- کوئی تہمت لگائے تو اذیت کم نہیں ہوتی مگر میں جانتی ہوں اس سے عزت کم نہیں ہوتی یہ وہ دولت ہے جو دل کی ندولت کم نہیں ہوتی محبت کرتے رہنے سے محبت کم نہیں ہوتی محبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کر رہتی ہیں کبھی انگلی چبانے سے اذیت کم نہیں ہوتی نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
خمارِ جاں از حناء شاہد
قسط نمبر20
“ویل ڈن۔۔۔۔۔۔۔!!!”
خوشگوار انداز میں مسکراتے ہوئے کاٹن کو پائیوڈین میں بھگوتے ہوئے اس کے قریب صوفے پہ بیٹھتے ہی کاٹن سے اس کے رستے گال صاف کرتے ہوئے وہ بولی۔
“آرام سے یار۔۔۔۔۔! پہلے ہی درد ہو رہی ہے مجھے۔”
ریحان نے درد کی ٹیس سہتے ہوئے غصے سے اس کی طرف دیکھا۔
“اوکے۔۔۔۔۔۔! اوکے۔۔۔۔۔۔! سوری ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
سارہ نے ہاتھ دکھاتے ہوئے اسے سوری بولا۔
“وہ کیا ہے نا سارہ۔۔۔۔۔۔! میں نے اپنی زندگی میں ایک بات سیکھی ہے۔”
سارہ اس کے انداز پہ اس کی جانب متوجہ ہوئی کاٹن اور فرسٹ ایڈ بوکس میز پہ رکھا اور صوفے کی بیک کے ساتھ کمر ٹکاتے ہوئے اس کی بات سننے لگی۔
“ریحان نے اپنی زندگی کا ایک اصول بنا رکھا ہے کبھی جھکتا نہیں ہوں میں۔ اور جو مجھے جھکانے کی کوشش کرتا ہے اس کو ایک ہی پل میں آسمان سے زمین پہ پٹخ دیتا ہوں۔ اور خضر بیگ کے ساتھ بھی آج میں نے کچھ ایسا ہی کیا ہے۔”
سارہ کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ اور وہ کوئی معمولی مسکراہٹ نہیں تھی فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ فتح کا احساس اسے مسرور کر رہا تھا۔
“سالا خضر۔۔۔۔۔۔! اب تو کسی کے ساتھ نظر بھی نہیں ملا سکے گا۔”
وہ استہزائیہ ہنسا اور سیدھا صوفے کی بیک کے ساتھ ٹیک لگا لی۔
“ہممممممم۔۔۔۔۔!”
“لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی مجھے سارہ۔”
وہ کچھ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا۔
“فار واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
سارہ نے اچنبھے سے پوچھا۔
“یہی کہ اپنی انسلٹ کا بدلہ میں خضر سے لینا چاہتا تھا اس کی بیوی کو ہرٹ کرنا اور پھر اس کی عزت کو زمانے میں خراب کرنا یہ سب میری وش نہیں تھی۔”
ریحان کے لہجے میں قدرے پشیمانی کا عنصر نمایاں تھا۔
“اوہ کم آن یار۔۔۔۔۔۔! یہ سب فضول باتیں کر کے موڈ آف نہ کرو۔”
سارہ جھٹ سے بولی۔
“اور ویسے بھی میری ممی کہتی ہیں اگر کسی مرد کو معاشی نقصان پہنچانا ہو تو سب سے پہلے اس کا نجی سکون برباد کرو۔ اگر اس کا گھر برباد ہے تو وہ کبھی بھی بزنس کی دنیا میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور یہی رئیلیٹی ہے ریحا۔”
ریحان اس کی بات پہ دنگ رہ گیا۔
“اب دیکھنا تم ہم نے خضر کے ساتھ جو کیا ہے اس کا ڈائیریکٹ اثر اس کے بزنس پر پڑے گا۔ کیونکہ وہ مینٹلی ڈسٹرب ہو چکا ہے۔ اب وہ بزنس کو سنبھال نہیں پائے گا اور ابی بیگ انڈسٹریز کی باگ دوڑ تمہارے حوالے کر دیں گے۔ ایم پرامس۔۔۔۔۔۔!”
وہ اس قدرے سفاکی کے ساتھ جال بُن رہی تھی اور اسے اپنی چالوں پہ اتنا یقین تھا کہ وہ جو سوچ رہی تھی اسے ہی سچ سمجھ رہی تھی۔ ریحان کو اس کی ایک ایک بات پہ یقین ہو رہا تھا وہ دھیمے سے مسکرایا اور اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولا۔
“میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔”
سنجیدگی کے ساتھ چہرے پہ تبسم بھی تھا۔
“ہاں بولو۔۔۔۔۔۔۔! میں سن رہی ہوں۔”
بنا اس کی جانب دیکھے وہ بولی۔
“میں کچھ دنوں سے تم سے ایک بات کہنا چاہ رہا ہوں۔”
وہ کچھ سوچ کر بولا۔ جبکہ سارہ نے اب کے اس کی جانب دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سرعت سے کوریڈور کو پار کرتا وہ روم میں داخل ہوا اس کے ہاتھوں کی گرفت میں نازک کلائی اور اس کے پیچھے ہمت کھوتی ہوئی وہ اس کی درشتی کا عذاب سہہ رہی تھی۔ وہ بنا کچھ بولے تیزی کے ساتھ اسے جہازی سائز بیڈ پہ دکھیل گیا۔ وہ جو چند پلوں میں اپنے اوپر بجلیوں کی طرح کوندتی زندگی اور نجانے کن گناہوں کی سزا پانے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ مگر اب خضر نے جس انداز میں اسے بیڈ پہ دھکا دیا تھا وہ کچھ کچھ سمجھ گئی تھی۔
“ایسی کون سی ضرورت نہیں پوری ہوئی آپ کی جو آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ غصے سے چلایا اور فوراً سے دروازے کی جانب لپکا اور جھٹ سے ڈور کو لاک کیا۔ وہ جو بیڈ پہ گری تھی اب اپنی ساڑھی کا پلو ٹھیک کرتے ہوئے بالوں کی لٹوں کو کان کی لو کے پیچھے کرتے ہوئے بے تحاشا موتیوں کے ساتھ چمکتی بلوری معصوم آنکھیں اس کے چہرے پہ ٹکا کر کھڑے ہونے کی کوشش میں اپنے وجود کو صرف کر رہی تھی کہ وہ تیز قدم اس کی جانب بڑھاتا اس کے قریب آیا اور ایک ہی جھٹکے میں اس کی ساڑھی کا پلو کھینچا اور اسے بیڈ پہ دوبارہ سے دھکا دیا وہ بالکل سیدھی بیڈ پہ جا گری۔ کمر میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ وہ اس پہ جھکا اور اس کے چہرے کو اپنی مٹھی میں قید کرتے غرایا۔
