رومینٹک ناول

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 3 romantic novel

 

خمارِ جاں از حناء شاہد

قسط نمبر : 3

 

 

 

 

“بھائی ! یہ دکھانا ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

رمشا شام میں مرجان کو لے کر مارکیٹ آئی تھی۔ اسے اپنے لیے کچھ شاپنگ کرنی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ اسی بہانے وہ افتخار انکل کے کہنے پر مرجان کے لیے نکاح کا جوڑا لینے بھی آ گئی تھی۔ کیونکہ اسے اس بات کا اندازہ تھا کہ اس وقت جو حالات چل رہے تھے۔ مرجان کبھی بھی اپنے لیے کوئی چیز نہیں خریدے گی۔وہ بہت سادگی پسند لڑکی تھی۔ بناؤ سنگھار سے عاری لیکن پھر بھی دلکش اور خوبصورت نقوش کی حامل ، پرکشش شخصیت کی مالک نازک سی وہ لڑکی ایک ہی نظر میں کسی کے بھی دل پر حکومت کر سکتی تھی۔ آج بھی رمشا کے اصرار پر وہ اس کے ساتھ مارکیٹ آ گئی تھی۔ لیکن اس کا دھیان پیچھے ہی تھا۔

“پتہ نہیں بوا نے ابا کو دوا دی ہو گی یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ ابا نے کہیں ضد نہ کی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وہ انہی سوالوں میں جھنجھلاہٹ کا شکار ہوئی بیٹھی تھی کہ رمشا کی آواز پر وہ یکدم ہی چونک گئی۔

“بھائی ! یہ بے بی پنک والا دکھاؤ۔۔۔۔۔۔۔!”

رمشا نے سائیڈ کیبن میں رکھے شائننگ ڈریس کی طرف اشارہ کیا تو مرجان نے بھی چادر کا پلو سیدھا کرتے ہوئے اس جانب دیکھا۔ دکاندار نے بے بی پنک ڈریس کھول کر میز پر ان کے سامنے رکھا۔ شرٹ پر فل ستاروں سے کام ہوا تھا۔ اور بارڈر پر سفید سٹونز لگے ہوئے تھے۔ جامہ وار کا ٹراؤزر اور بھاری کام دار نیٹ کا دوپٹہ تھا۔ سفید اور پنک کنٹراسٹ رمشا کی آنکھوں کو خوب بھایا۔ لیکن مرجان نے قدرے حیرت حیرت کے ساتھ رمشا کی طرف دیکھا۔ جس نے ابھی ابھی دکاندار کو ڈریس فائنل بھی کر دیا تھا۔ اور پیمنٹ کے لیے بحث بھی کر رہی تھی۔ آخرکار دکاندار اور اس کی بحث اختتام پذیر ہوئی اور وہ شاپنگ بیگ اٹھائے مرجان کو چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے دکان سے باہر آ گئی تھی۔

“تمہارا دماغ صحیح ہے۔ اتنا مہنگا ڈریس کس لیے لیا ہے تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان اپنی بلوری آنکھوں سے رمشا کی طرف گھور کر دیکھ رہی تھی۔ جس پر رمشا چلتے چلتے رک گئی۔ اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر مسکرا کر بولی۔

“اپنی جان ! مرجان کے لیے لیا ہے۔ میں نے اتنا مہنگا ڈریس۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھے طمانیت سے بولی۔ تو مرجان اس کی بات سن کر دنگ رہ گئی۔

“کیا مطلب۔۔۔۔۔۔۔؟ میرے لیے کیوں خریدا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

مرجان نے حیرت سے پوچھا تو رمشا اس کی معصومیت پر ہنسنے لگی اور پھر بولی۔

” تمہارا جمعے کو نکاح ہے شاید۔۔۔۔۔۔۔! تم اپنے نکاح پر یہ ڈریس پہنو گی۔ اور ویسے بھی میں انکل کی خواہش پر تمہیں مارکیٹ لے کر آئی ہوں۔”

“اچھا! تو اسی لیے ابا آج ضد کر رہے تھے اور میرے ہاتھوں سے دوا بھی نہیں لے رہے تھے۔”

مرجان نے سنجیدگی کے ساتھ استفسار کیا تو رمشا نے اپنی گول موٹی موٹی کالی آنکھیں گھما کر اثبات میں سرہلایا تو وہ چپ کی چپ رہ گئی۔

