رومینٹک ناول

Khumarey Jaan by HINA SHAHID episode 10

www.hinashahidofficial.com

 

مکمل ناول

خمارِ جاں

از

حناء شاہد

:10قسط نمبر

 

 

 جانے کیسے کدھر گیا کوئی
تم کو کیا چاہے مر گیا کوئی
اک ذرا دیر کی خوشی دے کر
درد آنکھوں میں بھر گیا کوئی
آنسوؤں کی نمی یہ کہتی ہے
آج دل سے اتر گیا کوئی
کون جانے کہ ایک لمحے میں
ریزہ ریزہ بکھر گیا کوئی
یوں بھی کوشش تھی بھول جانے کی
کام آسان کر گیا کوئی
وہ مارکیٹ سے آئی تو اس کا موڈ کافی خراب تھا۔ ثمن بیگم کچن نے آج سپیشل کھانا بنایا تھا مرجان کے لیے ابی ، خضر اور مرجان سب نے ڈائننگ ہال میں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ابی اور خضر بزنس سے متعلق باتوں میں مشغول تھے ثمن بیگم وقتاً فوقتاً مرجان کی پلیٹ میں کچھ نہ کچھ ڈال کر اسے کھانے پہ حلاوت سے بول رہی تھیں۔ وہ ان کی محبت کا پاس رکھتے ہوئے کھا رہی تھی لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ یہ سب بے دلی کے ساتھ کر رہی تھی۔ اور خضر وہ بس نظریں جھکائے اس بات پہ خوش ہو رہا تھا کہ چلو اس نئے نولیے مہمان کا آج کا دن تو وہ خوب خراب کر چکا تھا۔پھر کھانا ختم ہونے پر ابی نے مرجان کے سر پر دستِ شفقت رکھا  اور  اپنے روم میں آرام فرمانے چلے گئے۔ثمن بیگم کا موبائل فون بجنے لگا تو وہ بھی کھانا کھانے کے بعد موبائل فون کان کے ساتھ لگائے باتوں میں مشغول ہو گئیں۔ خضر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنی پلیٹ میں موجود چاول کھانے میں مگن تھا۔ مرجان نے اس کی طنزیہ ہنسی دیکھی تو پلیٹ وہیں چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ اور چلتے چلتے باہر آ گئی۔ خضر نے اس کو یوں اس طرح جاتا دیکھا تو استہزائیہ ہنسا اور بولا۔
“لگتا ہے تیر صحیح نشانے پہ لگا ہے آج۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ دھیرے سے مسکرایا۔
“آج کے بعد مس مرجان خضر بیگ کے ساتھ شاپنگ پہ تو کبھی نہیں جائیں گی۔ اور اگر کبھی ابی نے بول بھی دیا کے خضر ان محترمہ کو مارکیٹ لے جاؤ تو ایم شیور! مسٹر خضر یہ لڑکی تو خود ہی انکار کر دے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
وہ اپنی پہلی فتح پہ خوش ہو رہا تھا۔
“ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔!!!”
