رومینٹک ناول
Trending

Khumarey Jaan by Hina Shahid Episode 19

تمہارے لب پہ میرے نام کا تارہ چمکتا ہے

Story Highlights
  • ! " بلوری آنکھوں سے کاجل کی کئی دھاریں رخساروں پہ پھیل گئیں۔ اس سے پہلے کہ مزید چیختی اس نے زور سے اس کی تھوڑی پہ ہاتھ رکھا اور اس کے نرم لبوں کو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا۔ وہ بلبلا اٹھی۔ اپنی بھرپور کوشش اور سعی کے بعد بھی وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد نہ کروا سکی۔پھر اچانک سے اس نے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے اسے ایک بار پھر دھکہ دیا وہ دور زمین پہ جا گرا۔ مرجان نے اسے گرتا دیکھا تو جھٹ سے ساڑھی کا پلو سیدھا کیا۔ اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے روم ڈور کے قریب آئی۔ اور جھٹ سے دروازہ کھولا۔ تو دنگ کی دنگ رہ گئی۔ سامنے کھڑا شخص اس کی حالت دیکھ کر مزید حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ اس آہنی وجود سے لپٹ کر زاروقطار رو دی۔ ساڑھی کا پلو سارا کا سارا اس کے وجود کے گرد لپیٹتے وہ اسے خود سے الگ کرتے دیوار کے ساتھ کھڑا چھوڑ کر اب اس شخص کی جانب قدم بڑھا گیا جس نے اس کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔ "خبیث۔۔۔۔۔۔! کمظرف۔۔۔۔۔۔۔! کمینے۔۔۔۔

خمارِ جاں از حناء شاہد

قسط نمبر 19

 

 

“اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!۔”

 

چلتے چلتے وہ قدرے قریب آئی اور استہزائی انداز میں بولی۔ رمشا کا تو جیسے اسے دیکھ کر پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ مرجان نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا۔

“آپ اور یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

انداز استفہامیہ تھا۔

“مجھے مرجان سے اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔”

سارہ نے سنجیدگی کے ساتھ کہا تو رمشا حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی وہ جو سلک کی سکرٹ پہنے بنا دوپٹے کے ساتھ سٹائلش دکھ رہی تھی۔ رمشا کو اس کے سادہ نقوش کے پیچھے کوئی مکاری نظر آ رہی تھی۔

“آپ نے جو بات بھی کرنی ہے میرے سامنے کریں۔ اور ویسے بھی ہمیں دیر ہو رہی ہے سب نیچے مرجان کا انتظار کر رہے ہیں۔”

رمشا نے تلخ انداز میں کہا تو سارہ نخوت سے مسکرائی اور بولی۔

“اتنی بھی کیا جلدی ہے مرجان۔۔۔۔۔۔؟ چلتے ہیں ابھی ایک ساتھ ہی سب چلتے ہیں۔”

“جی سارہ! بتائیں کیا بات کرنی ہے آپ کو ہم سے۔۔۔۔۔۔؟”

اس بار مرجان نے حلاوت سے پوچھا۔ سادگی تو جیسے اسے گھٹی میں ملی تھی۔

“میں نے تم سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔ سو کائنڈلی اپنی فرینڈ سے بولو ہمیں کچھ دیر کے لیے اکیلا چھوڑ دے۔”

سارہ کے انداز کو بخوبی سمجھتے ہوئے مرجان نے رمشا کو جانے کا اشارہ کیا نا چاہتے ہوئے بھی رمشا کو اس کی بات ماننی پڑی سو وہ نخوت سے سارہ کے وجود کو دیکھتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

“مرجان۔۔۔۔۔۔!”

سارہ نے محبت سے اس کا نام پکارا۔

“جی۔۔۔۔۔۔!”

مرجان کی نظروں میں سوال تھے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سارہ نے اسے یوں یہاں اچانک کیوں روکا ہے۔ جبکہ وہ اچھی طرح سے جانتی تھی کہ سب لوگ اس وقت لان میں بے صبری کے ساتھ اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

“تمہیں کیا لگتا ہے تم بے حد خوبصورت ہو۔۔۔۔۔۔؟”

لہجے میں ایکدم ہی حقارت در آئی۔ مرجان نے حیرت سے اپنی بلوری آنکھیں اس کے وجود پہ جمائیں۔

“تمہیں لگتا ہے تم خضر بیگ کی منکوحہ سے اس کی بیوی تک کا سفر اتنی آسانی سے طے کر لو گی اور سارہ تمہیں یہ سلطنت باآسانی فتح کرنے دے گی۔”

درشت انداز میں اس کے وجود کا جائزہ لیتے وہ بولی۔ مرجان کے حواس یکدم ہی باختہ ہوئے۔

“خضر بیگ ۔۔۔۔۔۔! صرف سارہ کی ملکیت ہے ابی کے زبردستی فیصلے نے اسے تمہارے ساتھ نکاح کرنے پہ مجبور ضرور کر دیا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے تمہارے جیسی تھرڈ کلاس لڑکی جسے پہننے اوڑھنے تک کا سلیقہ نہ ہو اس کو بیگ خاندان اور بیگ انڈسٹریز کی اکلوتی بہو کے طور پر تو اپنے ملازمین کے ساتھ تعارف کرواتے ہوئے خود شاکڈ تھا اور تمہیں لگتا ہے وہ آج سارے زمانے کے سامنے تمہارا تعارف خوشدلی کے ساتھ کروائے گا۔ “

ایک ایک لفظ نفرت کی شہد میں ڈبو کر اس کے وجود کو ذخمی کرنے میں مگن سارہ اپنی ہر حد کو پار کر چکی تھی۔

“یہ خوبصورت اور بیش قیمت لباس اور زیور وہ صرف تمہارے لیے اس لیے لے کر آیا تاکہ خود کو زمانے کے سامنے رسوا ہونے سے بچا سکے۔ اپنا سٹینڈرڈ نیچا ہونے سے خود کو بچا سکے اور یقیناً تمہیں بھی تمام مڈل کلاس لڑکیوں کی طرح لگتا ہو گا کہ وہ تمہاری زلفوں کا اسیر ہو کر تمہارے حسن پہ فریفتہ ہو گیا ہو گا۔”

انگشتِ شہادت دکھاتے ہوئے وہ اسے اس کی نظروں میں پامال کر گئی۔ مرجان کی بلوری آنکھوں میں موتی جگمگانے لگے۔

