- ؎ غرورِ جاں کو میرے یار بیچ دیتے ہیں قبا کی حرص میں دستار بیچ دیتے ہیں یہ لوگ کیا ہیں دو چار خواہشوں کے لے تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں
مجھے آسماں کی تھی خواہشیں تحریر حناء شاہد
“خواہشات ہواؤں میں اُڑنے والی رنگ برنگ تتلیوں کی مانند ہوتی ہیں۔ جنہیں نوخیز کلیاں اپنے اندر سمو لینا چاہتی ہیں۔ مگر وہ تو بادِ صبا کی مانند اونچی اڑان اڑتی ہیں۔ کیونکہ ہوا کو مٹھی میں بند کرنا حماقت ہے اور خواہشات کے قفس میں اپنے وجود کو رکھنا اس سے بھی بڑی حماقت ہے۔ کیونکہ بےجا خواہشات انسان کو ایک نہ ایک دن رسوا کر دیتی ہیں۔”
حضرت امام حسین کا قول ہے: “جن جسموں پہ خواہشات کی حکمرانی ہوتی ہے وہ گناہوں کے قفس سے کبھی آزاد نہیں ہو سکتے۔”
؎ غرورِ جاں کو میرے یار بیچ دیتے ہیں
قبا کی حرص میں دستار بیچ دیتے ہیں
یہ لوگ کیا ہیں دو چار خواہشوں کے لے
تمام عمر کا پندار بیچ دیتے ہیں
“امی! میں آج بہت افسردہ ہوں۔۔۔۔۔۔!!!” حناء افسردگی سے گویا ہوئی۔ “کیوں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” ماں نے پاس بیٹھی حناء کی طرف فوراً سے دیکھا اور فکرمندی سے پوچھا۔ وہ اس وقت پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اور اس کی ماں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد تسبیح ہاتھ میں پکڑے کلامِ الہیٰ پڑھنے میں مشغول تھی۔ جب حناء نے افسردگی سے کہا تو وہ بیٹی کی طرف دیکھنے لگیں۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔ اور وہ ہمیشہ سے ہی اس کے معاملے میں بہت حساس تھیں۔ “امی! آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن تھا۔” اس نے بجھے ہوئے انداز میں کہا۔ تو ماں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ “تو ایسا کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ جو تم نے اتنا منہ لٹکایا ہوا ہے۔۔۔۔۔؟” ماں نے تلخ لہجے میں اس سے پوچھا۔ “میں روز یونیورسٹی جاتی تھی۔ وہاں لڑکیاں اتنی بڑی بڑی گاڑیوں میں ، خوبصورت لباس پہن کر آتی تھیں۔ برانڈڈ جوتے، جیولری ، بیگ یہ سب کچھ دیکھ کر میں بہت خوش ہوتی تھی۔ مگر ایک طرف مجھے ان کو دیکھ کر حسد بھی ہوتی تھی۔ کیونکہ میرے پاس یہ سب چیزیں خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ لیکن امی! میں ان سب کو دیکھ کر خوش تو ہوتی تھی نا۔۔۔۔۔۔۔!” حناء نے حسرت سے اپنی کیفیت کا اظہار کیا تو ماں اس کی یہ ساری فضول باتیں سن کر جھنجھلا سی گئی اور اسی جھنجھلاہٹ میں وہ بولیں۔ “حناء ! بری بات ہے، جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھیلانے چاہئیں۔ اپنے خوابوں کی اڑان اتنی رکھو کہ جب آنکھ کھلے تو زمین پہ گرنے سے زیادہ تکلیف نہ ہو۔ چیزوں سے محبت انسان کو خودغرض بنا دیتی ہے۔ انسانوں سے محبت کرو، جذبوں کی قدر کرو۔ ورنہ !!! تم انسانیت کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاؤ گی اور یہ بے جاخواہشات تمہیں زمانے میں رسوا کر دیں گی۔” وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ اور وہ جو چند لمحے پہلے ہواؤں میں اڑان بھرتے ہوئے اپنی ماں سے اپنے خیالات اور احساسات کا ذکر کررہی تھی۔ ایکدم ہی چڑ گئی اور غصے سے بولی۔ “بس۔۔۔۔۔! شروع ہو گیا آپ کا لیکچر۔۔۔۔۔۔۔! اسی لیے میں آپ سے زیادہ بات نہیں کرتی۔” وہ سرعت سے اٹھی اور اپنا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے غصے سے بولتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی۔ “میری بات تو سنو۔۔۔۔۔۔! اس لڑکی کو تو بس میرے مولا تو ہی ہدایت دے سکتا ہے۔” ماں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ وہ حناء کے اس بچپنے اور اس طرح کی باتوں سے بہت پریشان ہوتی تھیں۔ اور اکثر اس کے حق میں دعا کرتی رہتیں۔ کیونکہ یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب لڑکیاں حقیقت پسند نہیں رہتیں تو زمانہ انہیں ایسی ٹھوکر مارتا ہے کہ پھر وہ کہیں کی بھی نہیں رہتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح ہوتے ہی ماں نے ناشتے کی ٹیبل سجائی۔ حناء کو اٹھایا اسے تازہ تازہ گرما گرم ناشتہ بنا کر دیا۔ اور ابھی وہ پراٹھا کھانے میں ہی مشغول تھی کہ ماں نے اسے پھر سے سمجھانا شروع کر دیا۔ جو حناء کے بقول اماں کا پرانے زمانے کا سو کولڈ لیکچر ہوتا ہے۔ “اب تم بھی گھرداری سیکھو، کام کاج کیا کرو، ویسے بھی تمہارے سسرال والے شادی کے لیے اصرار کر رہے ہیں۔” ماں نے صبح صبح اس کے سر پر ایک نیا بم پھوڑا تھا۔ یہ سنتے ہی لقمہ اس کے گلے میں اٹک گیا۔ اسے کھانسی شروع ہوئی اور اس نے قدرے تحمل سے لقمہ نگلتے ہوئے ہمت جمع کی اور انتہائی دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق میں خود ہی الم بلند کرنے کا فیصلہ کیا اور انتہائی سرعت سے بولی۔ “مجھے نہیں کرنی اس سرکاری کلرک سے شادی ۔۔۔۔۔۔۔۔! تیس ہزار تنخواہ میں وہ میری کون سی خواہشات پوری کرے گا۔۔۔۔۔۔؟” ماں تو اس کی دلیرانہ صلاحیات کو دیکھ کر ایکدم چونک سی گئی۔ پھر باقاعدہ اسے بولنے کے تمام جملہ حقوق فراہم کیے گئے تاکہ آج وہ کھل کر بتا ہی دے کہ وہ اصل میں چاہتی کیا ہے۔ سو وہ چُپ سادھے خاموشی کے ساتھ اس کی بات کو سننے لگیں۔ “آپ کو کیا معلوم میری سب فرینڈز مجھے کہتی ہیں تم تو اتنی خوبصورت ہو تمہارے لیے تو کسی سلطنت کا شہزادہ ہی آئے گا۔ جس کے پاس گاڑی، بینک بیلنس سب کچھ ہو گا۔ کڑوڑوں کی جائیداد کا مالک ہو گا وہ شہزادہ۔۔۔۔۔۔! ” اس نے اپنے فضول خوابوں کا ایک حسین عکس ماں کے سامنے پیش کیا۔ وہ تو بخوبی واقف تھیں کہ اصل زندگی میں یہ ساری باتیں کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہیں۔ مگر اس جھلی کو کون سمجھاتا خواہشات اکثر جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔ ایسی جان لیوا کہ ان کا پھر کوئی علاج نہیں ہوتا ہے۔ بس! میں نے آپ سے کہہ دیا ہے کہ مجھے وہاں شادی نہیں کرنی ہے۔” وہ بضد تھی اپنی بات پہ۔ ماں نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور اسے پھر سے سمجھانا شروع کر دیا جو بقول اس کے ایک لیکچر تھا۔ “حناء! خوابوں کی دنیا بہت حسین ہوتی ہے۔ مگر! حقیقت میں رہنا عقلمندی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک دن تمہارے یہ خواب تمہارے لیے کانٹوں کی مالا بن جائیں۔” وہ اسے سمجھا رہی تھیں۔ مگر وہ اپنی عقل سمجھ بوجھ کو کامل سمجھتے ہوئے ماں کے تجربات پر اپنے خیالات کو فوقیت دے رہی تھی۔ اور اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے بولی۔ “نہیں امی۔۔۔۔! میں اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کروں گی۔ مجھے یقین ہے آرام آسائش سب کچھ اور میں کیوں سیکھوں۔۔۔۔۔! گھر کے کام کاج، میں نے کون سا یہ سارے کام خود کرنے ہیں۔ میرے آگے پیچھے تو ملازم ہوں گے۔ جو میرے ایک حکم کے منتظر رہیں گے۔ ” وہ خوابوں کے جال بُنتے بُنتے نامعلوم کن راستوں پر چل پڑی تھی۔ ہر وقت خواب و خیال کی دنیا میں گُم رہتے ہوئے وہ حقیقت سے کوسوں دور ہو چکی تھی۔ ماں اس کی فضول باتوں سے مکمل تنگ آ چکی تھیں۔ لہذا وہ تلخ ہوتے ہوئے بولیں۔ “بس کر دو حناء۔۔۔۔۔! تمہاری یہ خواہشات، یہ فضول خواب تمہیں ایک دن لے ڈوبیں گے۔” ماں نے اسے تنبیہہ کی۔ “اچھا! امی! آج عنبرین کا فون آیا تھا اس کے گھر میں پارٹی ہے۔ اور اس نے مجھے بھی بلایا ہے۔” وہ ماں کی بات کو اگنور کرتے ہوئے بولی۔ اور اپنے آج کے دن کا اہم کام انہیں بتانا ضروری سمجھا تاکہ جاتے ہوئے وہ اسے روک نہ سکیں۔ “یہ تم ہمیشہ کی طرح مجھے بتا رہی ہو یا پوچھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔؟” انہوں نے گھور کر اس سے پوچھا۔ جس پر وہ بیزاریت سے بولی۔ “ہاں! ہاں ! میں آپ کو ہمیشہ کی طرح بتا ہی رپی ہوں۔” اس نے عجب طوفانِ بدتمیزی برپا کر رکھا تھا۔ وہ بےانتہاء بدلحاظ انداز میں بولی۔ جس پر ماں نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی نامعلوم کس ڈگر پر چل رہی تھی۔ وہ اس کی باتوں اور اس کے ارادوں سے خائف نظر آنے لگی تھیں۔ اور اس کے راہِ راست پر آنے کی دعاؤں میں مشغول رہنے لگی تھیں۔ “امی! امبرین کا گھر بےحد خوبصورت ہے اس کے آگے پیچھے نوکر ہوتے ہیں۔ وہ بہت مالدار ہے۔ اسی لیے تو آئے روز اس کے گھر میں پارٹیز ہوتی رہتی ہیں۔ کاش! میں بھی کسی بڑے گھر میں پیدا ہوئی ہوتی۔۔۔۔۔” اس نے حسرت سے کہا تو ماں نے یکدم ہی نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ ان کی نگاہوں میں تاسف تھا۔ “امی! آپ بھی چلیں میرے ساتھ اس کے گھر۔۔۔۔۔۔!” حناء نے اصرارکرتے ہوئے کہا تو ماں نے سرعت سے جواب دیا۔ “نہیں ! تم جاؤ۔۔۔۔۔! میں نے نہ کبھی ایسے خواب دیکھے ہیں اور نہ ہی اپنی ذات سے بالاتر لوگوں کے ساتھ تعلقات بڑھائے ہیں۔ تم کیوں نہیں سمجھتی ہو بیٹا۔۔۔۔۔! وقت بہت ظالم ہے۔ تم اپنا وقت ایسی فضول باتوں کو سوچنے میں ضائع کرتی ہو۔” وہ ایک بار پھر اسے لجاجت سے سمجھا رہی تھیں۔ مگر وہ نجانے ایسا کونسا فتور دماغ میں بھرے بیٹھی تھی کہ ماں کی کوئی بھی بات اس کی سمجھ میں آ ہی نہیں رہی تھی۔ “امی! آپ پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔مہربانی کریں مجھ پر اور اپنی نصیحتوں کی کتاب بند کر دین۔ یہ میری زندگی ہے اور جو میں چاہوں گی وہی ہو گا۔ ابھی کچھ دیر میں امبرین آ جائے گی اور میں اس کے ساتھ چلی جاؤں گی۔ شاید ! ہمیں واپسی پہ دیر ہو جائے آپ کھانے پہ میرا انتظار نہ کیجئیے گا۔ اور کھانا کھا کے سو جائیے گا۔” وہ انتہائی بےمروتی سے بولتی ہوئی اندر کمرے میں چلی گئی اور ماں آنکھوں میں آنسو لیے اس کو حیرت سے دیکھتی رہ گئیں۔ وہ دکھ میں مبتلا تھیں یا تکلیف میں انہیں اس کی سوچ پر اس کی باتوں پو بہت دکھ ہو رہا تھا۔ “نامعلوم ! اس تربیت میں ایسی کون سی کمی رہ گئی تھی۔ جو یہ ایسی سوچ کی مالک ہے۔” وہ تاسف سے خود سے تکلم کر رہی تھیں۔ ان کے انداز میں ملال، رنج اور دکھ سب کچھ تھا۔ وہپ آج خود سے خود سوال کرنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ مگر ان کے کسی بھی سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت ہوا تو امبرین بھی حناء کو لینے کے آ گئی۔ دالان میں داخل ہوتے ہوئے وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ “حناء! تم کہاں ہو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” امبرین نے اسے آواز دی۔ “بس ! آ گئی۔۔۔۔۔۔ یار بس دو منٹ۔۔۔۔۔۔!” حناء کمرے سے ہی اونچی آواز میں گویا ہوئی۔ “ارے ! آنٹی۔۔۔۔۔! اسلام علیکم۔۔۔۔۔۔۔!!!” حناء کی امی جو امبرین کی آواز سنتے ہی فوراً سے کچن سے باہر آ گئیں۔ امبرین نے انہیں دیکھتے ہی ان سے سلام لی۔ “کیسی ہیں آنٹی آپ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” امبریں نے خوشدلی سے ان سے پوچھا۔ “وعلیکم اسلام۔۔۔۔۔۔! میں الحمداللہ ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔! تم سناؤ کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟” حناء کی ماں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا اور پھر اس سے اس کا حال احوال پوچھا۔ “جی آنٹی۔۔۔۔۔۔! میں بھی ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔! وہ دراصل میں حناء کو لینے آئی تھی۔ آپ بالکل بھی پریشان نہ ہوئیے گا میں خود اسے گھر چھوڑ کر جاؤں گی۔” وہ انہیں بتا رہی تھی کہ وہ اسے لے کر پریشان نہ ہوں اور فکر نہ کریں۔ حناء کی ماں کو امبرین پر پورا یقین تھا کہ وہ ان کی بیٹی کا پورا پورا خیال رکھے گی۔ “لو! حناء بھی آ گئی۔۔۔۔۔۔۔!” امبرین نے ہنستے ہوئے کہا۔ “حناء! اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔۔! ” ماں نے اس کی ساری بد تمیزیوں کو اس لمحے ایک سائیڈ پہ رکھا اور عاجزانہ انداز اختیار کیا۔ تو وہ بھی خوش ہو گئی اور بولی۔ “امی! آپ فکر نہ کریں۔ آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔ اور وقت پہ کھانا کھا کے سو جائیے گا۔” آج ماں کو پہلی بار بیٹی کے لہجے میں اپنے لیے محبت اور فکر نظر آئی تھی۔ جو ان کے لیے مسرت کی بات تھی۔ چند لمحوں کے لیے وہ مسرور ہو گئیں۔ “اچھا! امی! اب ہم چلتی ہیں۔” اور وہ دونوں خوشگوار انداز میں خداحافظ کہتے ہوئے گھر کی چوکھٹ پار کر گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ کیا حناء۔۔۔۔۔! یہ لباس۔۔۔۔۔؟ تمہیں معلوم بھی ہے میری پارٹیز کا ۔۔۔۔۔۔۔! پھر بھی اتنی دقیانوسی ڈریسنگ۔۔۔۔۔۔! پتہ نہیں تمہیں عقل کب آئے گی۔۔۔۔۔؟” امبرین نے غصے اور کوفت سے کہا۔ “میں کیا کرتی۔۔۔۔۔۔ میری وارڈروب میں تو یہی سب سے اچھا لباس تھا۔” حناء نے انتہائی مبغوض انداز میں جواب دیا۔ “اچھا ٹھیک ہے۔۔۔! چھوڑو اس بات کو اب پہلے ہم مارکیٹ چلتے ہیں۔۔۔۔۔پھر ہم بیوٹیشن کے پاس جائیں گے اور وہاں سے ریڈی ہو کر ہم پارٹی میں جائیں گے۔” وہ اسے ساری پلاننگ بتا رہی تھی۔ حناء یہ سن کر بہت خوش ہوئی کہ ہم مارکیٹ جا رہے ہیں اور وہ یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتی تھی کہ امبرین اگر اس کو اپنے ساتھ مارکیٹ لے کے جارہی ہے تو ایک دو ڈریس تو وہ حناء کو بھی دلا ہی دے گی۔ “تمہیں معلوم ہے آج ہمارے گھر میں ہونے والی اس پارٹی میں مہمان کون ہے۔۔۔۔۔۔؟” امبرین نے ایکسائٹمنٹ میں حناء سے پوچھا تو وہ سرعت سے بولی۔ “مجھے کیا معلوم ہو کہ کون آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟” اس نے منہ بسور کر جواب دیا تو امبرین ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے بولی۔ “اچھا! ناراض تو نہ ہو میں بتاتی ہوں۔ آج ہماری پارٹی میں عمران لشاری صاحب آ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی ملٹی نیشنل کمپنی کے آنر، امپورٹ ایکسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔ اتنی بڑی بڑی فیکٹریوں کے اکیلے مالک ہیں وہ۔ کڑوڑوں کی جائیداد ہے ان کے پاس۔ دو چار بنگلے تو اسلام آباد میں بھی ہوں گے ان کے۔۔۔۔۔۔!” امبرین اس بندے کی پدسنالٹی سے لے کر اس کے تعیشات کی ایک لمبی فہرست حناء کے سامنے بیان کر رہی تھی اور وہ پگلی خوابوں کی دنیا کی کسی اپسراء کی طرح خود کو اس شہزادے کی ملکہ سمجھتے ہوئے یوں خوش رہی تھی جیسے اسے اس کی منزل مل گئی ہو۔ “واہ۔۔۔۔۔۔۔!!!” حناء نے اشتیاق سے کہا۔ پھر وہ دونوں مارکیٹ گئیں انہوں نے خوب شاپنگ کی۔ امبرین نے بہت ہی خوبصورت اور قابلِ ستائش لباس حناء کو لے کر دیا۔ خوب ساری شاپنگ کرنے کے بعد وہ دونوں شہر کے سب سے مہنگے بیٹی پارلر میں موجود تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج امبرین کے گھر میں بہت چہل پہل تھی۔ بہت سارے لوگ عمران لشاری صاحب سے ملنے کے لیے آج اس پارٹی میں موجود تھے۔ سب ہی ان کی آمد کے منتظر تھے۔ اسی اثناء میں کسی نے پُرجوش انداز میں کہا؛ “لو! عمران لشاری صاحب بھی آ ہی گئے۔” حناء نے فوراً سے پورچ کی طرف دیکھا جہاں ایک لمبا قابلِ ستائش سرخ قالین فرش پر بچھایا گیا تھا۔ سب کی نظریں بلیک نیو کار سے نکلتے ہوئے اس ہنڈسم اور پرکشش مرد کی طرف تھیں۔ حنائ نے بھی لوگوں کے ہجوم میں اس قدقامت مرد کی طرف دیکھا اور اپنا دل دے بیٹھی۔ اسے یوں لگا اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے آ گیا ہے۔ امبرین نے حناء کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو ہنسنے لگ گئی ۔ “کیچڑ کا کنول، اور خواب محلوں کے۔۔۔۔۔۔!” امبرین کے لبوں سے بےساختہ الفاظ پھسلے۔ حناء نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تو اسے یوں مسکراتا دیکھ کر اس سے اس کے ہنسنے کی وجہ پوچھی۔ “کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔؟” وہ امبرین کے ہنسنے پر محوِ حیرت تھی۔ اس لیے اس سے پوچھنے لگی۔ “تم عمران لشاری کی پرسنالٹی سے امپریس ہو رہی یا اس کی آن، بان اور شان سے۔۔۔۔۔۔؟” امبرین نے ہنستے ہوئے اس سے پوچھا اس سے پہلے کہ حناء کوئی جواب دیتی۔ امبرین نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے جانے لگی۔ “چلو! تمہیں بھی اس شاندار انسان سے ملواتی ہوں۔” امبرین اسے ان کے پاس لے گئی اور انتہائی پُرجوش انداز میں بولی۔ “عمران صاحب۔۔۔۔۔! یہ میری دوست ہے۔۔۔۔۔۔! اس کا نام حناء ہے اور یہ۔۔۔۔۔۔!” اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور مزید بولتی حناء نے زور سے اس کا ہاتھ دابا اور اسے چُپ رہنے کا کہا۔ “آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔” عمران لشاری نے مسکراتے ہوئے کہا۔حناء کے حسن و جمال سے متاثر ہوئے بغیر وہ نہ رہ سکا۔ اس نے فوراً سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر حناء کی طرف بڑھایا جسے اس نے سرعت سے تھام لیا۔ اور جوابی مسکراہٹ سے ان کی حوصلہ افزائی بھی کر دی۔ “تم بہت خوش نصیب ہو حناء۔۔۔۔۔! ورنہ تو لوگ اس بندے کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بھی ترستے رہتے ہیں۔ ” امبرین نے مسکرا کر کہا۔ وہ اسے عمران لشاری کی آؤٹ کلاس کے بارے میں بتا رہی تھی اور پھر کچھ یاد آنے پر وہ بولی۔ “اور ہاں! دیکھو! تمہیں تو وہ اپنا ویزیٹنگ کارڈ بھی دے کے گئے ہیں۔ اس بات کا پتہ کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔؟” امبرین کے سوال پر وہ بےاختیار بول اٹھی۔ “کیا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” “پگلی ! اس بات کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ تعلقات بڑھانا چاہتے ہیں۔ اس لیے تو وہ تمہیں اپنا کارڈ دے کے گئے ہیں۔ اب تم اس موقع کو ضائؑ نہ کرنا اور کل ہی ان کو کال کر لینا۔” امبرین نے ناصحانہ انداز میں اسے بولا تو وہ جواب میں صرف اپنا سر ہی ہلا سکی۔ تعارفی کلمات کے بعد سب لوگ عمران صاحب کے گرد اکٹھے ہو گئے اور حناء اور امبرین کو سائیڈ پر ہونا پڑا۔ سب پارٹی کو انجوائے کرنے میں مصروف تھے۔ کھانا کھانے اور دعوت کو انجوائے کرنے کے بعد سب لوگ باہر خوبصورت لان میں آ کر اکٹھے ہو گئے اور ادھر ادھر کی باتیں ہونے لگیں۔ آخر یکے بعد دیگرے سب رخصت ہو گئے۔ “میں بہت زیادہ تھک گئی ہوں۔ تم بھی یہیں آرام کر لو صبح چلی جانا۔” امبرین نے اصرار کیا۔ کیونکہ اس وقت بہت کوفت محسوس کر رہی تھی کہ رات کے اس پہر وہ حناء کو شہر کے اس پوش علاقے میں چھوڑنے کے لیے جائے۔ “نہیں ۔۔۔۔۔! نہیں۔۔۔۔۔۔! امی ناراض ہو جائیں گی۔” حناء نے سنجیدہ انداز میں اسے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ یہ جانتی تھی کہ وہ جتنی مرضی اپنی من مانی کر لے مگر کچھ باتیں اسے اپنی ماں کی ماننی ہی پڑتی ہیں۔ پھر امبرین کے کہنے پر ڈرائیور نے اس کو اس کے گھر چھوڑا۔ سارے راستے وہ عمران لشاری کی پرسنالٹی کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔ گھر پہنچی تو ماں تو کب کی سو چکی تھی۔ اس نے بھی ڈریس تبدیل کیا اور اپنے پلنگ پر لیٹ گئی۔ آنکھیں بند کیں مگر نیند تو آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تھی۔ اسے ساری رات ایک لمحے کے لیے بھی نیند نہ آئی۔ اس کے حواس پہ بس ایک ہی بندہ سوار تھا اور وہ تھا عمران لشاری۔۔۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن گزرتے گئے۔ایک دن اچانک عمران صاحب کا وزیٹنگ کارڈ اس نے الماری میں سے نکالا اور اس کارڈ پہ موجود نمبر کو ڈائل کرنے لگی۔ چند سیکنڈز میں رنگ بیل جانے لگی۔ اور اگلے ہی لمحے کال ریسیو ہو گئی۔ “ہیلو۔۔۔۔۔!” اس نے کافی ہمت جمع کرتے ہوئے ہیلو بولا۔ “جی۔ کون۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟” وجیہہ مردانہ آواز نے پوچھا۔ “جی وہ میں ۔۔۔۔۔۔! حناء۔۔۔۔۔۔! کچھ دن پہلے ام،برین کے گھر میں پارٹی پہ آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔” وہ ڈرے سہمے لہجے میں بولی۔ “اوہ ۔۔۔۔۔۔! اچھا آپ۔۔۔۔۔۔۔!” اس نے مسکرا کر کہا۔ اور پھر تعارفی کلمات کے بعد کئی گھنٹوں تک گفتگو کا سلسہ جاری رہا۔ اب تو آئے روز حناء رات گئے تک عمران صاحب سے محوِ گفتگو رہتی۔ دنیا و مافیہا سے بےخبر یہ حسینہ خوابوں کے نگر میں بہت آگے تک قدم رکھ چکی تھی۔ جہاں سے واپسی ناممکن تھی۔ عورت کی مثال ایک صاف شفاف آئینے کی مانند ہوتی ہے۔ جو ایک ہلکی سی ٹھوکر سے کئی ٹکڑوں میں بَٹ جاتا ہے۔ جسے پیوند لگانے سے جوڑا تو جا سکتا ہے۔ مگر آئینے پر پڑ جانے والے نشانوں کو مٹانا ناممکن ہے۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بڑھتا ہی چلا گیا۔ عمران لشاری بےبہا انداز میں اس کے حسن پر اپنی دولت نچھاور کرنے لگا اور وہ پگلی یہ سمجھتی رہی کہ عمران صاحب کو اس سے محبت ہو گئی ہے۔ وہ یہ بھول گئی تھی کہ اس خوبصورت دنیا میں محبت جیسے جذبات ناپید ہو گئے ہیں۔ لوگ کسی سے محبت کرتے ہیں تو اپنے فائدے کے لیے اور اگر نفرت کرتے ہیں تو اس نفرت کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ حناء کی ماں اس کی وجہ سے بے حد پریشان تھی۔ اس لیے انہوں نے جلدازجلد اس کی شادی کی تاریخ طے کر دی۔کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ کہیں ان کی خوابوں اور خیالوں کے نگر میں رہنے والی بیٹی ایسی کوئی غلطی نہ کر دے جس کا خمیازہ اس کی ماں کو بھگتنا پڑے۔ عزت بڑی مشکل سے کمائی جاتی ہے۔ اور یہ بات حناء کی سمجھ سے بالا تھی۔ اس کے نزدیک تو سب سے اہم چیز خواہشات ہوتیں ہیں۔ حناء کی ماں نے امبرین کو اس کی ساری حماقتوں کے بارے میں بتایا تو امبرین نے اسے سمجھانمے کی کوشش کی۔ مگر اس نے تو امبرین کے منہ پر اسے انکار کر دیا اور بولی۔ “وہ کسی بھی قیمت پر اس کلرک سے شادی نہیں کرے گی۔” امبرین نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانی ۔ پھر تنگ آکر حناء کی ماں نے اس کی شادی کی تاریخ طے کر دی۔ حناء کو جب اپنی ماں کے اس اقدام کا پتہ چلا تو اس نے فوراً سے عمران لشاری کو کال کی اور اسے سب کچھ بتا دیا کہ اس کی ماں زبردستی اس کی شادی کروا رہی ہے۔ عمران نے اس کی ساری بات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا کہ موقع ملتے ہی وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر اس کے پاس آ جائے وہ دونوں کورٹ میرج کر لیں گے۔ اور یئہاں سے بہت دور چلے جائیں گے۔ وہ یہ سب سن کر بہت خوشی ہوئی۔ مگر وہ یہ سب کر نہیں سکتی تھی۔ ایک لمحے کے لیے اس کے دل میں اپنی ماں کا خیال آیا جس ماں نے باپ کے انمتقال کے بعد اسے پالا پوسا اس کے لیے دردر کی ٹھوکریں کھائیں وہ کیسے اسے چھوڑ کر جا سکتی ہے۔ مگر خواہشات تکمیل کا نشہ اس کے سر پر سوار تھا۔ اس نے عمران لشاری کے حق میں فیصلہ دیا۔ دن گزرتے گئے اس نے بہت بار دہلیز پار کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ کر سکی۔ اسی اثناء میں وقت گزرتا گیا اور اس کی شادی کا دن آ گیا۔ ماں نے اپنی حیثیت کے مطابق شادی کی ساری تیاریاں کیں۔ گھر میں مہمانوں کی بہتات تھی۔ معاشرے میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے نمورونمائش کا تسلسل تو رکھتے ہیں۔ بارات کے آنے میں بس کچھ ہی وقت باقی تھا۔ ماں تو بےحد خوش تھی۔ آج وہ اپنی بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جائے گی۔ ماں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ گھر میں عجیب سا شور برپا ہو گیا۔ اس شور شرابے سے وہ بےحد پریشان ہو گئیں۔ پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ “دلہن تو اپنے کمرے میں نہیں ہے۔ ” یہ سنتے ہی ماں کے قدموں تلے سے زمین نکل گئی۔ انہیں اپنے کانوں پہ یقین نہیں آ رہا تھا۔ سب لوگ انہیں ہی تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ ہر کوئی چہ مگوئیاں کرنے میں مشغول تھا۔ دوسری طرف حناء کے قدم تیزی سے چل رہے تھے۔ کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ وہ اب زمین کی دسترس میں نہیں ہے۔ بلکہ آسمان کی بلندیوں میں پابندِ قفس ہو چکی ہے۔ لیکن حقیقت تو اس کے برعکس تھی بلکہ وہ تو پابگل کی گہرائیوں میں دھنس چکی تھی۔ وہ عمران لشاری کو فون پہ فون کر رہی تھی۔ مگر اس کا موبائیل نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔ آخرکار حناء اس کے بتائے ہوئے بنگلے پر پہنچ گئی۔ اس نے گیٹ پر زور سے دستک دی۔ پوچھنے پر چوکیدار نے بتایا کہ : “صاحب! تو یہاں پر نہیں ہیں۔” یہ جاننے پر وہ محوِ حیرت ہو گئی۔ اسی کشمکش میں مبتلا ہو کر اس نے امبرین کے گھر کی راہ لی۔ امبرین کے گھر پہنچی تو امبرین اسے اس ھال میں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ پھر حناء نے اسے سب کچھ بتایا۔ سب کچھ جاننے کے بعد امبرین کو اس پہ بہت غصہ آیا۔ پھر وہ غصے سے چیخی۔ “تم ایک ایسے شخص کے لیے اپنی ماں کو چھوڑ آئی ہو جو پچھلے دو دن سے جیل میں ہے۔” امبرین نے اس پر بم پھوڑا۔ “کیا۔۔۔۔۔۔۔؟” حناء کے منہ سے بس یہی نکل سکا۔ اس پر تو جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ “منشیات کا دھندا کرنے اور خوبصورت لڑکیوں کے ساتھ شادی کرکے انہیں اپنے ساتھ بیرونِ ملک لے جا کر انہیں اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا عمران لشاری کا دھندا ہے۔ ہر اخبار، ہر نیوز چینل پر یہ خبر پورے دلائل اور ثبوت کے ساتھ واضح ہے۔” امبرین بولتی جا رہی تھی۔ اور حناء شرمندگی کے مارے زمین میں دھنستی جا رہی تھی۔ “ہم نے تو اسے اپنے گھر پارٹی پر اس لیے مدعو کیا تھا کیونکہ میرا کزن ایف۔بی۔آر میں ہے اور اس نے سپیشل انویسٹیگیشن کرنی تھی عمران لشاری کے بارے میں۔ میں نے تمہارا تعارف صرف اس لیے کروایا تھا تاکہ کچھ دن تم بھی ینجوائے کر لو۔ مگر مجھے کیا پتہ تھا تم دنیا کی سب سے بڑی بےوقوف لڑکی نکلو گی۔” وہ اس پر چیخ رہی تھی۔ چلا رہی تھی۔ اور وہ تھی بھی اسی قابل کہ اس پہ چیخا جائے چلایا جائے۔ “یہ تم نے کیا کر دیا ہے۔۔۔۔۔؟تم اتنی نادان ہو بدنامی کا داغ تم نے اپنے ماتھے پہ سجا لیا ہے۔اب اسے مٹانا تمہارے لیے ناممکن ہے۔ میں تمہیں اپنے گھر میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ چلی جاؤ میرے گھر سے۔۔۔۔۔۔!” امبرین نے انگشتِ شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے اسے جانے کا کہا۔ وہ چپ چاپ کھڑی اپنی ہی نادانی پر ناسمجھی پر حیران وششدر تھی۔ ایک ہی لمحے میں اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ “اس جرم کی پاداش تمہیں اس دنیا میں ہی مل جائے گی۔تم کس منہ سے اپنی ماں کاسامنا کرو گی۔۔۔۔۔۔؟ تمہاری وہ پاکیزہ ماں جو زمین پر قدم بھی پھونک پھونک کر رکھتی ہے اور آج تمہاری نادانی نے اس کی سفید چادر کو داغدار کر دیا ہے۔” امبرین غصے سے اس کے قریب آئی اور اسے گھسٹتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکال دیا۔ اس کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔وہ رو رہی تھی۔ اسے اپنی نادانی پہ غصہ آ رہا تھا۔ وہ سڑک پر بےدھیانی سے چلتی جا رہی تھی۔ “میں کدھر جاؤں۔۔۔۔۔۔؟ میں کیا کروں۔۔۔۔۔۔؟ یہ میں نے کیا کر دیا۔۔۔۔۔۔؟ دولت کی ہوس اور بےجا خواہشات کے حصول نے مجھے اپنی ماں سے بہت دور کر دیا ہے۔” وہ رو رہی تھی اور بےدھیانی میں چلتی جا رہی تھی۔ اسی کشمکش میں اس کی نظر ایدھی سنٹر کے بورڈ پر پڑی۔ وہاں لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے کچھ عملے کی ضرورت تھی۔ اسے امید کی ایک کرن نظر آئی۔ وہ آگے بڑھی اور سنٹر کے اندر داخل ہو گئی۔
ایک سال بعد۔۔۔۔۔۔۔!!!
حناء کو ایدھی سنٹر میں جاب کیے ہوئے تقریباً ایک سال کا عرصہ ہو گیا تھا۔وہ بیمار ، بےآسرا لوگوں کی خدمت کرنے میں مشغول تھی۔ وہ لوگ جو کسی نہ کسی مجبوری، یا پھر دنیا کے مظالم سے تنگ آ کر ایدھی سنٹر میں قیام پذیر ہو گئے۔ جس غریبی مفلسی سے وہ نفرت کرتی تھی۔ آج اسی غریبی میں وہ اپنے ضمیر کا سکون تلاش کر رہی تھی۔ وہ امیری کی آرزومند تھی۔ مگر غریبوں، مفلسوں ، ناداروں کی خدمت میں محو رہ کر وہ اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتی تھی۔ شاید خدا کے ساتھ ساتھ زمانے والے بھی اس کی کی گئی غلطی کو معاف کر دیں۔ اس امید کے سہارے وہ زندہ تھی اور لوگوں کی خدمت میں مصروفِ عمل تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Mjhy Aasman ki thi Khawaheshey by Hina Shahid