khushi dhondney s nhi milti by HINA SHAHID
خوشی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔۔۔۔۔!!!
تحریر : حناء شاہد
خوشی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔!!! یہ بہت چھوٹی سی بات لگتی ہے۔ لوگ سمندر پار خوشیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ سارا دن ایک پل خوشی کا ڈھونڈنے میں لگا دیتے ہیں۔ اور پھر مایوس ہو کر تھک ہار کر یہ جملہ صدِ عام دہراتے پھرتے ہیں ۔ خوشی تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملی ہمیں۔
لیکن ۔۔۔۔!!! کیا ہم ایک پل بھی سوچتے ہیں۔ خوشی اصل میں کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟
خوشی تو دل کا سکون ہے۔ اطمینان ہے، ہر وہ چیز خوشی کا باعث ہے جسے دیکھ کر ہمیں اطمینان ملتا ہے۔ ہر وہ چیز خوشی ہے جو آپ کی آنکھوں کو سکون بخش دے۔ اب وہ کون کون سی چیزیں ہو سکتی ہیں جن سے ہمیں خوشی مل سکتی ہے۔
تو دوستو۔۔۔!!! ایک لمحے کے لئیے اپنی آنکھیں بند کریں اور سوچیں وہ دن ، اس دن جس دن آپ نے اس دنیا میں پہلی بار آنکھ کھولی تھی۔ اس لمس کو محسوس کریں جس نے آپ کو اپنی آغوش میں لیا تھا۔ وہ لمس جس نے آپ کو آپ سے زیادہ چاہا۔ جس کی خوشبو سے آپ نے دنیا کی ہر خوشبو کو محسوس کرنا سیکھا۔ وہ لمس کس کا تھا وہ بلاشبہ آپ کی ماں کا لمس تھا۔ جس نے آپ کو اس دنیا میں جنم دیا۔ جس نے اپنی آغوش سے لے کر زمین پہ ہر قدم چلنے میں آپ کو سہارا دیا۔ جس نے آپ کی راہوں میں سے ہر کانٹا اپنے نازنیں ہاتھوں سے خود چنا۔ جس نے آپ کو پالا ، آپ کو پوسا آپ کی خوشیوں کا خیال آپ سے زیادہ رکھا۔ وہ لمس جیسے ہی آپ کی آنکھوں کے سامنے آئے گا۔ آپ کے چہرے پہ اک مسکان آئے گی۔
دوستو! یہ ہے خوشی۔۔۔۔۔۔!
اسی طرح ہمارے ابا جو خود سارا دن تپتی دھوپ میں خود کو جلا کر ہمارا پیٹ پالتے ہیں۔ ہماری ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ ہمیں اس قابل بناتے ہیں کہ ہم دنیا کو دیکھ سکیں ، دنیا کو پرکھ سکیں۔ اپنے کندھوں پہ سوار کروا کر وہ ہمیں دنیا کے رنگ ڈھنگ سکھاتے ہیں۔ ہماری ضرورتوں کا خیال ایسے رکھتے ہیں جیسے ان کی اپنی تو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں دینے میں وہ خود کو دینا بھول جاتے ہیں۔ اپنا پیٹ کاٹ کر وہ ہمارے لئیے دنیا کے سارے لوازمات فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں کبھی اکیلا نہیں ہونے دیتے۔ یہ احساس سوچ کر ہمیں یقیناً خوشی ملے گی۔ تو پھر ہم انسان کیسے کہ سکتے ہیں کہ دنیا میں خوشی کو ڈھونڈنا بہت مشکل ہے۔
دوستو!!! خوشیاں ڈھونڈنے سے نہیں ملتی ۔ خوشیاں تو زندہ سلامت ہمارے آس پاس موجود ہوتی ہیں۔ ہمیں ان کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔ جب کبھی احساس ہو کہ ہمیں ضرورت ہے خوش ہونے کی تو ایک بار اپنے گھر میں موجود اس ہستی کو دیکھ لیا کریں جو گھر کے کسی نہ کسی کونے میں چارپائی بچھائے اس پہ بیٹھے صبح سے شام آپ کی فکر میں کاٹ دیتی ہے۔ جو ہستی بنا کسی لالچ کسی غرض کے آپ کے لئیے دعا گو رہتی ہے۔ وہ آپ کے قدموں کی آہٹ اور آپ کی چال سے پتا کر لیتی ہے آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ تو ہم کیا اس ہستی کو دیکھ کر خوشی محسوس نہیں کر سکتے ہیں۔ خوشی ڈھونڈنے میں زمانے بیت جائیں گے اور خوشی دیکھنے میں دیر ہو جائے گی۔
یہاں پہ میں آپ کے ساتھ ایک واقعہ ضرور شئیر کرنا چاہوں گی۔ آپ میں سے وہ لوگ جنہیں ہسٹری یعنی تاریخ میں دلچسپی ہو گی وہ ضرور اس نام سے واقف ہوں گے۔ نصیرالدین حیدر شاہ جو غازی الدین حیدر شاہ کے لختِ جگر تھے۔ مشہور بادشاہ اور دونوں ہی بڑے اعتدال پسند اور نامور حکمران رہے ہیں۔ نصیر الدین شاہ کے عدل انصاف اور مستقل مزاجی کا ڈنکا پورے لکھنؤ میں بجتا تھا۔ لوگ ان کے پاس اپنے مسائل لے کر آتے اور یہ بڑی ہی دلجمعی کے ساتھ ان مسائل کا ایسا آسان سا حل پیش کرتے کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ امورِ سلطنت کو انہوں نے عمدہ طریقے کے ساتھ چلایا۔ بہت ہی عقلمند، اور حکمت پسند تھے۔ ان کے زمانے کا ہی ایک مشہور واقعہ آپ کے ساتھ شئیر کرنے لگی ہوں۔