“وہ کیا ہے نا۔۔۔۔۔۔۔! یہ پاکستان ہے۔ اور یہ پاکستانی مردوں کا شیوہ ہوتا ہے تھوڑا حسن دیکھ کر بہکنا تو ان کو وراثت میں ملتا ہے اور تم بھی یہی سمجھ لو خضر بیگ بس تھوڑا سا بہک گیا ہے خمار اترتے ہی ہوش میں آ جائے گا۔ اور یقین کرو سویٹ ہارٹ جس دن خمار اترا تم سیدھی خضر بیگ کے بستر سے دوبارہ اس صوفے پہ آ جاؤ گی اور ہو سکتا ہے سیدھا بیگ ہاؤس سے باہر ہی کر دی جاؤ سو ایک مخلصانہ مشورہ ہے اتنی خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے اس سے پہلے کہ خضر تمہیں خود اپنی زندگی سے بے دخل کرے تم خود ہی اس سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اس کی زندگی سے بہت دور چلی جاؤ۔”

سارہ کے الفاظ بجلی کی طرح اس کے وجود پہ کوند کر اس کے دل پہ گرج رہے تھے۔ تلاطم کا یہ حال تھا کہ دل چاہ رہا تھا کہ ابھی طوفان کی زد میں ہر جذبہ بہہ جائے اور دل کا دھڑکنا بند ہو جائے۔ سارہ کو اس کی حالت پہ ہنسی آ رہی تھی۔

“ہوپ سو۔۔۔۔۔۔! میری باتیں تمہیں تمہاری اصلیت اور خضر بیگ کی زندگی میں تمہارا مقام سمجھانے کے لیے کافی ہوں گی۔ بہتر ہے جلد از جلد اپنا باریا بستر سمیٹو اور چلتی بنو۔”

 وہ اسے وارن کرتے ہوئے خضر بیگ کی زندگی سے کہیں دور چلے جانے کی بات کر رہی تھی۔ مرجان کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کا دل خضر کی آنکھیں اسے اس حقیقت کو قبول نہیں کرنے دے رہی تھیں۔

“اور اگر میں یہاں سے نا جاؤں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

سارہ جو قلعہ فتح کر چکنے کے خیال سے رخ موڑ کر فاتحانہ مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے وہاں سے جانے ہی والی تھی کہ مرجان کے مضبوط انداز میں کہی بات نے اسے چونکا دیا اور یکدم ہی فاتحانہ مسکراہٹ درشت تاثرات کے ساتھ غائب ہو گئی۔ اس نے فوراً سے مرجان کی جانب دیکھا۔ جس کی بلوری آنکھوں میں آنسوؤں کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ خضر بیگ کی محبت کہیں نا کہیں اس کے دل میں سچائی اور پاکیزگی کا کوئی نہ کوئی بیج ڈال ہی چکی تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ اس نے سارہ کی ساری باتوں کو ایک طرف کرتے ہوئے اٹل انداز میں اس سے سوال کیا۔ سارہ جو قہر آلود نگاہوں کے ساتھ اس کے وجود کو دیکھ رہی تھی۔ اب اچانک سے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔!”

کوریڈور میں سارہ کی آواز گونجی۔

“سارہ نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا۔ جیت ہمیشہ سارہ کا مقدر رہی ہے۔ اور جو چیز سارہ کی ہوتی ہے وہ اسے ہت حال میں چھین کر ہی رہتی ہے۔ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔۔۔! وہ کیا ہے نا۔۔۔۔۔۔! میری مام ہمیشہ کہتی ہیں اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی کو ٹیڑھا کر لو۔ سو!!! مس مرجان۔۔۔۔۔۔! سارہ انگلی ٹیڑھی کرنا بھی جانتی ہے۔”

وہ تحقیر آمیز انداز میں اس کو انگلی دکھاتے ہوئے بول رہی تھی۔ مرجان اس کو ہر بات کو بخوبی سمجھ رہی تھی۔ اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ سارہ کبھی بھی اسے خضر کی زندگی میں اتنی آسانی سے داخل نہیں ہونے دے گی۔
“تو سارہ ٹھیک ہے آج مرجان خضر بیگ بھی آپ سے ایک وعدہ کرتی ہے اس رشتے کو نبھانے اور بچانے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اپنی جان دے دیں گے مگر اس رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔”

مرجان سچے دل کے ساتھ پرخلوص انداز میں خود سے اور سارہ سے وعدہ کر رہی تھی۔ کیونکہ مرجان کو اس بات پہ پورا یقین تھا کہ خدا کی ذات آپ کے لیے جو انتخاب کرتی ہے وہ کبھی بھی غلط ثابت نہیں ہوتا۔ اور جس رشتے کی بنیاد سچ پہ ہوتی ہے اسے کبھی بھی کوئی جھوٹ کی غلاظت سے گندہ نہیں کر سکتا۔

“لیٹس سی۔۔۔۔۔۔۔! بیسٹ آف لک۔۔۔۔۔۔!”

وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے اسے نیک دعا دیتے ہوئے رخ موڑ گئی۔ مرجان نے اسے جاتا دیکھا تو دل ہی دل میں خود سے وعدہ کرنے لگی۔

“مرجان ! لگتا ہے اب پلین ٹو پہ ورک کرنا ہی ہو گا۔ میں نے تو تمہارے سامنے سیدھا صاف رستہ رکھا تھا۔ اب تمہیں خود ہی بے عزت ہونا منظور ہے تو تمہاری اس نیک خواہش کو ابھی پورا کر دیتی ہوں۔ “

وہ مسکراتے مسکراتے ذہن میں غلیظ سوچوں کو ترتیب دیتے ہوئے جا رہی تھی۔

                                     ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے

اور اس کی خوش اثر حدت

میرے اندر طلسمی رنگ پھولوں کی نئی دنیا کھلانے میں مگن ہے

تمہارے لب پہ میرے نام کا تارہ چمکتا ہے

تو میری روح ایسے جگمگا اٹھتی ہے

جیسے آئینے میں چاند اتر آئے

میری پلکوں سے آنسو چوم کر

تم نے انہیں موتی بنانے کی جو ضد کی ہے

وہ ضد مجھکو بہت اچھی لگتی ہے

بہت خوش ہوں

کہ میرے سر پہ چادر رکھنے والا ہاتھ

میرے ہاتھ میں پھر آ گیا ہے

یہ پھول اور یہ ستارے اور یہ موتی

مجھکو قسمت سے ملے ہیں

اور اتنے ہیں کہ گنتی میں نہیں آتے

یہ میری قسمت ہے کہ جو میری قسمت تم ہو

یہ میری قسمت ہے کہ جو میری قسمت تم ہو

“ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔! شی از سو پریٹی۔۔۔۔۔۔!”

