رومینٹک ناول
Trending

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 16

Romantic Novel Khumarey Jaan by Hina Shahid

Story Highlights
  • مرجان نے یکدم ہی ابی کی طرف دیکھا جو ثمن بیگم سے خضر کا پوچھ رہے تھے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ رمشا نے یوں اچانک سے اس کے ٹھہر جانے کا نوٹس لیا۔ "کیا ہوا ہے محترمہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟" پاس سے گزرتے ہوئے ہولے سے کہنی مارتے ہوئے اس نے مرجان کی مسکان کا بغور جائزہ لیا۔ تو مرجان نے نظریں جھکاتے ہوئے اس کے سوال کی نفی کی۔ "کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔!" وہ مختصر کہتے ہوئے میز پر پلیٹس سیٹ کرنے لگی۔ "یہ کچھ نہیں بہت کچھ ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔" رمشا نے اسے چھیڑا۔ "کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟" مرجان نے فوراً سوال داغا۔ "وہ آ گیا ہے اپنے روم میں فریش ہونے کے لیے گیا ہے ابھی آتا ہی ہو گا۔" ثمن بیگم کی بات سن کر مرجان نے ڈائننگ روم کی سامنے والی وال پہ لگی مرر ونڈو کی جانب دیکھا جہاں سے پورچ کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ خضر کی وائٹ کار سامنے ہی کھڑی تھی۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اسے پتہ نہیں چلا تھا کہ کب خضر گھر آ گیا ہے۔ رمشا نے بغور اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ "تمہیں افسوس ہو رہا ہے کہ خضر بھائی گھر آ گئے ہیں اور تمہیں پتہ نہیں چلا۔" "نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!" مرجان نے پلیٹ سیدھی کرتے ہوئے رمشا کی بات کی سرزنش کی۔ تو پھر پورچ میں گاڑی کو جھانکنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہےَ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟" رمشا بضد سوال پہ سوال کر کے اسے کنفیوز کر رہی تھی۔ "مام آج کھانا کھلانے کا کوئی موڈ نہیں ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟" خضر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بولا تو رمشا فوراً سے ڈائننگ روم سے باہر آ گئی۔ "خضر بھائی! آئیے آپ کو آج سپیشل کھانا کھلاتے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔!" رمشا کی آواز پہ خضر نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جو ڈائننگ ہال کے ڈور میں کھڑی تھی۔ خضر اس کی بات سن کر مسکرایا اور سیڑھیوں سے نیچے آیا۔ "کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ " اس

خمارِجاں از حناء شاہد

 

 

 

 

“ہاں ! اب بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔! جو کام تمہارے ذمے تھا اس کا کیا بنا؟؟؟؟”

خضر نے ریحان اور سارہ کے کانفرنس روم سے باہر جاتے ہی بے چینی پہ قابو نہ رکھتے ہوئے پوچھا تو عاشر کھلکھلا کر ہنسنے لگا اور پھر بولا۔

“صبر! میرے یار! صبر ۔۔۔۔۔۔!”

اس نے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے اس کی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔

“عاشر! میں بہت سیریس ہوں۔”

“آئی نو! میں بھی بہت سیریس ہوں۔”

عاشر کو مذاق سوجھ رہا تھا جبکہ خضر کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی پیاسا کنویں کے بہت قریب ہوتے ہوئے بھی پانی نہ پی سکے۔

“”عاشر ! تو نے مجھے بتانا ہے یا پھر میں یہاں سے چلا جاؤں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اب کہ وہ غصے سے غرایا تو عاشر نے اس کی طرف استہزائیہ انداز میں دیکھا اور بولا۔

“اس دن مارکیٹ میں اس چڑیل کے ہمراہ جو حسینہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! تھی۔۔۔۔۔۔۔!”

عاشر نے لفظ حسینہ کو قدرے کھینچ کر کہا تو خضر کا دل زور سے دھڑکنے لگا اسے یوں لگا جیسے ابھی دل پھڑپھڑا کر چپ ہو جائے گا۔ وہ بغور اور بھرپور توجہ کے ساتھ عاشر کی بات سن رہا تھا۔

“کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ عاشر کی خاموشی پہ چڑ کر بولا۔ تو وہ زوروں سے ہنسنے لگا اور پیٹ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔

“وہ حسینہ کوئی اور نہیں تھی میری مرجان بھابھی ہی تھی۔”

عاشر کا کہنا کیا تھا خضر کے تو ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ پہلے حیران اور پھر ایسے خوشی سے اچھل کر کھڑا ہوا اور عاشر کو زور سے گلے لگاتے ہوئے اس نے تھوڑا اوپر کو اسے اٹھا لیا۔ وہ بے حد خوش تھا۔ اپنی آنکھیں بند کیے وہ اس کی آنکھوں کو محسوس کر رہا تھا۔ جبکہ عاشر وہ تو چیخ رہا تھا۔

“خضر! یار!!! مجھے تو نیچے اتار یار!!! میں گر جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

عاشر کے مضبوط بازوؤں کے حصار میں قید تھا۔ خود کو اس کے حصار سے قید کروانے میں لگا تھا۔ جبکہ خضر کو تو ہوش ہی نہیں تھا۔ وہ تو بلوری آنکھوں کے سحر میں مبتلا پتہ نہیں کس کس وادی میں قدم رکھ چکا تھا۔

                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“اچھا! تو عاشر مجھ سے یہ سب چھپا کر خضر کو خوش کرنے میں لگا ہے۔”

سارہ نے غصے سے فائل میز پر پٹخی۔ اور اپنی چئیر پہ بیٹھتے ہوئے اس نے کہنیاں میز پہ رکھی اور دونوں ہاتھ تھوڑی کے نیچے رکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگی۔

“مطلب مرجان کو خضر پہلے سے جانتا ہے۔”

اس کے ذہن میں ایک طوفان برپا ہوا۔

“کیا خضر اس کی محبت میں مبتلا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس کے ذہن میں اٹھنے والے سوال نے اسے انسان سے حیوان بننے پہ مجبور کیا اس نے زور سے ہاتھ میز پہ مارا اور چیخی۔

“ناٹ! ناٹ! ناٹ! خضر بیگ میں تمہیں برباد کر دوں گی لیکن کبھی بھی تمہیں اس سو کولڈ دو ٹکے کی لڑکی کا ہونے نہیں دوں گی۔”

وہ غصے سے غرائی اس کی آنکھوں میں عجیب نفرت اور حقارت تھی۔

مسٹر عاشر! تمہیں بھی میں دیکھ لوں گی۔ سب سے پہلے تو تمہیں راستے سے ہٹانا ہو گا۔ اور کیوں نا مرجان اور عاشر۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!”

