- چند ہی لمحوں بعد زارینہ ٹرے میں ڈرنک کے کچھ گلاس سجائے ڈرنک سرو کرنے کے لیے بےہنگم انداز میں ادھر سے ادھر جا رہی تھی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ ہانیہ نے ایک نظر زارینہ کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے اپنے دوست کو اشارہ کیا۔ جو رقص کرتے ہوئے دھیرے سے زارینہ کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر اسے ٹیبل پر رکھا اور پھر اس نے زبردستی زارینہ کا نازنیں ہاتھ پکڑ لیا اور اسے رقص کرنے پر زبردستی مجبور کرنے لگا۔ "چھوڑومجھے۔۔۔۔۔۔!" زارینہ نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ گھبراہٹ اس کی آواز سے عیاں ہو رہی تھی۔ زارون کچھ فاصلے پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جبکہ ہانیہ کے سارے دوست زارینہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ تہمینہ بیگم اور حامد لیاقت ڈرنک کے نشے میں مگن رقص میں مصروف تھے۔
مکمل ناول تیری سادگی پہ ناز ہے تحریر حناء شاہد
“آج سارا لیاقت ہاؤس رنگا رنگ قمقموں سے سجایا جائے گا۔” تہمینہ بیگم نے سفید یونیفارم میں ملبوس ملازموں کی ایک لمبی قطار کو احکامات جاری کرنے شروع کیے۔ “کچن کے سارے انتظامات زارینہ اور تانیہ بھابھی کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ انہیں ڈشز کی ساری فہرست فراہم کر دی گئی ہے۔ تاکہ شام سے پہلے پہلے سارے انتظامات مکمل ہو جائیں۔” تہمینہ بیگم بارعب لہجے میں قدم سے قدم ملاتے ہوئے بول رہی تھیں۔ ملازموں کی ایک فوج سر جھکائے احکامات سن رہی تھی۔ پھر وہ قدرے توقف سے بولیں۔ “آپ سب کو اندازہ تو ہو گیا ہو گا کہ آج زارون لیاقت اس گھر کا لاڈلہ بیٹا امریکہ سے پاکستان آ رہا ہے۔ سارے انتظامات اچھے سے ہونے چاہئیں۔کسی چیزکی کوئی کمی نہ ہو۔” تہمینہ بیگم حکمیہ انداز میں سب کو احکامات سناتے ہوئے پُرمسرت انداز میں بول رہی تھیں۔ ملازموں کی ایک درجن بھر فوج حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ سب اس بات پر حیران تھے کہ اتنے سالوں بعد اچانک زارون لیاقت کی پاکستان آمد کی آخر وجہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیاقت ہاؤس میں خوب چہل پہل اور رونق تھی۔ مختلف کھانوں کی مہک سے سارا گھر معطر ہو گیا تھا۔ کچن سے اٹھنے والی مہک نے گھر کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام افراد کو بھی اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔ ہر چہرے پر مسکان تھی۔ سب بے چینی سے زارون لیاقت کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ زارون لیاقت آج بیس سال بعد امریکہ سے واپس پاکستان آ رہا تھا۔ وہ انتہائی خوبرو اور خوبصورت جوان تھا۔ خاندان میں سب کی نظریں اس پر ٹکی ہوئی تھیں۔ خاص طور پر تہمینہ بیگم اپنی اکلوتی بیٹی ہانیہ لیاقت کے لیے زارون لیاقت کی خواہشمند تھیں۔ ان دونوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے کے لیے وہ چند روز سے ہانیہ کو بار بار ہدایات جاری کر رہی تھیں۔ “زارون آئے گا تو اس کا اچھے سے خیال رکھنا۔” تہمینہ بیگم نے لجاجت سے کہا۔ “اس کے آگے پیچھے پھرنا، ہر وقت ماڈرن لباس ذیب تن کیے اپنی اداؤں سے اس کی توجہ بس اپنی طرف مرکوز کیے رکھنا۔” تہمینہ بیگم اسے سمجھا رہی تھیں۔ جبکہ ہانیہ اپنے سیاہ بالوں کو سنوارنے میں مشغول تھی۔ “ٹیک اِٹ اِیزی مام۔۔۔۔۔! زارون صرف میرا ہے۔ میرے علاوہ وہ جائے گا بھی کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” وہ تفاخر سے گویا ہوئی۔ جس پر تہمینہ بیگم نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔ جس کی گونج سارے لیاقت ہاؤس میں سنائی دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیاقت ہاؤس میں تین خاندان رہتے تھے۔ سب سے بڑ ے حامد لیاقت اپنی بیگم تہمینہ لیاقت اور اکلوتی بیٹی ہانیہ لیاقت کے ساتھ۔ وہ دونوں ہی نٹ کھٹ اور غرور کی دولت سے مالامال تھیں۔ منجھلے بھائی زاہد لیاقت جو دس برس قبل امریکہ میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ ان کی بیگم عالیہ کے انتقال کے بعد وہ اپنے اکلوتے بیٹے زارون کو لے کر امریکہ چلے گئے تھے۔ سب سے چھوٹے بیٹے راشد لیاقت کی بیٹی زارینہ لیاقت اپنی سادگی پسند والدہ تانیہ بیگم کے ساتھ اسی محل کے اپارٹمنٹ میں قیام پذیر تھیں۔راشد لیاقت کا انتقال زارینہ کی پیدائش کے دودن بعد ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ہو گیا تھا۔ خاندان بھر کے لوگوں نے تانیہ بیگم کو ایک منحوس بیٹی پیدا کرنے کا طعنہ مارکرخاندان سے الگ کر دیا۔ اور ہر قسم کی عیش و عشرت ان سے چھین لی گئی۔ گھر کے باقی افراد کی نسبت ان دونوں ماں بیٹیوں کی زندگی بہت مختلف تھی۔ وہ ملازموں سے بھی بدتر زندگی گزار رہی تھیں۔ تانیہ بیگم خود تو صبر و تحمل کی مورت تھیں۔انہوں نے اپنی بیٹی کی تربیت بھی اسی طرح کی تھی۔ زارینہ ایک باحیاء لڑکی تھی۔ سادگی اس کی رگ رگ سے عیاں ہوتی تھی۔ لیاقت ہاؤس کا ماحول انتہائی لبرل تھا۔ خواتین کو مکمل آزادی حاصل تھی۔ سب کے سب مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ بالخصوص تہمینہ بیگم اور ان کی بیٹی ہانیہ اس میں سرِفہرست تھیں۔ زارون اپنے والد کے ساتھ امریکہ میں سیٹل تھا۔ جبکہ زارینہ اپنی ماں کے ساتھ اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ وہ دونوں ماں بیٹی گھر کے دیگر افراد سے مختلف تھیں۔ لیاقت ہاؤس میں آئے روز پارٹیز ارینج کی جاتیں۔ ان پارٹیز میں رقص و موسیقی کا ہوناعام تھا۔ تہمینہ بیگم نے تانیہ کو مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ حامد لیاقت کی طرف سے انہیں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔ لیکن ان سارے ہنگاموں میں زارینہ اور اس کی ماں الگ تھلگ ہی رہتیں۔ تہمینہ بیگم نے انہیں باورچی خانے تک محدود کر رکھا تھا۔ وہ کچن کا سارا کام ختم کر کے اپنے اپارٹمنٹ میں چلی جاتیں۔ تانیہ بیگم کو بس ایک ہی فکر تھی اور وہ زارینہ کے اچھے مستقبل کی فکر تھی۔ وہ ہر وقت اپنی بیٹی کے لیے دعاگو رہتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زارون کو لیاقت ہاؤس آئے پندرہ دن ہو گئے تھے۔ امریکہ میں اتنے سال قیام کرنے کے باوجود وہ اس ماحول سے بالکل مختلف تھا۔ پانچ وقت کا نمازی، ہر ایک کے ساتھ ادب و احترام سے بات کرنا،ایک دو بار کچن میں کام کرتے ہوئے اس کی ملاقات تانیہ بیگم سے ہوئی تو وہ اس سے بےحد متاثر ہوئیں۔ ان کے دل کے کسی گوشے میں ایک خواہش نے جنم لیا کہ کاش۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! زارینہ کی شادی زارون کے ساتھ ہو جائے۔ مگر اس خیال کو جلد ہی انہوں نے اپنے دل سے نکال دیا۔ کیونکہ وہ یہ جانتی تھیں کہ تہمینہ بیگم اپنی بیٹی ہانیہ کے لیے زارون کی خواہشمند ہیں۔ آج تہمینہ بیگم نے لیاقت ہاؤس میں ایک نائٹ پارٹی ارینج کروائی۔ جس میں انہوں نے ہانیہ کے تمام یونیورسٹی فیلوز اور فرینڈز کو مدعو کیا تھا۔ گویا یہ ایک ینگ پارٹی تھی۔ ہانیہ ماڈرن لباس کے ساتھ میک اپ کی زیبائش و آرائش میں مشغول تھی۔ تہمینہ بیگم لان میں انتظامات کی جانچ پڑتال کر رہی تھیں۔ تانیہ بیگم کی طبیعت صبح سے ہی ناساز تھی۔ اس لیے آج کچن کا سارا کام زارینہ خود کر رہی تھی۔ زارینہ کچن میں مختلف ڈشز بنانے میں مشغول تھی۔ جب زارون بےدھیانی سے کچن میں داخل ہوا۔ “محترمہ۔۔۔۔۔! کیا ایک گلاس پانی مل سکتا ہے۔۔۔۔۔؟؟؟” زارون نے ادب سے سوالیہ انداز میں کہا۔ یکدم کچن کی خاموش فضاؤں میں گونجنے والی اس مردانہ آواز کو سنتے ہی زارینہ ڈر گئی۔ پھر اس نے دوپٹہ سر پر صحیح طرح سے دھڑتے ہوئے گلاس میں پانی بھرا اور ٹیبل پر قدرے بےمروتی سے رکھ دیا۔ زارون نے صرف ایک نظر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تھا۔ سفید قمیض شلوار اور لائٹ پنک شفون دوپٹہ لیے وہ کسی پرستان کی پری لگ رہی تھی۔ اس پر اس کی گلابی رنگت، گول موٹی موٹی آنکھیں ، تیکھا ناک اور سرخ اناری ہونٹ ایک نظر میں ہی وہ اس کے دل میں گھر کر گئی۔ “کیا میں آپ کا نام جان سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔؟” زارون نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ وہ ایک بڑے سے دیگچے میں چمچ ہلانے میں مصروف تھی۔ اس نے مُڑ کر غصے سے زارون کی طرف دیکھا۔ مصالحے سے لبریز چمچ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی۔ تہمینہ بیگم کچن میں داخل ہوئیں اور حقارت سے زارینہ کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی نظروں کا زاویہ زارون کی طرف کرتے ہوئے قدرے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے بولیں۔ ” زارون بیٹا۔۔۔۔۔! خیریت۔۔۔۔۔۔! تم اور یہاں۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” تہمینہ بیگم کے چہرے پر غصے کے تاثرات ابھی بھی نمایاں تھے۔ جنہیں وہ بناوٹی مسکراہٹ کے ساتھ چھپانے کی کوشش کررہی تھیں۔ “تمہیں کسی چیز کی ضرورت تھی تو مجھے یا پھر ہانیہ کو بتا دیتے۔” وہ اب بھی مسکرانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جبکہ زارون قدرے سنجیدگی سے بولا۔ “اٹس اوکے تائی جان۔۔۔۔۔۔۔! بس پانی چاہیئے تھا۔۔۔۔۔۔وہ محترمہ نے مجھے پلا دیا ہے۔۔۔۔۔۔اس کے لیے شکریہ۔۔۔۔۔۔۔!!!” وہ گلاس ٹیبل پر رکھتے ہوئے دھیمے سے مسکراتے ہوئے ایک نظر زارینہ پر ڈالتا ہوا کچن سے باہر چلا گیا۔ مگر زارینہ کی سختی کا مکمل سامان کر گیا تھا۔ زارون کے جاتے ہی تہمینہ بیگم کی توپوں کا رخ زارینہ کی طرف ہو گیا تھا۔ “تمہاری ماں کدھر ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟'” انوں نے نخوت سے پوچھا۔ “وہ تائی جان ! امی کی طبیعت خراب ہے۔” وہ قدرے محتاط انداز میں گویا ہوئی۔ “کتنا کام رہ گیا ہے کچن کا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” تہمینہ بیگم کے انداز میں نفرت اور حقارت نمایاں تھی۔ “بس۔۔۔۔۔۔! ختم ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔!” زارینہ نے مختصر جواب دیا۔ “سارا کام ختم کر کے جلدی سے اپنے اپارٹمنٹ میں چلی جانا اور دوبارہ مجھے باہر نظر نہ آنا۔” تہمینہ بیگم نے حکمیہ انداز میں کہا تو وہ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دوبارہ سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ جبکہ زارون کچن سے باہر کھڑا یہ سب سن رہا تھا۔ تانیہ چچی کی ناساز طبیعت نے اسے بےچین کر دیا تو اس کے قدم خودبخود ہی لیاقت ہاؤس کے بیک سائیڈ پر بنے الگ تھلگ اس اپارٹمنٹ کی جانب چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“چچی جان۔۔۔۔۔! آپ کی طبیعت خراب ہے اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟” زارون پُرشکوہ انداز میں تانیہ بیگم سے پوچھ رہا تھا۔ جو بستر پر لیٹیں مسکرا کر اسی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ پھر وہ توقف سے بولیں۔ “معمولی سا بخار تھا اب تو اُتر گیا ہے۔ میں ٹھیک ہوں تم پریشان نہ ہو۔” انہوں نے زارون کا ہاتھ تھامتے ہوئے مسکرا کر اسے تسلی دی۔ “آپ نے دوا لی ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟” زارون نے فکرمندی سے پوچھا۔ “زارینہ نے مجھے دوائی کھلا دی ہے تم پریشان نہ ہو۔” زارینہ کا نام لبوں پر آتے ہی وہ دھیمے سے مسکرانے لگیں۔ “چچی۔۔۔۔! یہ زارینہ ہے کدھر۔۔۔۔۔۔؟ مجھے پاکستان آئے ہوئے مہینہ ہونے والا ہے۔ اس سے ابھی تک میری ملاقات ہی نہیں ہوئی۔” زارون نے سوال کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شکوہ بھی کر ڈالا۔ جس پر تانیہ بیگم نے قدرے سنجیدگی سے اسے بتایا۔ “وہ یہاں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کچن میں گئی ہے۔۔۔۔۔تہمینہ بھابھی نے اسے بلایا تھا۔” وہ تفصیلات بتا رہی تھیں۔ “اچھا تو وہ محترمہ ہے زارینہ۔۔۔۔۔۔۔۔!” زارون نے دل میں کہا اور زیرِلب مسکرانے لگا۔ اسی دوران اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا اور زارینہ کمرے میں داخل ہوئی۔ اس کے چہرے سے تھکن واضح تھی۔ “آ گئی زارینہ۔۔۔۔۔۔!!!” تانیہ بیگم نے مسکرا کر کہا۔ تو زارون نے فوراً سے دروازے کی طرف دیکھا۔ زارینہ کی نظر جب زارون پر پڑی تو وہ قدرے سنجیدہ انداز میں دوپٹہ صحیح کرتے ہوئے اندر کی طرف دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ تانیہ بیگم کو زارینہ کا یہ رویہ قدرے ناگوار لگا۔ زارون کو اندازہ ہو گیا تھا کہ زارینہ کو اس کی یہاں آمد قدرے ناگوار لگی ہے۔ لہذا وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ “کہاں چل دیے۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟” تانیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔ “چچی! اب میں چلتا ہوں،اوکے۔۔۔۔۔۔۔! پھر اپنا خیال رکھیے گا۔اگر کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔” وہ خداحافظ کہتا ہوا تیزی سے اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ پار کر گیا۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا لیاقت ہاؤس میں داخل ہو گیا۔ جہاں چہل پہل اور گہما گہمی کا سماں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لان میں رات ڈھلنے کے باوجود بھی دن کا سا سماں تھا۔ برقی قمقموں نے ہر طرف اجالا کر رکھا تھا۔ ہانیہ کے سارے فرینڈز آ چکے تھے۔ لاؤڈ آواز کے ساتھ ساؤنڈ سسٹم بج رہا تھا۔ زارون کچھ دیر پہلے تہمینہ بیگم کے اصرار پر پارٹی میں شامل ہوا تھا۔ وہ اس قسم کی پارٹیز کا عادی نہیں تھا۔ ڈرنک کے بےدریغ استعمال کے ساتھ تہمینہ بیگم، حامد لیاقت اور ہانیہ پارٹی کو انجوائے کرنے میں مگن تھے۔ ہانیہ اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈانس کرنے میں مشغول تھی۔ برہنہ لباس اور ڈرنک کے نشے نے اسے تہذیب اور حیاء کے دائرے سے کہیں باہر نکال دیا تھا۔ ایک سے دو بار اس نے زارون کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ناچنے اور ڈرنک کرنے پر اکسایا تو وہ ضبط کا پیمانہ تھامے انکار کرتا رہا۔ تہمینہ بیگم کو زارون کے بدلتے ہوئے تیور صاف دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے زارینہ کو اس کی نظروں سے گرانے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ جس سے زارون پر یہ واضح ہو جائے گا کہ ہانیہ ہی ایک کونفیڈنٹ لڑکی ہے۔ جو سوسائٹی میں اس کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چک سکتی ہے۔ لہذا انہوں نے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا اور اس کے کان میں کچھ بولتے ہوئے اسے فوراً سے اس حکم پر عمل کرنے کا کہا۔ چند ہی لمحوں بعد زارینہ ٹرے میں ڈرنک کے کچھ گلاس سجائے ڈرنک سرو کرنے کے لیے بےہنگم انداز میں ادھر سے ادھر جا رہی تھی۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے۔ ہانیہ نے ایک نظر زارینہ کی طرف دیکھا۔ پھر اس نے اپنے دوست کو اشارہ کیا۔ جو رقص کرتے ہوئے دھیرے سے زارینہ کے بالکل سامنے جا کھڑا ہوا اور اس کے ہاتھ سے ٹرے پکڑ کر اسے ٹیبل پر رکھا اور پھر اس نے زبردستی زارینہ کا نازنیں ہاتھ پکڑ لیا اور اسے رقص کرنے پر زبردستی مجبور کرنے لگا۔ “چھوڑومجھے۔۔۔۔۔۔!” زارینہ نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی۔ گھبراہٹ اس کی آواز سے عیاں ہو رہی تھی۔ زارون کچھ فاصلے پر کھڑا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ جبکہ ہانیہ کے سارے دوست زارینہ کو کھا جانے والی نظروں سے گھور رہے تھے۔ تہمینہ بیگم اور حامد لیاقت ڈرنک کے نشے میں مگن رقص میں مصروف تھے۔ تبھی اس ناہنجار انسان نے زارینہ کا دوپٹہ زور سے کھینچا اور اسے بےآبرو کرتے ہوئے دوپٹے کو زمین پر پھینک دیا۔ زارینہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔جس کے سر کا ایک بھی بال کسی نامحرم مرد نے نہیں دیکھا تھا۔ آج وہ بھری محفل میں ننگے سر کھڑی تھی اور اسے بےآبرو اس کے اپنے خون کے رشتوں نے کیا تھا۔ اس کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ اور اس کے چہرے کا رنگ زرد ہو گیا تھا۔ زارون کے ضبط کا پیمانہ ٹوٹا۔ تو وہ غصے کے عالم میں آگے بڑھا۔ زمین پر گری ہوئی اس کی ردا، اس کے دوپٹے کو اُٹھا کر زارینہ کے سر پر رکھا اور اپنے مضبوط بازوؤں کے حصار میں اسے لے کر لان سے باہر آ گیا۔ زارینہ کا جسم مکمل کانپ رہا تھا۔ وہ ہچکی در ہچکی مسلسل رو رہی تھی۔ “تمہیں کس نے بولا تھا ان آوارہ لوگوں کی محفل میں آؤ۔۔۔۔۔۔؟؟؟” وہ غصے سے چیخا۔ جبکہ دوسری طرف زارینہ اپنے حواسوں میں نہ تھی۔ “تم ان کی نوکر نہیں ہو۔ بلکہ اس گھر کی فرد ہو۔۔۔۔۔۔راشد لیاقت کی بیٹی ہو تم۔۔۔۔۔! سنا تم نے تم راشد لیاقت کی بیٹی ہو۔۔۔۔۔!” وہ الفاظ پر زور دیتے ہوئے اسے اپنی شناخت، اپنے وجود کے ہونے کا احساس دلا رہا تھا۔ زارون کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکڑائی تو اچانک ہی اس نے اپنے وجود کو اس کے آہنی بازوؤں کی گرفت سے چھڑا لیا اور سرخ ہوتی ہوئی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اس کی سیاہ آنکھوں میں گاڑتے ہوئےوہ بہت کچھ بول دینا چاہتی تھی۔ مگر پھر خاموشی کے اس قفل کو برقرار رکھتے ہوئے وہ اپارٹمنٹ کا دروازہ پار کر گئی۔ زارون لیاقت اس کی آنکھوں سے بیان ہونے والا ہر ستم خاموشی سے پڑھ گیا۔ وہ ندامت اور شرمندگی کی کیفیت میں مبتلا تھا۔ زارینہ اور تانیہ چچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے احساس نے اسے بےچین کر دیا تھا۔ وہ ساری رات کروٹ بدلتا رہ گیا۔ نیند تھی کہ آنکھوں سے روٹھ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کو ایک ہفتہ گزر گیا تھا۔ زارینہ نے اس رات جو کچھ بھی ہوا تھا۔ اس کے بارے میں اپنی ماں سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اور اس دن کے بعد سے وہ خاموش ہو گئی تھی۔ تانیہ بیگم کو چند دنوں سے زارینہ کی یہ خاموشی کھلنے لگی تھی۔ لہذا آج انہوں نے اس سے خاموشی کی وجہ پوچھ لی۔ “زارینہ! کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟ تہمینہ بھابھی نے کچھ بولا ہے تمہیں۔۔۔۔۔؟ کوئی بات ہوئی ہے کیا۔۔۔۔۔۔؟” سوالوں کی ایک بوچھاڑ تھی جو تانیہ بیگم نے اس کے سامنے کر دی۔ “کچھ نہیں ہوا امی۔۔۔۔۔!” وہ بات کو ٹالنے کی کوششکر رہی تھی۔ پھر اچانک ہی اسے وہ رات یاد آ گئی۔ ہانیہ اور تہمینہ بیگم کی عیاش زندگی کے مناظر نے اس کی روح کو اندر تک گھائل کر دیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں امڈتے آنسو تانیہ بیگم سے کہاں چھپ سکتے تھے۔ وہ فوراً سے اس کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور حلاوت آمیز انداز میں بولیں۔ “کیا پریشانی ہے تمہیں۔۔۔۔۔؟ مجھے بتاؤ میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔۔” تانیہ بیگم کا انداز فکر سے لبریز تھا وہ اس سے پوچھ رہی تھیں۔ تبھی وہ جھٹ سے بول پڑی۔ “امی۔۔۔! مجھے اب اس جگہ سے ، تائی جان سے اور ہانیہ سے ڈر لگنے لگ گیا ہے۔ میرا دم گھٹتا ہے یہاں۔” وہ روہانسی ہو کر بول رہی تھی۔ “امی! آخر تایا ابو کو یہ سب کیوں نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔؟ وہ اس بےحیائی کو لبرل ازم کا نام دے کر اپنی دنیا اور آخرت کیوں برباد کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔؟” پہلے تانیہ بیگم نے خاموشی سے اس کی بات سنی پھر اسے دلاسہ دیتے ہوئے بولیں۔ “چھوڑو نا زارینہ۔۔۔۔۔۔۔! تم اپنا خون کیوں جلا رہی ہو۔۔۔۔۔؟