بلیک ساڑھی میں جھلمل جھلمل کرتی جب وہ رمشا کے ساتھ ہولے ہولے قدم بڑھاتی محفل میں آئی تو ثمن کے ساتھ جھرمٹ بنائے خواتین کے منہ سے یکدم ہی اسے دیکھ کر نکلا۔ ابی کی نظر سرعت سے اس جانب اٹھی۔ تو بلا ساختہ منہ سے ماشاءاللہ نکلا۔

“اللہ نظرِ بد سے بچائے۔”

علی اعظم مسکرا کر بولے اور دعا دی۔ وہ جو ابی کی بغل میں کھڑے تھے۔ ساتھ ہی وجاہت بھی سفید قمیض شلوار پہنے بلیک واسکٹ کے ساتھ خوبرو لگ رہا تھا۔ اس نے بھی مرجان کی جانب دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ سٹائلش خوبصورت ساڑھی میں وہ کوئی اپسرا لگ رہی تھی۔ سارہ بناوٹی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے اسی کے وجود پہ نظریں ٹکائے کھڑی تھی۔ رمشا مرجان کے قدموں کے ساتھ قدم ملاتی اسے سٹیج تک لے کر آئی۔ جہاں خضر اس کے استقبال میں کھڑا تھا۔

“چاند اور سورج کی جوڑی لگتی ہے ماشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔!”

ثمن کی ایک دوست نے مسکرا کر بلائیں لیتے ہوئے کہا۔ یہ بھی حقیقت تھی کہ تمام رشتے داروں سمیت ثمن کی دوستوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ وہ اپنے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے کے لیے ان کی نیٹیوں کا انتخاب ضرور کرے لیکن مرجان کو دیکھتے ہی سب نے ان کی پسند کی تعریف ہی کی۔

خضر بھائی! صبر مرجان آپ ہی کی ہے۔”

رمشا نے مسکرا کر شرارتاً کہا تو خضر بیگ جو ہاتھ آگے بڑھائے اس اپسراء کو ہی دیکھ رہا تھا اچانک سے ہواس بحال ہوئے تو فوراً سے ہاتھ پیچھے کیا اور زیرِ لب مسکراتے ہوئے نظریں نیچے جھکا گیا۔ رمشا سمیت عاشر کو اس کی اس ادا پہ بے حد پیار آیا۔ پھر رمشا مرجان کو خضر کے پہلو میں کھڑا کرتے ہوئے عاشر کے ساتھ سٹیج سے نیچے اتری۔ اور قریب ہی لیکن قدرے فاصلے پہ دونوں جا کھڑے ہوئے۔ خضر نے تھوڑا جھک کر مرجان کے کان میں سرگوشی کی۔

“خدا نے جب چاند بنایا تو اسے چاندنی کی خوبصورتی سے نواز کر اس کے حسن میں اضافہ کر دیا۔ میں بھی یہی سوچتا تھا۔ لیکن آج یقین ہوا ہے خدا نے میرے نصیب میں مرجان کو لکھ کر میری زندگی کو مزید خوبصورت بنا دیا ہے۔ آج لگتا ہے زندگی کی تشنگی ختم ہو گئی۔ تلاش کا سفر اختتام پذیر ہوا۔”

خمار آلود لہجے میں محبت کا جام چھلکاتا وہ اس کے کانوں میں اپنی محبت کا رس گھول رہا تھا۔ جواب میں وہ نظریں جھکائے اپنے بابا کے فیصلے پہ صد شکر بجا لا رہی تھی۔ سارے شکوے جیسے کہیں تھم سے گئے تھے۔ محفل میں رونق ہی رونق تھی۔ پھر عاشر تمام کولیگز سمیت سٹیج کی جانب بڑھا ۔

“سر ! میم۔۔۔۔۔۔! کونگریجولیشنز۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

سب نے ساتھ مل کر کہا وہ دونوں جو ساری محفل سے الگ تھلگ اپنی ہی دنیا کے خواب بُننے میں مگن تھے خضر نے اپنے آفس کولیگز کو سٹیج کی جانب بڑھتے دیکھا تو کھڑے ہو کر سب کا استقبال کیا۔

“میم! یو لُک سو پریٹی۔۔۔۔۔۔!”

احتشام جو جونئیرز بیچ کو اسسٹنٹ تھا اس نے جھٹ سے مرجان کی تعریف کر دی۔ یہ الفاظ سنتے ہی خضر کے چہرے کے رنگ بدلے۔ سارہ نے خضر کے تاثرات کا بخوبی جائزہ لیا۔

“تھینکس۔۔۔۔۔۔!”

مرجان نے مسکرا کر مختصر سا جواب دیا۔

“اوکے گائیز! تھینکس۔۔۔۔۔! آپ سب یہاں تشریف لائے۔”

“ویسے میم! آپ کی ایجوکیشن کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ابھی خضر بات ہی کر رہا تھا کہ احتشام جو مسلسل مرجان پہ نظریں ٹکائے صرف اسے ہی دیکھے جا رہا تھا خضر کی بات کاٹتے ہوئے جھٹ سے سوال کر گیا۔ اس سے پہلے کہ مرجان جواب دیتی۔ عاشر خضر کے چہرے کی ناگواری کو خوب بھانپتے ہوئے فوراً سے بولا۔

“احتشام یار! یہ بھی کوئی پوچھنے والے سوال ہیں۔ “

عاشر نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا۔ سارہ مصنوعی انداز میں مسکرائی۔

“لو! یہ تومارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی ڈیمانڈ بڑھا گئی۔”

“ہمممممممم۔۔۔۔۔۔!”

