Parhy Likhy Jahil Novellett by Areeba Baloch
میں جانا نہی چاہتی میں مرنا نہیں چاہتی ۔ مگر پتہ ہے میرے گھر والوں کو لگتا ہے وہ فضول میں اپنا آدھا راشن مجھے پر خرچ کر رہے ہیں ۔ مطلب یہ کے میری ماں اور نند کی باتیں سنی میں نے ۔ آج میں برسوں بعد اپنی بھابھی سے ملنے کیلئے نیچے جہ رہی تھی۔ جانا نہی چاہتی تھی ۔ مگر میری بھابھی نہیں ائی تو اُن سے باتیں کرنے کا بڑا دل کیا ۔ نیچے جہ رہی تھی ۔ جب میری بہن کے یہ الفاظ سنے میںنے۔ کے " امی کیا فائدہ ہے اُس کو روٹی دینے کا ۔ نہ کچھ افاقہ ہے ۔ نہ کوئی علاج ۔۔ فضول میں بوجھ ہی بن رہی ہے ۔ میں تو کہتی ھوں اُس کا درد اور اپنی مصیبت سے جان چھڑائیں ۔ اُس کو کھانے میں زہر دے دیں ۔ ائے هائے ۔ نی پاگل ہوگئی ہے ایسے ہی زہر دے دوں ۔ وہ مرجائے میں جیل چلی جاؤں ۔ اور ویسے تیرا کیا جا رہا ہے اب تو اُس کا خیال اُس کی بھاوج رکھ رہی ہے امی ۔اویں میں سب پر بوجھ ہے ۔اور بوجھ کم کرنے میں کوئی مسلہ نہی ہے ۔ کوئی جیل ویل نہیں ہوتی ۔۔ویسے بھی تم کہہ دینا خودکشی کرلی کونسا وہ اٹھ کر بتائے گی کے اُسے کس نے مارا ہے ۔ کہہ تو سہی رہی ہے آخر کو اُس کی کیا ہی زندگی ہے ۔۔۔۔۔
- میں جانا نہی چاہتی میں مرنا نہیں چاہتی ۔ مگر پتہ ہے میرے گھر والوں کو لگتا ہے وہ فضول میں اپنا آدھا راشن مجھے پر خرچ کر رہے ہیں ۔ مطلب یہ کے میری ماں اور نند کی باتیں سنی میں نے ۔ آج میں برسوں بعد اپنی بھابھی سے ملنے کیلئے نیچے جہ رہی تھی۔ جانا نہی چاہتی تھی ۔ مگر میری بھابھی نہیں ائی تو اُن سے باتیں کرنے کا بڑا دل کیا ۔ نیچے جہ رہی تھی ۔ جب میری بہن کے یہ الفاظ سنے میںنے۔ کے " امی کیا فائدہ ہے اُس کو روٹی دینے کا ۔ نہ کچھ افاقہ ہے ۔ نہ کوئی علاج ۔۔ فضول میں بوجھ ہی بن رہی ہے ۔ میں تو کہتی ھوں اُس کا درد اور اپنی مصیبت سے جان چھڑائیں ۔ اُس کو کھانے میں زہر دے دیں ۔ ائے هائے ۔ نی پاگل ہوگئی ہے ایسے ہی زہر دے دوں ۔ وہ مرجائے میں جیل چلی جاؤں ۔ اور ویسے تیرا کیا جا رہا ہے اب تو اُس کا خیال اُس کی بھاوج رکھ رہی ہے امی ۔اویں میں سب پر بوجھ ہے ۔اور بوجھ کم کرنے میں کوئی مسلہ نہی ہے ۔ کوئی جیل ویل نہیں ہوتی ۔۔ویسے بھی تم کہہ دینا خودکشی کرلی کونسا وہ اٹھ کر بتائے گی کے اُسے کس نے مارا ہے ۔ کہہ تو سہی رہی ہے آخر کو اُس کی کیا ہی زندگی ہے ۔۔۔۔۔
Novel Name : Parhy Likhy Jahil
Writer Name : Areeba Baloch
Posted On : Hina Shahid Official
Category : Novellett
Hina Shahid Official start a journey for all social media writers to publish their writes. Welcome to all Writers , test your writing abilities. They write romantic novels, forced marriage , hero police officer based urdu novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, urdu novels, best romantic urdu novels, full hot romantic urdu novels, famous urdu novels, romantic urdu novels list, romantic urdu novels of all, best urdu romantic novels.
Parhy Likhy Jahil Novellett by Areeba Baloch is available here to online reading.
