ ہی از میریڈ۔۔۔۔۔۔۔!”

سارہ کی بات میں وزن تھا ریحان نے تو فی الفور اس کی بات کے حق میں ووٹ ڈالا۔ خضر کو کبھی کبھی سارہ دوست کی بجائے دشمن لگتی تھی۔

“ہاں ! بالکل میں تو کہتا ہوں اسی ویک کے لاصت پہ ایک پارٹی ارینج کرتے ہیں اپنے تمام فرینڈز اور کولیگز کو اس پارٹی میں انوائٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ خضر بیگ کی شادی کی سیلیبریشن بھی ہو جائے گی۔”

ریحان کی بات سن کر سارہ نے تو فوراً سے ہاں کہہ دیا اور بان دونوں کی بات کے آگے خضر کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور وہ بولا۔

“اوکے ! گائیز! جیسے آپ کو مناسب لگتا۔”

ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ کوئی بڑی سرعت کے ساتھ کانفرنس روم کا ڈور کھولے اندر داخل ہوا تینوں نے ایک ساتھ ڈور کی جانب دیکھا تو عاشر بڑی سرعت کتے ساتھ خضر کے پاس آیا اور اسے گلے سے لگاتے ہوئے بولا۔

“خضر! ڈن! ڈن! میرا ورک ڈن ہوا۔”

“کیا مطلب ہے ؟ کون سا کام مکمل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

سارہ نے حیرت سے پوچھا تو عاشر نے یکدم ہی سارہ کی طرف دیکھا اور ساتھ ہی سارھ ریحان کی طرف بھی ، ان دونوں کو دیکھتے ہی عاشر نے اپنا منہ بند کر لیا۔ اور بولا۔

“ہائے ہیلو! ریحان! کیا حال ہے تم کب آئے واپس۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

“میں تو ابھی آیا ہوں مگر تم بتاؤ اتنی تیزی میں کہاں سے آئے ہو ؟ اور کون سا کام مکمل ہو گیا تمہارا۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

ریحان نے اسے گلے سے لگایا اور مضطرب ہو کر پوچھا تو وہ ہڑبڑا کر بولا۔

“و۔۔۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔! کچھ نہیں بس ایسے ہی خضر کو تنگ کر رہا تھا میں !”

اس نے بات پلٹنی چاہی ۔ لیکن سارہ بہت چالاک تھی وہ خضر اور عاشر کی نگاہوں کے تعاقب میں تھی۔ خضر نظروں ہی نظروں میں اس سے سوال کر رہا تھا جبکہ عاشر وہ مسکرا کر اسے تسلی دے رہا تھا۔ پھر وہ سب کرسیوں پہ بیٹھ گئے اور کافی پینے لگے۔ سارہ کو کچھ گڑبڑ لگ رہی تھی۔

“ایسی کون سی بات ہے جو عاشر اتنی جلدی میں خضر کو بتانے آیا لیکن ریحان کو اور مجھے دیکھ کر فوراً سے چپ کر گیا۔”

سارہ نے دل ہی دل میں سوچا۔

“پتہ تو میں لگوا ہی لوں گی خضر! تمہیں مجھ سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ اور یہ بات تو سچ ہے کہ عاشر تمہاری سائیڈ پہ ہمیشہ رہا ہے۔ اس لیے مجھے عاشر سے ہوشیار رہنا ہو گا۔”

وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے اپنے دماغ کا ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ جبکہ خضر بے چین تھا۔ وہ جلد حقیقت جاننا چاہتا تھا۔ سچ جاننا چاہتا تھا۔ وہ سچ جو عاشر اسے بتانے کے لیے اس کے پاس آیا تھا۔

                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(جاری ہے)

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button