اس نے کھل کر ایک قہہہ لگایا اور ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے اپنے روم میں جانے کے لیے قدم بڑھانے لگا وہ بار بار ہونٹوں کو قردے گول کیے سیٹی بجا رہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ بے حد خوش ہے۔
“لگتا ہے خضر صاحب کو مرجان بی بی بےحد پسند آ گئی ہیں۔”
شمائلہ جو گھر کی ملازمہ تھی اور پچھلے پانچ سال سے ثمن بیگم کی نگرانی میں گھر سنبھالے ہوئے تھی۔ اور اب اتناس وقت گزرنے کے بعد اسے گھر کے سارے افراد کے مزاج کا بخوبی اندازہ ہو گیا تھا۔ اس نے خضر کو یوں ہنستا مسکراتا سیٹی بجاتے ہیوئے دیکھا تو دل ہی دل میں بولی۔ کیونکہ وہ یہ جانتی تھی کہ خضر جب بے حد خوش ہوتا ہے تو وہ اسی طرح وسلنگ کرتا ہے۔پھر وہ میز پر بکھرے برتن سمیٹ کر کچن میں رکھنے لگی۔
                                       ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“یہ کیا بات ہے ثمن۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
ملیحہ نے سنجیدگی سے پوچھا تو ثمن کو سمجھ ہی نہ آئی ۔وہ دھیرج سے بولیں۔
“ملیحہ میں سمجھی نہیں ہوں بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
الٹا ثمن نے ان سے سوال پوچھ ڈالا۔
“آپ نے خضر کا نکاح کر دیا اور ہمیں کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دی۔”
انہوں نے شکوہ کیا۔
“بس کیا بتاؤں آپ کو سب کچھ اتنا جلدی ہوا کہ کسی کو بھی بتانے کی مہلت نہیں ملی۔”
ثمن نے پھر انہیں ساری تفصیل سے آگاہ کیا ملیحہ خاموشی کے ساتھ ان کی بات سن رہی تھیں۔ مگر دل پہ پتھر رکھے وہ ضبط کا دامن تھامے بیٹھی تھیں۔
“اوہ اچھا! اس کا مطلب ہے کہ خضر اس نکاح کے لیے بالکل بھی راضی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔؟”
انہوں نے کرید کر سوال کیا۔
“ہاں ! راضی تو نہیں تھا مگر اب وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی جب دونوں کی انڈرسٹینڈنگ ہو گی تو خوشی اور رضا بھی آ جائے گی۔”
وہ پرامید لہجے کے ساتھ امید کے کئی دیپ روشن کیے خضر کی زندگی کی خوشی کے خواب بُن رہی تھیں۔ جبکہ ملیحہ کا دل کٹھا ہوا اور وہ طنزیہ مگر دلکش مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے بولیں۔
“ہاں ! مگر یہ کوئی خوشی تو نہ ہوئی اس کی یہ تو کمپرومائز ہو گا۔ “
وہ ہمدردی دکھانے کی کوشش کرنے لگیں ۔
“نہیں مجھے یقین ہے خضر دل سے اس رشتے کو قبول کرے گا۔”
وہ پریقین انداز میں بولیں تو ملیحہ نے منہ بسورا اور بولیں۔
“چلیں ٹھیک ہے پھر میں اور سارہ کسی دن آپ کی طرف چکر لگاتے ہیں ہم بھی تو دیکھیں بیگ خاندان کے چشم و چراغ کی شریکِ حیات کا سٹینڈرڈ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ طنزیہ انداز میں بولیں تو ان کا یہ انداز ثمن بیگم کو ناگوار لگا لیکن وہ ان کی ناگواریت کو برداشت کر گئیں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بولیں۔
“جی ! جی ! ضرور۔۔۔۔۔۔۔! آپ کا اپنا ہی گھر ہے جب چاہے آ جائیے گا۔ مجھے یقین ہے میری مرجان کو دیکھ کر آپ بھی بے حد خوش ہوں گی۔”
“اوکے پھر ملتے ہیں کسی روز۔۔۔۔۔۔۔۔!”
ملیحہ نے بناوٹی انداز میں کہا تو ثمن فوراً سے بولیں۔
“جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔! اللہ کی امان۔۔۔۔۔۔۔!”
ملیحہ نے فون بند کر دیا اور دل ہی دل میں کچھ سوچنے لگیں ۔
“تو اس بات کا مچلب یہ ہے کہ یہ شادی صرف ایک سمجھوتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔!”