Give your feedback Plz✍️✍️❣️👇👇👇
ان سب ویب بلاگ، یوٹیوب چینل، اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ حناء شاہد آفیشیل اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔
Copyright reserved by Hina Shahid Official
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیں کہ آپ کہ یہ ناول کیسا لگا۔ شکریہ۔
ناولٹ
پڑھے لکھے جاہل از قلم اریبہ بلوچ
میں اکیس سال کی تھی۔ جب میری بات میرے مما کےکزن کے بیٹے سے طے ہوئی ۔ وُہ مما کے کزن ضرور تھے مگر دور رہتے تھے تین چار سال میں ایک دفعہ ملاقات ہوتی تھی کسی شادی بیاہ میں کبھی وہ نہ آئے کبھی ہم نہ گئے۔ لیکن ایک شادی میں ان کی پوری فیملی نے شرکت کی جس طرح ہم یہاں سے سب گئے تھے ۔ میں آپ کو بتاتی چلوں کہ ہمارے گھر والے آزاد خیال تھے پابندی عائد کرنے والوں میں سے نہیں تھے ۔ بات کا بتنگڑ بنانے والوں میں سے نہیں تھے۔ ہمارے گھر میں کل چھ لوگ ہی تھے
میرے بابا ، مما میرے دو بھائی اور میں ۔ میرے بڑے بھائی کی شادی ہوچکی تھی ۔اور میری بھابی ماشاءاللہ بہت اچھی تھی ۔۔
اُن کی فیملی میں سات لوگ تھے ۔ وہاج میرے ہونے
والے ہسبنڈ ۔ اُن کی مما ۔ اُن کے ابو کی وفات ہو چکی تھی ۔ ایک بہن اُن سے بڑی تھی جن کی شادی ہوچکی تھی ۔اُن سے چھوٹا ایک بھائی اور دو بہنیں تھیں دونوں بہنیں جڑواں تھی مگر اُن کی باتوں میں صرف
ایک کا ذکر ہوتا۔ شادی کی ایک تقریب میں دوسری بیٹی کا پوچھا تو سر درد تھا اس لیے نہیں آئی
وہاج کی بہنیں مجھ سے دو سال چھوٹی تھیں۔
اور بھائی ایک سال کا ۔ ۔ جب میں 23 سال کی ہوئی تب میری شادی اُن سے ہوئی۔ اُن کی فیملی بھی آزاد خیال تھی ۔ اس بات کا اندازہ مجھے تب ہوا جب ہماری شادی کے دوسرے ہفتے اُن کے دوست گھر آئے کیوں کہ وہ شادی میں نہ آسکے تھے ۔ اُن کو چائے دینے میرا دیور گیا ۔ جب تھوڑی دیر بعد میں وہاں گئی کیوں کہ وہ ہم سے ہی تو ملنے آئے تھے ۔ میں وہاں گئی تو میری نند جو اس وقت 20 سال کی تھی چھوٹی بچی نہیں تھی ۔ وہ اُن کے ساتھ بیٹھ کر ہنس کر باتیں کر رہی تھی ۔اور باقی سب بھی وہاں بیٹھے ہنس کے باتوں میں اپنا حصہ ڈال لیتے ۔ میرے وہاں جانے پر انہوں نے مجھے سلام کیا اور میں اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ گئی ۔ تھوڑی دیر میں باتوں باتوں میں میری نند نے دو دفعہ اُن کے دوستوں کے ہاتھ پر تھپڑ مارنے کے انداز میں ہاتھ مارا ۔میرے بھائی کے بھی دوست گھر آتے تھے مگر میں کبھی اُن کے سامنے نہیں گئی۔مجھے اچھا نہیں لگتا تھا ۔ خیر میری شادی کو 1 مہینہ ہوگیا تھا مگر میں نے گھر کا اوپر والا حصہ ابھی تک نہیں دیکھا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کہ سب کے کمرے نیچے تھے اور میں کام
