آرٹیکل
Soch bdloo Zindage bdloo by HINA SHAHID
آرٹیکل:
سوچ بدلو زندگی بدلو۔۔۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
سوچ بدلو زندگی بدلو۔۔۔۔۔۔!!!
از
حناء شاہد
دنیا کی تخلیق ایک سوچ کی پیروکار ہے۔ ایک سوچ نے اس دنیا کو جنم دیا۔ ایک سوچ نے کائنات کو چاند ستاروں کی کہکشاؤں سے سجا دیا اک سوچ نے نظریات کی بھرمار لگا دی۔ ایک سوچ نے انسانوں کو تخیلات کی دنیا سے آگاہ کیا۔ اک سوچ نے لوگوں کو حقوق کی جنگ لڑنے پہ آمادہ کیا اور یہی اک سوچ ہے جو انسان کو چاند سے آگے اور بھی آگے سفر کرنے پہ آمادہ کر رہی ہے۔
یہی سوچ ہے جو انسان کو ایک پل بھی چین نہیں لینے دیتی ۔یہی اک سوچ ہے جس کی بنیاد پہ انسان نے غاروں میں سے نکل کر قیمتی آسائشات سے مزین گھروں میں بسیرا کیا ہے۔ زندگی کو نئی جدت اور طریقوں کے ساتھ گزارنے کے طریقے انسان کی سوچ پہ ہی منحصر کرتے ہیں۔
یہ سوچ ہی ہے جس کے پیچھے لوگوں نے اپنا سر جھکایا اور آزادی کا پرچم لہرایا۔ یہ سوچ ہی ہے جس سے ایک ملک کی تخلیق کا خواب تعبیر کی منزل پا گیا۔ بس اس ایک سوچ کے ہی پیچھے لاکھوں انسانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
تخیلات انسان کی زندگی کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اب یہاں پہ یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ آپ کے تخیلات کیسے ہیں ۔ ۔۔۔؟؟؟یہ بات ہمیشہ ذہن نشین رکھیے گا دنیا کے بڑے سے بڑے لوگ جو ہمیں ایک کامیاب انسان کا پرچم لہرائے لوگوں کی زبان پہ تعریفوں کے ہار پہنتے دکھائی دیتے ہیں ۔
جناب۔۔۔!!! ان لوگوں نے وہ کامیابی پھولوں کے بستر پہ لیٹ کر حاصل نہیں کی ہوتی۔ مشکلات کے کتنے ہی پہاڑوں سے سر پٹخ کر اپنے حوصلے کو جوان رکھتے ہوئے ان لوگوں نے اپنی سوچ کو مثبت انداز میں اپنے دماغ کو پرسکون رکھتے ہوئے حاصل کی ہوتی ہے۔ کیونکہ زندگی ایک زینے کی طرح ہوتی ہے۔ اور کبھی بھی کوئی بھی انسان اس زینے پر ایکدم سے ہی بلندی پہ نہیں پہنچ سکتا۔ زینے کا ہر قدم اٹھانے سے پہلے اس زینے پہ درپیش مشکلات کو برداشت کر کے اور مثبت سوچ کے ساتھ ہی آپ اپنے قدم مضبوطی کے ساتھ جما سکتے ہیں۔ لہذا ہمیشہ اپنی سوچ کو مثبت رکھیے زندگی میں درپیش مشکلات کا حوصلہ مندی کے ساتھ مقابلہ کر کے کامیابی کے تمغے سے آپ خود کو مزین کر سکتے ہیں۔
آج کے اس آرٹیکل کو لکھنے کا ایک خاص مقصد ہے میرا ۔۔۔۔۔!
بل گیٹس ۔۔۔۔۔!