ان کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ ابھری۔
“اور ویسے بھی ایسے سمجھوتے جلد ٹوٹ جاتے ہیں ۔”
ان کی آنکھوں میں گہری چال تھی۔ وہ تبسم چہرے پہ سجائے من ہی من میں کئی جال بُن رہی تھیں۔
“میری سارہ کا راستہ مجھے ہی صاف کرنا ہو گا اور یہ سب خضر خود کرے گا۔”
وہ موبائل میز پر رکھتے ہوئے پرامید انداز میں بولیں اور اپنے ذہن میں کچھ پلاننگ کرنے لگیں۔شیاطنی سوچ سے بھرپور ملیحہ کا دماغ کبھی بھی کسی کی خوشی کو ہضم نہیں کر سکا تھا۔ اور اب تو ان کی زندگی میں سارہ سے زیادہ قیمتی کچھ رہا ہی نہیں تھا اور سارہ کی آنکھوں میں آنسو وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ لہذا انہوں نے خضر کو سارہ کے سامنے لا کر کھڑا کرنے کے لیے اپنے شیطانی ذہن کا استعمال کرنا شروع کر دیا ۔
“لیکن ! یہ سب کیسے ہو گا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ من ہی من  میں سوال کرنے لگیں۔
                                      ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ پھولوں کے بستر پر ننگے پاؤں بیٹھی تھی۔ ابی اور ثمن بیگم اپنے اپنے روم میں آرام کرنے چلے گئے تھے۔ اور وہ وہیں رات کے اندھیرے میں اس وقت کی منتظر تھی کہ شوہرِ نامدار نے صبح یہ حکم صادر کیا تھا کہ رات تب تک روم میں تشریف آوری نہیں فرمانی جب تک اسے نیند نی آ جائے وہ بوجھل پلکوں کے ساتھ روم کی ونڈو کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا بھی چل رہی تھی۔ پھول ہوا سے جھول رہے تھے۔ اسی اثناء میں خضر ڈور کھول کر ٹیرس پر آیا اور ریلنگ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے لان میں بیٹھی اس گڑیا کی طرف دیکھا جو صبح سے اس کے سامنے بالکل بھی نہیں آئی تھی۔ مارکیٹ سے آنے کے بعد اس نے کپڑے چینج کیے تھے۔ سفید سادہ کاٹن کی قمیض شلوار پہنے اور نیٹ کا دوپٹہ شانے پہ رکھے وہ ڈھیلی چوٹی جو بیٹھنے کی وجہ سے اس کے پاؤں چھو رہی تھی۔ اور وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔ خضر کو دور سے وہ کوئی جادؤئی کہانی کی کوئی اپسراء سی لگی۔ پھر اس کے موبائل کی رنگ بیل بجی تو اس نے جیب میں سے موبائل نکالا اور کان کے ساتھ لگا لیا۔
“کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ موبائل کان کے ساتھ لگائے ٹیرس پر کھڑا تھا۔ مرجان نے موبائل کی رنگ بیل کی آواز سنی تو فوراً سے اس کے تعاقب میں نظری گھمائیں اور سیدھا اس کی نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ٹیرس پر کھڑے خضر کے وجود پر اس کی نظریں ٹک سی گئیں۔
“ٹھیک ہوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“خیر ہے صبح تو شکل پہ بارہ بجے تھے اور اب دیکھو لہجہ خوشی سے کھنک رہا ہے۔”
عاشر نے متجسس انداز سے پوچھا وہ اپنے روم میں پاپ کان کھاتے ہوئے ایک انگلش مووی دیکھ رہا تھا جب اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اس جلاد کو بھی فون کر کے حال پوچھ لیا جائے سو اس  نے یہ سوچتے ہوئے کال ملائی تو کال فوراً سے اٹینڈ کر لی گئی جس پر وہ مزید حیرت زدہ ہو گیا۔
“خیر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بندہ مکمل طور پر راضی خوش اور پرسکون ہے۔”
خضر نے طنزیہ مسکرا کر کہا۔ مرجان مسلسل اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ بلیو ٹی شرٹ اور وائٹ ٹراؤزر پہنے خوشگوار موڈ کے ساتھ کسی کے ساتھ فون پہ بات کر رہا تھا۔
“مجھے لگ رہا تیرے دماغ گھوم گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”
عاشر نے ہنستے ہوئے سوال کیا اسے اس کی دماغی حالت پہ کچھ شک ہوا ابھی تو صبح یہ بندہ اتنے غصے سے آفس سے ابی کی پیروی کرتے ہوئے نکلا تھا۔ اور اب دیکھوکیسے خوش باش بات کر رہا ہے۔
“اوہ بھائی! لگتا ہے زبردستی کے نکاح کے بعد تمہارا دماغ کھسک گیا ہے۔۔۔۔۔۔؟ ویسے یہ بتا بھابھی ہے کدھر۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے پرجوش انداز میں سوال کیا تو خضر کچھ سوچتے ہوئے سبز فرش پر گم صم بیٹھی اس نازک کلی کے وجود پہ نظر جمائے دیکھتے ہوئے بولا۔
“وہ میرے سامنے بیٹھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!”
“کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ سب کب ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟”
عاشر کے ہاتھ سے پاپ کان والا باؤل پھسلا اور اس نے سرعت سے سوال کیا۔
“کیا کب ہوا۔۔۔۔۔۔۔؟”
خضر اس کی بات پر حیرت زدہ ہو گیا اور فوراً سے بولا۔
“یہی کہ جس لڑکی کے ساتھ تُو نکاح نہیں کرنا چاہتا اور چوبیئس گھنٹوں سے پہلے تو اتنا کیسے بدل گیا کہ اسے اپنے سامنے بٹھا کر مجھ سے بات کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔”
عاشر کی خرافات پہ خضر کے چہرے کے تاثرات فوراً سے بدلے اور وہ غصے سے بولا۔
“اوہ! شٹ اپ! یار۔۔۔۔۔۔! مجھے نہیں پتہ تھا تیری سوچ اس قدر گھٹیا ہے۔”
وہ اس ایک ہی لمحے میں تپ کر بولا تھا۔
“سامنے ہے کا مطلب یہ تو نہیں تھا میرا مطلب ہے وہ میرے بالکل سامنے لان میں بیٹھی ہے اور میں اپنے روم میں ٹیرس پہ ہوں۔”
خضر نے تفصیل بتائی تو وہ اپنی ہی کہی ہوئی بات پہ تھوڑا خجل سا ہوا اور بولا۔
“اچھا سوری! میں سمجھا وہ۔۔۔۔۔۔۔!!!’
اس نے بات ادھوری چھوڑی تو خضر کا موڈ آف ہو گیا۔
“اوکے یار ! فون بند کر ۔۔۔۔۔۔۔! اتنا اچھا موڈ تھا میرا اور تیری اس بات سے میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔”
وہ چڑ کر بولا وہ بہت موڈی انسان تھا۔ اور عاشر کی بات سن کا اس کا موڈ آف ہو گیا تھا۔
“صبح بات کریں گے۔”
اس نے کہتے ہی فون بند کر دیا عاشر ہیلو ہیلو بالتا رہا مگر خضر نے اس کی ایک نہ سنی اور کال کٹ کر دی۔ پھر اس نے ایک بار پھر مرجان کی طرف دیکھا جو گھاس کو ہاتھوں سے چھونے میں مگن بیٹھی تھی۔
“لگتا ہے صبح کی بات کا محترمہ پہ اتنا اثر ہوا ہے کہ وہ بیڈروم میں قدم نہیں رکھیں گی۔”
اس نے دل ہی دل میں سوچا۔
“خیر ! مجھے کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ بےپرواہی کی اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے رخ موڑ گیا اس کے رخ موڑتے ہی مرجان نے فوراً سے ٹیرس کی طرف دیکھا اور اسے جاتا دیکھ کر فوراً سے اٹھ کو کھڑی ہو گئی۔
                            ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
؎  مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
وہ لمبی راہداری میں سے سر اٹھائے اپنی ہی سوچوں میں گم چلتے ہوئے سیدھا اپنی آرام گاہ میں جانے کے لیے تیزی سے قدم بڑھا رہا تھا ۔ جب ہولے سے وہ اس کے بالکل سامنے آ کھڑی ہیوئی۔
پنک قمیض اور گھیرے دار سفید شلوار کے ساتھ سفید دوپٹہ گلے کے ساتھ لگائے لمبے بالوں کی چوٹی کیے وہ درمیانی مانگ کے ساتھ ایک دو لٹیں منہ پہ بکھیرے سرخ لالی ہونٹوں پہ سجائے گلابی رخساروں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی اور مخمور لہجے کے ساتھ شاعرانہ انداز میں بولی۔ تو وجاہت نے رات کے اس پہر اس کے یوں اچانک سامنے آ جانے پر خفگی سے اس کی طرف دیکھا۔
“یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ تلخ انداز میں بولا۔
“سائیں ! اس میں بیہودگی کی کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔۔؟ یہ میری چاہت ہے آٌپ کے لیے سائیں۔۔۔۔۔۔!”
وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
“رات کے اس پہر یوں میرے سامنے آ جانا اور بیہودہ باتیں کرنا ہمارے خاندان کی عورتوں کو ذیب نہیں دیتا ہے۔”
وہ خفا خفا سا اسے سمجھانے لگا تو وہ فرطِ جذبات سے لبریز اس کے مزید قریب ہوتے ہوئے بولی۔
“سائیں! اتنے دن ہو گئے ہیں آپ نے میری اور دیکھا تک نہیں ہے میں خالہ جانی سے ملنے کے بہانے آئی تھی لیکن آپ تو شہر گئے ہوئے تھے تو بس میرا دل آپ سے اداس ہو گیا اور جیسے ہی مجھے پتہ چلا کہ آپ شہر سے واپس آ گئے ہیں میں فوراً سے آپ کو دیکھنے حویلی آ گئی۔”
وہ اس کے بالکل قریب اس کے چہرے پہ نظریں جمائے محبت سے لبریز لہجے میں بولی تو وجاہت دو قدم اس سے دور ہٹا اور غصے سے بولا۔
“زرینہ! میں نے تمہیں ہزار بار سمجھایا ہے کہ یہ بچوں والی حرکتیں نہ کیا کر ہم اب بڑے ہو گئے ہیں اور ویسے بھی مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔”
“تو سائیں ! مجھے بتا دیں آپ کو کیا پسند ہے میں زرینہ خود کو ویسا بنا لے گی ۔”
وہ اپنائیت سے بولی اور دو قدم چلتے ہوئے وجاہت کے پھر قریب آ گئی۔
“مجھے تُو ہی پسند نہیں ہے اور تُو اچھے سے جانتی ہے میں مرجان سے محبت کرتا ہوں۔”
وہ قہر آلود نگاہیں اس کے نازک سراپے پہ ڈالتے ہوئے تلخ انداز میں بولا۔
“میں بھی بچپن سے سائیں آپ کو چاہتی ہوں۔”
یہ کہتے ہوئے اس کے لہجہ رندھ گیا اس کی سیاہ کانچ آنکھیں موتیوں سے جھلملانے لگیں۔
“بو کر دے زرینہ! میں نے تجھے ہزار بار سمجھایا ہے می بس مرجان کو چاہتا ہوں اور اس حویلی کی چودہرائن تو صرف مرجان ہی بنے گی۔”
وہ سہانے خواب آنکھوں میں سجاتے ہوئے اٹل انداز میں فیصلہ سنا گیا اس بات کی ہروا کیے بغیر کہ اس کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سامنے والے انسان کی چاہت کے کانچ محل کے کتنے ٹکڑے کر سکتا ہے مگر نہیں وہ تو وجاہت درانی تھا سنگ دل وجود میں پنپتا اس کا یہ دل اس سے دماغ سے بھی زیادہ سنگ تر تھا۔ زرینہ کی آنکھوں سے موتیوں کی مالا ٹوٹ کر رخساروں کو بھگونے لگی۔ پھر اس نے اس سنگدل وجود کو چاہت سے دیکھا اور محبت سے غرائی۔
“مرجان سائیں کبھی بھی آپ کے دل کی اور اس حویلی کی ملکہ نہیں بن سکے گی۔”
اس نے سختی سے اپنا گال رگڑا۔
“وجاہت درانی جو چاہتا ہے حاصل کر کے رہتا ہے تُو کیا زرینہ یہ سارا گاؤں دیکھے گا جب میں وجاہت درانی اسے پوری آن شان کے ساتھ بیاہ کر اس حویلی کی چاردیواری میں قید کروں گا۔”
                         ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
وہ سر جھکائے آنسوؤں سے لبریز چہرہ گھٹنوں پہ ٹکائے اس سنگدل سے شکوہ کر گئی۔
“خضر ! کیا کمہ ہے مجھ میں۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