کے بعد اپنے کمرے میں چلی جاتی ۔ ایک دِن میری بڑی نند گھر آئی ۔ اُن کے آنے سے گھر میں رونق ہوگئی کیوں کہ اُن کا دو سال کا بیٹا کافی شریر تھا۔ اُس دِن رات کو میری ساس نے کہا کہ ہماری فیملی مکمل ہو گئی ہے آج ۔ ۔میں نے بے اختیار کہا کہ ابھی میری ایک نند رہتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری یہی فیملی ہے۔ ۔اس کا آنا نہ آنا ایک برابر ہے ۔ اُس دِن مجھے لگا کہ ان کوئی ناراضگی ہے جس کی وجہ سے وہ یہاں نہیں ہے ۔ میں نے شادی کے بعد جب بھی اُس کا پوچھا ہمیشہ وہ یہاں نہیں رہتی کہہ کر ٹال دیا اور میں نے اپنے شوہر سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ لوگ خوش ہوتے ہیں کہ گھر کے افراد کم ہوں ،کام کم ہوگا ، کوئی نند نہ ہو مگر تم تو ایک بات کے پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔ میں نے سوچا جس کی بہن ہے جن کی بیٹی ہے انہیں فکر نہیں تو میں کیوں سر پر سوار کروں سب کچھ ۔
میری شادی کے 6 ماہ بعد میری ساس ، نند اور دیور میری بڑی نند کے ہاں کراچی گئے کیوں کہ وہ الگ رہتی تھی اُن کے شوہر کسی کام کی وجہ سے شہر سے باہر جارہے تھے وہ اکیلی تھی تو انہوں نے میری ساس کو بلوالیا مگر جانے كا سنتے ہی میرے دیور اور نند نے بھی جانے کا کہا تو انہیں بھی ساتھ لے گئی ۔اب میں گھر میں اکیلی ہوگئی میرے شوہر صبح سات بجے جاتے اور شام چھ بجے آتے ۔ پہلے گھر میں سب کے ہونے کی وجہ سے کبھی اکیلا پن محسوس نہیں ہوا ۔ شوہر کے جانے کے بعد کام ختم کرکے کمرے میں آگئی ۔مگر تھوڑی دیر بعد کسی خیال پر اوپر کا حصہ دیکھنے چلی گئی ۔ اوپر صرف دو کمرے تھے جب کے نیچے چھ کمرے ایک کچن ،باتھ روم ہر کمرے کے ساتھ اٹیچ تھا ۔ اور برآمدے کے بعد چھوٹا سا لان جس کے درمیان بنی چھوٹی سی راہداری دروازے تک جاتی ۔ اوپر کا منظر نیچے سے بالکل جدا تھا دو کمرے ۔ سامنے چھوٹا سا برآمدہ جس کی چھت کو ڈیزائن سے بنوایا گیا تھا ۔ اور اس میں پڑے کافی تعداد سے پڑے گملے یا یہ کہو پورا برآمدہ گملوں سے بھرا پڑا تھا مگر اس میں موجود سوکھے پودے اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ انہیں کافی وقت سے پانی نہیں دیا گیا ۔ ۔ مجھے حیرت ہوئی کیوں کہ نیچے موجود پودوں کو روز پانی دیا جاتا تھا ۔ خیر میں کمروں کے طرف بڑھی جس میں ایک کمرہ کھلا ہوا تھا ۔۔
میں اُس میں داخل ہوئی کیوں کہ گھر میں لائیٹ کا کنکشن تھا میں نے لائیٹ آن کی ۔کمرہ روشنی میں نہا گیا ۔ اُس کمرے میں ایک بیڈ ساتھ ایک ٹیبل ۔ اور ایک الماری پڑی تھی بس واش روم لاک تھا تو میں باہر آگئی ۔ دوسرے کمرے کی جانب دیکھا وُہ بند تھا حیرت ہوئی کیوں کہ اندر سے بند تھا ۔ میں نے دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا میں کچھ سوچتے برآمدہ میں ٹہلنے لگی میں نے دیکھا کہ کمرے کے ساتھ جیسے بالکنی ہو ۔ میں کسی خیال کے تحت وہاں گئی اور وہاں کمرے کے ساتھ اٹیچ بالکنی نہیں تھی بس ایک کھڑکی تھی وہ کھلی ہوئی تھی کیوں کہ میرے ہاتھ رکھتے ہی وُہ پٹ سے کھل گئی ۔ اندر کا نظارہ دیکھتے ہی میں دنگ رہ گئی۔ وہاں میری نند بیٹھی تھی ۔ جس نے کھڑکی کھلتے ہی اوپر دیکھا تھا ۔ میں اُس کو پہچان چکی تھی کیوں کہ اپنے شوہر کے فون میں اُس کی بہت سی تصویریں دیکھ چکی تھی ۔ مگر اس کی آنکھوں میں حیرت تھی کیوں کہ وہ آج پہلی دفعہ مجھے دیکھ رہی تھی ۔ وہ اپنی جڑواں بہن سے زیادہ خوبصورت تھی ۔ میں نے اس سے کہا کہ دروازہ کھولو مجھے بات کرنی ہے تم سے ۔ مگر وہ اپنی جگہ سے نہ ہلی ۔ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ گھر میں ہوتے ہوئے ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا وہ یہاں نہیں ہے۔مجھے ایک بات سمجھ آگئی تھی اُس دن کے کیوں میری ساس مجھے صبح 8 بجے کے بعد اٹھنے کا کہتے ۔ کیوں کہتے کے شام کو 7 بجے تک کمرے میں چلی جایا کرو کام پڑا ہے تو صبح کرلینا ۔میں نماز پڑھنے کے لیے اٹھتی لیکن ساس کی بات کے مطابق 8 بجے ہی باہر جاتی ۔ اُس نے میری تین چار بار کہنے پر بھی دروازہ نہ کھولا ۔ میں کھڑکی سے ہٹ گئی اور ایک چیئر لے کے ائی کھڑکی کی لمبائی اتنی نہیں تھی مگر بغیر چیئر کے چڑھنا ممکن نہیں تھا۔ اس کا ڈیزائن ایسا تھا کہ مجھے چوٹ لگ سکتی تھی ۔ کھڑکی کی مدد سے میں اندر کود گئی اندر جانے کے بعد میں نے دروازہ کھولا ۔ اُس کے بعد کمرے کا پنکھا چلایا ۔ کیوں کے میں دس منٹ گرمی برداشت نہ کر سکی کیوں کے بند کمرہ حبس اور گرمی کی وجہ سے عجیب سا ماحول تھا ۔ پتہ نہیں وہ کیسے بیٹھی تھی ۔ اُس نے مجھے یہ سب کرتے دیکھ ایک لفظ نہ کہا ۔ میں نے کمرے کو دیکھا جو کافی خوبصورت سجا ہوا تھا دروازے کے سامنے بیڈ تھا اُس کے ساتھ ایک ٹیبل جس پر کتابیں پڑی تھی ۔ اُس کے ساتھ چھوٹا سا مگر نفیس سا بک ریک اُس میں موجود کتابیں اس بات کی گواہی تھی کے اس کمرے میں رہنے والی کو کتابوں سے عشق تھا ۔ اُس کے ساتھ سنگار ٹیبل ساتھ الماری ۔ اور الماری کے ساتھ وش روم کا دروازہ ۔ واشروم کے ساتھ تھوڑی جگہ کے بعد کھڑکی تھی جس کے سامنے ٹیبل تھا ۔ جس وجہ سے میں آسانی سے اتر گئی تھی نیچے ۔ اب میں بیڈ پر اُس کے سامنے بیٹھ گئی وہ جو آلتی پالتی مار کے بیٹھی تھی تھوڑا سا پیچھے ہوئی ۔
میں نے آخر بات کا آغاز کیا ۔ آپ کو میں اُس کی زبان میں ہی ساری کہانی سناتی ھوں ۔
نام کیا ہے تمہارا ۔؟؟؟
آپ پپ کّکّککون ہہے ؟؟؟؟؟
میں اس تھوڑے سے وقت میں یہ جان گئی تھی کے وہ اپنی جڑواں بہن سے خوبصورت تھی مگر اس کے جیسے نہیں تھی یہ معصوم تھی ۔ وہ دنیاداری میں رہنے والی لڑکی تھی۔ جب کہیہ ایسی نہ لگی مجھے ۔۔ ۔پتلے نین نکش ۔ اونچا ناک۔ ۔ گلابی ہونٹ جس کی بناوٹ ایسی تھی کے ایک لمحہ میں بھی ڈگمگا گئی ۔ میں خوبصورت تھی مگر وہ تو شاید اپسرا تھی کوئی ۔کا ٹ دار آنکھیں ۔
میں انشا تمہارے بھائی کی بیوی ۔
بھائی نے شادی کرلی ۔
ہممم ۔
ایک بات پوچھوں یہاں کیوں ہو باہر کیوں نہیں اتی سب تم سے ملتے کیوں نہیں ہیں ۔
آپ یہاں کیوں ائی ہیں ۔
میں تم سے بات کرنے ائی ہوں ۔کتنی پیاری ہو تم ۔معصوم سی گڑیا جیسی ۔
آپ کو یہاں نہیں آنا چاہیے تھا جائے یہاں سے مجھے سایہ ہے آسیب ہے جائے یہاں سے ۔
مگر تم ٹھیک لگ رہی ہو مجھے ۔
نہیں مُجھ پر آسیب ہے یہ کمرہ آسیب زدہ ہے تبھی تو کوئی اوپر نہیں آتا ائے بھی تو کھڑ کی سے کھانا رکھ کے چلا جاتا ہے ۔ بتایا نہیں آپ کو کسی نے ۔
کوئی گھر پر نہیں ہے ۔ اس لیے اوپر آگئی وہ لوگ نہیں آنے دیتے