یقیناً بل گیٹس کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ بل گیٹس 1955ء میں امریکہ واشنگٹن کے ایک مضافاتی علاقے سیایٹل میں ایک متوسط خاندان میں پیدا ہوئے۔ انھیں بچپن سے ہی کمپیوٹر چلانے اور اس کی معلومات حاصل کرنے کا شوق تھا۔ آج کی طرح کمپیوٹر نہ اتنے ترقی یافتہ تھے اور نہ ہی کمپیوٹروں کی دنیا،
محض 13برس کی عمر میں وہ پروگرامینگ کا ہنر سیکھ چکے تھے۔ اتفاق سے دوستی بھی ایک ایسے لڑکے سے تھی جو خود بھی کمپیوٹروں کا دیوانہ تھا۔ اس دوست کا نام پال ایلن تھا۔یہ دونوں دوست ہاروڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے مگر کمپیوٹروں کے شوق نے پڑھائی کی بیچ میں سے ہی چھوڑنے پر مجبور کیا اور آخر کار یہ دونوں دوست کالج کو خیر باد کہہ کر ہمہ وقت کمپیوٹروں کی دنیا میں کھو گئے۔ ان کا خاص پروجیکٹ کمپیوٹر کی ایک خاص زبان کو ترتیب دینا تھا جس سے کمپیوٹر کو چلانے میں آسانی ہو۔ ان کی محنت رنگ لائی اور انھوں نے ایک خاص ’’بیسک لنگویج‘‘ مرتب کر لی جس نے کمپیوٹروں کو عام کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
اس اہم کارنامے کے بعد پال ایلن اور ویلم ہنری (بل گیٹس) البو قرق (نیو میکسکو) چلے گئے۔ یہاں انھوں نے ’’مائکروسافٹ کارپوریشن‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس کے تحت وہ کمپیوٹر کے مختلف سافٹ ویئر تیار کرنا چاہتے تھے جس کی ساری دنیا میں بڑی مانگ تھی کیونکہ پرسنل کمپیوٹر کا استعمال دنیا میں تیزی سے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ ہارڈ ویئر تو مارکیٹ میں بہت دستیاب تھے مگر سافٹ ویئر کی بڑی کمی تھی۔ اس کی زبردست مانگ کے پیش نظر دونوں دوستوں نے اس میدان میں خوب ترقی کی اور آخرکار انھیں ایک ایسا سافٹ ویئر بنانے میں کامیابی ملی جس کو ساری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔اس کامیابی سے متاثر ہو کر دنیا کی مشہور کمپنی انٹرنیشنل بزنس مکینکس (آئی۔ بی۔ ایم)نے انھیں ایک مائیکرو سافٹ آپریٹنگ سسٹم بنانے کے لیے مدعو کیا جس کو پرسنل کمپیوٹر میں استعمال کیا جا سکے۔ یہاں بِل گیٹس کی ذہانت، لگن اور محنت نے اپنا کرشمہ کر دکھایا اور انھوں نے اس مقصد کو حاصل کرنے میں اولیت حاصل کر لی۔ اس آپریٹنگ سسٹم کو انھوں نے نے مائکرو سافٹ۔ ڈسک آپریٹنگ سسٹم (ایم۔ ایس۔ ڈوسMS-DOS) کا نام دیا اور نتیجے میں آئی بی ایم کمپنی نے لاکھوں کمپیوٹر فروخت کر کے بے تحاشہ منافع حاصل کیا جس سے بِل گیٹس اور ان کے دوست بھی مستفیض ہوئے۔ چند وجوہات کی بنا پر پال ایلن علیحدہ ہو گیا اور بِل گیٹس نے اس سمت میں اپنا سفر تنہا جاری رکھا۔ انھوں نے بہت جلد بزنس کی دنیا میں استعمال ہونے والے اور تفریحی سافٹ وئیر تیار کر کے آئی بی ایم کمپنی کے علاوہ دنیا کی مختلف کمپیوٹر کمپنیوں کو بیچا جس سے ان کی آمدنی میں حیران کن اضافہ ہو گیا۔ 1984ء میں ان کی اپنی کمپنی، مائکروسافٹ کا 10کروڑ ڈالر کا بزنس محض دو برسوں میں دگنا ہو گیا۔ اس کمپنی کے حصص(شیئر) بھی اسٹاک ایکس چینج سے فروخت ہونے لگے۔ اس کے بعد تو گویا آسمان سے ہوں برسنے لگا۔