“جسم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ کو میرا ہی دوست ملا تھا۔”
نخوت سے کہتا وہ اس کے چہرے پہ تھوکتا پیچھے ہٹا۔ مرجان نے اپنے ملائم ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا۔ ساڑھی کا پلو سرک کر نیچے گر چکا تھا۔ پیٹ کا کچھ حصہ کمر سمیت برہنہ ہو گیا۔ شانے سے بھی بلوز کافی حد تک پھٹ چکا تھا۔ وہ شکست خوردہ انسان کی طرح بے یارومددگار حالت میں کھڑی تھی۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے کس طرح اپنی بے گناہی کا ثبوت دے۔
“یہ بات سچ ہے میں نے یہ نکاح زبردستی کیا تھا۔”
لہجہ روہانسی تھا۔ آنکھوں میں موتیوں کی جھنکار تھی۔
“لیکن یہ بھی سچ ہے میں اس نکاح سے پہلے اس روز مارکیٹ میں آپ کی ایک جھلک دیکھ کر آپ کی سادگی پہ اپنا دل ہار بیٹھا تھا۔ اور مجھے ذرا برابر بھی اندازہ نہیں تھا جس لڑکی کو میں اپنا دل دے چکا ہوں خدا نے اسی لڑکی کو میری منکوحہ بنا دیا ہے اسے میری زندگی میں شامل کر دیا ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے جب مجھے اس بات کا پتہ چلا تھا مرجان افتخار ہی وہ لڑکی ہے جس کی محبت میں خضر بیگ مبتلا ہے میں نے خود سے اس روز یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ کی زندگی کی ہر تشنگی کو اپنی محبت سے دور کر دوں گا۔ “
وہ شکستہ لہجے میں اس سے اپنی محبت کا اعتراف کر گیا اور وہ چپ سادھے بس اسی کے چہرے کی جانب دیکھ رہی تھی۔ بنا کسی قصور کے وہ عدالت میں کٹھہرے میں کھڑی کر دی گئی تھی۔
“لیکن ! ایسی بھی کیا جلدی تھی آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔!”
انداز سوالیہ اور لہجہ حقارت سے لبریز۔
“میرے نکاح میں ہوتے ہوئے ریحان سے ہمدردی سمیٹنا اور پھر اس کو میرے ہی بیڈروم میں لا کر یہ گندہ کھیل کھیلنا اور جب آپ کو یہ لگا کہ آپ کا یہ بناوٹی گھٹیا چہرہ سب کے سامنے آ جائے گا تو ریحان کو دھکا دے کر چوٹ پہنچا کر اٌپنی یہ حالت بنا کر معصومیت کا ڈھونگ رچانا واہ۔۔۔۔۔! واہ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرجان افتخار۔۔۔۔۔۔! آپ کی قابلیت کو داد دینا تو بنتا ہے۔”
وہ نفرت سے بولتا اس کو اس کی ہی نظروں میں گراتا اپنی محبت پہ شاکی ہو رہا تھا۔ وہ بس ایک ایک کر کے اپنی ذات کی کرچیاں بکھرتی محسوس کر رہی تھی۔
“ذرا صبر تو رکھتیں۔۔۔۔۔۔! خضر بیگ نے کبھی کسی کا جھوٹا نہیں کھایا، کبھی کسی کی جانب نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ عورت کو ہمیشہ عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ میری مام نے میری تربیت میں کوئی کمی نہیں کی ۔ اور میں نے بھی کبھی ایسا کوئی کام نہیں کہ دنیا والے مجھ پہ کوئی سوال اٹھا سکیں۔”
وہ چلتے چلتے اس کے قریب آیا۔ وہ چہرہ جھکائے کھڑی تھی۔ آنکھوں سے ایک تواتر میں آنسو بہہ رہے تھے۔ خضر بیگ نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
“گِھن آ رہی ہے مجھے آپ سے۔۔۔۔۔۔۔! آپ کے وجود سے مکاری کی باس اٹھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! وہ معصوم گڑیا تو کہیں مر سی گئی ہے۔”
ابھی وہ بول ہی رہا تھا کہ مرجان نے نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے سارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! وِل یو میری می۔۔۔۔۔۔۔۔!”
محبت سے اس کی جانب دیکھتا وہ اپنے دل کی بات کر گیا۔
“واٹ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
حیرت سے وہ چلائی چہرے پہ ناگوار تاثرات نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔
“کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔؟ اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔؟”
وہ اس کے ردِ عمل پہ تعجب سے لبریز تھا۔
“مجھے لگتا ہے تمہارے دماغ پہ شاید چوٹ لگ گئی ہے۔”
وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور انگلی سے اپنے سر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کی اور اس کے جذبات کی تذلیل کر گئی۔ حقارت اس کے لہجے سے چھلک رہی تھی۔
“اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔! میں نے ایسا بھی کچھ غلط نہیں کہا جو تم ایسے ریایکٹ کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ حرت زدہ تھا اور اٹھ کر اس کے بالکل مقابل کھڑا ہو گیا۔
“میں سارہ۔۔۔۔۔۔۔۔! اور تم سے شادی کروں گی ریحان۔۔۔۔۔۔۔! میرا سٹینڈرڈ اور اپنی مڈ کلاس لائف میں فرق تو دیکھو پھر بات کرنا۔”
وہ نخوت سے بولتی اس کے جذبات کی توہین کر گئی۔
“کیا کمی ہے مجھ میں جو تم ایسے بول رہی ہو۔۔۔۔۔۔؟”
وہ سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ چلایا۔