۔ ٹھیک کہتے ہیں۔ مت انا آئندہ اوپر ۔ جائے یہاں سے ۔ جائیّں اب کی بار وُہ چیخ کر بولی ۔ میں وہاں سے آگئی ۔ رات کو اپنے شوہر سے اس بارے میں بات کی تو بلاوجہ غصے ہونے لگے کے کیوں گئی اُس پر آسیب ہے تمہیں کچھ کردیتی تو ۔ عجیب پاگلوں والی حرکتیں کرتی ہے۔ ہر وقت چلاتی رہتی ہے آدھی آدھی رات کو اٹھ کے چلانے لگ جائے گی آج کے بعد تم اوپر نہیں جاؤ گی ۔ اُس رات ایک راز اور کھلا کے رات میری ساس روز دودھ لیے آجاتی میرے لیے اب سمجھ آیا اُس میں نشا اوور دوا ہوتی تھی جس کی وجہ سے اتنی گہری نیند سوتی تھی کے رات کو میری نند کے رونے چلانے کی آواز سنائی ہی نہیں دیتی تھی ۔ خیر میں روز کام کرتی اور اوپر چلی جاتی ۔ کیوں کے میری ساس لوگوں نے ایک مہینہ بعد انا تھا ۔ اس جلدی کام کرتی اور اس کے پاس چلی جاتی ۔ اس سے یہ ہوا کے وہ اب میرے آنے پر شور بھی مچاتی تھی ۔ کبھی جواب دے دیتی میری باتوں کا کبھی نہیں ۔ میںنے بھی اُس سے اس سارے حالات کا کوئی سوال نہیں کیا میں چاہتی تھی وہ ریلیکس رہے ۔ مجھے اپنا دوست سمجھے ۔۔ اور ایک حد تک وہ مجھے دوست ماننے لگ گئی تھی ۔ اکثر تو میرا انتظار بھی کرتی۔ ۔۔ ۔۔۔
میری شادی کو ایک سال ہوگیا تھا ۔ ہماری شادی کی سالگرہ تھی ۔ میں اُسے بھی بولنا چاہتی تھی کہ وہ نیچے ائے ۔ سب کے ساتھ کھانا کھائے ۔ مگر سب نے ہنگامہ برپا کردیا ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کوئی کسی سے ایسا رویہ کیسے اپنا سکتا ہے ۔ باقی تو دور کی بات ایک ماں کیسے کرسکتی ہے ۔
اس رات میں نے حقیقت جاننے کا عہد کرلیا کے اب جاؤں گی تو پوچھوں گی ۔
خیر میں اگلي صبح گئی ۔ وہ واش روم میں۔تھی ۔ دس منٹ بعد وہ ائی ۔ ۔۔۔
۔۔
۔میں نے اُسے سلام کیا ۔۔۔۔۔
میںنے حال چال پوچھنے کے بعد اس سب کی وجہ پوچھ ہی لی ۔۔ پہلے تو وہ گھبرائی پھر تھوڑی دیر بعد دروازہ بند کرکے میرے پاس دوبارہ آکر بیٹھ گئی۔
( میں اٹھارہ سال کی تھی جب بھائی کے دوست گھر ائے۔ اُنہیں بھائی نے بیٹھک میں بٹھایا۔ میری بہن کو کہا کہ اُنہیں کچھ کھانے کا سرو کر دو ۔ میری بہن چونکہ معروف تھی تو میں چلی گئی۔ وہاں میرے بھائی کا جگری دوست حنین بھی موجود تھا ۔ اُس کی نیت سے واقف نہیں تھی میں ۔ ۔۔۔میں یونی جاتی وہ وہاں آجاتا۔ میں جہاں جہاں جاتی وہاں وہاں میرا پیچھا کرتا ۔۔۔ ایک دِن یونی کے باہر کھڑی تھی ۔ بھائی کو انے میں دیر ہوگئی تھی ۔ میں کھڑی تھی کہ وہ میرے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
میںنے دو دفعہ اُس کو نظر انداز کیا ۔ مگر وہ کھڑا رہا ۔ اُس نے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔ میںنے اُسے انکار کردیا ۔ وہ روز اتا ایک ہی بات کرتا کے میں تمہیں پسند کرتا ہوں تُم سے ہی شادی کروں گا۔ اور چلا جاتا ۔ ۔
کچھ وقت کے بعد اُس کے گھر سے میرے لیے رشتا آیا ۔ میرے بھائی کا دوست تھا ۔ میرے بھائی کو کوئی کمی نظر نہ ائی تو بات طے کر دی ۔۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد منگنی کردی گئی ۔۔۔۔ وہ روز کال کرتا میں کٹ کر دیتی ۔ کبھی اٹھا لیتی ۔ ایک دِن اُس کے گھر کوئی فنکشن تھا اُس نے بھائی سے اجازت لی کے وہ مجھے بھی ساتھ لےجانا چاہتا ہے ۔ بھائی نے اجازت دیدی ۔۔۔۔۔
