آرٹیکل
nasley nou or nizamey taleem artical by Hina Shahid
آرٹیکل
نسلِ نو اور نظامِ تعلیم۔۔۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا
پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے 73 سال ہونے کو ہیں ۔ لیکن آج بھی ہم اس مینار کی ریڑھ کی ہڈی میں موجود خامیوں کو دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارا نظاؐمِ تعلیم آج بھی انہی بنیادوں پر قائم و دائم ہے جو انگریزوں کے قفس میں ہمیں نصیب ہوا تھا۔ بطور ایک آزاد قوم ہم تعلیمی اعتبار سے روز بروز زوال ہی کی طرف جا رہے ہیں۔
موجودہ نظامِ تعلیم ہمیں انگریزوں سے ورثے میں ملا تھا۔ اور قدرتی طور پر انگریزوں کے مقاصد پورے کرنے والا یہ نظامِ تعلیم کلرکوں کا ایک گروہ تیار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت لارڈ میکالے کا یہ قول ہے جو انہوں نے اپنی معروف تعلیمی سفارشات میں واضح طور پر بیان کیا ہے۔:
“ہمارا مقصد ایسے تعلیم یافتہ افراد پیدا کرنا ہے جو اپنی نسل اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں۔ مگر ذہن اور فکر کے اعتبار سے انگریز ہوں۔”
علامہ محمد اقبال کی شاعری اس درد کا رونا روتی بھی دکھائی دیتی ہے۔
بقول اقبال:
؎ اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ انگریزوں کو ان کی اس سازش میں کامیابی بھی ہماری کم فہمی کی بدولت نصیب ہوئی ہے۔ پاکستان کو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ مگر یہ بھی ہماری بدقسمتی ہے کہ آزادی حاصل ہونے کے بعد ہم اپنے اہم مسائل کو حل کرنے کی بجائے فضول کے جھگڑوں میں پڑ گئے۔ اور سوائے اپنے ہی نقصان کے ہم نے کسچ بھی حاصل نہیں کیا۔ نہ ہم نے نظامِ تعلیم کے مقاصد کا تعین کیا اور نہ ہی ہم میں سے کسی کو بھی اس کی بنیادوں میں تبدیلی لانے کا خیال آیا۔ اور آج اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس سساٹم کو تو تبدیل کرنے کا سوچ ہی نہیں رہے۔ ایک نظریاتی قوم کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمارا ناقص تعلیمی نظام بالکل پسماندہ ہے۔ یہ نہ تو ہماری نضریاتی، اسلامی اور دینی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور نہ مادی اور دنیاوی اعتبار سے ہمارے لیے فائدہ مند ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہر طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نے روزگاروں کی کثرت نضر آتی ہے۔
علامہ محمد اقبالؔ سے پہلے مرحام اکبر الہٰ آبادی نے اپنی خداداد بصیرت اور دور اندیشی کی بدولت جدید تعلیم کے مضمرات کا اندازہ لگا لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ:
مسجدیں سنسان ہیں، اور کالجوں میں دھوم ہے
مسئلہ قومی ترقی کا مجھے معلوم ہے
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
ہمارا نصابِ تعلیم ، طرزِ تعلیم اور تعلیمی ماحول میں سرے سے اس فکر کا کوئی نشان نہیں ملتا کہ ہمیں اپنے افراد میں کوئی قومی سیرت بھی پیدا کرنی ہے۔ علامہ اقبال کو اس نظامِ تعلیم کے ہولناک نتائج کا بخوبی اندازہ تھا، چنانچہ انہوں نے اس پر ہمیشہ شدید تنقید ہی کی تھی۔
بقول اقبال:
؎ گلا تو گھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ
موجودہ ملکی صورتحال میں باشعور افراد کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہئیے کہ وہ اس بوسیدہ حال تعلیمی نظام کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔ لیئکن اس سے پہلے میں اپنی ناقص عقل و فہم کی بدولت چند نکات یہاں واضح کرنا چاہوں گی جو ہمارے نظامِ تعلیم کو قدغن لگا رہے ہیں۔ نکاٹ حسب ذیل ہیں۔
1۔ ہمارا نظامِ تعلیم بے مقصد ہے۔
2۔ تعلیم کے شعبے میں باقائدہ منصوبہ بندی کی بڑی کمی ہے۔
3۔ ہمارے نظامِ تعلیم میں معمارانِ قوم کی اسلامی اور اخلاقی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔
4۔ ہمارے ملک میں دو الگ متوازی نظام چل رہے ہیں۔ ایک عام تعلیمی ادارے، دوسرے انگریزی اور غیر ملکی طرز کے تعلیمی ادارے۔