“کوئی ایک کمی ہو تو بتاؤں تمہیں میں۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ حقارت سے اس کے قریب ہوتے ہوئے بولی۔ ریحان کے تو ہوش ہی اڑ گئے اس کے انداز سے۔
“انابیہ کی ماں کا تو پتہ نہیں تمہیں۔۔۔۔۔۔! اور تمہارا مستقبل بھی کوئی خاص سیکیور نہیں ہے اور ایک آخری بات اس بے رنگ ، بے ڈھنگ زندگی میں میں کبھی بھی داخل نہیں ہونا چاہوں گی کیونکہ میں خضر بیگ سے محبت کرتی ہوں اور یہ سب کچھ میں نے صرف خضر بیگ کی زندگی میں اس کی لائف پارٹنر بننے کے لیے کیا ہے۔ تاکہ وہ اس مرجان کو چھوڑ کر مجھ سے شادی کر لے۔ میں اس کی بیوی بننے اور بیگ انڈسٹریز کی بہو بننے کی ہر لحاظ سے اہل ہوں۔”
وہ اپنی سفاکانہ اور گھٹیا سوچ کو پرت در پرت اس کے سامنے عیاں کر رہی تھی۔ وہ حواس باختہ اس کا قبیح چہرہ دیکھ رہا تھا۔ اسے اسی لمحے خود پہ افسوس ہوا۔
“اوہ۔۔۔۔۔۔۔! تو تم نے صرف میرا استعمال کیا۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ اس کے بالکل قریب ہوا اور شانوں پہ زور سے اپنے آہنی ہاتھ دھرتا غصے سے سوال کر گیا۔
“محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔”
وہ اسی کے انداز میں اس کو جواب دے گئی۔ ریحان کا دل چاہا ابھی اور اسی وقت اس کا معصوم چہرہ نوچ ڈالے۔ لیکن وہ اس کی حقیقت جانتے ہی ایک ہی پل میں اس سے دور ہٹا اور ہنستے ہوئے بولا۔
“جسے تم محبت کہہ رہی ہو وہ محبت نہیں ہے تمہارا جنون ہے اور اگر میں ابھی اور اسی وقت خضر بیگ کو جا کر سب بتا دوں کہ یہ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ تمہارا کھیلا ہوا صرف ایک کھیل تھا تو یقین مانو سارہ خضر بیگ کبھی تمہاری طرف دیکھے گا بھی نہیں شادی کرنا تو دور کی بات ہے۔”
وہ استہزائیہ ہنسا۔ سارہ کو ایک ہی پل میں اس پہ بہت غصہ آیا۔
“تم ایسا کبھی بھی نہیں کر سکتے۔”
رعبدار لہجے میں بولتے ہوئے ملیحہ لیونگ روم میں داخل ہوئیں تو ریحان نے سرعت سے پیچھے کی جانب مڑ کر دیکھا ۔
“کیوں ۔۔۔۔۔۔؟ میں کیوں نہیں بتا سکتا۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے ہنستے ہوئے سوال کیا تو وہ اس کے تبسم پہ ایک زوردار قہقہہ لگاتے ہوئے بولیں۔
“مرجان کو سب کے سامنے بے آبرو کرتے ہوئے اور خضر بیگ کی عزت اتارتے ہوئے تم اپنی زندگی کے سب سے قیمتی اثاثے کو تو جیسے بھول ہی گئے ہو۔”
ملیحہ کی بات کی پہلے اسے سمجھ نہیں آئی لیکن پھر ایک ہی پل میں وہ ان کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا اور تیزی سے چلتا ہوا ان کے قریب آیا اور فوراً سے بولا۔
“انابیہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ غصے سے چلایا ۔ مگر جواب میں سارہ سمیت ملیحہ کے استہزائیہ قہقہہے لیونگ روم میں گونجے۔
“میں نے پوچھا ہے میری گڑیا انابیہ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اب کہ وہ زور سے چلایا اتنا کہ سارہ سمیت ملیحہ کے چہروں سے فاتحانہ تبسم غائب ہوا۔ اور وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بولیں۔
“بے فکر رہو انابیہ بالکل ٹھیک ہے۔ اور میرے قبضے میں ہے۔ لیکن یہ بات یاد رکھنا اگر تم نے اپنا منہ کھولا تو تمہاری گڑیا اپنی جان سے جائے گی اور تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے۔”
وہ سنجیدہ انداز میں اسے وارن کر رہی تھیں۔
“نہیں ! آپ ایسا کچھ بھی نہیں کریں گی۔ اور رہی بات خضر کو حقیقت بتانے کی وہ تو میں ضرور بتاؤں گا۔ سارہ کی حقیقت اس پہ عیاں کرنا میرا فرض ہے۔”
وہ اٹل انداز میں خود سے وعدہ کرتے ہوئے بولا۔ تو ملیحہ کو اس کی بے وقوفی پہ ہنسی آئی۔
“تو ٹھیک ہے انتظار کس بات کا ہے یہاں سے جاؤ ابھی باہر اور خضر بیگ کو سارہ کی اصلیت بتاؤ اور وہیں پہ اپنی بیٹی کے لیے کفن دفن کا بھی انتظام کر لینا کیونکہ یہاں تم نے اپنا منہ کھولا اور وہاں تمہاری گڑیا کی سانسیں بند ہو جائیں گی۔”
وہ اسے وارن کرتے ہوئے بولیں تو اس ایک ہی پل میں اسے خوف نے گھیرا۔ انابیہ اس کی زندگی تھی۔ اس کی زندگی کاسب سے قیمتی سرمایہ تھی۔ اور وہ ساری دنیا کو ہار سکتا تھا لیکن انابیہ کے سامنے دنیا کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ایک ہی لمحے میں اس کا غصہ، اس کا انتقام سب ختم ہو گیا اور اسے اپنی گڑیا کی فکر ہونے لگی۔
“ٹھیک ہے میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا مجھے میری گڑیا صحیح سلامت دے دیں۔”
وہ ملتجائی انداز میں بولا۔
“تم ابھی اسی وقت اپنے گھر جاؤ اور اپنا ضروری سامان پیک کرو ۔”
“لیکن کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ تعجب سے بولا اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
“کیونکہ تمہاری فلائٹ ہے صبح پانچ بجے کی تمہاری فلائٹ ہے اور اب سے تم انگلینڈ میں رہو گے تمہاری جاب رہنے کا بندوبست سب ہو گیا ہے وہاں تم بس جانے کی تیاری کرو۔”
“لیکن میں کیسے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو گیا تھا مجبور، بے بس۔۔۔۔۔۔۔۔!