اس کے شیطانی ذہن نے جال بُننا سٹارٹ کر دیا تھا وہ نامعلوم کیا کیا سوچ رہی تھی۔ پھر ایک طنزیہ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ بکھری اور اس نے اپنا سیل فون اٹھایا اور اپنے کیبن سے باہر آ گئی۔ جب ریحان کانفرنس روم سے باہر آیا تو وہ دھیمے قدموں کے ساتھ چلتے چلتے باہر آ گئی لیکن اسے عاشر اور خضر پہ شک تھا کہ وہ کوئی بات ضرور ایک دوسرے کو بتانا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے تو ریحان کو گڈ بائے بولنے کے فوراً بعد اس نے دوبارہ سے کانفرنس روم کا رخ کیا اور ڈور کے باہر کھڑی ہو گئی اور عاشر کی خضر کو بتائی جانے والی بات بغور سننے لگی۔ پہلے اس کی بات سن کر وہ شدید غصے میں آ گئی لیکن پھر جب اس نے ٹھنڈے دماغ سے سوچا تو وہ اپنے ہی دوستوں کو برباد کرنے کی پلاننگ کرنے لگی۔

بعض اوقات ہم اس قدر خودغرض ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔ ہم اپنے وجود کی خوشی کے لیے کسی کے بھی وجود کی دھجیاں بکھیرنے میں ، اس کی عزت کو پاش پاش کرنے میں ایک پل کا بھی انتظار نہیں کرتے ۔ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ کسی کو برباد کر  کے اس کی خوشیاں چھین کر ہمیں کوئی خوشی مل سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔!

اسی سوچ سے عاری سارہ اپنے وجود کی خوشی کے لیے اپنے ہی بیسٹ فرینڈ کی خوشیوں کو برباد کرنے کی پلاننگ کرتے ہوئے بے حد خوش ہو رہی تھی۔

                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“جس رشتے کو محض سمجوتہ بول کر مجھے میری حیثیت سے آگاہ کیا گیا۔ آج اسی سمجھوتے پہ محبت کی مہر لگا کر مجھے اسے قبول کرنے کا بول رہی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

مرجان نے الماری کا پٹ زور سے کھولا اور غصے سے چیخی رمشا سے نظریں چراتے ہوئے وہ قدرے حقارت سے سوال کر گئی۔

رمشا بیڈ پہ بیٹھی اس کی بے چین نظروں کو بغور دیکھ رہی تھی۔ وہ بول کچھ رہی تھی اور اس کے چہرے پہ تاثرات کچھ اور تھے۔ عاشر سے ساری حقیقت جاننے کے بعد ان دونوں نے ایکدوسرے کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ خضر اور مرجان کی لائف میں سب کچھ ٹھیک کر دیں گے۔ اور عاشر کے منہ سے یہ بات سن کر وہ بے حد خوش تھی کہ نکاح سے پہلے ہی خضر جس لڑکی کی محبت میں مبتلا تھا وہ کوئی اور نہیں تھی بلکہ مرجان تھی۔ اسی لیے تو وہ اس کے پاس آئی تھی اس سے بات کرنے اسے سمجھانے ۔ لیکن اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ عاشر سے وعدہ کر چکی تھی کہ وہ کبھی بھی مرجان کو ساری بات نہیں بتائی گی۔ اسی لیے تو وہ گول مول باتیں کر کے مرجان کو اس رشتے کو دل سے قبول کرنے کے لیے بضد تھی۔

“میری جان! مرجان! تم وہ سب بھول جاؤ اور اس رشتے کو دل سے تسلیم کر لو۔۔۔۔۔۔!”

وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور چلتے ہوئے مرجان کے پاس آئی جو چیجنگ روم میں بنی اس بڑی سی الماری کے پٹ کھولے بلا وجہ کی اچھل کود کرنے میں لگی تھی۔ ترتیب سے رکھی ہوئی چیزوں کو بے ترتیب انداز میں رکھتے ہوئے پھر سے انب کی ترتیب کو درست کرنے میں لگی تھی۔

“نہیں ! کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

اس کا لہجہ روہانسی ہو گیا تھا۔

“مرجان! ادھر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

رمشا نے اس کی رندھی آواز پہ اس کا چہرہ اپنی طرف کیا اور بولی۔

“میرے بابا نے مجھے ایک ایسے انسان کے سر پر زبردستی تھوپا ہے جو مجھ سے میرے وجود سے نفرت کرتا ہے۔ اس نے ایک بار بھی مجھے وہ عزت وہ مقام نہیں دیا جو ایک بیوی کا حق ہے۔  بابا نے جاتے جاتے مجھے اس احساسِ ندامت میں مبتلا کر دیا ہے کہ شاید میں ان پہ بوجھ تھی۔ ان کی بیماری کی اصل وجہ میں تھی۔”

وہ شدید غم میں مبتلا تواتر سے آنسو بہانے لگی رمشا کو اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو تکلیف میں مبتلا کر گئے۔

“ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔!”

اس نے اسے گلے سے لگا لیا اور اس کی کمر پہ ہلکے سے ہاتھ پھیرنے لگی۔

“خضر نے صبح میری اور تمہاری ساری باتیں سن لی تھیں اور انہوں نے مجھے غصے سے بولا ہے کہ نیکسٹ میں تمہارے ساتھ کوئی بھی بات شئیر نہ کروں۔”

وہ روتے روتے بولی تو رمشا کے لبوں پہہ تبسم بکھرا۔

“اچھا! تم چپ تو کرو اور ادھر آؤ۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ اسے لے کر بیڈ روم میں آ گئی اور اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اس کا چہرہ صاف کیا۔ اور پھر بولی۔

“مرجان! ایک سوال پوچھوں۔”

اندازسوالیہ تھا اور نگاہیں اس کے چہرے پہ مرکوز کیے وہ اسے ہی بغور دیکھ رہی تھی۔

“ہممممممممم!!!”