احتشام اس کے انداز میں چھپی مصلحت کو سمجھ گیا۔

“چلیں ادھر چلتے ہیں نیولی میرڈ کپل کو کچھ دیر اکلیے ساتھ رہنے دیں۔ ہم پھر کبھی یہ سارے سوال ضرور پوچھیں گے۔”

عاشر اسے اپنے ساتھ لیے وہاں سے چلا گیا۔ دور کھڑی رمشا ہر چیز کو نوٹس میں لے رہی تھی۔

“اوکے سر! خدا آپ کو اپنی ازدواجی زندگی میں بھی اسی طرح کامیاب کرے جیسے آپ اپنی بزنس لائف میں کامیاب ہیں۔”

سب نے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

“ویل تھینکس ۔۔۔۔۔۔۔! گائیز۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

اس نے سب کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ پھر سب سٹیج سے نیچے اتر کر ایک سائیڈ پہ جا کر بیٹھ گئے جو سپیشلی آفیشل پعسنز کے لیے سلیکٹ کی گئی تھی۔ سارہ نے خضر کو اشارہ کیا۔ خضر نے اس کے اشارے کو فالو کیا اور فوراً سے مرجان سے بولا۔

“مرجان! میں ابھی آتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ مسکرا کر بولا۔

“اوکے۔۔۔۔۔۔!”

مرجان نے بھی جواب میں دھیرے سے مسکرا کر کہا۔

                                               ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس نے حیرت سے سوال کیا۔

“تم نے کچھ نوٹ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اپنے بالوں کو شانے پر سے ہٹاتے ہوئے وہ اس کے بالکل قریب کھڑی تھی اور متجسس انداز میں اس سے سوال کر گئی۔

“فار واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اس نے بھی اچنبھے سے پوچھا۔
“یہی کہ جس حسینہ کو تم اپنے پہلو میں سجائے بیٹھے ہو اس کے حسن کی تم دنیا ایک ہی نظر میں دیوانی بن بیٹھی ہے۔”

سارہ کے انداز نے انداز سے زیادہ اس کے الفاظ خضر بیگ کو جلن کی بھٹی میں جھلسا گئے۔

“شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ غصے سے دھیمے انداز میں مسکرایا۔

                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ادھر کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

رمشا نے متجسس انداز میں کہا تو عاشر جھٹ سے بولا۔

“کدھر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

“سارہ خضر بھائی سے کیا کہہ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! “

رمشا کے چہرے پہ فکر تھی۔ اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔

“یار! تم لڑکیاں بھی انڈین ڈراموں کی ہیروئینز کی طرح بس ہر وقت شک ہی کرتی رہتی ہو۔ یار جسٹ چل۔۔۔۔۔۔! ایسے ہی کوئی بات کر رہی ہو گی۔”

عاشر نے سنجیدہ انداز میں اسے طنز کا ایک نشتر چبھویا۔ رمشا نے گھور کر اس کی جانب دیکھا۔ وہ نظریں محبت سے متجمع کیے بغور اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔

“ویسے آج بہت پیاری لگ رہی ہو۔”

وہ محبت سے بولا۔ رمشا کو اس کے انداز پہ غصہ آیا۔ وہ ایکدم ہی غصہ سے لال آنکھیں اس کی آنکھوں پہ مرکوز کیے دھیرے انداز میں بولی۔
“بندر بھی کبھی کبھی ڈیسنٹ لگ سکتے ہیں مجھے آج پتہ چلا ہے۔”

رمشا کے انداز میں شرارت تھی۔ لیکن جس قدر سنجیدگی کے ساتھ اس نے یہ جملہ ادا کیا تھا عاشر کو ہنسی آ گئی۔ اس کے ہنستا دیکھ کر رمشا بھی جھٹ سے ہنس پڑی۔

                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“جو میں دیکھ رہا ہوں علی اعظم کیا آپ بھی وہی دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ابی نے سوال کیا تو علی اعظم فوراً سے بولے۔

“جی ابی۔۔۔۔۔!”

مختصر جواب دیتے ہوئے وہ عاشر کے ساتھ کھڑی رمشا کو مسکراتا دیکھ کر دھیرے سے مسکرائے۔ زندگی سے بھرپور ان کی بیٹی آج قدرے زیادہ ہی خوش لگ رہی تھی۔

“پھر کیا خیال ہے آپ کا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ابی کی بات کو بخوبی سمجھتے ہوئے علی اعظم نے جوس کا گلاس قریب ہی پڑی ٹیبل پر رکھا اور مسکراتے ہوئے بولے۔

“جیسے آپ کو مناسب لگے۔”

ان کا جواب پاتے ہی ابی بے حد نیہال ہو گئے اور جھٹ سے انہیں گلے سے لگاتے ہوئے بولے۔

“ایک بیٹی کی ذمے داری اپنے سر پر لی تھی اور افتخار سے کیا ہوا وعدہ نبھایا اب عاشر کو بھی ایک سمجھدار اور اعلی خاندان کی بیٹی کے پلو سے باندھ کر میں اپنی ذم،ے داری سے فارغ ہونا چاہتا ہوں۔ اور اس بات میں ذرا برابر بھی شک نہ رکھیے گا کہ خضر اور عاشر میں ذرا سا بھی فرق ہو گا۔ بلاشبہ دونوں کی تربیت ثمن نے کی ہے۔ اور ثمن کی تربیت پہ ہم کبھی سوال نہیں اٹھا پائے۔ تو زمانہ کیا بات کرے گا۔”

آنکھوں میں نمی بھرے وہ علی اعظم کے کانوں کی لو اپنی مسروریت سے آگاہ کر رہے تھے۔ علی اعظم ان کے ہر ہر لفظ کا مطلب بخوبی سمجھ رہے تھے۔ اور ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولے۔
“تو پھر آج سے میری رمشا آپ کی امانت ہوئی جب چاہے حکم کیجئیے گا اور اپنی بیٹی کو لے جائیے گا۔”

علی اعظم نے فرداً انہیں ان کی زندگی کی دوسری بڑی خوشی سے نوازا۔ وہ بے حد خوش اور مطمئن ہو گئے۔

                                          ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“ہائے پریٹی ڈول۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خوبصورت فراک میں ملبوس وہ اچانک سے معصومانہ انداز میں اس کے قریب آتے ہوئے بولی۔

“اوہ ہائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

مرجان اسے دیکھ کر بے حد خوش ہو گئی۔

“پریٹی ڈول ! آج آپ بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو۔”

انابیہ نے معصومانہ انداز میں اس کے پاس صوفے پہ بیٹھتے ہوئے کہا تو وہ دھیرے سے مسکرائی اور اس کے گال چومتے ہوئے بولی۔

“اوہ۔۔۔۔۔۔! اچھا۔۔۔۔۔۔۔! لیکن آپ مجھے یہ بتاؤ آپ یہاں پہ کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔؟”

مرجان نے حیرت سے اس سے پوچھا۔ تو انابیہ فوراً سے بولی۔

“میں تو پاپا کے ساتھ آئی ہوں۔ پاپا نے کہا آؤ آپ کو میں آپ کی پریٹٰ ڈول سے ملوا کر لاتا ہوں۔ تو میں فوراً سے تیار ہو گئی۔”

“اچھا! تو آپ کے پاپا بھی یہاں آئے ہیں۔”

مرجان نے تعجب سے پوچھا ۔

“جی ہاں۔۔۔۔۔۔۔!”