“ان فضول کے سوالوں میں اپنا وقت ضائع نہ کرو اور جیسا بولا گیا ہے ویسا کرو۔”
“لیکن میری گڑیا ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ پریشان کن انداز میں بولا۔
“اس کی فکر نہ کرو تمہارے ائیر پورٹ پہ پہنچنے سے پہلے ہی وہ وہاں پہ موجود ہو گی۔ اب سے تم دونوں باپ بیٹی کی ایک نئی زندگی شروع ہو گی۔”
وہ اطمینان سے بول رہی تھیں۔ ریحان کو ان دونوں کی سفاکیت پہ غصہ آیا۔ لیکن مجبوری کی زنجیر نے اسے روک لیا اور وہ چپ چاپ ان دونوں کے وجود پہ ایک نظرِ غلط ڈالتے ہوئے خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔
“ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
سارہ نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔
“مام ! ایک بات کی سمجھ نہیں آئی مجھے۔ “
سارہ حیرت سے چلتے ہوئے ملیحہ کے قریب آئی اور ان کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولی۔
“فار واٹ مائے بے بی۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
انہوں نے معصومانہ شکل بناتے ہوئے پوچھا۔
“یہی کہ آپ نے یہ سب کیسے کیا۔۔۔۔۔۔۔؟ انابیہ کو کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ اپنی ماں کی پرفیکٹ پلاننگ پہ حیرت زدہ تھی۔
“میں سارہ ڈارلنگ آپ کی ماما ہوں۔ “
وہ مسکراتے ہوئے اس کی رخسار پہ ہلکے سے چپت لگا گئیں۔
“مرجان کے خلاف یہ ساری پلاننگ جسٹ میرے اور ریحان کے درمیان تھی۔ بٹ آپ کو کیسے پتہ چلا۔”
وہ ابھی بھی حیران تھی۔
“ہر انسان کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے اور صحیح وقت پہ اس کی کمزوری کو اپنی طاقت بناتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کرنے والا ہی اپنی لائف میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ سمپلی۔۔۔۔۔! میں نے تمہاری اور ریحان کی ساری باتیں سن لیں تھیں۔ اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ تم خضر سے محبت کرتی ہو اور ریحان تم سے تو یہ سب کچھ ریحان صرف تمہیں حاصل کرنے کے لیے کر رہا ہے اور جب تم اس کی ڈیمانڈ سے انکار کرو گی تو وہ تمہارے خلاف ہو جائے گا بس۔۔۔۔۔۔! اسی لیے میں نے اس کی لٹل ڈول جو درحقیقت اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے اسے بہلا پھسلا کے پارٹی سے اپنے ساتھ لے آئی ہوں اور اب وہ اور اس کا باپ کمپلیٹلی ہمارے کنٹرول میں ہیں۔ اور ہمارا پلین سکسسفل ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ سفاکانہ انداز میں ہنستے ہوئے اپنی کامیابی پہ مسرور ہو رہی تھیں۔
“لو یو مام۔۔۔۔۔۔۔!”
سارہ نے فتح کی خوشی میں ملیحہ کو زور سے ہگ کیا۔
“لو یو ٹو مائے ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔۔!”
انہوں نے جواباً اسے زور سے گلے سے لگا لیا اور اس کے ماتھے کو چوما۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“خضر! ہمارا یقین کریں ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے۔۔۔۔۔۔!”
آنسوؤں کی لڑیاں آنکھوں سے جاری تھیں۔ ساڑھی کے پلو کو فرش سے اٹھاتے وہ اپنے وجود کے گرد لپیٹتے چلتے ہوئے اس کے قریب آئی۔ خضر چپ کھڑا اس کے معصوم چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ چہرے کی معصومیت کہتی تھی اس کی بات پہ من و عن یقین کر لو لیکن وجود پہ لگے قدغن اسے بہت کچھ باور کروا رہے تھے۔
“ہم نہیں جانتے ریحان کون ہیں۔۔۔۔۔۔۔! “
اس کے الفاظ اسکے لہجے میں ہی اٹک گئے۔ وہ کوشش کرتے ہوئے بمشکل بول پائی۔
“یہ سب جھوٹ ہے ہمارا یقین کریں۔ ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا کہ آپ کی عزت پہ داغ لگے۔ پلیز ہماری بات پہ یقین کریں۔”
وہ روتے روتے اپنے ہاتھ نجانے کب اس کے گریبان پہ رکھتے ہوئے زور سے دبوچتے ہوئے اپنی صفائی پیش کر رہی تھی۔ اپنی معصومیت کا یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن خضر وہ اس کے چہرے کی معصومیت کو بالائے طاق ڈال کر اس کے وجود کے قدغن پہ یقین کرتا اسے ایک ہی جھٹکے میں خود سے دور کر گیا۔ اور وہ دوسرے ہی پل زمین پہ جا گری۔
“آپ کے ہاتھ سے لکھے گئے یہ تمام خطوط آپ کی کمزور ذہنی حالت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کاش! ابی نے آپ کو اس خاندان کی بہو بنانے سے پہلے ایک لمحے کے لیے یہ یقین کر لیا ہوتا کہ آپ ذہنی اور جسمانی طور پہ اس قدر مضبوط ہیں بھی یا نہیں۔۔۔۔۔۔! “
وہ بنا کوئی لحاظ برتے اس پہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ فرش پہ گرتے ہی اس کی کلائی بری طرح زخمی ہوئی تھی۔ اور وہاں سے خون بھی رسنا شروع ہو گیا۔
“صاحب جی۔۔۔۔۔۔! صاحب جی۔۔۔۔۔۔۔!”
شمائلہ زور زور سے دروازہ پیٹ رہی تھی۔اس سے پہلے کہ خضر مزید کچھ بولتا شمائلہ کی کہی ہوئی بات نے اسے روک دیا۔
“صاحب جی۔۔۔۔۔! جلدی چلیں ابی کی طبیعت بہت خراب ہے انہیں ہسپتال لے جانا پڑے گا۔”
شمائلہ نے پھولے ہوئے سانس کے ساتھ زور سے دروازہ پیٹا۔ خضر ایک بھی سیکنڈ ضائع کیے بغیر دروازے کی جانب لپکا اور جھٹ سے دروازہ کھولا۔ شمائلہ کو اگنور کرتے ہوئے وہ تیزی سے کوریڈور میں سے گزرتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
“بی بی جی۔۔۔۔۔! کیا ہوا ہے آپ کو۔؟”
مرجان کی یہ حالت دیکھ کر اس کے تو جیسے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔ وہ فوراً سے اس کے پاس آئی اور سہارا دیتے ہوئے اسے اٹھایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ان کی کنڈیشن بہت کملیکیٹڈ ہے فوراً سے اوپن ہارٹ سرجری کرنا ہو گی۔”
ڈاکٹر امتیاز نے انہیں بتایا تو سب کے چہرے فق رہ گئے۔
“ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب آپ سرجری کی تیاری کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔”
عاشر علی اعظم سمیت فوراً سے بولا۔ ثمن کی تو سن کے حالت ہی خراب ہو گئی ان کا بی۔ پی یکدم ہی شوٹ کر گیا اور وہ بھی ایک ہی پل میں زمین پہ جا گریں۔
“اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔۔۔۔۔! سسٹر۔۔۔۔۔! سسٹر۔۔۔۔۔۔۔ پلیز ہیلپ می۔۔۔۔۔!”