1994ء میں بزنس کا نشانہ 2 بلین ڈالر پر پہنچ گیا جو محض ایک سال بعد 10بلین ڈالر ہو گیا۔ دنیا نے اس سے قبل آمدنی میں اضافہ کی یہ رفتار کبھی نہیں دیکھی تھی۔ حتیٰ کہ تیل سے ملنے والی آمدنی کے شیئیرز بھی پیچھے رہ گئے۔ بِل گیٹس نے دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اول مقام حاصل کر لیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ بِل گیٹس نے ہوا کے رخ کو پہچان لیا تھا۔ بِل گیٹس کو یہ عظیم کامیابی محض ان کی ان تھک محنت، کوشش لگن، سوجھ بوجھ اور اپنے کام سے بے پناہ لگاؤ کے نتیجے میں حاصل ہوئی۔ اس سے ہمارے نوجوانوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ ان کی مثالیں اگر ہمارے سامنے ہوں تو یقیناً ہم بھی ایسے کارنامے انجام دے سکتے ہیں۔ بِل گیٹس نے اپنی بے پناہ دولت کا ایک حصّہ سماجی کاموں کے لیے بھی مختص کیا ہے۔
بل گیٹس کی زندگی اور ان کے ایک کامیاب انسان بننے کی داستان بہت دلچسپ ہے۔ لیکن اس داستان میں ایک اضافہ یہاں پہ میں کرتی جاؤں ۔ کچھ عرصہ قبل بل گیٹس کا ایک انٹرویو آن ائیر ہوا۔ جس میں لیڈی اینکر نے ان سے سوال کیا کہ سر ساری دنیا آپ کی سوچ اور قابلیت کی معترف ہے بلاشبہ آپ ایک قابل انسان ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ آپ کی اتنی کامیابیوں کے پیچھے کیا راز ہے۔۔۔۔۔؟
تو بل گیٹس اس لیڈی اینکر کی طرف دیکھ کر دھیمے سے مسکرائے اور اپنے کوٹ کی جیب میں سے اپنی کیش بک نکالی ایک چیک سائن کیا اور اس لیڈی اینکر کے ہاتھ میں تھما دیا اس خاتون نے چیک ہاتھ میں دیکھا تو اسے تھوڑی شرمندگی ہوئی اور اس نے فوراً سے چیک پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا اور بولی ۔ “سوری سر! میرے سوال کا مطلب یہ نہیں تھا۔ میں بس یہ پوچھنا چاہ رہی ہوں کہ آپ کی کامیاب زندگی کے پیچھے کیا راز ہے۔ ؟ اس کے سوال پہ بل گیٹس نے دوبارہ سے جیب میں سے کیش بک نکالی اور چیک سائن کر کے اس لیڈی اینکر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ وہ لیڈی اینکر گھبرا گئی اس نے پھر وہی کام کیا چیک کو پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ اور ایکسکیوز کرنے لگی۔
اس پہ بل گیٹس مسکرائے اور بولے : میری کامیاب زندگی کا یہی توراز ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں ملنے والی ہر opportunity کو فوراً سے availکر لیا۔ وہ چاہے چھوٹی تھی یا بڑی ، مثبت سوچ کے ساتھ میں نے اس کو اپنایا اور آج میں دنیا کے کامیاب ترین انسانوں کی فہرست میں سرِ فہرست ہوں ۔۔۔۔۔۔!
یہی سوچ انسان کو کامیاب بناتی ہے۔ اور ایسی ہی سوچ ہے ہم اپنی زندگی کو بدل سکتے ہیں۔ دعا سے زندگی بدلتی ہے۔ سوچ سے انسان خود کو سنوارتا ہے۔ خود کا محاسبہ کرتا ہے۔ سوچ انسان کو بدل سکتی ہے تو وہی بدلا ہوا انسان اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ سو امید ہے آج سے ہم بھی اپنی سوچ کو بدلنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ کیونکہ ایک بہترین سوچ ایک بہترین انسان کی عکاس ہوتی ہے اور ایک بہترین انسان بہت سی بہترین زندگیوں کی نشوونما کرتا ہے۔
دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ آرٹیکل پسند آئے تو اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجئیے گا۔ اگر لکھنے میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اصلاح ضرور کر دیجئیے گا۔ آپ سب کی رائے کا شدت سے انتظار رہے گا۔ طالبِ دعا
حناء شاہد
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