مجھے نا چار جانا پڑا میرا ٹیسٹ تھا مگر بھائی کی وجہ سے چلی گئی ۔ وہاں کافی وقت گزر گیا ۔ ۔۔۔ مجھے اندھیرےکا فوبیا تھا ۔ میں گھر جانے لگی جب میری نند نے ضد کرکے مجھے روک لیا ۔۔۔۔ میں نے امی اور بھائی سے پوچھا انہوں اجازت دے دی ۔ ۔۔۔
رات کے وقت مجھے پیاس لگی تو پانی پینے کیلئے نیچے آئی۔ مگر اب پانی پیتی کسی نے پیچھے۔ سے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔ اُس کے بعد نہیں یاد کیا ہوا ۔۔۔۔ جب مجھے ہوش آیا ۔ تب ایک سٹور بند تھی ۔ اندھیرا دھول مٹی سے میرا سانس بند ہونے لگا ۔ اس سے پہلے میں بیہوش ہوتی اچانک دروازہ کھولا گیا ۔ میں بھاگ کر اُس طرف گئی تو میرے بھائی کا دوست اور میرا منگیتر کھڑا تھا ۔ میں اُس کے سینے سے جا لگی ۔ مگر اگلے لمحے جب اُس کی باتوں سے میرا دھیان میرے کپڑوں کی جانب گیا تو وہ جا بجا پھٹے سے ہوئے تھے ۔۔۔۔
میںنے خود کو چھپانے کی کوشش کی جس پر وہ ہنس پڑا۔
اور کہنے لگا ۔ مُجھ سے چھپا رہی ہو جو تمہیں مکمل دیکھ چکا ہے ۔ میں اُس پر جھپٹ پڑی ۔ کہ جس کو محافظ سمجھا وہی درندگی کی حد پار کرگیا ۔ جس پر بھروسہ کیا اُس نے کہاں لا کھڑا کیا مجھے ۔۔ ۔۔ اُس نے مجھے دھکا دے کر کہا ۔ دیکھو کمرے میں جاؤ کپڑے بدلو ۔ میں کہہ دوں گا تمہارے بھائی سے اندھیرے کمرے میں بند ہوگئی تھی غلطی سے ۔ اب اپنے فوبیا کے بارے تو معلوم ہے تمہیں ۔اپنی زندگی جیو مجھے میری جینے دو ۔ اور ہاں اگر بتانے کی کوشش کی تو سارے شہر میں بدنام کردوں گا ۔ کہ شادی سے پہلے میرے گھر رہنے کیوں ائی تم ۔ ۔ مجھے اس وقت اپنے نصیب پر رونا آیا ۔ مجھے اس وقت اپنے گھر والوں پر غُصہ آیا ۔
میں گھر آگئی ۔ راتوں کو وہ رات یاد کرکے ڈر جاتی ۔
بیہوش ہوتی تو تین تین گھنٹے ہو جاتی ۔ بیٹھے بیٹھے چیخنے چلانے لگتی ۔۔۔میرے پڑھے لکھے جاھل گھر والوں کو لگا میرے اوپر سایہ ہے آسیب ہے جو اس اندھیرے نما کمرے سے میرے اندر آگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہ روز کوئی عامل بلا لاتے ۔ روز روز کے اس ہنگامے سے تنگ آگئی تھی ۔ وہ کہتے ہیں بعض اوقات برائی کو روکنے کیلئے برا بننا پڑتا ہے ۔ میںنے بھی یہی ڈراما شروع کردیا کے مُجھ پر آسیب ہے کوئی اتا مجھے بلاتا تو میں اُسے مارنے کا ڈراما کرتی پیر بابا کا گلا دبانے لگتی ۔ آہستہ آہستہ سب نے کمرے میں انا کم کردیا ۔ کھڑکی سے کھانا رکھ کر چلے جاتے ۔ میں نے اپنی چھوڑی ہوئی نماز کو دوبارہ سے پڑھنا شروع کردیا ۔ اب یہی میری زندگی ہے ۔ کسی نے سمجھا ہی نہیں کے میں جو بدل رہی ہوں تو کیوں بدل رہی ہوں ۔نہ سوال کیا نہ کُچھ پوچھا ۔ بس خود ہی آسیب زدہ ہونے کا فتویٰ دے دیا ۔ آخر میں وہ تلخئ سے مسکرائی ۔۔۔۔۔مجھے اُس کی باتیں اتنی تکلیف دے رہی تھی کہ سب نے اُسے تنہا کردیا ۔ پوچھا تک نہیں جب کے گھر والے تو بدلتے رنگ سے پہچان لیتے ہیں کے اولاد کو کیا مشکل ہے ۔ یھاں تو سب کچھ ہی عجیب تھا ۔۔ ۔۔۔