5۔ مہنگا طرزِ تعلیم سب سے بڑی خامی ہے۔
6۔۔ انگریزی زبان کو لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہونا اور تمام اہم مضامین کی تدریس بھی انگریزی میں دیے جانا یہ سب سے اہم مسئلہ ہے۔
7۔ ناقص نظامِ امتحانات اور لائبریریوں میں مطبوعہ کتابوں کی عدم فراہمی یہ وہ مسائل ہیں جنہیں ہم نے کبھی حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک ایسا نظامِ تعلیم قوم، کو دیں جو سراسر اسلام کے سانچے میں ڈھلا ہوا ہو۔ المیہ یہ ہے کہ نصاب اور تعلیم کے نظام کو تشکیل و ترتیب دینے والوں کے اپنے ذہنوں پر مضربی تہذیب و تمدن کی چھاپ اس قدر گہری ہو تی ہے کہ وہ جو بھی خاکہ بناتے ہیں وہ کسی نہ کسی رنگ سے مغربی اثرات کا ہی مظہر ہوتا ہے۔
ہمارے نظامِ تعلیم کو تو یوں سنورنا چاہئیے کہ ہماری نسلِ نو کے دل میں اپنے اسلاف کی عظمت پختہ تر ہو۔ ان کے دل سے غلامی کے اثرات ختم ہوں، ان کی فکر میں ایک انقلاب آئے۔ وہ صرف ڈگری لے کرملازمت کی تلاش میں دربدر رسوا نہ ہوں بلکہ ایک ایسی قوم بن کے ابھریں جو ستاروں کی صف میں ستاروں کی طرح دمک کر چاند کے روبرو چاند کی طرح چمک کر اور پھولوں کی صف میں کلیوں کی طرح چٹک کر اپنا مقام خود بنائیں ۔ جو ہمیشہ پرامید رہیں ۔ جن کے سامنے ایک منزل واضح اور ایک روشن مستقبل ہو اور ایسی نسلِ نو جدید تعلیمی نظامِ ہی کے تحت پیدا ہو سکتی ہے۔ اور یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب تک منزل کا تعین نہ کیا جائے تو سفر بیکار اور کوشش بھی بیکار ہی جاتی ہے۔
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ تعلیم کا مقصد محض کتابیں رٹا کر امتحان پاس کرانا نہیں ہونا چاہئیے۔ بلکہ سب سے زیادہ ہمیں تربیت پر توجہ دینی ہو گی۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم کردار ہمارے اساتذہ کرام ادا کر سکتے ہیں۔ جو خود سراپا عمل اور صاحبِ کردار ہوں۔ پھر ہی وہ صاحبِ عمل اور باکردار قوم کو تشکیل دے سکیں گے۔
تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے لیے دوسرا اہم کام نصاب کی ترتیب ہے۔ اپنے نصاب کو اس انداز سے مرتب دیا جائے کہ جو ایک مسلمان قوم کی آرزوؤں کا سچا عکاس ہو۔ تعلیمی اداروں میں تدریس کے نظام کو باقاعدہ کیا جائے۔ اساتذہ کو پابند کیا جائے کہ وہ مطلوبہ نصاب کو بخیرو خوبی ختم کرائیں۔ دو سال یا پھر پانچ سال کے نصاب کو مختلف دورانیوں میں بانٹ دیا جائے اور ہر دور کا الغ امتحان ہو۔ زیادہ سوالات معروضی نوعیت کے ہونے چاہئیں۔ تاکہ معلوم ہو کہ امیدوار نے اصل نصاب پڑھا ہے۔ جس طرح بھی ممکن ہو ہمیں “رٹے” سسٹم کو ختم کرنا ہو گا اور اس زہریلے سسٹم کے تحت حاصل ہونے والی کامیابی کا انسداد کرنا ہو گا۔ کیونکہ یہی وہ بے حفظِ بے معرفت ہے جس کی وجہ سے ہماری نسلِ نو قابلیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنا نظامِ امتحانات بھی درست سمت میں لانا ہو گا۔ امتحانی عملے اور پرچہ جانچنے والوں کی ایمانداری کا الگ سے ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔ اور اگر ضروری ہو تو اپنا امتحانی نظام کمپیوٹر کے سپرد کر دینا چاہئیے ۔ کیونکہ جب ذمے داراور ذی روح افراد غیر ذمے دار ہو جائیں ، ان میں دیانت ختم ہو جائے اور امتحان حقیقی جانچ پڑتال کے قابل ہیں نہ رہیں تو پھر دیانت و امانت بھی مشینوں کے سپرد ہی کر دینی چاہئیے۔
مختصر یہ کہ۔۔۔۔۔۔!
ہم جس قدر اپنی تعلیمی دنیا کو بہتر بنائیں گے۔ اتنی ہی سرعت سے ہم ترقی کی منزلوں میں قدم رکھ سکیں گے۔ آج کی نسلِ نو، کل کی باشعور قوم بنے گی۔ اور اگر یہ معمار بددیانت اور نالائق ہوں گے تو یقیناً ہمارا مستقبل بھی تاریک اور بھیانک ہو سکتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں آج اپنی خامیوں کو سنوار کر انہیں صحیح وقت پر سنبھالنا ہو گا تاکہ ہم کل کو ایک اچھے مستقبل کے وارث بن سکیں۔ کیونکہ مستقبل صرف اسی کا ہوتا ہے جس کا حال تابندہ ہوتا ہے۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
(ختم شد)