اس نے ایکدم ہی سر اٹھایا اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ وہ ابھی بھی اسی ڈریس میں ملبوس تھی جس میں وہ صبح خضر کے ساتھ آفس میں جھگڑا کر کے آئی تھی۔ اور تب سے ہی اس نے خود کو کمرے میں قید کر رکھا تھا۔ ملیحہ دو بار اس کے روم ڈور پہ ناک کر کے گئی تھیں لیکن کوئی بھی جواب نہ پا کر وہ واپس چلی گئیں۔ انہیں لگا شاید وہ سو گئی ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ سوئی بالکل بھی نہیں تھی بلکہ تب سے وہ آنسو بہانے میں مصروف تھی۔
“خضر ! میں تمہیں کبھی بھی کسی اور کا ہونے نہیں دوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نو ! نیور۔۔۔۔۔۔۔!!!”
وہ غصے سے اٹھی اور آئینے کے بالکل سامنے کھڑی اس نے ایک نظر اپنے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر غصے سے بولی۔ اس کی نظروں میں بہت حقارت تھی بہت تنفر تھا۔ وہ بےحد ضدی لڑکی تھی۔ہر چیز کو چھین لینے والی ، خود غرض ، انا پرست، لیکن پھر بھی وہ خضر کی سب سے اچھی دوست تھی وہ کلاس فیلو سے کال فیلو اور پھر یونی فیلو بھی رہ چکے تھے۔ اور اب وہ بیگ انڈسٹریز کے اکاؤنٹس مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی ورک کر رہی تھی۔ ہر وقت ہر لحظہ خضر کے ساتھ رہ رہ کر پتہ نہیں کب وہ اس کی محبت میں مبتلا ہو گئی اور ایسی محبت کہ وہ اس پہ حق جتانے لگی تھی۔ خضر اس کی اس عادت کو اس کی  اپنے لئیے حساسیت کو اور اپنی کئیر کو وہ محض بچپنا اور ایک کئیرنگ دوست کا نام دے کر بات کو اگنور کر جاتا ۔ لیکن حقیقت تو یہ تھی کہ وہ اس سے بے انتہاء محبت کرنے لگی تھی اور اب یوں اچانک خضر کے نکاح کی بات سن کر وہ بے حد ڈسٹرب ہو گئی تھی۔
“میں ہر قیمت ہر تمہیں حاصل کر کے رہوں گی۔”
اس نے آئینے میں عکس دکھاتے خضر کے وجود کو دیکھ کر اٹل انداز میں کہا اور سختی سے اپنے آنسو پونچھے۔
“چاہے اس کے لیے مجھے اس دو کوڑی کی لڑکی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے۔”
وہ ضد کرتے ہوئے خود کو اپنی من چاہی چیز ہر قیمت پہ حاصل کر لینے کی خوش فہمی میں مبتلا کرتی خود کو حسین خواب دکھا رہی تھی اور اب وہ چہرے پہ تبسم سجائے کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔ وہ بار بار اپنا چہرہ رگڑنے اور آنسوؤں کو انگلیوں کی پوروں میں جذب کر رہی تھی۔ وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھی کہ جب کسی کام میں خدا کی مرضی ہوتی ہے تو وہ کام چپ چاپ ہو جاتا ہے اور اس کام میں کوئی بھی انسان رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔
                                   ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے ہولے سے دروازہ کھولا تو کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ۔ اسے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر وہ ہمت متجمع کرتے ہوئے روم میں داخل ہوئی آہستگی سے ڈور بند کیا اور دھیرے دھیرے قدم بڑھاتے ہوئے چلنے لگی لیکن دوسرے ہی لمحے اس کا گھٹنا کسی سخت چیز کے ساتھ ٹکرایا اور اسے یوں لگا کہ جیسے وہ ابھی زمین بوس ہو جائے گی اس نے زور سے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اور اس سے پہلے کہ نیچے گرتی اور اسے کوئی چوٹ لگتی کسی نے اس کی نازک کمر کے گرد اپنے بازو حمائل کر کے اس کے وجود کو اتنی سرعت سے نیچے گرنے سے بچا لیا۔ اس کا دل اتنی زور سے دھڑکا کہ اسے لگا ابھی باہر آ جائے گا۔