مرجان نے اپنی سرخ ہوتی بلوری آنکھیں اس پہ جماتے ہوئے کہا تو رمشا کے سوال نے اسے اندر تک مضطرب کر دیا۔

“پہلی رات سے لے کر اب تک اتنے دن ہو گئے ہیں تمہیں خضر بھائی کے ساتھ کیا ایک بار بھی تمہارا دل ان کی طرف مائل نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان تو تعجب سے بس اس کی طرف ہی دیکھی جا رہی تھی۔

دست بستوں کو اشارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اب وہی شخص ہمارا بھی تو ہو سکتا ہے

میں یہ ایسے ہی نہیں چھان رہا ہوں اب تک

خاک میں کوئی ستارہ بھی تو ہو سکتا ہے

گر مقدر کا میرے سر پہ ہو سایہ لوگو!

تب یہ گرداب کنارہ بھی تو ہو سکتا ہے

عین ممکن ہے کہ بینائی مجھے دھوکہ دے

یہ جو شبنم ہے شرارہ بھی تو ہو سکتا ہے

اس محبت میں ہر ایک شے بھی تو لٹ سکتی ہے

اس محبت میں خسارہ بھی تو ہو سکتا ہے

“میں نے کچھ پوچھا ہے مرجان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے اسے جھنجھوڑ کر کہا وہ جو نامعلوم کن خیالوں میں گم ہو گئی تھی۔ رمشا کی آواز پہ حواس بحال ہوئے تو نظریں چرا گئی اور بولی۔

“نہیں! کبھی بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”

جواب مختصر تھا۔ لیکن اس کا یوں نگاہیں چرانا رمشا پہ بہت کچھ واضح کر گیا۔

“کیا نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟ میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔ تمہارے دل میں اگر ذرا سے بھی جذبات نہیں ہیں تو یہی بات میری آنکھوں میں دیکھ کر بولو۔'”

رمشا اس سے اصل بات اگلوانا چاہتی تھی۔ وہ بس یہ یقین کرنا چاہتی تھی کہ آیا مرجان کے دل میں خضر کو لے کر کیا احساسات ہیں ۔ وہ اس کے سب سے قریب تھی۔ اور بس اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی۔

“میرے دل میں ایسا کوئی جذبہ نہیں ہے رمشا! اور اب تم جاؤ مجھے کچھ کام کرنے ہیں۔”

“میں تب تک یہاں سے نہیں جاؤں گی جب تک تم اقرار نہیں کر لیتی۔”

رمشا نے اٹل لہجے میں کہا تو مرجان اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں ضم کیے نظریں چرانے لگی۔

“کون سا اقرار۔۔۔۔۔۔۔!”

انداز سوالیہ تھا۔ اور لہجہ تذبب کا شکار تھا۔ وہ اپنی فیلنگز چھپانا چاہتی تھی ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی پہ بھی عیاں کرے کہ وہ خضر بیگ کی قربت میں کس قدر مطمئن اور خوش ہوتی ہے۔ خضر بیگ جب جب اس کے قریب آیا ہے اسے یوں لگا ہے جیسے وہ کسی سلطنت کی شہزادی ہو لیکن لیکن! ہر انسان میں انا ہوتی ہے۔ اور تھوڑی بہت انا تو وہ بھی رکھتی تھی۔ پہلی رات جس رات مرجان نے اس گھر میں اپنے قدم رکھے تھے۔ خضر بیگ نے اپنے لہجے سے اسے اس قدر تکلیف پہنچائی۔ نکاح کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اسے اس کی زندگی میں بلا اجازت داخل ہونے پہ اس جرم کی سزا سنا دی جو اس  نے کیا ہی نہیں تھا۔ وہ کیسے بھول سکتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟

“یہی کہ تمہیں محبت ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔!”

رمشا نے معصومانہ انداز میں اس سے اقرار کروانا چاہا۔

“نہیں ۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ بضد انکار پہ انکار کر رہی تھی۔

“ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔”

وہ اسے یقین دلانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔

“تو پھر تم مجھ سے نظریں کیوں چرا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ اس سے کسی بھی حال میں سچ اگلوانا چاہتی تھی۔

“ایسا ویسا کچھ نہیں ہے رمشا! تم پلیز مجھے پریشان نہ کرو۔”

مرجان چڑ کر بولی تو رمشا نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور بولی۔

“اچھا ٹھیک ہے۔ مان لیتی ہوں ایسی ویسی کوئی بات نہیں ہے ۔ لیکن مرجان میری ایک بات یاد رکھنا اگر خضر بھائی نے تمہاری طرف کوئی بھی پیش قدمی کی یا تمہاری طرف ہاتھ بڑھایا تو تمہیں میری قسم ہے تم انکار نہیں کرو گی۔”

وہ اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھے اس سے وعدہ لے رہی تھی۔ مرجان کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ شخص جو اسے قبول کرنے سے انکار کر چکا ہے وہ کیوں اور کس سببب اس کی جانب پیش قدمی کرے گا۔مرجان نے دل ہی دل میں سوچا ۔ اسے لگا رمشا کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہی ہے۔ کیونکہ جہاں تک وہ خضر کو جان ہائی تھی۔ وہ صرف اسے اس بات کی سزا دینا چاہتا ہے کہ وہ کیوں اس کے ساتھ نکاح کے لیے راضی ہوئی ۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بھی جذبہ نہیں رکھتا اس کے لیے۔ اس کے دل میں سوائے نفرت اور حقارت موجود ہے۔

“مجھ سے وعدہ کرو مرجان ! اگر انہوں نے تمہاری طرف ہاتھ بڑھایا تو تم پیچھے نہیں ہٹو گی۔ ہر بات کو بھلا کر فوراً سے ان کا ہاتھ تھام لو گی۔”