ڈاکٹر امتیاز نے ریسیپشن پہ کھڑی نرس کو آواز دی تو وہ بھاگی بھاگی ادھر کی جانب آئی اور رمشا کی مدد کرتے ہوئے انہیں سٹیچر پہ لٹایا اور ایمرجنسی وارڈ کی جانب بڑھے۔ خضر کو یہ سب بہت باگوار لگ رہا تھا۔ اس کی چھوٹی سی سلطنت بکھر گئی تھی۔ وہ طیش اور غصے کے عالم میں اپنے آپ پہ ضبط کیے کھڑا تھا پھر اس نے اپنی کلائی سے شرٹ کے کف اوپر کیے اور اپنے ماتھے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے چند قطروں کو صاف کیا اور دھیمے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے آگے بڑھا اور عاشر کے قریب آ کر بولا۔
“ابی کا اور مام کا خیال رکھنا۔”
اس کے انداز کی سنجیدگی عاشر کو خوفزدہ کر گئی۔
“کیوں تم کہاں جا رہے ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے حیرت سے سوال کیا۔
“مجھے ایک بہت ضروری کام ہے۔ میں آتا ہوں بس ابھی کچھ دیر میں۔”
یہ کہتے ہوئے وہ رکا نہیں اور سرعت سے قدم بڑھا گیا۔
“میری بات سن خضر ! “
عاشر اس کے پیچھے بھاگا اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑتے ہوئے بولا۔
“دیکھ یار ! تو ابھی بہت غصے میں ہے ابھی میرا بھائی کچھ ایسا نہ کر جس پہ بعد میں تجھے پچھتانا پڑے تھوڑا صبر کر ابھی ابی کو ماما کو تمہاری سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ابھی ادھر ہم سب کو تمہاری ضرورت ہے۔”
وہ تحمل مزاجی کا مضاہرہ کرتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
“عاشر! مجھے جانے دے ۔۔۔۔۔۔۔! میں جو بھی کر رہا ہوں وہ بالکل صحیح ہے۔ اور یہی صحیح وقت ہے۔”
وہ درشت انداز میں بولتا اپنا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے آزاد کرواتا ہاسپٹل کا بیرونی دروازہ پار گیا۔ عاشر وہیں چپ کا چپ کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں نے یکدم ہی تیزی کے ساتھ ڈیرے ڈال لیے۔ بجلی کی چمک اور بادلوں کی گرج سے ایک خوفناک منظر اسے مزید خوفزدہ کر رہا تھا۔ بادل اتنی زور سے گرج رہے تھے کہ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے آپس میں کسی بات پہ بحث کر رہے ہو۔
وہ باتھ روم سے باہر نکلی اور سفید کاٹن کا سادہ سوٹ پہنے بالوں کی ڈھیلی سی چوٹی کیے۔ سفید چوری دار پاجامے کے ساتھ نیٹ کا دوپٹہ سر پہ اوڑھے وہ کوئی پری لگ رہی تھی۔ کسی اپسراء کی طرح معصوم سادہ اور نازک۔۔۔۔۔! چہرہ رونے کی وجہ سے قدرے سرخ ، ناک بھی سرخ اناڑی آنکھیں قدرے سوجھی ہوئیں۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے سیٹر صوفے کے قریب آئی اور پاس ہی رکھے جائے نماز کا اٹھا کر کعبہ رخ بچھانے ہی والی تھی کہ کسی نے بیت زور سے دروازہ کھولا۔ دروازہ ایکدم ہی زور سے جا کر دیوار کے ساتھ ٹکڑایا تو وہ سہم سی گئی۔
“ابھی اسی وقت، میری زندگی سے ، میرے اس گھر سے باہر نکل جائیں۔”
وہ غصے سے اس کا ہاتھ پکڑے اسے کھینچتا ہوا روم سے باہر لایا۔
“خضر ! چھوڑیں ہمیں۔۔۔۔۔۔! ہم نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔”
ایک ہی پل میں اس کی آنکھوں سے موتیوں کی مالا ٹوٹ کر رخساروں پہ بکھر گئی۔
“مجھے ایسی لڑکی کے ساتھ اپنی زندگی نہیں گزارنی جس میں بنرداشت کا مادہ ہی نہیں ہے۔ جس سے کچھ دنوں کی دوری برداشت نہ ہو سکی اور اس نے مجھ سمیت میرے خاندان کی عزت کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔”
وہ چند ہی لمحوں میں اسے سیڑھیوں سے گھسیٹتا نیچے لے کر آیا اور لیونگ روم کے فرش پہ لا پٹخا۔ ناکردہ گناہوں کا کالک جب ماتھے پہ تھوپی جاتی ہے تو انسان پہ وہ وقت قیامت کا ہوتا ہے۔ بنا کسی جرم کے سزا ملنا اور ساری زندگی اسی سزا کو کاٹنے میں گزارنا زندگی کی ایک تلخ حقیقت ہے۔ وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
“ابھی اسی وقت میری نظروں سے دور ہو جائیے۔،”
وہ چیخا۔ اس سمیت بادل بھی زور سے گرج رہے تھے۔ اور اچانک سے ہی بادلوں نے برسنا شروع کر دیا۔ بادل کی گرج بجلی کی چمک اس کا دل دہلا گئی۔ وہ روتے روتے خود کو خود ہی سہارا دیتے ہوئے اٹھی۔
“خضر! آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔”
اس نے روتے ہوئے اس سنگدل کے سامنے ہاتھ جوڑے جسے بےدردی سے نظرانداز کیا گیا۔
“ابھی باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے۔ ہم اس وقت اس بارش میں کہاں جائیں گے۔ ہمارا یقین کریں جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔”
اس نے التجاء کرتے ہوئے ایک بار پھر خود کی معصومیت کی بے قصور ہونے کی بھیک مانگی۔ لکین خضر کا پارہ اس وقت اتنا ہائی تھا کہ ریحان کے الفاظ بار بار اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ اس کی کسی بھی بات پہ کان دھرے بغیر اس کے قریب آیا اس کی کلائی نکو مضبوطی سے تھاما اور اسے دکھیلتا ہوا لیونگ روم کے بیرونی دروازے کی چوکھٹ کے پار دھکا دیا وہ ایک ہی پل میں مرمری فرش پہ جا گری۔ اسے اس لمحے یوں لگا جیسے کسی نے اس کے پر کاٹ دیے ہوں اور وہ ایک ہی جھٹکے میں اسمان سے زمین پہ آ گری ہو۔
“صاحب جی۔۔۔۔۔!”