خیر دِن گزرتے گئے میں پہلے کی نسبت زیادہ اُس سے اٹیچ ہوگئی تھی مگر میری بھائی کے ہاں بیٹے کی پیدائش پر میں اپنی ماں کے گھر گئی ہوئی تھی ۔جب میرے شوہر کی کال ائی کے میری نند نے خودکشی کرلی ہے ۔ مجھے اس وقت کچھ سمجھ نہ آیا میں اپنے بھائی کے ساتھ اپنے گھر لوٹ ائی۔ میرے انے کے کچھ دیر بعد اُس کی تدفین کردی گئی
۔ گھر میں سب تھے مگر میرا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا ۔ میں بس ساکت بیٹھی اپنی اسی نند کو سوچتی رہتی ۔ کبھی بیٹھے بیٹھے رونے لگتی۔ کبھی سب کے بیچ بیٹھی اُس کی باتیں کرنے لگتی سب مجھے حیرت اور افسوس سے دیکھ کر رہ جاتے ۔۔۔۔۔
گزرتے وقت کے ساتھ اُنہیں یہ بات بھی بری لگنے لگی ۔۔ انہوں نے آخر کہہ دیا کے اُس کو یاد کرنے سے کیا ملتا ہے تمہیں۔ ویسے بھی اُس کا ہونا نہ ہونا ایک برابر تھا۔ ہمیں تو ابھی بھی یقین نہیں آتا کے وہ تم پر حملا نہیں کرتی تھی ۔ تمہارے سامنے چیختی چلاتی نہیں تھی۔ پتہ نہیں تم کیسے اُس کے پاس دو تین تین گھنٹے گزار لیتی تھی ۔۔۔
مجھے اُس دن اتنا غُصہ آیا کے میں کمرے سے اپنی نند کی ڈائری اٹھا لائی جو میںنے اُس کے کہانی بتانے کے بعد پڑھی تھی ۔ مل تو وہ بہت پہلے گئی تھی مگر میں اُس کی زبانی سن کے اس کو پڑھنا چاہتی تھی ۔
میں نے وہ لاکر اپنے شوہر کو دی۔ اور کہا ۔ ي ہے وہ وجہ جس کی وجہ سے میں آج تک اُسے بھول نہی پائی نہ ہی کبھی بھول پاؤں گی ۔ اُس کا درد میں محسوس کرتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یقین تھا اُس نے اُس کی وجہ بھی لکھی ہو گی ۔ میں جو یہ واپس اس کے کمرے میں رکھ ائی اُس کے مرنے کے بعد پھر سے لے ائی ۔اور پڑھنے لگی ایک دفعہ پھر اُس کی تکلیف میرے سینے میں اٹھی ۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کے کبھی یہ دکھانے کی نوبت آئے گی کیوں کے اب اگر یہ پڑھ کر پچّھتائے گے بھی تو کیا فائدہ ۔ وہ تو چلی گئی ۔۔
میرے شوہر نے ساری ڈائری اونچی آواز میں پڑھی ۔۔ سب کے چہروں کی بدلتی رنگت میں محسوس کرسکتی تھی مگر اب میں صرف حقارت سے دیکھ کر رہ گئی کے اُس کو قبر میں اُتارنے کے بعد اب ان آنسوؤں کا فائدہ ۔ اب رونے کا مقصد ۔اور حیرت ہے نہ کے ۔۔
اُس کی موت کی وجہ بھی یہی لوگ تھے ۔۔ ۔
اُس کی ڈائری کے چند آخری الفاظ ۔۔۔
میں جانا نہی چاہتی میں مرنا نہیں چاہتی ۔ مگر پتہ ہے میرے گھر والوں کو لگتا ہے وہ فضول میں اپنا آدھا راشن مجھے پر خرچ کر رہے ہیں ۔ مطلب یہ کے میری ماں اور نند کی باتیں سنی میں نے ۔ آج میں برسوں بعد اپنی بھابھی سے ملنے کیلئے نیچے جہ رہی تھی۔ جانا نہی چاہتی تھی ۔ مگر میری بھابھی نہیں ائی تو اُن سے باتیں کرنے کا بڑا دل کیا ۔ نیچے جہ رہی تھی ۔ جب میری بہن کے یہ الفاظ سنے میںنے۔ کے ” امی کیا فائدہ ہے اُس کو روٹی دینے کا ۔ نہ کچھ افاقہ ہے ۔ نہ کوئی علاج ۔۔ فضول میں بوجھ ہی بن رہی ہے ۔ میں تو کہتی ھوں اُس کا درد اور اپنی مصیبت سے جان چھڑائیں ۔ اُس کو کھانے میں زہر دے دیں ۔ آئے ہائے ۔ نی پاگل ہوگئی ہے ایسے ہی زہر دے دوں ۔ وہ مرجائے میں جیل چلی جاؤں ۔ اور ویسے تیرا کیا جا رہا ہے اب تو اُس کا خیال اُس کی بھاوج رکھ رہی ہے