ایک دن نصیر الدین شاہ کا گزر بازار سے ہوا۔ ان کی عادت تھی کہ کبھی عوام میں جاتے تو سپاہیوں کی فوج ہمراہ نہ ہوتی تھی۔ جو بلاشبہ ایک بہترین حکمران کی عمدہ نشانی میں شمار ہوتا ہے۔ نصیر الدین شاہ بڑے ہی مدبر اور سوچ بچار کرنے والے انسان تھے۔ پورے بازار میں ان کی نظر ایک ادھیڑ عمر شخص پر پڑی۔ جو زمین پہ چادر بچھائے سامان کی گٹھری لیے پریشان حال بیٹھا تھا۔ بازار میں لوگوں کا ہجوم فی الوقت کم تھا۔ نصیرالدین شاہ بڑے ہی دھیمے قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے اس شخص کے پاس جا کر بیٹھ گئے۔ اور اس سے اس کی پریشان حالی کی وجہ دریافت کی۔ وہ شخص انہیں دیکھ کر حیران ہو گیا۔ اور بولا :”حضور آپ اور یہاں۔۔۔۔۔؟”
نصیر الدین نے کہا: “اس بات کو چھوڑو اور مجھے یہ اپنی فکرمندی کی وجہ بتاؤ۔ “
اس شخص نے سوال سنتے ہی ایک لمبی آہ بھری۔ اور بولا۔” سرکار میری زندگی میں کوئی خوشی نہیں ہے۔ اور میں پچھلے کئی روز سے خوشی کی تلاش میں پھر رہا ہوں مجھے ایک پل کے لئیے بھی سکون اور چین نہیں ہے۔”
نصیرالدین نے اس کی بات سنی تو فوراً سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بنا کچھ بولے اس کے سامان کی گٹھری اٹھائی اور یوں بھاگے کہ اس شخص کو کچھ بھی سمجھ نہ آئی وہ اپنے مال کو لینے کی غرض سے بادشاہ کے پیچھے بھاگا۔ یہ سب کچھ اتنے آناً فاناً ہوا کہ بازار میں موجود لوگوں کو کچھ سمجھ نہ آیا۔ چنانچہ وہاں موجود لوگ بھی ان کے پیچھے بھاگ کھڑے ہوئے۔ چونکہ نصیرالدین ایک جنگجو سپاہی تھے۔ ان کے بھاگنے میں وہ پھرتی تھی کہ عام لوگوں کی وہاں تک پہنچ ناممکن تھی۔ سو نصیرالدین بھاگتے بھاگتے ایک بیابان جنگل میں چلے گئے۔ وہ بوڑھا شخص ان کے پیچھے بھاگتا بھاگتا وہاں تک پہنچ گیا۔ اور قریب جا کے دیکھا تو نصیرالدین ایک درخت کی چھاؤں میں پاؤں پھیلائے ہانپ رہے تھے۔ وہ بھی پھولے سانس کے ساتھ ہانپتا ہانپتا ان کے قریب جا بیٹھا اور بولا۔” اے بادشاہ ! نصیرالدین ! کیا تم پاگل ہو۔ مجھ بوڑھے کو اتنا دوڑایا ہے اپنے پیچھے، یہ سامان کی گٹھری میری زیست ہے۔ اگر یہ کھو جاتی تو میں کیسے اپنے گھر کا نظام چلاتا۔ خدا کا شکر ہے تم نے اسے نقصان نہیں پہنچایا۔ اب مجھے یہ واپس کر دو۔ تاکہ میں کچھ کمائی کر کے گھر والوں کے کھانے کا کچھ بندوبست کر سکوں۔”
نصیرالدین اس کی بات پہ مسکرائے اور سامان کی وہ گٹھری اس کو پکڑا دی ۔ اس نے وہ سامان کی گٹھری سینے سے لگائی اور اسے دو سے تین بار چوما۔ اس کے
چہرے پہ مسکان تھی۔ مانا کہ کوئی بے انتہاء خوشی اس کے دل کو میسر آئی ہو۔ نصیرالدین مسکرائے اور اس سے پوچھا :”گٹھری واپس مل جانے پہ کیا حالت ہے دل کی۔ ۔۔۔۔؟”
وہ بے اختیار مسکرایا اور بولا۔ “مجھے بہت خوشی ہےکہ میرا سامان مجھے واپس مل گیا ہے۔”
اس کی بات سن کر نصیرالدین بولے۔ “یہی ہے اصل خوشی۔ جو ہمارے سامنے موجود ہوتا ہے ہم اس کی قدر نہیں کرتے ہیں اور بلاوجہ کی چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنی زندگی کی بہت ساری خوشیوں کو کھو دیتے ہیں ۔ اور جب وہ سب کچھ ہم کھو دیتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے زندگی میں کیا کھویا ہے۔”
لہذا دوستو! جو آپ کے پاس ہوتا ہے اس میں خوش رہنا سیکھیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں اس نے ہمیں اتنا سب کچھ عطا کیا ہے۔ اس پر اس ذات کا جتنا ببی شکر ادا کریں کم ہے۔ امید ہے آج کا یہ آرٹیکل آپ کو پسند آئے گا ۔ اپنی قیمتی رائے سے مجھے ضرور آگاہ کیجئیے گا۔ آپ سب کی رائے کا شدت سے انتظار رہے گا مجھے۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
طالب ِ دعا
حناء شاہد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