شمائلہ کی رندھی آواز اس کے کانوں میں پڑی جسے اس نے نظرانداز کیا۔
“آج کے بعد آپ کا ہم سے ہمارے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔”
وہ بارش میں بھیگتا غصے سے چلایا۔ اس پہ لاتعلقی کی بجلیاں گراتے وہ اس کے زخمی وجود کو مزید زخمی کر گیا۔
“نہیں ! آپ ایسا یرگز نہیں کر سکتے۔”
وہ فوراً سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ موسلادھار بارش کی کئی بوندیں ایک ہی لمحے میں سارا وجود بھگو گئیں۔ چہرے بارش کی بوندوں سے بھیگتا آنسوؤں اور بارش کے قطروں میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ وہ سفاکیت کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نظرِ غلط اس پہ ڈالتے ہوئے رخ موڑ گیا۔
“نہیں ! صاحب جی۔۔۔۔۔! آپ ایسا نہ کریں اتنی تیزبارش میں بی بی جی کہاں جائیں گی۔”
شمائلہ اس کے سامنے التجاء کرتے ہوئے رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ جبکہ وہ اسے نظرانداز کرتا لیوینگ روم کی چوکھٹ کو پار کر گیا۔
“سارے دروازے کھڑکیاں بند کر دو شمائلہ۔۔۔۔۔۔! مجھے اس گھر میں مرجان افتخار کی آہٹ بھی سنائی نہ دے۔”
وہ گرجدار آواز میں سفاکانہ انداز میں کہتا دھیرے دھیرے قدم بڑھا رہا تھا۔ شمائلہ چپ کھڑی بھیک آنسوؤں کا سمندر بہا رہی تھی۔
“نہیں ! پلیز خضر۔۔۔۔۔۔! آپ کو اللہ کا واسطہ ہے۔مجھ پہ رحم کریں۔۔۔۔۔! ایک بار میری بات سنیں۔۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ گڑگڑا کر آگے بڑھی۔ اس کے قدموں کی چاپ خضر بیگ کے برھتے ہوئے قدموں کو یکدم ہی روک گئی۔ وہ واپس مڑا اور اس سے پہلے کہ مرجان چوکھٹ کو پار کرتی خضر بیگ نے سفاکیت کے ساتھ اس کے منہ پر اس کی ہی سلطنت کے تمام دروازے ایک ہی پل میں بند کر دیے۔ شمائلہ خاموش تماشائی کی طرف اس ظلم کو ہوتا دیکھ رہی تھی۔ خضر ایک کے بعد ایک دروازہ اور ونڈو مرر سمیت مرر وال کو لاک کر رہا تھا۔ مرجان ایک کے بعد ایک دروازہ پیٹ رہی تھی۔ ونڈوز پہ ہاتھ مار رہی تھی۔ رحم کی بھیک مانگ رہی تھی۔ لیکن خضر بیگ کی آنکھوں سمیت اس کا دل بھی پتھر کا ہو گیا تھا ۔ کوئی بھی آہٹ کوئی بھی آواز اس کے دل کو موم نہ کر سکی۔ شمائلہ وہیں لیونگ روم میں مرجان کی آہ و پکار سن رہی تھی۔ اور اپنے کمزور دل پر اس کی چیخوں کی گونج سہہ رہی تھی۔ رفتہ رفتہ بارش کی تیزی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جیسے آج سارا غصہ بادلوں نے زمین پہ نکالنے کی ٹھانی تھی۔ وہیں وقتاً فوقتاً مرجان افتخار کی چیخوں میں اس کی آہ و پکار میں کمی آتی گئی۔ جیسے ایک سپاہی اکیلا جنگ میں اپنی آہ و بکا کی جنگ لڑتے لڑتے تھک جاتا ہے تو خاموشی اختیار کرتے ہوئے ہتھیار ڈال کر ہار تسلیم کر لیتا ہے۔شمائلہ وہیں فرش پہ نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حساب ترکِ تعلق تمام میں نے کیا
شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا
مجھے بھی ترکِ محبت پہ حیرتیں ہی رہیں
جو کام میرا نہیں تھا وہ کام میں نے کیا
وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے
سو اس کا جشن بصدِ اہتمام میں نے کیا
بہت دنوں مرے چہرے پہ کرچیاں سی رہیں
شکستِ ذات کو آئینہ نام میں نے کیا
مزاجِ غم نے بہرِ طور مشغلے ڈھونڈے
کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا
چلی جو سیلِ رواں پر وہ کاغذی کشتی
تو اس سفر کو محبت کے نام میں نے کیا
وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا
اسے سپردِ خاک آج شام میں نے کیا
وہ روتے بلبلاتے آنسوؤں کی لڑیاں چھلکاتے اپنے بکھرتے وجود کی تہمت سے زخمی کرچیوں سمیت خود کو خود ہی سہارا دیتے ہوئے تیز بارش کی پھوار میں دوہٹے کے پلو میں منہ چھپائے اس اندھیری رات میں سنسان سڑک پہ پیدل چلتے ہوئے خوف سے کانپتے دل کو اللہ کے ورد سے سجاتے ہوئے بے ڈھنگ قدم رکھ رہی تھی۔ ایک ایک حرف ایک ایک لفظ اس کے ذہن کو اذیت میں مبتلا کرتے ہوئے اسے مزید تکلیف سے دوچار کر رہا تھا۔ کہ اچانک سے اس کا سر بھاری ہوا۔ اس نے دوپٹے کے پلو میں سے اپنا چھپایا ہوا ہاتھ باہر نکالا۔ اور اپنے سر پہ رکھا۔ اس کے دھیرے دھیرے اٹھتے قدم رک سے گئے۔ سر ایسا چکرایا کہ ایک ہی پل میں اس کا نازک سا وجود زمین بوس ہو گیا۔ بیگ ہاؤس سے قدم باہر رکھتے ہی ایک گاڑی مسلسل اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ جیسے ہی زمین پہ چکرا کر گری ۔ گاڑی کا فرنٹ ڈور اوپن ہوا۔ اور سفید قمیض شلوار کے ساتھ بلیک واسکٹ پہنے ایک خوبرو شخصیت کا نوجوان باہر نکلا اور سرعت سے اس کی جانب بڑھا۔ اس کے رخسار تھپتھپائے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی لیکن اس کی ہر کوشش بیکار ثابت ہوئی۔ اس نے اس کے نازک سے وجود کو اپنے آہنی بازوؤں میں قید کیا اور اسے بانہوں میں اٹھاتا ہوا کھڑا ہوا چلتے چلتے وہ گاڑی کے قریب آیا بیک ڈور اوپن کیا آرام سے اسے لٹایا ڈور بند کیا اور فرنٹ سیٹ پہ بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کی ایک یہ جا وہ جا۔