جن لوگوں کی ایسی بری خصلتیں ان کی شخصیت کا جُز بن جائیں تو پھر ایسے لوگوں کی حالت پر جلنے، کُڑھنےیا ان کی اصلاح کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح کے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیئے اور ان کے لیے بس اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اس طرح کے لوگوں کو مکمل گمراہ ہونے سے بچا لے اور انہیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔” تانیہ بیگم نے اسے سہارا دیتے ہوئے اپنے سینے سے لگا لیا۔ زارینہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سر پرسے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔ اسے اپنی روح پُرسکون محسوس ہوئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہد لیاقت کی دلی آرزو تھی کہزارون اپنے ہی خاندان کی کسی لڑکی کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کرے ۔ انہوں نے اسے مکمل آزادی دے رکھی تھی۔ زارون جب سے پاکستان آیا تھا وہ روزانہ رات کو زاہد لیاقت کے ساتھ وڈیو کال پر بات کرتا اور انہیں یہاں کی صورتحال کے بارے میں پل پل کی خبر بھی دے رہا تھا۔ لہذا آج زارون لیاقت نے سب کو لیاقت ہاؤس کے ٹی-وی لاؤنج میں اکٹھا کیا۔ حامد لیاقت، تہمینہ بیگم ، ہانیہ، تانیہ چچی اور زارینہ کو بھی بلایا گیا تھا۔ پہلے تو زارینہ نے آنے سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ وہ زارون، ہانیہ اور تہمینہ بیگم کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر پھر تانیہ بیگم کے سمجھانے پر وہ بھی ساتھ چلی آئی۔ تہمینہ بیگم کو تانیہ اور زارینہ کا وجود اپنے ٹی-وی لاؤنج میں کَھل رہا تھا۔ مگر زارون کے سامنے بناوٹی مسکراہٹ سجائے وہ ضبط کا دامن تھامے بیٹھی تھیں۔ “میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے آپ کو اس وقت زحمت دی ہے۔” زارون نے بات شروع کی تو تہمینہ بیگم جھٹ سے بولیں۔ “ایسی بات نہیں ہے زارون۔۔۔۔۔۔! تم نے اس وقت ہم سب کو کوئی ضروری بات بتانے کے لیے ہی بلایا ہو گا۔” ان کا انداز بہت بناوٹی تھا۔ “جی۔۔۔۔۔! وہ بات دراصل یہ ہے کہ ایک ہفتے کے بعد میری فلائٹ ہے۔” زارون کی بات سن کر ہانیہ فوراً سے بولی۔ “واٹ زارون۔۔۔۔۔۔! ڈیٹس ناٹ فئیر۔۔۔۔۔۔!!!” وہ حیرت زدہ تھی۔ حامد لیاقت، تہمینہ بیگم حتیٰ کہ تانیہ چچی بھی حیران تھیں۔ ان سب کے برعکس زارینہ کے چہرے پر طمانیت کے تاثرات تھے۔ زارون نے ایک نظرِ غلط زارینہ پر ڈالی اور اس کے چہرے پر اطمینان و سکون دیکھ کر زیرِ لب مسکرانے لگا۔ “جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں ڈیڈ نے مجھے پاکستان صرف شادی کرنے کے لیے بھیجا ہے۔ کیونکہ ڈیڈ کی شدید خواہش ہے کہ میں شادی کروں تو صرف ان کے خاندان کی کسی لڑکی سے۔۔۔۔۔اور اب امریکہ آؤں تو اپنے ساتھ ان کی بہو کو بھی لے کر آؤں۔” زارون کی یہ بات سن کر ہانیہ کے چہرے پر فتح اور جیت کی خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اسے خود پر مکمل یقین تھا کہ زارون اس کے علاوہ کسی کا انتخاب کر ہی نہیں سکتا۔ بچپن ہی سے وہ یہ خواب اپنی آنکھوں میں سجائے بیٹھی تھی۔ اس لیے تو اس نے خود کو زارون اور امریکن تہذیب و ثقافت کے مطابق ڈھالا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تہمینہ بیگم بھی پُرمسرت تھیں۔ انہیں اپنی جیت کا احساس ہو رہا تھا۔ تبھی بغیر کسی توقف کے زارون نے بولنا شروع کیا۔ “میں نے ڈیڈ کی مشاورت اور پسند سے یہ فیصلہ کیا ہے میں اپنی شریکِ حیات صرف اور صرف زارینہ کو بناؤں گا۔” زارون کے یہ الفاظ گویا سب پر بم کی طرح گرے۔ زارینہ نے اچانک سے سر اٹھا کر زارون کی طرف دیکھا۔ جس پر ہانیہ نخوت سے اٹھی اور حقارت سے بولی۔ “زارینہ جیسی دقیانوسی اور دوٹکے کی لڑکی سے تم شادی کرو گے۔۔۔۔” اس نے نخوت سے کہا۔ حقارت اس کے لہجے سے واضح تھی۔ تہمینہ بیگم تو زارون کے فیصلے پر دنگ رہ گئیں۔ زارون کو ہانیہ کی بات پر بہت غصہ آیا۔ لہذا وہ ضبط کے تمام پیمانے توڑ کر غصے سے بولا۔ “اگر زارینہ جیسی باحیاء اور باکردار لڑکی دقیانوسی ہے تو ہانیہ زاہد لیاقت تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟” زارون نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اسے اپنا محاسبہ کرنے کی تلقین کی۔ زارینہ نے سر اٹھا کر زارون کی طرف دیکھا۔ زارون پھر سے بولنے لگا۔ “ہاں۔۔۔۔۔۔! میں زارینہ سے شادی کروں گا۔ مجھے اس کی سادگی پر، اس کی شرم و حیاء پر اور اس کے کردار پر ناز ہے۔ وہ ہر لحاظ سے ایک پرفیکٹ لڑکی ہے۔ میں کیا کوئی بھی مرد اپنی شریکِ حیات کے طور پر ایسی ہی لڑکی کا انتخاب کرے گا۔” زارون کے الفاظ تانیہ چچی کی عمر بھر کی ریاضت کا وسیلہ تھے۔ خدا نے ان پر کرم کر دیا تھا۔ زارینہ خاموشی سے سب سن رہی تھی۔ “سوری ٹو سے تائی جان۔۔۔۔۔۔!!! آپ نے اور تایا ابا نے ہانیہ کی تربیت بہت غلط کی ہے۔ شراب تو اسلام میں حرام ہے۔ میں اور ڈیڈ امریکہ جیسے ملک میں رہ رہے ہیں لیکن ہم نے کبھی شراب کیا کسی بھی نشہ آور ڈرنک کو کبھی ہاتھ بھی نہیں لگایا اور آپ مسلم ملک میں رہتے ہوئے اپنی تہذیب اور قدروں کو پامال کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ نے تو اس خاندان کی عزت و ناموس کو بھی لبرل ازم کے نام پر روند ڈالا ہے۔ میں ان تمام الفاظ کے لیے آپ سے معذرت چاہتا ہوں۔ مگر خدا سے ہمیشہ دعاگو رہوں گا کہ وہ آپ کو ہدایت نصیب کرے اور سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔” زارون کے الفاظ بجلی کی طرح کُوند کر تہمینہ بیگم اور حامد لیاقت کو شرمندگی کا احساس دلا رہے تھے۔ ہانیہ کو اپنی انسلٹ فیل ہوئی تو وہ غصے سے پاؤں پٹختے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔ زارون نے تانیہ چچی کی طرف رخ کیا۔ جن کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو اُمڈ آئے۔ “چچی! مجھے اور ڈیڈ کو آپ کی تربیت پر ناز ہے۔” تانیہ بیگم نے خوشی سے زارون کا ماتھا چوم لیا اور زارینہ کا ہاتھ زارون کے ہاتھ میں دے دیا۔ زارینہ نے نظر بھر کر زارون کی طرف دیکھا۔ جس کی نگاہیں چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں۔ “تیری سادگی پہ ناز ہے مجھے۔۔۔۔۔۔۔!!!” زارینہ نے تشکر آمیز نگاہوں سے زارون کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ جس پر وہ بھی دھیمے دھیمے انداز میں مسکرانے لگا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Teri Sadgi p naz hai