انابیہ نے معصومیت سے کہا۔

“تو آپ کے پاپا ہیں کدھر۔۔۔۔۔۔۔؟؟”

اس نے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔ لیکن اسے تو وہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

“پریٹی ڈول۔۔۔۔۔! “

مرجان جو ادھر ادھر دیکھ رہی تھی انابیہ کے بلانے پہ جھٹ سے نظریں اس کی جانب مرکوز کر گئی۔

“جی۔۔۔۔۔! میری جان۔۔۔۔۔۔!”

اس نے حلاوت سے پوچھا۔

“یہ انکل نے آپ کے لیے دیا تھا۔”

ہاتھوں میں زور سے ایک پیپر دبائے وہ اس کی جانب بڑھا گئی۔

“کون سے انکل نے دیا تھا۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان نے حیرت سے وہ پیپر اس کے ہاتھ سے لیا اور اچنبھے سے بولی۔

“وہ۔۔۔۔۔۔۔!!!”

انابیہ نے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ سارہ کی بغل میں خضر بیگ کھڑا تھا۔ اور انابیہ کا اشارہ اسی کی جانب تھا۔

“اچھا۔۔۔۔۔۔!”

وہ دھیرے سے مسکرائی۔

“انکل نے بولا تھا پریٹی ڈول سے کہنا ابھی پڑھے۔”

مرجان اس کی معصومیت پہ دھیرے سے مسکرائی۔ انابیہ جو اب کھڑی ہو گئی تھی۔

“انابیہ ! آپ کدھر جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

اسے جاتا دیکھ وہ فوراً سے بولی۔

“ابھی آتی ہوں میں پریٹی ڈول۔۔۔۔۔۔۔! “

انابیہ نے مسکرا کر کہا تو وہ بھی دھیرے سے مسکرا دی۔ انابیہ سٹیج سے نیچے اتری اور مہمانوں کی بھیڑ میں کہیں غائب سی ہو گئی۔ سارہ مسلسل خضر کو نان سٹاپ کچھ بول رہی تھی۔ مرجان نے خضر کی جانب اپنائیت سے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا ہوا پیپر کھول کر اسے پڑھنے لگی۔

“ابھی اور اسی وقت بیڈ روم میں آئیے میں نے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔”

مختصر جملے کو پڑھ کر اس نے پیپر رول کیا اور ہاتھ میں مضبوطی کے ساتھ پکڑے وہ ساڑھی کا پلو سنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ خضر کی جانب دیکھتے ہوئے وہ سٹیج سے فوراً اتری اور سرعت کے ساتھ مہمانوں کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے اندرونی دروازے کو پار کر گئی۔

“مرجان کدھر جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

سارہ نے فوراً سے خضر کو ہاتھ کے اشارے سے پوچھا۔ خضر نے جھٹ سے اس جانب دیکھا۔ مرجان سرعت سے قدم اٹھاتی جا رہی تھی۔

“دیکھتا ہوں میں۔۔۔۔۔۔!”

وہ فکرمندی سے بولا۔ سب لوگ باتوں میں  اور کھانا کھانے میں مشغول تھے۔ ابی علی اعظم عاشر ثمن رمشا سب کے سب مہمانوں کے ساتھ مگن تھے۔ کسی کو خبر تک نہیں تھی کہ مرجان سٹیج پہ موجود نہیں تھی۔

                                                ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

خوشبو میں بسا ہوا یہ لہجہ

دستک میرے دل پہ دے رہا ہے

اور ڈھونڈ رہا ہے میرے اندر

اک شاخِ بہار رنگ جس پر

اقرار کے پھول کھل رہے ہوں!

میں کیسے کروں یہ در کشادہ

اس پر تو وہ قفل پڑا چکا ہے

جس کے لیے سارے اسم بیکار

یہ میرے ستارے کی طرح ہے

تاریک، اداس، غیر آباد۔۔۔۔۔۔۔!

اے میرے خدا میرے بدن میں

ہمت نہیں اب شکستگی کی

شیشے کی طرح ہے اس کا دل بھی

اک ٹھیس سے ٹوٹنے کا ڈر ہے

مالک ہے تو آب و باد و گل کا

قادر ہے ہماری قسمتوں پر

اتنی سی دعا ہے میری تجھ سے

یا میرے ارادے کو بدل دے!

یا اس کے ستارے کو بدل دے!

یا میرے ارادے کو بدل دے

یا اس کے ستارے کو بدل دے!

کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ اس نے دھیرے سے روم میں قدم رکھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔

“خضر۔۔۔۔۔۔!”

وہ معصومانہ انداز میں اس کا نام پکار رہی تھی۔ لیکن جواب نہیں تھا۔ کمرے میں مکمل خاموشہی کے ڈیرے تھے۔ اس نے دو تین قدم مزید آگے بڑھائے۔ ہاتھ میں ابھی بھی وہی کاغذ تھا۔ جو انابیہ نے اسے پکڑایا تھا۔

“خضر۔۔۔۔۔۔! آپ کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ معصومیت سے ایک بار پھر سوال کر گئی۔

“ہو سکتا ہے انابیہ نے ہم سے مذاق کیا ہو۔”

کوئی جواب نہ پا کر اس نے رخ موڑا اور دل ہی دل میں انابیہ کی معصومیت پہ مسکرائی اور ساڑھی کا پلو شانے پہ صحیح طرح سے رکھتے ہوئے دوسرا قدم اٹھا ہی تھا کہ کسی نے اس کی ساڑھی کا پلو سرعت سے کھینچا۔ نیٹ کی بلوز پہ پن کے ساتھ پلو سیٹ کیا گیا تھا لیکن اب جس قدر سختی سے پلو کھینچا گیا تھا وہ ایک جھٹکے سے اکھڑ گیا۔ اور شانے سے ہٹتا سامنے والے کے ہاتھ میں تھا۔

“خضر۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ معصومیت سے چیخی۔ اسے کبھی بھی اندازہ نہیں تھا کہ خضر بیگ اس کے ساتھ کبھی ایسا کچھ کرے گا۔ دوسرے ہاتھ میں پلو کو زور سے تھامے وہ کھینچ رہی تھی۔ مگر سامنے والے کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ اس نے ایک ہی جھٹکے میں پلو سمیت اسے اپنی جانب کھینچا اور وہ اس افتاد پہ اپنے پاؤں نہ جما سکی اور ایک ہی پل میں اس کے چوڑے سینے کے ساتھ ٹکڑائی۔ دونوں کلائیاں اس کے چورے سینے پہ مضبوطی کے ساتھ ٹکائے وہ خود کو اس کے آہنی بازوؤں کے حصار سے آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی۔

                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“خضر! بہت بہت مبارک ہو بیٹے آپ کو۔۔۔۔۔۔۔!”