محبت بے وفا ہرگز نہیں ہوتی
محبت کرنے والے لاکھ اندیشوں میں گھر جائیں
محبت کر کے پچھتائیں
تو ان کے اپنے کہنے سے
محبت بے وفا ہر گز نہیں ہوتی
محبت صرف ایک طرزِ عبادت ہے
محبت خود خدا ہرگز نہیں ہوتی
محبت اک دیا ہے جو فصیلِ دل پہ روشن ہے
محبت نور کی پہچان کا حوالہ ہے
محبت سے اجالا ہے
محبت کی نہیں جاتی
یہ ہو جاتی ہے اکثر ہی
اگر ہو جائے تو تڑپاتی بھی ایسا ہے
رگوں میں خون چلتا ہے نہ رکتا ہے
سراپا اجنبی زخموں سے دکھتا ہے
محبت روگ بن جاتی ہے
لیکن محبت بے وفا ہرگز نہیں ہوتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
”پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔”
ریحان نے جونہی ویٹننگ روم میں ودم رکھا وہ بھاگتی ہوئی اس کے قریب آئی اور زور سے اسے ہگ کر لیا۔ ریحان نے بھی سرعت سے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور اسے گلے سے لگا لیا۔
“مائی لٹل ڈول۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ بے تحشا زور سے اس کے ماتھے پہ لب رکھے اسے پیار کر رہا تھا۔
“کدھر چلی گئی تھیں آپ۔۔۔۔۔۔؟ جانتی بھی ہیں پاپا کی جان آپ میں بستی ہے پھر بھی اکیلا چھوڑ دیا مجھے۔”
وہ معصومانہ انداز میں شکوہ کر رہا تھا۔ وہ دھیرے سے ہنسی۔
“پاپا! آپ نے خود ہی تو بولا تھا پریٹی ڈول سے ملوانے لے جا رہے ہیں پھر وہاں پہ سارہ آنٹی نے مجھے بہت سی چاکلیٹس دیں اور اپنے ساتھ آئسکریم بھی کھلوائی اور پھر ہم نے بہت ساری شاپنگ کی اور اب میں آپ کے پاس ہوں۔”
“اوہ اچھا۔۔۔۔۔! تو کیا کیا کیا ہے میری لٹل ڈول نے۔”
وہ آنکھوں میں امڈتے آنسوؤں کی جھڑیوں پہ قابو کرتے ہوئے بولا۔ اور سیدھا کھڑا ہوتے ہوئے اس نے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔
“پاپا۔۔۔۔۔۔۔!”
ریحان کی بات کو بالئے طاق رکھتے ہوئے وہ حلاوت سے بولی۔
“جی پاپا کی جان۔۔۔۔۔۔!”
وہ چلتے چلتے ویٹنگ ایریا میں ترتیب کے ساتھ لگی ہوئی چئیرز کے قریب آیا۔ اور وہاں فرش پر اپنا سوٹ کیس رکھا اور انابیہ کو اپنی گود میں بٹھاتا وہ اس کے رخسار پہ پیار کر رہا تھا۔
“ہم انگلینڈ جا رہے ہیں۔”
مسکرا کر اس کی جانب دیکھتے ہوئے وہ بولا۔
“ہم پلین میں جائیں گے بٹ وائے۔۔۔۔۔۔؟”
اس نے منہ بسور کر پوچھا۔
“جانا ضروری ہے ۔”
اس نے مختصر جواب دیا۔
“اوکے۔۔۔۔۔! بٹ میری ایک شرط ہے۔”
اس نے ریحان کے شانے پہ سر دھرا اور معصومانہ انداز میں بولی۔
“فار واٹ۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
“کیا ہم پریٹی ڈول کو بھی اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کی معصومانہ خواہش پہ ریحان کے ذہن میں فوراً سے وہ معصومانہ چہرا ابھرا جس کی زندگی بربادی کے دہانے پہ لا کھڑی کر کے اب وہ دامن جھاڑ کر خاموشی کے ساتھ ملک سے باہر خود کو سیٹل کرنے کے لیے ہمیشہ کے لیے جا رہا تھا۔
“یہ پاسبل نہیں ہے پاپا کی جان۔۔۔۔۔۔!”
وہ اسے سمجھانا چاہ رہا تھا۔ مگر وہ بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا اناؤسمنٹ سٹارٹ ہو گئی تھی۔ اور وہ فوراً بسے اٹھا اسے اپنی بانہوں میں اٹھائے وہ سوٹ کیس پکڑے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتا یہاں سے جانے کے لیے اپنے قدم بڑھا گیا۔
خود غرضی کی چادر اوڑھے نجانے ہم میں سے کون کون صرف اور صرف اپنے بارے میں سوچھتے ہوئے زندگی کی نئی اڑان بڑھ لیتا ہے یہ سوچے بغیر کہ ہمارا ایک قدم کسی کی زندگی کو تباہی کے دہانے پہ بھی لا کھڑا کر سکتی ہے۔ اور ہم چپ چاپ صرف اپنا مستقبل سیکیور کرنے کے چکر میں خودغرضی کا اعلیٰ مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی زندگی میں آگے کی جانب بڑھ جاتے ہیں۔ ریحان نے بھی یہی کیا تھا۔ مرجان کی زندگی کو بے تحاشا سوالوں کی ضد میں چھوڑ کر بوہ اپنی لائف سیکیور کرتا ہوا یہاں سے بہت دور چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پھر وہی درد سا جاگا ہے رگوں میں میری
پھر وہی آہ سی نکلی ہے میرے سینے سے
پھر وہی خواب سے ٹوٹے ہیں میری آنکھوں میں
پھر وہی درد کی تلخی ہے میری باتوں میں
پھر وہی اشک سے ٹھہرے ہیں میری پلکوں پر
پھر وہی رات سی جیون میں اتر آئی ہے
پھر وہی آخری منظر ہے میری آنکھوں میں
پھر وہی آخری منظر ہے میری آنکھوں میں
اپنی لٹتی ہوئی جنت کی کرچیاں ہیں دامن میں
اپنی لٹتی ہوئی جنت کی کرچیاں ہیں دامن میں
پھر وہی آخری منظر ہے میری آنکھوں میں