“اچھا اب جلدی سے چلو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! جوتا اور جیولری بھی لینی ہے ابھی ہم نے۔”

وہ اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے جلدی سے اسے لے جانے ہی لگی تھی کہ اسی اثناء میں وہ کسی آہنی وجود کے سینے کے ساتھ ٹکڑا گئی۔ اسے ایک پل کے لیے یوں لگا کہ جیسے وہ ابھی زمین بوس ہو ہی جائے گی ۔ لیکن کسی کی مضبوط گرفت نے اسے تھام لیا۔ اور وہ گرتے گرتے بچ گئی۔ مرجان اس کے اس بچپنے سے بے حد تنگ تھی۔ اب بھرے بازار میں اس کا یہ بچپنا نا معلوم کیا مصیبت سر پر کھڑی کرے گا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو گئی تھی۔

“دیکھ کر نہیں چل سکتیں محترمہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

وجیہہ مردانہ آواز نے اس کو سرزنش کی تو وہ ایکدم ہی چونک کر رہ گئی۔ وہ جو اس آہنی وجود کے بازوؤں کے حصار میں کہیں کھو سی گئی تھی۔ اور ایک ٹک اسی کے چہرے پر ہنوز نظریں جمائے پتہ نہیں کن خیالوں کی نگری میں کھو گئی تھی۔ اب اچانک سے سرد لہجے میں ہونے والی گرج نے اسے واپس خیالی دنیا سے جگایا تو وہ اپنے وجود کو کسی کے بازوؤں کے حصار میں قید دیکھ کر ٹھٹکی اور سرعت سے سیدھی کھڑی ہو گئی۔

“ارے مسٹر! تمیز سے بات کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ایک تو بھرے بازار میں ٹکڑائے آپ ہیں مجھ سے اور اوپر سے ڈانٹ بھی مجھے ہی رہے ہیں۔”

رمشا پٹاخ سے بولی تو عاشر نے کوٹ کو اپنے ہاتھوں سے جھاڑتے ہوئے اس کی جانب تلخ نظروں سے دیکھا اور پھر قدرے بدلحاظی سے بولا۔

“”اوہ! مس پٹاخہ۔۔۔۔۔۔!!! اپنی آنکھوں کا علاج کرواؤ جا کر ۔ ایک تو جان بوجھ کر مجھ سے ٹکڑائی ہو، اور اوپر سے مجھ پر ہی چیخ چلا رہی ہو تم۔۔۔۔۔۔۔!”

انگشتِ شہادت دکھاتے ہوئے وہ قدرے تلخ انداز میں بولا تو رمشا بھی کسی سے کم نہیں تھی۔ شاپنگ بیگز زمین پر زور سے پٹخے اور کلائی کی آستین اوپر چڑھاتے ہوئے باقاعدہ لڑنے کے انداز میں آگے کی جانب بڑھی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی اور مزید تماشا لگاتی مرجان نے چادر کا پلو منہ کے آگے صحیح سے کیا کہ سوائے اس کی آنکھوں کے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ گھبرائی گھبرائی سی بولی۔

“اوکے! میں سوری کرتی ہوں بھائی۔۔۔۔۔۔۔! غلطی رمشا کی ہی تھی۔ ایک تو وہ بے دھیانی میں آپ سے ٹکڑائی اور دوسرا واویلا بھی مچا رہی ہے۔”

مرجان کی بات سن کر رمشا تو گویا آگ بگولہ ہی ہو گئی۔ اور توپوں کا رخ مرجان کی طرف کرنے ہی والی تھی کہ عاشر کی بات نے اسے مزید تپا دیا۔

“شکر ہے جو اس چڑیل کے ساتھ کوئی عقلمند انسان بھی رہتا ہے۔ ورنہ یہ لڑکی تو آدھی دنیا کو سڑکوں پر ہی لڑ جھگڑ کر کھا جائے۔”

وہ استہزائی انداز میں بولا تو رمشا فوراً سے اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے بولی۔

“میں پہلے تو چڑیل نہیں تھی۔ مگر اب تمہیں چڑیل بن کر دکھاؤں گی میں۔۔۔۔۔۔۔!”

“بی ہیو یور سیلف عاشر۔۔۔۔۔۔!!!”