“سنبھل کر نہیں چل سکتیں آپ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے درشتی کے ساتھ بولا اور وہ جو ہواس کی دنیا سے باہر قدم رکھتے ہوئے اس کی بانہوں میں جھول رہی تھی اچانک سے مانوس آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے ایکدم ہی آنکھیں کھولیں۔ اور خود کو خضر کے بازوؤں کے حصار میں قید دیکھا تو بوکھلا کر فوراً سے سیدھی کھڑی ہونے کی کوشش کی۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ خود کو سنبھالتی اور کھڑی ہوتی خضر نے اس کی بلوری آنکھوں میں بے تحاشا خوف کو پنپتے دیکھا اور زور سے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں قید کیا۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
اس کے بازو میں درد کی ایک ٹیس اٹھی۔ جبکہ خضر وہ تو اپنے حواس میں ہی نہیں تھا اچانک سے وہ بلوری آنکھیں اس کی نظروں میں جھلملانے لگیں اور بالکل ویسی ہی آنکھیں اس نازک سی لڑکی کی تھیں وہ مضطرب سا ہو گیا۔ مرجان کے بازو میں درد بڑھنے لگا اور وہ اپنا آپ اس کے حصار سے چھڑانے کی بھرپور کوشش کرنے لگی۔ پھر اس نے تڑپ کر کہا۔
“چھوڑیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔! درد ہورہا ہے۔!”
اس کی آواز خضر کے کانوں میں گونجی تو ہواس بحال ہوتے ہی اس نے فوراً سے اس کی طرف دیکھا وہ نظریں جھکائے کنپتے لبوں کے ساتھ التجاء کر رہی تھی۔
“یہی بات میری آنکھوں میں انکھیں ڈال کر بولیں۔”
وہ حلاوت سے بولا تو مرجان اس کی بات سن کر چونکی۔
“چھوڑیں مجھے خضر ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ درشتی کے ساتھ بولی اور بھرپور کوشش کرنے لگی اپنے آپ کو اس کے بازوؤں کے حصار سے نکالنے کی۔۔ خضر کو فوراً سے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ مزید التجاء کرتی خضر نے اسے آزاد کر دیا اور فوراً سے روم سے باہر چلا گیا۔ وہ بے حد  مضطرب تھا ۔
“کیسے ہو سکتا ہے یہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس نے خود سے سوال کیا۔
“کیسے۔۔۔۔۔۔۔۔!”
وہ لان میں جا پہنچا۔
“وہی آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔! وہی خوبصورت آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!”
اس کے من میں بے تحاشا سوالات اٹھے لیکن اس نے اپنے دل کی کیفیت کو اس سوچ سے بدلنا چاہا کہ وہ بلوری آنکھیں تو یہیں کہیں کسی جگہ کی رہنے والی ہیں اور یہ مرجان تو گاؤں سے آئی ہے۔گاؤں سے۔۔۔۔۔۔ ہزار سوالوں کا ایک جواب وہ اپنے دل کے دروازے پر تالے کی طرح لگائے اس طوفان کو خاموش کرنے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے میں تھمنے کی کوشش کرنے لگا۔
“اف۔۔۔۔۔۔! آہ۔۔۔۔۔۔۔!”