امی ۔ایسے ہی میں سب پر بوجھ ہے ۔اور بوجھ کم کرنے میں کوئی مسئلہ نہی ہے ۔ کوئی جیل ویل نہیں ہوتی ۔۔ویسے بھی تم کہہ دینا خودکشی کرلی کونسا وہ اٹھ کر بتائے گی کہ اُسے کس نے مارا ہے ۔
کہہ تو سہی رہی ہے آخر کو اُس کی کیا ہی زندگی ہے ۔۔۔۔۔
یہ سننے کے بعد مُجھ میں جینے کا جو حوصلہ میری بھاوج نے جگایا تھا وہ وہی دم توڑ گیا ۔ میں واپس آگئی ۔ اُن کے دیے ہوئی کھانے میں زہر ہے جانتے بوجھتے آج کھا لوں گی۔ میں اس لیے نہیں لکھ رہی کے سب اُنہیں قاتل کہیں میں صرف خود کیلئے لکھ رہی ہوں اور سمجھنے کیلئے کے اکیلی نہیں ہوں میں ۔ کوئی ہے میرا جو میری ہر بات سنتا ہے ۔ اور یقیناً وہ میری ڈائری ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔
میرے شوہر نے ساری ڈائری پڑھی ۔ پڑھنے کے بعد سب اپنی جگہ جامد تھے ۔ میرے شوہر نے اتنا ہنگامہ برپا کیا ۔
مگر میں صرف یہی سوچ کر رہ گئی ۔ کل تک یہ ان کی صف میں شامل تھا ۔ مجھے اوپر جانے سے روکتا تھا۔ اُس پر آسیب ہے یہ کہتا تھا ۔
خیر ہفتے تک سب کو ملال ہوا سب روتے رہے مگر پھر وہ مصروفیات مگر پچھتاوا وہی کا وہی ۔۔۔ کے اگلے اُسے سمجھ لیتے تو آج وہ زندہ ہوتی ۔ مگر آہستہ آہستہ سب بھول گئے جب کے میں یہ سوچتی رہ گئی کے اولاد کو سمجھا نہیں نہ ہی سمجھنے کی کوشش کی ۔ اُس پر ہوئے ظلم میں برابر کے شریک تھے سب ۔ اُس کو قبر میں اتار دیا ۔ سکون میں تو ہونگے نہ سب کسی کو وہ یاد بھی نہیں ۔ بلکہ یاد ہی کون کرتا ہے ۔ ہمارے جانے کے بعد دو دن سوگ ہوگا پھر وہی زمانے والے ، وہی کام ، وہی زندگی ، کسی کو۔ یاد ہی نہیں ہوتا کے کوئی اُن کی زندگی سے چلا گیا ہے ۔۔ ۔۔۔۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا میرے گھر والے جو اتنے اچھے ہیں اگر کبھی میں مرگئی تو مجھے بھی میری نند کی طرح ہفتے بعد بھلا دیا جائے گا ۔۔۔۔ مگر پھر اُس بات پر صبر کرلیتی ہوں کے ۔۔۔۔” جس چیز کو خدا نے پردے میں رکھا ہے اُس کو جان کر خود کو ذہنی بیمار کیوں کرنا ۔”
بس اب وقت پے چھوڑ دیا سب مگر اپنی نند بہت یاد اتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
#### ختم شد ###
۔ ۔ اور اگر میری لکھی کسی کو اچھی لگی ہے تو صرف کمنٹس مت دیں مجھے آپکے نائس گڈ سے زیادہ اس بات پر خوشی ہوگی جب آپ اپنی اولاد کو فرینڈز کی طرح رکھے گیں ۔ وہ آپ سے ہر بات بنا کسی جھجک کے کرلیں ۔ اُنہیں سمجھیں بدلتے رویے سے پہچانیں ۔ ۔۔۔ اُن کو اتنی سیف زون آپکی طرف سے ملے کہ اکیلے کمروں میں رونے والے آپکے سامنے روئیں اپنے درد کا اظہار کریں آپ سے مرہم کی امید رکھیں ۔اس سے پہلے کہ موت کو گلے لگا لیں ۔۔۔۔۔۔ اریبہ بلوچ کی یہ خوبصورت کاوش آپ سب کو کیسی لگی کمنٹس میں بتائیے گا ۔ تاکہ مزید ایسے ہی خوبصورت ناولز آپ کی خدمت میں پیش کر سکیں ۔ شکریہ!!!!۔
Qurbani by Hina Shahid | BanoQudsiyaQoutes | AshfaqAhmadQoutes