اس سے پہلے کہ بات مزید آگے بڑھتی اور مزید تماشا لگتا۔ خضر جو عاشر کے کہنے پر اس کے ساتھ قریبی مارکیٹ میں موجود کیفے میں چائے پینے کے لیے آ گیا تھا۔ اور اس اچانک سے ہونے والے ٹکڑاؤ کے بعد جاری چپقلش کو ختم کرنے کے لیے بولا تھا۔ خضر کی بارعب آواز پر عاشر فوراً سے خاموش ہو گیا۔ لیکن رمشا کا پارہ بہت ہائی تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ الٹا سیدھا بولتی، مرجان نے بات ختم کرتے ہوئے ایک بار پھر ایکسکیوز کیا۔

“سوری بھائی! آپ پلیز اسے معاف کر دیں۔ یہ بچی ہے اور فضول میں ایسی حرکتیں کرتی ہے۔ پلیز! آپ اس کو معاف کر دیں۔”

وہ گھبرائی گھبرائی سی معصومانہ انداز کے ساتھ اپنی بلوری آنکھوں میں امڈتے ڈر کے بادلوں کے ساتھ سجائے التجائیہ انداز میں بولی۔ تو خضر اس کی بلوری آنکھوں کے سحر میں کہیں کھو سا گیا۔ اور اس نازک گڑیا کے سراپے کو سر سے پاؤں تک بغور دیکھنے لگا۔لیکن پھر اچانک سے ہی اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ اور عاشر کا ہاتھ پکڑا اور سنجیدہ انداز میں بولتا ہوا سرعت سے وہاں سے چلا گیا۔

“اٹس اوکے! کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

خضر عاشر کو لیے وہاں سے جا رہا تھا۔ عاشر اس کے قدموں کے ساتھ قدم ملا کر چل تو رہا تھا۔ مگر اس کے چہرے کا رخ پیچھے ہی تھا۔ جبکہ دوسری جانب رمشا کا پارہ بہت ہائی تھا۔ اور وہ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ اس وقت وہ دونوں بازار میں موجود ہیں۔ اور اردگرد موجود سب لوگ انہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ رمشا نان سٹاپ بولے جا رہی تھی۔

“بندر کہیں کا۔۔۔۔۔۔۔۔! ہاتھ تو لگے میرے۔۔۔۔۔۔! کچا کھا جاؤں گی میں اس کو۔۔۔۔۔۔!!!”

وہ منہ میں بڑبڑائے جا رہی تھی اور مرجان جو کچھ لمحے خشک سانسوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اب اس کی باتیں سن کر دھیمے سے مسکرا رہی تھی۔

“اب چلو گھر چلتے ہیں اس سے پہلے کہ تم اسی غصے میں کسی دوسرے بندر سے ٹکڑا جاؤ۔”

مرجان کی بات سن کر پہلے تو اس نے اس کی طرف گھور کر دیکھا۔ لیکن پھر مرجان کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر وہ بھی کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ وہ یہ دیکھ کر مسکرا اٹھی کہ آج پورے چار مہینوں کے بعد اس نے مرجان کو یوں مسکراتا دیکھا تھا۔

“خدا کرے تم اسی طرح مسکراتی رہو مرجان۔۔۔۔۔۔!”

رمشا نے دل ہی دل میں اس کی خوشیوں کے لیے دعا کی تو مرجان نے اس کی اس ادا پر اس کی طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا۔

“کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

“کچھ نہیں ! چلو اب گھر چلتے ہیں باقی شاپنگ کل کریں گے۔۔۔۔۔۔۔!”

وہ یہ کہتے ہوئے مارکیٹ سے باہر روڈ کی جانب آ گئیں اور ہاتھ کے اشارے سے ٹیکسی کو روکا۔ ٹیکسی ڈرائیور کو ایڈریس سمجھایا اور گاڑی میں سوار ہو گئیں۔

                           ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

“فضول میں اتنا اچھا موڈ تھا میرا اور سارا کا سارا خراب کر دیا ہے اس حسین چڑیل نے۔۔۔۔۔۔۔!”