ابی کے پاس سے نظریں چراتے ہوئے وہ جو مرجان کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا اچانک سے نظیر صاحب جو ابی کے کلوز فرینڈز میں سے تھے انہوں نے اسے روک لیا۔

“جی تھینکس انکل۔۔۔۔۔۔۔!”

اس نے مختصر سا جواب دیا۔ اور نظریں ادھر ہی اندر کی جانب مرکوز تھیں۔

“اور سناؤ خضر ! بزنس کیسا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

انہوں نے مسکرا کر سوال کیا۔

“جی فسٹ کلاس۔۔۔۔۔۔۔۔!”

بےپروائی سے جواب دیتے ہوئے وہ بولا بنا ان کی جانب دیکھتے ہوئے۔”

“سو گُڈ۔۔۔۔۔۔۔! ہمیں تو پہلے ہی پتہ تھا ابی کو پوتے کی صورت میں ہیرا ملا ہے جس کی قیمت کبھی گھٹے گی نہیں ہمیشہ کامیابی اور کامرانی اس کے نصیب میں ہی لکھی ہے اور کوئی بھی اس سے وہ چھین نہیں سکتا۔

نظیر صاحب نے کوٹ کی جیب میں سے رومال نکالتے ہوئے کہا تو ابی ان کی بات پہ زوردار قہقہہ لگا گئے۔

“ہاں یہ تو ہے میرا خضر کسی سے کم نہیں ہے۔”

“ابی ! میں چلتا ہوں مجھے عاشر سے ایک کام ہے۔”

خضر نے فوراً سے عاشر کی جانب دیکھتے ہوئے یہاں سے کھسکنے کا بہانہ سوچا اور بولا۔ عاشر جو مسلسل رمشا کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔ دنیا و مافیہا سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔۔!

“ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔!”

ابی نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھا اور اسے جانے کی اجازت دی۔

“آج کل کے بچوں کی بھئی اپنی ہی زندگی ہے ان کے پاس کہاں ہم بڈھوں کی باتوں کے جواب ہوتے ہیں۔”

نظیر صاحب نے سنجدگی سے کہا تو ابی ان کی بات پہ ہنس پلڑے پھر وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہو گئے۔

                                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

بازوؤں کا حصار اس قدر مضبوط تھا۔ کہ وہ بھرپور کوشش کر رہی تھی خود کو آزاد کروانے کی۔ اس کے بال کسی حد تک بکھر چکے تھے۔ خضر کے کلون کی خوشبو اس کے ذہن پہ نقش تھی۔ اچانک سے اس نے مکمل اور بھرپور زور کے ساتھ اسے ایک دھکہ دیا اور اس کے آہنی وجود کے حصار سے خود کو آزاد کیا۔

“کوں ہیں اپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ خضر کے کلون کی خوشبو سے واقف تھی۔ لیکن یہ جو شخص تھا اس کے وجود سے ایک الگ ہی مہک اٹھ رہی تھی۔ مرجان کے وجود میں سنسی دوڑ گئی۔ ایکدم ہی اسے ڈر لگا۔ اور اس نے ہمت متجمع کرتے ہوئے اپنی ساڑھی کا پلو شانے پہ رکھا۔ شانے سے نیٹ کا بلوز کسی حد تک پھٹ چکا تھا۔ اور اس کی دودھیہ رنگت اس چاندنی رات میں سامنے والے کے ہواس اڑانے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئی تھی۔ وہ دوبارہ سے اس کے قریب آیا اور بھرپور انداز میں اسے اپنے سینے میں قید کیا۔

“چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔!”

وہ چلائی۔ اس کی شرٹ کے بٹنوں کو زور سے کھینچا۔ وہ جو کسی جنگلی جانور کی طرح اس کی گردن پہ دانت رکھے اسے کاٹ رہا تھا۔ شدتِ درد سے وہ بلبلا اٹھی۔ اپنی بھرپور کوشش کے بعد اس کے ہاتھوں کی گرفت قدرے کمزور ہو گئی۔

“پریٹی ڈول۔۔۔۔۔۔!”

خمار آلود لہجے میں وہ غرایا۔ اس کی آواز مرجان کے کانوں میں گونجی ۔ حقیقت کے کئی در اس پہ وا ہوئے۔ وہ زور سے چیخی۔

“چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔! خضر۔۔۔۔۔۔! “

بلوری آنکھوں سے کاجل کی کئی دھاریں رخساروں پہ پھیل گئیں۔ اس سے پہلے کہ مزید چیختی اس نے زور سے اس کی تھوڑی پہ ہاتھ رکھا اور اس کے نرم لبوں کو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا۔ وہ بلبلا اٹھی۔ اپنی بھرپور کوشش اور سعی کے بعد بھی وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد نہ کروا سکی۔پھر اچانک سے اس نے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے اسے ایک بار پھر دھکہ دیا وہ دور زمین پہ جا گرا۔ مرجان نے اسے گرتا دیکھا تو جھٹ سے ساڑھی کا پلو سیدھا کیا۔ اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے روم ڈور کے قریب آئی۔ اور جھٹ سے دروازہ کھولا۔ تو دنگ کی دنگ رہ گئی۔ سامنے کھڑا شخص اس کی حالت دیکھ کر مزید حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ اس آہنی وجود سے لپٹ کر زاروقطار رو دی۔ ساڑھی کا پلو سارا کا سارا اس کے وجود کے گرد لپیٹتے وہ اسے خود سے الگ کرتے دیوار کے ساتھ کھڑا چھوڑ کر اب اس شخص کی جانب قدم بڑھا گیا جس نے اس کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔

“خبیث۔۔۔۔۔۔! کمظرف۔۔۔۔۔۔۔! کمینے۔۔۔۔۔۔!”

