آرٹیکل
Tameerey Watun or nasley nou by Hina Shahid
آرٹیکل:
تعمیرِ وطن اور نسلِ نو۔۔۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
تعمیرِ وطن اور نسلِ نو۔۔۔۔۔۔!!!
حناء شاہد
؎ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
پاکستان کے سامنے ایک بڑا شاندار مستقبل ہے ۔ اور اب یہ نئی نسل کے ہاتھ میں ہے کہ قدرت نے انہیں جن فیاضیوں سے نوازا ہے ان سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مضبوط اور شاندار پاکستان کی تعمیر کی جائے۔
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ کسی بھی ملک کی تعمیر میں اس ملک کی قوم کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے اور اس قوم میں بھی اس کے نوجوان سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کرتے ہیں۔
؎ خونِ صد ہزار سے ہوتی ہے سحر پیدا
برصغیر کی تاریخ پر نظرِ ثانی کی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ مسلمان سر تا پا کفن میں لپٹ کر مقصد عظیم لے کر میدان میں آئے ۔ اس جرم کی پاداش میں انہوں نے ایسی تکالیف اٹھائیں کہ انسانی آنکھیں اسے دیکھ کر اپنی بینائی کھو بیٹھیں۔ اس ملک کی آبیاری کے لیے اور اس وطن کے حصول کے لیے لاکھوں لوگوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ لیکن ہمتِ اعلیٰ اور جذبے کی دولت سے مالا مال ہو کر یقینِ محکم کی بدولت آج ہم اس وطنِ عزیز کی آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں۔جو خدا کا ہم پہ سب سے بڑا احسان ہے۔
؎ یقین ِ محکم، عمل پیہم محبت فاتح عالم !
جہانِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہی بات ہے کہ قوموں کا عروج و زوال اسی محنت، لگن اور جستجو سے وابستہ ہے۔ اور نوجوان نسل کو تو کسی بھی قوم کا زندہ اور اولین جز کہا جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بچوں اور بوڑھوں کی نسبت زیادہ باصلاحیت اور قوت مند ہوتے ہیں۔ اور کوئی بھی کام وہ زیادہ محنت اور تند ہی سے انجام دے سکتے ہیں۔ کیونکہ اسی میں کامیابی کا راز مضمر ہے۔
؎ ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام!
سخت کوشی سے ہے تلخ زندگانی آنگبییہ تعمیر نئی پود کے جسم کو صحت مند اور روح کو سراپا جمال بنانے سے ہو گی۔ جس نے کل کو زمام ملک سنبھالنی ہے۔ نسلِ نو قوم کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب یہ نوجوان صحیح تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوں گے تو وہ ان کے ہاتھوں سے نئی صبحیں اور نئی شام پروان چڑھے گی۔
زمانہ اس رفتار سے تبدیل ہو رہا ہے کہ سوچنے کی مہلت ہی نہیں مل رہی۔ ایسے تند حالات میں صرف ان لوگوں کو ہی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے جو بدلے ہوئے انداز کو پہچان کر ان کے مطابق سانچوں میں ڈھل جاتا ہے۔
؎ اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی!
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو نوجوان قیامِ پاکستان کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں وہ انتظام و انصرام ملک میں بھی شاندار کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں۔ وہ قومی استحکام میں قابلِ قدر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاتھوں میں مئے علم کا زندگی بخش جام ہے ۔ وہ اس زندگی بخش جام میں مردہ جسموں ، مفلوج ذہنوں ، باغی دماغوں ، سرمایہ داروں ، وڈیروں اور جاگیرداروں کی اجارہ داری اسی طرح بہا لے جا سکتے ہیں جس طرح سمندر خس و خاشاک کو بہا کر لے جا سکتا ہے۔
؎ آسمان ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پاء ہو جائے گی
کسی بھی قوم کے نوجوانوں کو یہ ذیب نہیں دیتا کہ وہ حال سے بے نیاز ہو کر ماضی کے نشے میں سرشار رہیں۔ بلکہ ان کی عقابی نگاہیں شعبۂ زندگی کے ہر شعبے پر ہونی چاہئیے۔ خواہ وہ سائنس کا میدان ہو یا ادب کا، سیاست کا میدان ہو یا کھیل کا۔ غرضیکہ کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہونا چاہئیے جسے وہ مکمل طور پر سمجھتے نہ ہوں۔
؎ اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
آج پاکستان کی ترقی کے لیے بہت کچھ سوچا اور کیا جا رہا ہے۔ تعمیرِ وطن کا اس نئی نسل سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر نئی نسل اہلِ وطن کی توجہ کا مرکز نہیں بنے گی تو تعمیرِ وطن کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ قوموں کے عروج و زوال میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس حقیقت سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ علم ایک لازوال دولت ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
” ستارے آسمان کا زیور ہیں اور تعلیم یافتہ انسان زمین کی زینت۔۔۔۔۔۔۔!!!”
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے:
“جس نے مجھے ایک لفظ بتایا اس نے مجھے اپنا غلام بنا لیا۔”
تعلیم ہی انسان اور حیوان کے درمیان فرق قائم کرتی ہے۔ تہذیب اور شرافت کا درس دیتی ہے۔ عدل و انصاف کی صفاتِ قدسی پیدا کرتی ہے۔ جابر و ظالم سلطان کے سامنے کلمۂ حق بلند کرنے کی جرات دیتی ہے۔ علم دراصل ایک ایسی طاقت ہے جس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔
جس طرح تعمیر وطن میں نسلِ نو اہم کردار اور مقام رکھتی ہے بالکل اسی طرح نسلِ نو کی تنظیم میں اعلیٰ اور بہتر نظامِ تعلیم اور نظامِ نصاب اہمیت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ جب تک نصابِ تعلیم صحیح نہ ہو گا اس وقت تک نوجوان نسل سے کسی بھی قسم کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر دور میں ہمارا محکمہ تعلیم نصابِ تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوششیں کرتا ہے۔ مگر ایسی کوششیں صرف کانفرنس روم اور ایوانِ اعلیٰ کی تقریروں کی حد تک ہی مقید رہ گئی ہے ۔ جسے یکسر بدل کر عملی طور کر اقدامات کرنے ہوں گے۔
؎ خود آپ کرو تزئین ِ چمن شادابی گل کے دلدارو!
تخریب کے خوگر گل چمن سے تعمیر گلستان ہو گی
اس میں کوئی شک نہیں کہ نسل نو قوم کا سرمایۂ حیات ہے۔ اور یہ نوجوان جن سے ہم اپنے شاندار مستقبل کی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔ انہیں ہر وقت سرگرمِ عمل رکھنے کے لیے ہمیں جدید تقاضوں کے مطابق نئے اصولوں کا خیال رکھتے ہوئے بہتر سے بہتر نظام تشکیل دینا ہو گا۔ جس میں کسی کو بھی اپنے اثرورسوخ کے مطابق سہولیات میسر نہ کی جائیں۔ اور جس دن ہم نے ایسا نظام تشکیل دے دیا ہماری اندرونی بیرونی سب خرابیاں دور ہو جائیں گی ۔
انشاءاللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
؎ خونِ دل سے لکھ رہا ہوں ملتِ عالی کا باب
چاند بھی شرمائے ایسا بخش دوں اس کو شباب
میں خدائے نور ہوں یہ نور سے معمور ہے
ذرہ ذرہ اس وطن کا مثلِ کوہِ طور ہے
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