رمشا کے انداز نے نامعلوم مرجان پہ کیا اثر کیا اس نے رمشا کی آنکھوں میں دیکھا اور بولی۔

“ٹھیک ہے۔۔۔۔۔! میں وعدہ کرتی ہوں۔ اگر خضر بیگ نے اس رشتے کو دل سے نبھانے کی کوشش کی تو میں اس کا ساتھ ضرور دوں گی۔”

وہ معنی خیز انداز میں بولتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ پھر اپنی نظریں جھکا گئی۔ رمشا کو جو اقرار چاہئیے تھا وہ اس سے وعدہ کی صورت میں لے چکی تھی اور اسے پتہ تھا کہ مرجان مر جائے گی لیکن اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹے گی۔

                                   ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

زمین پر ہے مگر آسمان جیسی ہے

وہ نرم نرم سی لڑکی چٹان جیسی ہے

میرے حروف بھی جھوٹے ہیں میرے جذبے بھی

میری کہانی بھی سارے جہان جیسی ہے

یہ شام مل کر بچھڑنے کا استعارہ ہے

یہ رات ہجر کے کالے نشان جیسی ہے

ہوائیں روز بجھاتی ہیں خواہشوں کے دئے

یہ زندگی بھی اندھیرے مکان جیسی ہے

میں اپنے ساتھ ہوں یا کوئی دوسرا ہے ضیاء

یقین کی یہ گھڑی بھی گمان جیسی ہے

“بعض انسان اتنے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ انہیں نہیں پتہ ہوتا خدا نے ان کے دل کی خواہش کو زبان پہ آنے سے پہلے ہی پورا کر دیا ہوتا ہے اور ہم بلاوجہ کی تکرار سے اپنی زندگی میں خود کے لیے خود ہی مشکلات کھڑی کر کے اس پاک ذات سے شکوہ کر رہے ہوتے ہیں۔”

وہ بال پوائنٹ میز پہ رکھتے ہوئے گہری سوچ میں مبتلا تھا۔

“یہ میری خوش نصیبی ہے کہ جسے میں نے پہلی بار نامکمل دیکھا اور اس کی محبت میں اس قدر مبتلا ہوا کہ کسی کی بھی پروا نہ کی اس کی ادھوری ملاقات نے مجھے بے چین کر دیا اور میں ہر پل اس کی یاد میں تڑپنے لگا مجھے نہیں معلوم تھا خدا میری خواہش کو میری ذات کا حصہ بنا کر اسے مجھے نواز دے گا۔”

وہ مسکراتے ہوئے خود پہ رشک کرنے لگا۔

“میرا دل چاہتا ہے میں دنیا کو چیخ چیخ کر بتاؤں جس کو میں نے دل سے چاہا جس کو پانے کی میں نے خواہش کی وہ میری ذات کا حصہ ہے۔ وہ میری زندگی میں میری ہمسفر ہے۔ میں اتنا خوش ہوں کہ میں شاید اپنی خوشی کو بیان ہی نہ کر پاؤں۔”

اس نے رشک کی حالت میں کمر چئیر کی بیک کے ساتھ لگائی اور اپنا سر ہولے سے رکھتے ہوئے چھت کی طرف دیکھنے لگا ۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر گیا۔

“میں آج ہی مرجان سے اپنے دل کی ہر بات کہہ دوں گا۔”

فرطِ جذبات سے اس کے سرخ لبوں پہ تبسم بکھرا۔

“لیکن ! اگر اس نے مجھے ٹھکرا دیا  اور میری محبت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو!”

اچانک سے اٹھنے والے خوف نے اس کے سرخ لبوں کی مسکراہٹ چھینی وہ جو حسین خواب بُن رہا تھا اچانک سے اس کے جذبات ٹھنڈے ہوئے اور خوف کی لہر نے اس کے گرد حصار باندھا۔

“نہیں ! میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں مرجان کے دل میں اپنے لیے محبت کی چنگاڑی جلاؤں گا تاکہ جب میں اس سے اظہارِ محبت کروں تو وہ میری محبت سمیت مجھے دل سے قبول کر لے۔”

وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کر رہا تھا۔ قسمت تو پہلے ہی اس پہ مہربان تھی کہ جسے اس نے چاہا تھا خدا نے اسے اس سے نواز بھی دیا۔ اور اب حقیقت جاننے کے بعد اس کو مکمل حاصل کرنے کے لیے اس نے زور زبردستی کی بجائے محبت سے اس کا دل جیتنے کا سوچا اور دھیرے سے مسکراتے ہوئے انہی آنکھوں کے حصار کو محسوس کرنے لگا۔ جن کے سحر میں اس کے دل کا چین تھا۔ اس کی روح کی خوشی تھی۔

                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“آج کھانا مرجان نے بنایا ہے ابی!”

ثمن خوشی خوشی ابی کو بتا رہی تھیں ۔ مرجان اور رمشا کچن میں شمائلہ کے ساتھ کھانا میز پہ سرو کرنے کے لیے بار بار ڈائننگ روم میں سے چیزیں لا لا کر رکھ رہی تھیں۔

“اس کا مطلب ہے آج تو کھانے کا مزا ہی کچھ اور ہو گا۔۔۔۔۔۔۔!”

ابی نے مسکراتے ہوئے مرجان کی طرف دیکھا جو مرجنڈا کلر کا شفون کا فراک پہنے ہوئے تھی۔ جس کے بارڈر پہ گولڈن کام ہوا تھا۔ اور گولڈن کلر کا ہی شفون کا سمپل ڈوپٹہ تھا۔ چوری دار پاجامے اور لانگ فراک میں بغیر کسی میک اپ کے وہ سادگی میں بھی بے حد حسین لگ رہی تھی۔ بالوں کی فرنچ کیے اور دو چار لٹیں چہرے کو چھوتی ہوئی اس کے حسن کو مزید بڑھا گئی تھیں۔ ابی نے دل ہی دل میں اس کو بے پناہ دعائیں دیں۔ اور مسکراتے مسکراتے بولے۔

“خضر کہاں ہے۔۔۔۔۔۔؟ آیا نہیں ابھی تک۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان نے یکدم ہی ابی کی طرف دیکھا جو ثمن بیگم سے خضر کا پوچھ رہے تھے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ رمشا نے یوں اچانک سے اس کے ٹھہر جانے کا نوٹس لیا۔

“کیا ہوا ہے محترمہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

پاس سے گزرتے ہوئے ہولے سے کہنی مارتے ہوئے اس نے مرجان کی مسکان کا بغور جائزہ لیا۔ تو مرجان نے نظریں جھکاتے ہوئے اس کے سوال کی نفی کی۔

“کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔!”