وہ غصے سے چیختا چلاتا اس کی جانب بڑھا اور ہاتھ کی مٹھی سے اس کے چہرے پہ آنکھ پہ کئی وار کرتے ہوئے اسے خون میں لت پت کر گیا۔

“ذلیل شخص میں تیری جان ہی لے لوں گا۔”

اس نے ایک بار پھر زور سے اس کے چہرے پہ مکا مارا۔

“آہ۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ درد سے کراہا۔

“خضر ! یار! ایک منٹ میری بات سن لے۔ “

وہ کھڑا ہوتا ہوا خضر کے منہ پہ جواباً ایک گھونسا مارتے ہوئے اسے خود سے پیچھے ہٹاتا ہوا اب باقاعدہ کھڑا ہو گیا تھا۔ اور روم وال پہ ہاتھ رکھ کر اس نے بٹن آن کیا تو لائٹ نے سب کی نظروں کو چندھیا دیا۔ مرجان کے کندھے سے بلوز کا کافی حصہ پھٹ چکا تھا۔ اس کے ہونٹوں کی سرخی کافی حد تک پھیل چکی تھی۔ آنکھوں کا کاجل آنسوؤں کے رستے بہہ کر رخساروں پہ کچھ کچھ سیاہی پجیلا گیا۔ بال سارے بکھر گئے تھے۔ خضر بیگ نے مار مار کر اس شخص کا بھرتس بنا دیا تھا ۔ لیکن جونہی لائٹ آن ہوئی تو خضر سمیت مرجان کے بھی رنگ اڑ گئے۔

“ریحان۔۔۔۔۔۔۔!”

خضر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔

“انابیہ کے پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان کی آنکھوں سے موتی ٹوٹے ۔

“تجھے شرم آنی چاہئیے ریحان۔۔۔۔۔۔! یہ تیری بھابھی ہے اور تو نے اتنی گھٹیا حرکت کی ہے۔”

ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پہ رسید کرتے ہوئے وہ اسے روم سے باہر دھکیل گیا۔ ریحان نے اپنی جان بچاتے ہوئے فوراً سے سیئڑھیاں پار کیں۔

خضر۔۔۔۔۔۔۔۔!”

مرجان کی آواز گونجی لیکن خضر پہ تو جیسے خون سوار تھا۔ وہ کوئی آواز سننے بغیر اس کے پیچھے جھٹ سے سیڑھیاں اتر گیا۔ اور فوراً سے اس کا گریبان پکڑے اس کے پیٹ میں دو سے تین بار مکے مارے۔ اس بار ریحان کے منہ سے خون باہر نکلا۔ اس نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے ٹانگ سے خضر کے پیٹ میں کک ماری اور خود سے دور پھینکا۔ خضر دور زمین پہ جا کر گرا۔ مرجان نے جیسے ہی خضر کو گرتے ہوئے دیکھا۔ فوراً سے نیچے آئی اور خضر کے قریب آ کر اس کے چہرے کو ہاتھوں سے چھوا۔ اس کے لبوں سے خون نکل رہا تھا۔ خضر نے ایک نظر اس معصوم گڑیا کی جانب دیکھا جو چشمے کے پانی کی طرح شفاف تھی۔ اس کی حالت دیکھ کر خضر کا پارتہ مزید ہائی ہوا اور وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے ریحان کی جانب بڑھا اور ایک ہی پل میں اسے بیرونی دروازے سے باہر پھینکا۔ لان کے سامنے خوبصورت لائٹنگ کے ساتھ گملوں کو سجایا گیا تھا۔ اچانک سے ریحان ان گملوں کے قریب آ کر گرا تو محفل میں موجود سب لوگ اس کی کراہیت اور درد کی آواز سن کر اس جانب متوجہ ہوئے۔ابی ، ثمن ِ علی اعظم، رمشا عاشر سمیت وہاں موجود سب لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ خضر اور ریحان کی حالت دیکھ کر ہر کوئی جان چکا تھا کہ ان دونوں کی لڑائی ہوئی ہے۔ ابی فوراً سے آگے بڑھے۔

“خضر! یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ جو بڑے ہی غصے میں ایک وزنی گملہ اٹھائے اس کے سر پہ مارنے والا تھا ابی کی آواز سے وہیں کا وہیں تھم کر رہ گیا۔

“خضر۔۔۔۔۔۔۔۔! ہم نے کچھ پوچھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

ثمن بھی فوراً سے بیٹے کے قریب آئیں۔ اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھا۔ اس کے ہونٹوں سے رستا خون دیکھ کر ان کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔

“ابی! آپ مجھے نہیں روکیں گے۔ آج تو میں اس کمینے کی جان لے لوں گا۔”

وہ ایکدم ہی غصے سے آگے بڑھا۔ اور اس پہ جھکتے ہوئیے زوردار انداز میں اس کے منہ پہ مکوں کے کئی وار کر گیا۔ اس سے پہلے کہ ریحان جان سے جاتا مرجان فوراً سے باہر آئی اور خضر کا ہاتھ اپنے نازک سے ہاتھ میں لیتے ہوئے بلوری آنکھوں میں کئی موتی جگمگاتے ہوئے اسے روک گئی۔

سارہ کے چہرے پہ ایکی کمینی مسکراہٹ بکھری۔ رمشا مرجان کی حالت دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ ابی نے اپنی بہو کو اس حال میں دیکھا تو فوراً سے نظریں جھکا گئے۔ ثمن کا تو جیسے دل ہی دہل کر رہ گیا۔

وہ مرجان کا ہاتھ تھامے اٹھا اور اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کرتے ہوئے وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ ریحان کی آواز جونگی سب نے ایکدم ہی اس کی جانب دیکھا۔

“آنکھوں میں کاجل بکھیرے، معصومیت کا ڈھونگ کرتے ہوئے تم میرے اس دوست کو بے وقوف بنا سکتی ہو لیکن مجھے نہیں۔”

خضر نے سرعت سے مڑ کر اس کی جانب دیکھا۔ مرجان تو اس کی بات سن کر دنگ رہ گئی۔

“ریحان! آپ جائیں یہاں سے۔ بس بہت ہو گیا یہ تماشا۔۔۔۔۔۔!”

