ناول
teri sadgi p naz h by Hina Shahid episode 3:
مکمل ناول؛
تیری سادگی پہ ناز ہے
تحریر:
حناء شاہد
قسط نمبر 3:
مکمل ناول
تیری سادگی پہ ناز ہے
تحریر
حناء شاہد
قسط نمبر 3:
“چچی جان۔۔۔۔۔! آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
زارون پُرشکوہ انداز میں تانیہ بیگم سے پوچھ رہا تھا۔ جو بستر پر لیٹیں مسکرا کر اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ پھر وہ توقف سے بولیں۔
“معمولی سا بخار تھا اب تو اُتر گیا ہے۔ میں ٹھیک ہوں تم پریشان نہ ہو۔”
انہوں نے زارون کا ہاتھ تھامتے ہوئے مسکرا کر اسے تسلی دی۔
“آپ نے دوا لی ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
زارون نے فکرمندی سے پوچھا۔
“زارینہ نے مجھے دوائی کھلا دی ہے تم پریشان نہ ہو۔”
زارینہ کا نام لبوں پر آتے ہی وہ دھیمے سے مسکرانے لگیں۔
“چچی۔۔۔۔! یہ زارینہ ہے کدھر۔۔۔۔۔۔؟ مجھے پاکستان آئے ہوئے مہینہ ہونے والا ہے۔ اس سے ابھی تک میری ملاقات ہی نہیں ہوئی۔”
زارون نے سوال کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شکوہ بھی کر ڈالا۔ جس پر تانیہ بیگم نے قدرے سنجیدگی سے اسے بتایا۔
“وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کچن میں گئی ہے۔۔۔۔۔تہمینہ بھابھی نے اسے بلایا تھا۔”
وہ تفصیلات بتا رہی تھیں۔
“اچھا تو وہ محترمہ ہے زارینہ۔۔۔۔۔۔۔۔!”
زارون نے دل میں کہا اور زیرِلب مسکرانے لگا۔ اسی دوران اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور زارینہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے چہرے سے تھکن واضح تھی۔
“آ گئی زارینہ۔۔۔۔۔۔!!!”
تانیہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔ تو زارون نے فوراً سے دروازے کی طرف دیکھا۔ زارینہ کی نظر جب زارون پر پڑی تو وہ قدرے سنجیدہ انداز میں دوپٹہ صحیح کرتے ہوئے اندر کی طرف دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ تانیہ بیگم کو زارینہ کا یہ رویہ قدرے ناگوار لگا۔ زارون کو اندازہ ہو گیا تھا کہ زارینہ کو اس کی یہاں آمد قدرے ناگوار لگی ہے۔ لہذا وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
“کہاں چل دیے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
تانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
“چچی! اب میں چلتا ہوں،اوکے۔۔۔۔۔۔۔! پھر اپنا خیال رکھیے گا۔اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔”
وہ خداحافظ کہتا ہوا تیزی سے اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ پار کر گیا۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا لیاقت ہاؤس میں داخل ہو گیا۔ جہاں چہل پہل اور گہما گہمی کا سماں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لان میں رات ڈھلنے کے باوجود بھی دن کا سا سماں تھا۔ برقی قمقموں نے ہر طرف اجالا کر رکھا تھا۔ ہانیہ کے سارے فرینڈز آ چکے تھے۔ لاؤڈ آواز کے ساتھ ساؤنڈ سسٹم بج رہا تھا۔
زارون کچھ دیر پہلے تہمینہ بیگم کے اصرار پر پارٹی میں شامل ہوا تھا۔ وہ اس قسم کی پارٹیز کا عادی نہیں تھا۔ ڈرنک کے بےدریغ استعمال کے ساتھ تہمینہ بیگم، حامد لیاقت اور ہانیہ پارٹی کو انجوائے کرنے میں مگن تھے۔ ہانیہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈانس کرنے میں مشغول تھی۔ برہنہ لباس اور ڈرنک کے نشے نے اسے تہذیب اور حیاء کے دائرے سے کہیں باہر نکال دیا تھا۔ ایک سے دو بار اس نے زارون کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ناچنے اور ڈرنک کرنے پر اکسایا تو وہ ضبط کا پیمانہ تھامے انکار کرتا رہا۔ تہمینہ بیگم کو زارون کے بدلتے ہوئے تیور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے زارینہ کو اس کی نظروں سے گرانے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ جس سے زارون پر یہ واضح ہو جائے گا کہ ہانیہ ہی ایک کونفیڈنٹ لڑکی ہے۔ جو سوسائٹی میں اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چک سکتی ہے۔ لہذا انہوں نے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور اس کے کان میں کچھ بولتے ہوئے اسے فوراً سے اس حکم پر عمل کرنے کا کہا۔ چند ہی لمحوں بعد زارینہ ٹرے میں ڈرنک کے کچھ گلاس سجائے ڈرنک سرو کرنے کے لیے بےہنگم انداز میں ادھر سے ادھر جا رہی تھی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ ہانیہ نے ایک نظر زارینہ کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے اپنے دوست کو اشارہ کیا۔ جو رقص کرتے ہوئے دھیرے سے زارینہ کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر اسے ٹیبل پر رکھا اور پھر اس نے زبردستی زارینہ کا نازنیں ہاتھ پکڑ لیا اور اسے رقص کرنے پر زبردستی مجبور کرنے لگا۔
“چھوڑومجھے۔۔۔۔۔۔!”
زارینہ نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ گھبراہٹ اس کی آواز سے عیاں ہو رہی تھی۔ زارون کچھ فاصلے پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جبکہ ہانیہ کے سارے دوست زارینہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ تہمینہ بیگم اور حامد لیاقت ڈرنک کے نشے میں مگن رقص میں مصروف تھے۔ تبھی اس ناہنجار انسان نے زارینہ کا دوپٹہ زور سے کھینچا اور اسے بےآبرو کرتے ہوئے دوپٹے کو زمین پر پھینک دیا۔ زارینہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔جس کے سر کا ایک بھی بال کسی نامحرم مرد نے نہیں دیکھا تھا۔ آج وہ بھری محفل میں ننگے سر کھڑی تھی اور اسے بےآبرو اس کے اپنے خون کے رشتوں نے کیا تھا۔ اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ اور اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا تھا۔ زارون کے ضبط کا پیمانہ ٹوٹا۔ تو وہ غصے کے عالم میں آگے بڑھا۔ زمین پر گری ہوئی اس کی ردا، اس کے دوپٹے کو اُٹھا کر زارینہ کے سر پر رکھا اور اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں اسے لے کر لان سے باہر آ گیا۔ زارینہ کا جسم مکمل کانپ رہا تھا۔ وہ ہچکی در ہچکی مسلسل رو رہی تھی۔
“تمہیں کس نے بولا تھا ان آوارہ لوگوں کی محفل میں آؤ۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
وہ غصے سے چیخا۔ جبکہ دوسری طرف زارینہ اپنے حواسوں میں نہ تھی۔
“تم ان کی نوکر نہیں ہو۔ بلکہ اس گھر کی فرد ہو۔۔۔۔۔۔راشد لیاقت کی بیٹی ہو تم۔۔۔۔۔! سنا تم نے تم راشد لیاقت کی بیٹی ہو۔۔۔۔۔!”
وہ الفاظ پر زور دیتے ہوئے اسے اپنی شناخت، اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ زارون کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو اچانک ہی اس نے اپنے وجود کو اس کے آہنی بازوؤں کی گرفت سے چھڑا لیا اور سرخ ہوتی ہوئی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑتے ہوئےوہ بہت کچھ بول دینا چاہتی تھی۔ مگر پھر خاموشی کے اس قفل کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اپارٹمنٹ کا دروازہ پار کر گئی۔
زارون لیاقت اس کی آنکھوں سے بیان ہونے والا ہر ستم خاموشی سے پڑھ گیا۔ وہ ندامت اور شرمندگی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ زارینہ اور تانیہ چچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے احساس نے اسے بےچین کر دیا تھا۔ وہ ساری رات کروٹ بدلتا رہ گیا۔ نیند تھی کہ آنکھوں سے روٹھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)