وہ مختصر کہتے ہوئے میز پر پلیٹس سیٹ کرنے لگی۔

“یہ کچھ نہیں بہت کچھ ہونے کی گواہی دے رہا ہے۔”

رمشا نے اسے چھیڑا۔

“کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان نے فوراً سوال داغا۔

“وہ آ گیا ہے اپنے روم میں فریش ہونے کے لیے گیا ہے ابھی آتا ہی ہو گا۔”

ثمن بیگم کی بات سن کر مرجان نے ڈائننگ روم کی سامنے والی وال پہ لگی مرر ونڈو کی جانب دیکھا جہاں سے پورچ کا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ خضر کی وائٹ کار سامنے ہی کھڑی تھی۔ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ اسے پتہ نہیں چلا تھا کہ کب خضر گھر آ گیا ہے۔ رمشا نے بغور اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔

“تمہیں افسوس ہو رہا ہے کہ خضر بھائی گھر آ گئے ہیں اور تمہیں پتہ نہیں چلا۔”

“نہیں ایسی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔!”

مرجان نے پلیٹ سیدھی کرتے ہوئے رمشا کی بات کی سرزنش کی۔

تو پھر پورچ میں گاڑی کو جھانکنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہےَ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا بضد سوال پہ سوال کر کے اسے کنفیوز کر رہی تھی۔

“مام آج کھانا کھلانے کا کوئی موڈ نہیں ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خضر سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بولا تو رمشا فوراً سے ڈائننگ روم سے باہر آ گئی۔

“خضر بھائی! آئیے آپ کو آج سپیشل کھانا کھلاتے ہیں ہم۔۔۔۔۔۔۔!”

رمشا کی آواز پہ خضر نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ جو ڈائننگ ہال کے ڈور میں کھڑی تھی۔ خضر اس کی بات سن کر مسکرایا اور سیڑھیوں سے نیچے آیا۔

“کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ “

اس نے اچنبھے سے پوچھا۔

“وہ دراصل کھانا مرجان نے بنایا ہے تو اس لیے وہ سپیشل بول رہی ہے۔”

اس سے پہلے کہ رمشا خضر کی بات کا جواب دیتی ثمن بیگم نے بول کر خضر کو بتایا تو وہ ایکدم ہی خوشی سے نیہال ہو گیا۔

“چلیں ! پھر دیر کس بات کی ہے۔۔۔۔۔۔! ویسے بھی آج مجھے کچھ زیادہ ہی بھوک لگی ہے۔”

خضر کو یہ جان کر شاید زیادہ خوشی ہوئی تھی کہ آج کھانا مرجان نے بنایا تھا۔ اس لیے اس نے شدتِ بھوک کی بات کی۔ ابی اپنے لاڈلے کے بدلتے ہوئے رنگ بغور دیکھ رہے تھے۔ بیٹے کے چہرے پہ چھائی خوشی ثمن سے بھی کہاں چھپ سکی تھی۔ خضر نے ڈائننگ روم میں قدم رکھا تو مرجان نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا ۔ سکائی بلیو کاٹن کی قمیض شلوار پہنے گیلے بال سیٹ کیے وہ بڑی بارعب شخصیت کے ساتھ بے حد خوبصورت لگ رہا تھا۔ مرجان نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا گئی۔ابی نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خضر مرجان کے برابر رکھی کرسی پہ فوراً سے بیٹھ گیا۔ مرجان بھی اس کے بغل میں پڑی کرسی پہ بیٹھی۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا۔ بیغ خاندان کی ایک روایت تھی۔ وہ کھانا دیسی کھاتے تھے۔ ہاں کبھی کبھار جب آفیشلی گھر میں کوئی دعوت ہو تب ممکن تھا کہ کچھ چائینیز یا ریشین کھانا بن جاتا۔ ورنہ ہر روز ابی کی طبیعت کے مطابق دیسی کھانا بنتا تھا۔ اسی لیے مرجان نے ابی کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دال چاول ود سبز مرچی کا رائتہ ، خضر کے لیے مٹن قورمہ اور فش فرائی کی تھی۔ چکن پلاؤ کے ساتھ ساتھ میٹھے میں ابی کی پسند کی کھیر بنائی گئی تھی۔ کھانوں سے اٹھنے والی خوشبو نے سب کو ہی اپنے سحر میں لیا۔

“واہ ! بھئی آج تو کھانے کا مزا آ گیا۔”

ابی نے رومال کے ساتھ منہ صاف کیا تو ثمن بیگم نے مسکراتے ہوئے مرجان کی طرف دیکھا جو خاموشی کے ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھی۔ ابی کی داد پر اس نے نظریں اٹھا کر ابی کی جانب دیکھا۔ تو خضر نے بھی اس کی تعریف کر ڈالی۔

“ابی ! مجھے تو لگتا تھا آپ کی بہو کسی کام کی نہیں ہے لیکن کھانے کی لذت بتاتی ہے بہو تو بڑے کام کی ہے۔”

خضر کی طنزیہ چوٹ پہ سب چونکے۔ مرجان نے قہر آلود نگاہ خضر پہ ڈالی۔ وہ زیرِ لب مسکرا رہا تھا۔

“خبردار جو کسی نے میری جان کو کچھ بولا۔ مجھے پتہ ہے مرجان میں ہر گُن موجود ہے۔”

ثمن بیگم نے اس کی بلائیں لیں اور خضر کا کان پکڑ کر کھینچا۔ تو وہ بلبلا اٹھا۔

“اچھا! اچھا! مام ! میرا کان تو چھوڑ دیں ۔ اب آپ لی بہو کو کچھ بھی نہیں بولوں گا میں۔”