ابی نے اسے جانے کا اشاتہ کیا۔

“میں تو اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ جب تک اس لڑکی کا غلیظ چہرہ نہ سب کو دکھا دوں۔ “

“کیا بکواس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خضر ایک بار پھر غصے سے چلایا۔ مرجان کو تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ رمشا ابھی بھی ہوش و ہواس سے بیگانہ تھی۔

“بڑی پارسا ہے نا تمہاری بیوی تو یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

ریحان نے کچھ کاغذ خضر کی جانب اچھالے جو جیب میں رول کیے ہوئے تھے۔ اپنا زخمی ہاتھ جیب میں ڈال کر اس نے وہ کاغذ نکالے اور خضر کے چہرے پہ اچھالے۔

“کیا ہے یہ سب۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

عاشر نے حیرت سے اس سے پوچھا۔

“کچھ نہیں بس تمہاری سو کولڈ معصوم بھابھی کی کچھ حقیقت۔۔۔۔۔۔۔۔! یا پھر وہ نقاب جو ان کاغذوں پر لکھی ہوئی تحریر کو پڑھنے کے بعد تم سب کو بھی پتہ چل جائے گا۔”

مرجان کے پیروں تلے سے تو زمین ہی نکل گئی۔

                                        ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭  

 قیامت کی گھڑی تھی، سب مہمان اس کی جانب مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ابی نے وہ سارے کاغذ اٹھائے اور ریحان کا ہاتھ پکڑے لیونگ روم کی جانب بڑھ گئے۔ ثمن بھی ان کے پیچھے پیچھے اندر آئیں۔ عاشر نے سب مہمانوں کو معذرت کے ساتھ رخصت کیا۔ اور لیونگ روم کی جانب قدم بڑھائے ۔ جہاں پہ سب موجود تھے۔ مرجان صوفے پہ بیٹھی مضبوطی کے ساتھ پلو کو تھامے اپنے وجود کو اس میں چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔

خضر نے ایک ایک پیپر کو بغور پڑھا اس کے چہرے کے رنگ ایک کے ساتھ ایک کر کے بدلے۔ باری باری رمشا، ثمن عاشر اور ابی نے بھی وہ کاغذ اور ان پہ لکھی تحریر پڑھی۔ سب کے سب دنگ تھے۔ ابی کی حالت خراب ہو رہی تھی۔ علی اعظم پریشان کن انداز میں ان کی جانب دیکھ رہے تھے۔ خضر کے ضبط کا پیمانہ ٹوٹا اور وہ سرعت سے اٹھا مرجان کی جانب قدم بڑھائے اس کی کلائی کو تھاما اور زبردستی قہرآلود نظریں اس کے وجود پہ گاڑھے کسی کی بھی پروا کیے بغیر اسے دھیکلتا ہوا وہاں سے لے گیا۔

“خضر۔۔۔۔۔۔! میں نے کچھ بھی نہیں کیا۔”

وہ اپنی کلائی پہ اس کی انگلیوں کی مضبوط فرگت کی شدت سے کراہتے ہوئے بولی۔ ساڑھی کا پلو ہاتھ سے سڑکا۔ اور پھٹے ہوئے بلوز سے اس کا شانہ برہنہ ہو گیا۔ ابی کی کوئی آواز خضر کے تیش کو روکنے کے لیے ناکافی تھی۔ ابی کی حالت ایسی تھی کہ ہر کوئی خضر کی بجائے ان کی جانب متوجہ ہوئے۔ ریحان نے شرٹ کا کالر جھارا اور استہزائی انداز میں مسکراتا ہوا بولا۔

“خضر کو ایک میسیج ضرور دیجئیے گا۔ ایسی لڑکیوں کو بیوی نہیں رکھیل بنایا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

اس سے پہلے کہ وہ مزید بکواس کرتا عاشر اس کی جانب بڑھا اور ہاتھ کی مٹھی بند کرتے ہوئے غصے سے دھارا۔

“یو باسٹرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔! اس سے پہلے کہ میں تیرے غلیظ خون سے اپنے ہاتھ گندے کر لوں تو یہاں سے چلا جا۔۔۔۔۔۔!”

وہ غصے سے دھارا۔ اور ریحان کا گریبان چھوڑ کر ابی کی جانب بڑھا۔ ریحان طنزیہ مسکراتے ہوئے بال سیٹ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ ابی کا سانس پھولا ہوا تھا۔ ثمن کا بی۔پی بھی قدرے ہائی تھا۔ ابی نے ایک ہاتھ بائیں بازو پہ رکھا اور درد کی شدت کو نہ برداشت کر پانے کے باعث وہ بے ہوش ہو گئے۔

“ابی۔۔۔۔۔۔۔!”

ثمن فکرمندی سے چلائیں۔

“عاشر! فوراً سے ایمبولینس کو کال ملاؤ۔ انہپیں فوراً سے ہسپتال لے جانا پڑے گا۔”

رمشا جھٹ سے بولی تو عاشر نے جیب میں سے موبائل نکالا اور کال ملانے لگا۔

                                              ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

(جاری ہے)

Khumarey Jaan By Hina Shahid Episode 19

! “

بلوری آنکھوں سے کاجل کی کئی دھاریں رخساروں پہ پھیل گئیں۔ اس سے پہلے کہ مزید چیختی اس نے زور سے اس کی تھوڑی پہ ہاتھ رکھا اور اس کے نرم لبوں کو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا۔ وہ بلبلا اٹھی۔ اپنی بھرپور کوشش اور سعی کے بعد بھی وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد نہ کروا سکی۔پھر اچانک سے اس نے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے اسے ایک بار پھر دھکہ دیا وہ دور زمین پہ جا گرا۔ مرجان نے اسے گرتا دیکھا تو جھٹ سے ساڑھی کا پلو سیدھا کیا۔ اور تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے روم ڈور کے قریب آئی۔ اور جھٹ سے دروازہ کھولا۔ تو دنگ کی دنگ رہ گئی۔ سامنے کھڑا شخص اس کی حالت دیکھ کر مزید حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ اس آہنی وجود سے لپٹ کر زاروقطار رو دی۔ ساڑھی کا پلو سارا کا سارا اس کے وجود کے گرد لپیٹتے وہ اسے خود سے الگ کرتے دیوار کے ساتھ کھڑا چھوڑ کر اب اس شخص کی جانب قدم بڑھا گیا جس نے اس کی عزت کو داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔

“خبیث۔۔۔۔۔۔! کمظرف۔۔۔۔۔۔۔! کمینے۔۔۔۔

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button