عاشر نے زور سے میز پر ہاتھ مارا اور غصے سے بولا تو خضر نے فوراً سے پہلے اس کا جملہ پکڑ لیا۔

“کیا مطلب ہے تمہارا حسین چڑیل۔۔۔۔۔۔؟؟؟”

خضر نے استفہامیہ انداز میں سنجیدگی سے کہا تو عاشر نے نظریں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ جو جوس کا سِپ لیتے ہوئے سنجیدہ انداز میں اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

“ہاں! تو اس میں جھوٹ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ میں سچ ہی تو کہہ رہا ہوں چڑیل ضرور تھی مگر بلا کی حسین بھی تھی۔”

حرکتیں تجھے ہی مبارک ہوں۔” عاشر نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا تو اس کے انداز نے خضر کو چونکا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ عاشر کی عادت ہے ہر لڑکی کے  ساتھ فلرٹ کرنے کی ۔ سو اسے اب ایک نیا چہرہ مل گیا تھا فلرٹ کرنے کے لیے۔

“اوہ بھائی! شرم کر بازار میں ایک لڑکی سے ٹکڑا گیا ہے اور اوپر سے اسے چڑیل کہہ کر مارکیٹ میں تماشا بنایا اور اگر میں نہ ہوتا تو اس وقت وہ چڑیل تیری بوٹیاں نوچ کر کھا چکی ہوتی۔”

وہ استہزائیہ انداز میں ساری حقیقت بیان کر رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ مسکرا بھی رہا تھا۔

“”لیکن خضر یار! ہے بڑی کمال کی چیز تھی وہ! بازوؤں میں تھی تو دل کیا ادھر ہی رکھ لوں۔ لیکن! یہ بھی سچ ہے بڑی پٹاخا چیز تھی۔ دو منٹ بھی نہ رہی اور پھل جھڑی کی طرح جل کر راکھ ہو گئی۔”

عاشر حسرتوں کے دیپ تلے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہوئے بول رہا تھا۔ جبکہ خضر وہ اس کے اس انداز پر اور فضول باتوں پر صرف مسکرا رہا تھا۔
“ویسے ایک بات ہے۔۔۔۔۔۔! تو بھی اس معصوم گھبرائی بلی کو دیکھ رہا تھا۔ مسلسل جو چادر میں خود کو لپیٹے سہمی سی کھڑی تھی۔”

“اوہ! شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔! یہ لڑکیاں دیکھنا تیرا مشغلہ ہے میرا نہیں ہے۔ اور ویسے بھی مجھے عورت ذات میں کبھی کوئی انٹرسٹ نہیں رہا۔ یہ بچگانہ حرکتیں تجھے ہی مبارک ہوں۔”

خضر نے چڑ کر سنجیدگی کے ساتھ اس کی کہی ہوئی بات پر چوٹ کی تو عاشر مسکرانے لگا۔

” اب تو بھلا سو بار چوری پکڑے جانے پر انکار کیوں نہ کرے میں نے جو دیکھنا تھا وہ دیکھ لیا۔”

عاشر نے جوس کا سِپ لیا اور شریرانہ انداز میں خضر کی طرف دیکھنے لگا۔
“اوہ شٹ اپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”

خضر غصے سے بولا۔

“اب جلدی سے یہ جوس ختم کر، مجے آفس بھی جانا ہے کچھ ضروری کام ہیں۔”

وہ سرعت سے بولا۔

“تجھے آفس میں کون سے ضروری کام ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ جبکہ سب لوگ اب گھر جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!”

عاشر نے متجسس نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو خضر اس کی بات سن کر مسکرانے لگا۔

” عاشر یار! وہ ڈیلیگیشن اور پراجیکٹ پر ایک بار پھر نظر مارنے کی ضرورت ہے اس لیے سوچا کچھ دیر آفس میں رک کر ساری فائلز اور ڈیٹیلز چیک کر لوں۔ تاکہ کل صبح کی میٹنگ میں کچھ بھی لوز پوائنٹ نہ رہے۔ اور ہماری میٹنگ کامیاب رہے۔”

“اوہ آئی سی۔۔۔۔۔۔۔! میں سمجھا کہ شاید ہم سب کو گھر بھیج کر تو ڈیٹ مارنے کے چکروں میں ہے۔”

عاشر کھلکھلا کر ہنسا تو خضر بھی اس کی بات سن کر ہنسنے لگا۔ پھر وہ دونوں جوس کو انجوائے کرتے ہوئے آفس سے متعلقہ کام اور میٹنگز میں ہونے والے پوائنٹس کو ڈسکس کرنے لگا۔ لیکن کہیں نہ کہیں خضر کا دھیان ان بلوری آنکھوں میں گُم تھا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان آنکھوں کے حصار میں کہیں کھو سا گیا تھا۔

جاری ہے انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔!!!

بہت جلد۔۔۔۔۔!!!

طالبِ دعا

حناء شاہد

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button