ابی کھلکھلا کر ہنس دیے رمشا کو بھی خوب مزا آ رہا تھا۔ اسے ساری سمجھ تھی کہ خضر کس طرح مرجان میں انٹرسٹ لے رہا تھا۔ ثمن بیگم نے باآخر اپنے لاڈلے کے کان چھوڑ دیے تو اس نے ایک نگاہ مرجان پہ ڈالی جو دھیمے انداز میں مسکرا رہی تھی۔

“اچھا تو میڈم میری درگت پہ ہنس رہی ہیں۔”

مرجان نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا نگاہوں کا ملن ہوا خضر کی نظروں کی تپش مرجان سے برداشت نہ ہوئی۔ اس نے نظریں جھکا لیں۔

“اچھا! میری بیٹی نے آج پہلی بار کھانا بنایا ہے تو میری طرف سے یہ انعام۔۔۔۔۔۔!”

ابی نے پانچ پانچ ہزار کے بہت سے نوٹ جیب سے نکالے اور اٹھ کر مرجان کے پاس آئے اور اس کے سر پہ دستِ شفقت رکھتے ہوئے اس کے ہاتھوں میں نوٹ تھما دیے۔

“نہیں ابی جان ! مجھے ان سب کی ضرورت نہیں ہے۔”

مرجان نے فوراً سے انکار کیا۔ تو ثمن بیگم جھٹ سے بولیں۔

“رکھ لو مرجان! یہ تمہارا حق ہے۔”

مرجان نے ثمن کی بات پہ عمل کیا اور پیسے پکڑ لیے۔ ابی نے محبت بھرا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا اور دھیرے سے بولے۔

“خدا تم دونوں کو صدا خوش رکھے۔”

“آمین۔۔۔۔۔۔۔!”

ثمن بیگم سمیت رمشا کے منہ سے بھی آمین نکلا۔ خضر مسلسل مرجان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ جو نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔ خضر کا دل یکدم زور سے دھڑکا اسے مرجان پہ بہت پیار آیا۔ پھر وہ جوس کا گلاس تھامے اٹھا۔ اور ڈائننگ روم سے باہر آ گیا۔

“کہاں جا رہے ہو لاڈلے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ابی نے فوراً سے سوال کیا۔ تو خضر رک گیا اور بولا۔
“ابی! اپنے روم میں جا رہا ہوں۔ آفس کا کچھ کام ہے وہ بھی کرنا ہے۔”

خضر نے رخ موڑ کر کہا۔ مرجان نے فوراً سے اس کو جاتا دیکھا۔ لیکن جب خضر نے رخ موڑ کر کہا تو مرجان نے نگاہیں چرا لیں۔

“چلو ٹھیک ہے ! جاؤ ! شاباش اپنا کام کرو جا کے۔۔۔۔۔۔۔!”

انہیں نے حلاوت سے کہا تو وہ بھی بنا رکے فوراً سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔ پھر سب نے چائے نوش کی ۔ ابی اپنے روم میں چلے گئے۔ رمشا ثمن بیگم اور مرجان نے خوب باتیں کیں۔ پھر ثمن بیگم مرجان سے بولیں تو وہ ان کی بات سن کر مشکل میں پڑ گئی۔

“مرجان! میری جان! جاؤ اب شاباش اپنے روم میں خضر بھی انتظار کر رہا ہو گا۔”

رمشا نے فوراً سے ثمن بیگم کی طرف اور پھر مرجان کی جانب دیکھا جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئی تھیں۔

“وہ۔۔۔۔۔۔۔! مام! ابھی مجھے نیند نہیں آئی۔”

مرجان نے عذر پیش کیا۔ کیونکہ خضر کی یہ بات اسے اچھے سے یاد تھی کہ جب تک روم کی لائٹ آف نہ ہو جائے اور وہ سو نہ جائے مرجان کو روم میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اسے معلوم تھا کہ خضر 12 بجے سے پہلے نہیں سوئے گا۔ اسی لیے تو وہ دیر تک رمشا کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی تھی۔ لیکن آج تو ثمن بیگم بھی موجود تھیں اس لیے وہ مشکل میں پڑ گئی۔

“اچھا آنٹی! میں بھی اپنے روم میں چلتی ہوں ۔ مجھے بھی اب نیند آ رہی ہے۔”

رمشا نے جمائی لیتے ہوئے کیا خوب ایکٹنگ کی اور گزرتے گزرتے مرجان کو شریرانہ آنکھ بھی دے ماری۔ مرجان کو اس کی ساری شیطانیاں سمجھ آ رہی تھیں۔ وہ فلائنگ کس کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے روم کی جانب چلی گئی۔ ثمن بیگم نے اسے روم میں جانے کا اشارہ کیا تو وہ جو مشکل میں پڑ گئی تھی۔ کبھی سیڑھیوں کی طرف اور کبھی ثمن بیگم کی جانب دیکھ رہی تھی۔

“دیکھو مرجان! خضر کے دل میں تمہیں خود جگہ بنانا پڑے گی۔ خڈا نے ایک لڑکی کو ایک عورت کو اس صلاحیت سے نوازا ہے کہ وہ اپنی محبت سے کسی کا بھی دل جیت سکتی ہے۔ اور مرد کا دل جیتنا تو بہت آسان ہے۔ تھوڑی سی محبت، تھوڑی سی کئیر عورت کو مرد کے دل کی ملکہ بنا سکتی ہے۔ اور مجھے مرجان تم پہ پورا یقین ہے تم بہت جلد میرے خضر کے دل پہ راج کرو گی۔”

مرجان نے یکدم ہی ثمن کی طرف دیکھا جو بے انتہاؑ محبت سے اپنائیت سے اسے سمجھا رہی تھیں۔ وہ ان کی ہر بات پلو سے باندھے سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھا گئی۔

                                  ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ہاؤ آر یو ڈئیر۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ان نون نمبر سے مسلسل یہ چوتھی کال تھی۔ رمشا نے تنگ آ کر کال کنیکٹ کی اور فون کان کے ساتھ لگایا تو جانی پہچانی آواز نے اس سے اس کا حال پوچھا۔ رمشا کو بس ایک سیکنڈ ہی لگا تھا آواز پہچاننے میں۔