قالین پہ گھٹنوں کے بل فرش پہ پاؤں ٹکائے، سر جھکائے زاروقطار وہ آنسوبہانے میں مشغول تھا۔ لٹٹی ہوئی جنت کو خود ہی دفنانا اور پھر اس میت پہ آنسوؤں کی چادر چڑھانا کس قدر تکلیف دہ عمل ہوتا ہے۔ وہ اسی کیفیت میں مبتلا تھا۔ کمرے کی حالت اس کی حالت کے قریب قریب ہی تھی۔ جس طرح اس کی زندگی میں چند گھنٹوں پہلے اک طوفان آیا تھا۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ ، بجلی کی چمک اور موسلادھار طوفانی بارش نے جہاں ہر جاندار کا دل دہلا دیا تھا۔ وہیں اس کی زندگی میں آنے والی طوفانی آندھی نے اس کی سلطنت کو اجاڑ دیا تھا۔ ابی کی اوپن ہارٹ سرجری کے لیے انہیں آپریشن تھیٹر لے جایا جا چکا تھا۔ ثمن کا بی۔پی شوٹ ہونے کے باعث ان کے دماغ کی نسیں کچھ ڈیمیج ہو گئی تھیں وہ آئی۔ سی۔یو میں اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھیں۔ علی اعظم ، عاشر اور رمشا اس بات سے بے خبر ہسپتال کے ویٹنگگ ایریا میں اس سوچ سے بہرہ کہ قیامت تومرجان کی زندگی پہ بھی آئی تھی۔ وہ نازک کلی کہیں اب تک دم ہی نہ توڑ گئی ہو۔ کسی کو بھی ذرا سا بھی اس کی فکر کا خیال نہیں آیا تھا۔ علی اعظم اس حوالے سے مطمئن تھے کہ خضر بیگ نے اس کانچ کی گڑیا کی ذمے داری خود اٹھائی ہے تو وہی کبھی بھی اس پہ آنچ نہیں آنے دے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ رمشا کے خیال میں مرجان کو اس وقت خضر بیگ سے زیادہ کوئی بھی سنبھال نہیں سکتا بے فکر کیے ہوئے تھا۔ جبکہ عاشر وہ ان خیالات سے جنگ لڑ رہا تھا کہ خضر نے اپنا غصہ مرجان بھابھی پہ کس طرح نکالا ہو گا۔ اسے معلوم تھا اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کسی اپنے نے بڑی سفاکی کے ساتھ خضر بیگ کی زندگی کو ایک بہت بڑے دھجکے سے نوازا ہے کہ اس کی زندگی ایک ہی پل میں بکھر گئی ہے۔ وہ انہی سوچوں میں مبتلا تھا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فوراً سے گھر جائے اور خضر کو سب کچھ برباد کرنے سے روک لے لیکن یہاں اس وقت ابی کو چھوڑ کر جانا بھی مناسب نہیں تھا سو وہ چپ سادھے صبر کا دامن تھامے بیٹھا رہا۔
“کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ ایکدم ہی طیش کے عالم میں اٹھا اور چیخا۔ مرر کے قریب آیا۔ ڈریسنگ پر سے ایک ہی لمحے میں ہاتھ مار کر ساری چیزیں زمیں پہ پھینک دیں۔ چینجنگ روم میں داخل ہوا تو ساری املاریوں میں سے اس کے سلیقے کے ساترھ رکھے سارے کپڑے ایک ہی جھٹکے میں باہر نکال پھینکے۔
“آخر کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کیا کمی تھی۔۔۔۔۔۔۔؟ اس عالیشان زندگی میں۔۔۔۔۔۔۔! بس ایک پیار کی کمی تھی۔۔۔۔۔۔۔! تھوڑا صبر تو رکھتیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔! زندگی کی ہر آسائش کی طرح اپنی محبت کی دولت سے بھی مالا مال کر دیتا آپ کو میں۔”
وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔ شرٹ کے کئی بٹن کالر اور کف پہ پڑی سلوٹیں اس کی حالت کی عکاس تھیں۔ کمرے میں ہر چیز بکھری ہوئی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح اس کی زندگی میں بھی سب کچھ بکھر گیا تھا۔ پھر اس نے زور سے اپنے ہی آنسو پونچھے۔
“مس مرجان افتخار۔۔۔۔۔! آپ نے خضر بیگ کی سلطنت کو اس کے دل کو ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا۔ یہ خضر بیگ آپ کے ساتھ اب جو کرے گا آپ بھیک مانگیں گی اس سے مگر خضر بیگ رحم کا ایک قطرہ بھی نہیں نوازے گا۔ تعلق بھی نہیں رکھوں گا اور ترکِ تعلق بھی نہیں کروں گا۔ آپ اسی طرح ساری زندگی تشنگی میں گزار دیں گی۔ پیار کے لیے ترسیں گی۔ مگر خضر بیگ آپ تک آنے والا ہر رستہ دنیا پہ بند کر دے گا۔ بھیک مانگیں گی تب بھی نہیں دوں گا۔”
وہ انگشتِ شہادت سے آئینے میں دیکھرا خود کو کچھ باور کروا رہا تھا۔ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے وہ سب کچھ اس آگ میں جلا دینا چاہتا تھا۔
“بھیک مانگیں گی آپ۔۔۔۔۔۔! بھیک بھی نہیں دوں گا۔۔۔۔۔۔۔! یہ خضر بیگ کا وعدہ ہے خود سے۔۔۔۔۔۔! “
وہ اپنے آنسو پونچھتا مسلسل آنکھوں سے بہنے والے درد کو سمیٹنے کی کوشش کرتا اب زمین پہ جا بیٹھا۔
“آں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!”
ایک زوردار چیخ بیگ ہاؤس کی دیواروں سے ٹکرائی۔
زندگی میں کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جو کبھی بھی دور نہیں ہوتے ان کے نشان سیدھے آپ کی روح پہ لگتے ہیں۔ اور ایسے زخم روح کو گھائل کرنے کے بعد ہزار مرہم لگانے کے بعد بھی صحیح نہیں ہوتے ۔ وہ انہی زخموں سے چور چلا رہا تھا۔ رو رہا تھا۔
کوئی تہمت لگائے تو اذیت کم نہیں ہوتی
مگر میں جانتی ہوں اس سے عزت کم نہیں ہوتی
یہ وہ دولت ہے جو دل کی ندولت کم نہیں ہوتی
محبت کرتے رہنے سے محبت کم نہیں ہوتی
محبت بدگمانی کو ہمیشہ ساتھ رکھتی ہے
مداوا ہو بھی جائے تو شکایت کم نہیں ہوتی
جو باتیں لب پہ آئی ہوں وہ باتیں ہو کر رہتی ہیں
کبھی انگلی چبانے سے اذیت کم نہیں ہوتی
نکل آتا ہے رستے سے نیا رستہ قمر لیکن
کسی کے ساتھ ہونے سے مسافت کم نہیں ہوتی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(جاری ہے)
خمارِ جاں از حناء شاہد قسط نمبر 20
Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 20
Thanks for your blog, nice to read. Do not stop.