اس نے کلائی اور بازو پر پڑتے اسے نیلے نشان سے اٹھنے والی ٹیس کو دیکھ کر زبان سے ادا کیا جو شدتِ درد کی وجہ سے بے ساختہ اس کے لبوں سے ادا ہوا۔
“اس کھڑوس کو پتہ نہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟”
اس نے دل سے سوال کیا اور آنکھوں میں آنسو دبائے سیٹر صوفے پر سیدھی لیٹ گئی پھر پلینکٹ اپنے اوپر اوڑھا اور سونے کے لیے انکھیں بند کر لیں۔ لیکن ابھی بھی وہ منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ چاہتے ہوئے بھی اس کی قربت میں اپنا بے تحاشا زور سے دھڑکتے دل کا شور ابھی بھی سن رہی تھی۔
                                    ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کسی کو قید تو کیا جا سکتا ہے سائیں۔۔۔۔۔۔! لیکن ایسی چیز کو حاصل کرنے کا کیا فائدہ جس کے حصول میں چاہت کہیں موجود ہی نہ ہو۔”
وہ رندھے ہوئے لہجے کے ساتھ بولی تو وجاہت کی سمجھ میں اس کی مشکل باتیں پہلے بھی کبھی نہیں آئی تھیں اور آج بھی زرینہ کی بات اس کے سر سے گزر گئی۔
“زرینہ ! مرجان میری بیوی بن کے اس حویلی کی ذینت بنے گی۔ سارا جگ دیکھے گا۔”
“لیکن وہ کبھی بھی آپ کو اپنی چاہت نہیں دے پائے گی وہ چاہت وہ محبت جو میں آپ سے کرتی ہوں وہ آپ کو کسی دوسری لڑکی سے نہیں ملے گی۔”
وہ پر یقین انداز کے ساتھ آنکھوں میں تیرتے آنسوؤں کے ساتھ بولی تو وجاہت نے اس کی سیاہ آنکھوں میں ایک بار دیکھا اور پھر دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھوں کی نمی کو اگنور کرتے ہوئے بولا۔
“اب جاؤ یہاں سے اور آئندہ کبھی میرے راستے میں نہ آنا۔”
“مگر سائیں۔۔۔۔۔۔۔! میں۔۔۔۔۔۔!”
وہ اس کے چہرے کو اپنی نازنیں انگلیوں سے چھوتے ہوئے رندھی آواز میں بولی۔
“کہہ دیا ہے نا زرینہ! کہ اب تو جا گھر۔۔۔۔۔۔! اور دوبارہ ادھر کا رخ نہ کرنا۔”
وہ انگشتِ شہادت دکھاتے ہوئے اسے وارن کر کے بولا تو زرینہ کے دل کے آر پار گئے اس کے یہ تلخ الفاظ ۔ زرینہ نے محبت سے اس کی طرف دیکھا لیکن اس ہرجائی کو ذرا برابر بھی اس کی چاہت کی محبت کی پروا نہ تھی۔ وہ اس وارن کرتے ہوئے اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید بولتی وہ غصے کے ساتھ وہاں سے چلا گیا زرینہ نے اس کا ہاتھ تھاما جسے دوسرے ہی لمحے وجاہت نے جھٹک دیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے وہاں سے جانے لگا۔
زرینہ وہیں اپنے وجود کو زمین بوس ہوتے اپنے دل کی کئی کرچیاں بکھرتے آنسو بہانے لگی ۔ دل کی تکلیف کوئی ٹوٹے دل والا ہی سمجھ سکتا ہے۔ کسی کو چاہنا اور بے تحاشا چاہنا پھر اس انسان کا آپ کو ٹھکرا کر کسی دوسرے کا انتخاب کرنا کس قدر درد دیتا ہے کس قدر اذیت دیتی ہے یہ حقیقت۔۔۔۔۔۔۔!!!
اور اسی کیفیت سے دوچار وہ اپنے دل کے شیش محل کی کرچیاں اپنے ہی ہاتھوں سے چننے میں مشغول تھی۔
                             ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
www.hinashahidofficial.com

all episodes available in this website. plz click this link and read most romantic novel Khumarey Jaan by HINA SHAHID.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button