“تمہارے پاس میرا نمبر کہاں سے آیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ خونخوار شیرنی کی طرح اچھل کر بیٹھ گئی۔ اور غرائی۔ عاشر نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

“یہ کون سا مشکل کام ہے رمشا جی۔۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ ہنستے ہنستے بولا۔ اسے یقین تھا وہ سمارٹ لڑکی کچھ ہی سیکنڈز میں اس کی آواز پہچان لے گی۔ اور ایسا ہی ہوا تھا دو چار ملاقاتوں میں عاشر کی آواز اس کی سماعتوں میں ایسے سمائی کہ چند ہی سیکنڈز میں اس نے اس کی آواز سے صاف پہچان لیا کہ فون کے دوسری جانب عاشر ہے۔

“عاشر! بتاؤ مجھے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ غصے سے چلائی۔

“چھوڑو ان سب باتوں کو یہ بتاؤ۔۔۔۔۔! مشن کہاں تک پہنچا۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ متجسس انداز میں پوچھ رہا تھا۔

“مرجان بہت معصوم ہے لیکن۔۔۔۔۔۔!”

وہ اداس ہوتے ہوئے بولی۔

“لیکن کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

خضر بھائی کے کچھ الفاظ اس کے دل پہ چوٹ لگا گئے ہیں۔ اور اس چوٹ کے زخم اتنے گہرے ہیں کہ چاہ کر بھی ان زخموں کو وقت لگے گا بھرنے میں۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ رمشا کا ہر ہر لفظ بغور سمجھ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ پر امید تھا۔ کہ خضر جلد ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔

“رمشا! میرے ذہن میں ایک ترکیب ہے۔”

اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

“کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے فوراً پوچھا تو وہ بھی بنا وقت ضائع کیے اسے سب بتا گیا۔

“کیوں نا ہم ابی سے کہہ کر ان دونوں کو آؤٹ آف ٹاؤن بھجوا دیں۔”

“زبردست ! آئیڈیا برا نہیں ہے۔”

رمشا نے خوش ہو کر اسے سراہا۔

“ویسے مجھے لگتا تھا تم، بندر کی طرح بے عقل ہو۔ لیکن تمہارے پاس تو دماغ موجود ہے۔ اور وہ بھی ایک ذہین بندر کا دماغ۔”

رمشا نے طنزیہ چوٹ کی۔ لیکن عاشر اس کی بات سن کر ہنسنے لگا۔اور ہنستے ہنستے بولا۔

“چلو! تم نے تسلیم تو کیا ہے۔ کہ اس بندر کے پاس دماغ ہے۔ اور وہ بھی ایک ذہین بندر کا۔”

رمشا اس کی بات سن کر کھلکھلا کر ہنسی ۔

“ویسے ایک بات بولوں۔۔۔۔۔۔!”

عاشر نے اجازت چاہی۔

“جی ہاں ! جہاں آپ اتنا کچھ بول چکے ہیں وہاں ایک اور بات بھی بول لیں۔”

رمشا نے طنز کیا۔

“ویسے میں نے بہت کم چڑیلیں دیکھی ہیں جو اتنی حسین ہوتی ہیں۔”

“شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔!!!”

وہ غصے سے بولی اور پٹاخ سے اس نے فون بند کر دیا۔عاشر زور زور سے ہنسنے لگا۔

“بندر کہیں کا۔۔۔۔۔۔!”

اس نے ہنستے ہوئے فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور بلینکٹ میں منہ چھپا گئی۔

                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ابا۔۔۔۔۔۔!”

ایک آنسو کا موتی ٹوٹ کر اس کے رخساروں پہ بکھرا جسے اس نے فوراً سے صاف کر لیا۔ وہ گھٹنوں پہ سر رکھے اپنے باپ کی یاد میں تڑپ رہی تھی۔ ثمن بیگم کے کہنے پہ وہ اوپر تو آ گئی تھی لیکن روم میں نہیں گئی تھی۔ روم کی لائٹ ابھی بھی آن تھی۔ رات کا 1 بج رہا تھا۔ مرجان باہر اکیلی بیٹھی تھی سٹئیرز کے بالکل سامنے خضر کا روم تھا اور اسی روم کی دیوار کے ساتھ منسلک ایک بالکونی تھی۔ جو مرر وال کے پیچھے تھی۔ اور اس کا ایک دروازہ خضر کے بیڈ روم  کی طرف بھی کھلتا تھا۔

وہ سر جھکائے زارو قطار رو رہی تھی۔ خضر جو لیپ ٹاپ پہ اپنے کام میں مشغول تھا۔ کہ اچانک سے کسی کی سسکیوں بھری آواز اسے سنائی دی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ لیپ ٹاپ سائیڈ پہ رکھا۔ اور فوراً سے روم سے باہر آیا۔ لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس کے باوجود کسی کے رونے کی اواز مسلسل آ رہی تھی۔ اس نے آواز کے تعاقب میں قدم بڑھائے تو مرر وال میں سے باہر بیٹھا ایک معصوم سا وجود اسے نظر آیا۔ وہ چلتے چلتے مرر وال کے پاس آیا دھیرے سے ڈور اوپن کیا۔ اور بنا کوئی آہٹ کیے مرجان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔

“آپ رو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خضر کی آواز پہ وہ چونک سی گئی اور یکدم ہی جھکا ہوا سر اٹھا کر خضر کی جان دیکھا۔ وہ اس کے سر پہ کھڑا تھا۔ مرجان کی بلوری آنکھیں قدرے سرخ تھیں۔ ان آنکھوں میں تکلیف اور درد کا ایک طوفان تھا۔ خضر کا دل کٹ سا گیا۔

“نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”

روہانسی لہجے میں وہ صاف انکار کر گئی۔

“اگر آپ رو نہیں رہیں تو پھر یہ موٹے موٹے آنسو میرے ہوں گے۔”

خضر نے طنزیہ چوٹ کی مرجان نے ایک بار پھر اس کی جانب دیکھا غصے کے عالم میں اس کا دل چاہا اس شخص کا گریبان پکڑ کر اس سے سوال کرے۔ جب تم اس رشتے کے لیے دل سے راضی نہیں تھے تو اس وقت انکار کر دیتے ۔ مجھے اس اذیت اور درد میں مبتلا تو نہ ہونا پڑتا۔ احساسِ محرومی اسے اندر ہی اندر کھا رہا تھا۔ وہ سختی سے آنسو رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ خضر کو اس کے بچپنے پہ ہنسی آئی۔

“کہاں چل دیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

انداز سوالیہ تھا۔

“اپنے روم میں۔۔۔۔۔۔۔!”

اس نے مختصر جواب دیا۔

“کس نے کہا وہ روم آپ کا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خضر زیرِ لب مسکرایا۔

“میں ابی کی اکلوتی بہو ہوں اور اس خاندان کی اکلوتی بہو ہونے کے ناطے سے یہ گھر اور یہ کمرہ میرا ہے۔”

مرجان نے الفاظ چبا چبا کر ادا کیے۔ خضر کو اس کے انداز پہ ہنسی آئی۔ وہ خضر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ خضر نے بھی خوب اس کی بلوری آنکھوں میں جھانکا۔ بہت سحر انگیز آنکھیں تھیں اس کی۔ خضر کا دل زور سے دھڑکا۔ خود پہ قابو رکھنا بہت مشکل لگا اسے۔ پھر وہ رخ موڑ کر ڈور کو پار گئی۔ خضر نے دل پہ ہاتھ رکھا اور ایک گہرا سانس بھرا۔

“اچھا! تو آپ اس خاندان کی اکلوتی بہو ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ جو روم میں آتے ہی سیٹر صوفے پہ بلینکٹ بچھا کر سونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔ خضر کی بات سن کر چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔

“ہمممممممم۔۔۔۔۔۔۔۔!”

“تو پھر آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ بیگ خاندان کی بہو کا مقام یہ صوفہ نہیں ہے بلکہ ۔۔۔۔۔۔۔۔!”

خضر نے بیڈ کی جانب اشارہ کیا تو مرجان تعجب سے کبھی اس کی طرف اور کبھی بیڈ کی طرف دیکھنے لگی۔ پھر ہمت متجمع کرتے ہوئے بولی۔

“اس خاندان کی بہو کا مقام تو مجھے پتہ نہیں کیا ہے۔ لیکن جس بستر کی جانب آپ اشارہ کر رہے ہیں اس پہ صرف آپ کی من پسند بیوی کا حق ہے۔”

مرجان نے کیا خوب لفظوں کا نشتر اچھالا۔ لیکن خضر بھی اٹل فیصلہ کر چکا تھا مرجان کا دل جیتنے کا۔

“تو کیا مرجان خضر بیگ آپ میری منکوحہ ہونے سے اقرار کر رہی ہیں۔”

خضر نے اس کی کمر کے گرد اپنا بازو حمائل کیا اور اسے ایک ہی پل میں اپنے قریب کیا۔ وہ جو بڑی ہمت و حوصلے کے ساتھ کھڑی تھی۔ اور خضر کی ہر بات کا کانفیڈنس کے ساتھ جواب دے رہی تھی۔ خضر کی اس افتاد پہ اس کا سارا کانفیڈنس پانی پانی ہو گیا۔ خضر کی گرم سانسیں اسے اپنے چہرے پہ محسوس ہوئیں۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔

“چھوڑیے مجھے۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ معصوم انداز میں التجاء کر گئی۔

“یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔”

اس نے پھر سوال کیا۔

“منکوحہ میں اور من پسند بیوی میں فرق ہوتا ہے۔”

مرجان کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔ اپنی حیثیت کی بار بار چوٹ جہاں اسے زخمی کر رہی تھیں وہیں وہ بار بار اپنی حیثیت کا تذکرہ کر کے خضر بیگ کو بھی زخموں سے چور کرنا چاہتی تھی۔ لیکن خضر کو کسی زخم کی کوئی پروا نہیں تھی۔

“منکوحہ من پسند بیوی بھی بن سکتی ہے۔”

خضر کی بات مرجان کو مزید حیرت زدہ کر گئی۔ اس نے پلکوں کی جھالر اٹھا کر خضر کی جانب دیکھا۔ اس کی نظروں میں بہت کچھ تھا۔ مرجان ایک پل سے زیادہ اس کی نگاہوں میں جھانک نہ سکی۔ خضر کی آنکھوں میں بے حد خمار تھا۔ وہ جذبات سے بھرپور خود کو بے خود ہوتا محسوس کرنے لگا۔ اس کا دل چاہا ابھی اسی وقت وہ اپنے اور مرجان کے درمیان ہر فاصلے کو ختم کر دے ۔ ہر دوری کو اپنی محبت سے ، قربت سے ختم کر دے۔ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کے لبوں پہ جھکا اور اس کے شہد آگیں ہونٹوں کا جام پینے لگا۔ مرجان نے خود کو اس کے وجود کی قید سے آزاد کروانے کی بھرپور کوشش کی ۔ لیکن خضر کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی گرفت سے خود کو آزاد نہ کروا سکی۔ خضر کو پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔ وہ اس کی محبت کے خمار میں مبتلا اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکا۔ ہوش کا دامن چھوٹتے ہی وہ بے خود ہوتے اس کے وجود میں خود کو سمونے لگا۔ لیکن اس کے حواس اس وقت بحال ہوئے جب مرجان کی سسکیاں اس کی سماعتوں سے ٹکڑائیں۔ وہ بلبلا کر رو رہی تھی۔ خضر نے ایکدم ہی آنکھیں کھولیں۔ وہ معصوم بلی کی طرح اس کے وجود میں سمائی اس سے لاتعلقی کی بھیک مانگ رہی تھی۔ اور وہ جو خود سے بے خود اپنے جذبات میں بہہ گیا اب احساسِ ندامت سے اسے اپنی گرفت سے آزاد کیے روم سے باہر چلا گیا۔ وہ جو بلک بلک کر رو رہی تھی۔ اب زمین بوس ہو چکی تھی۔

                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button