ناول
Uraaan by Hina Shahid epi 1
مکمل ناول:
اڑان۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
مکمل ناول:
اڑان۔۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
قسط نمبر1:
؎ زندگی بکھرے تو رنگوں میں بکھ جاتی ہے
آزمائش سے ذرا اور نکھر جاتی ہے
کوئی منزل تو ملے گی ہمیں چلتے چلتے
دیکھتے ہیں کہاں تک یہ ڈگر جاتی ہے
زندگی میں امید و یاس ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ جو شخص ناامیدی کے اندھیروں میں پُرامید رہتا ہے اور کوشش کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا تو ایک وقت آتا ہے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں اور صبح روشن اس کے لیے اجالوں کی گود کھول دیتی ہے۔ کیونکہ زندگی تغیرِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔
“فاطمہ! کیا بات ہے آج تم بہت اداس لگ رہی ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
روبینہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔۔!”
فاطمہ نے بےدلی سے جواب دیا۔
“کوئی تو بات ہے۔ مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔۔۔؟ کوئی پریشانی ہے۔۔۔۔۔۔؟”
روبینہ نے ایکدم سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔
“روبینہ! تمہیں تو معلوم ہے میرے گھر کے حالات کے بارے میں۔”
فاطمہ انتہائی بےدلی سے بول رہی تھی۔ پھر وہ کچھ بولتے بولتے چُپ کر گئی۔
“دوبارہ سے کچھ ہوا ہے۔۔۔۔۔۔؟ گھر میں تو سب ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
روبینہ قدرے سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔ وہ اس کو یوں پریشان دیکھ کر قدرے پریشان ہو گئی تھی۔
“امی بہت زیادہ بیمار رہنے لگی ہیں۔۔۔۔۔۔مہنگائی اتنی زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹرز نے تو انتہاء کر دی ہے۔۔۔۔۔آئے روز ہڑتال۔۔۔۔۔۔! ہم غریب لوگوں کے لیے سرکاری ہسپتال ہی تو آخری سہارا ہوتے ہیں۔”
فاطمہ اپنی ماں کی حالت کی وجہ سے بےحد پریشان ہو گئی تھی۔ اور اسی پریشانی میں وہ سب روبینہ کو بتانے لگی۔
“ہاں! فاطمہ ۔۔۔۔۔! کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو۔ اچھا اب تم فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کر دیں گے۔”
روبینہ نے اس کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے اسے دلاسہ دینا چاہا۔
“اللہ کا ہی تو سہارا ہے۔ ورنہ اس دنیا میں لوگ اس قدر خودغرض ہو طکے ہیں ہر کسی کو اپنی پیٹ کی فکر لاحق ہے۔ جسے دیکھو اپنے ہی ہم جنسوں کا حق مار کر اپنا پیٹ بھر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے تو ہمارے معاشرے میں غربت و افلاس حددرجہ ہے۔ لوگ حقوق و فرائض سے آشنا تو ہیں لیکن کوئی بھی انہیں وثوق کے ساتھ ادا نہیں کر رہا۔”
فاطمہ نے ایک واضح دلیل پیش کی۔ وہ معاشرے کا تجزیہ اپنے انداز میں پیش کر رہی تھی۔
“کیا مطلب ہے حقوق و فرائض تو سب ادا ہو رہے ہیں۔ فیکھو فاطمہ! ہم روز کالج جاتی ہیں یہ ہمارا فرض ہے۔ راز ہمارے اساتذہ کالج آتے ہیں۔ ہمیں پڑھانے کے لیے یہ ان کا فرض ہے سب تو اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ پھر بگاڑ کی وجہ حقوق و فرائض تو نہ ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔؟”
روبینہ نے استفہامیہ انداز میں اس سے متجسس ہو کر پوچھا۔ اسے اس گفتگو میں مزا آ رہا تھا۔ وہ دونوں اکثر معاشرتی مسائل سے متعلق ایک دوسرے کے ساتھ تفصیلاً بات کرتی تھیں۔
“روبینہ۔۔۔۔۔! تم جس گھر میں رہتی ہو۔ اس گھر کے تمام لوگ اپنے فرائض بخوبی ادا کر رہے ہیں۔ تمہارے ابو روز حصولِ معاش کے لیے گھر سے جاتے ہیں۔ تمہاری امی کالج میں پروفیسر ہیں۔ وہ بھی بخوبی اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ تم اور تمہارے گھر کے زیادہ تر افراد اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے معاشرے کے نوے فیصد افراد ایسا نہیں کرتے۔”
فاطمہ نے بہت ہی اچھے انداز میں روبینہ کے سامنے اس کے ہی گھر کی مثال بہت اچھے انداز میں پیش کی۔ مگر پھر بھی روبینہ کچھ جھنجھلاہٹ کا شکار تھی۔ اسے ابھی بھی فاطمہ کی بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
“مجھے ابھی بھی تمہاری بات کی سمجھ نہیں آئی۔۔۔۔۔۔!”
روبینہ سرعت سے بولی۔
“روبینہ اس لڑکے کو دیکھ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔!”
روبینہ اور فاطمہ جو اس وقت کالج سے چھٹی کے بعد گھر جانے کے لیے کالج وین میں سوار تھیں۔ اور ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے کنڈیکٹر نے وین کو بریک لگائی تھی۔ تبھی فاطمہ کی نظر وین کی کھڑکی سے باہر سامنے ایک ورک شاپ پر پڑی۔ جہاں ایک لڑکا موٹر مکینک کی شاپ پر زمین پر آلتی پالتی مار کے بیٹھا تھا اور ٹائرزمیں ہوا بھرنے میں مگن تھا۔ جس کے ہاتھ ، کپڑوں اور چہرے پر گرد جمی ہوئی تھی۔ فاطمہ کے کہنے پر روبینہ نے کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھا۔
“ہاں! دیکھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ تم اسے جانتی ہو۔۔۔۔۔۔؟؟؟’
روبینہ نے تجسس سے پوچھا۔
“میں اسے جانتی تو نہیں ہوں۔ لیکن وہ بھی ہمارے اس معاشرے کی بےراہروی کا شکار ہے۔ یہی وجہ تو ہے کہ جس عمر میں اس کے ہاتھ میں کتابیں ہونی چاہئیں تھیں۔ اس عمر میں اس کے ہاتھ مٹی سے گرد آلود ہیں۔ اور وہ سخت مشقت کے ساتھ روٹی روزی کما رہا ہے۔”
فاطمہ کے لہجے میں افسردگی اور چہرے پر تاسف واضح تھا۔
“ہاں! کہہ تو تم ٹھیک ہی رہی ہو۔۔۔۔۔! بےچارا نامعلوم کن مصائب کا شکار ہو کر اس طرح چھوٹی سی عمر میں روزی کے حصول کے لیے تگ و دو کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔” روبینہ بھی تاسف سے بولی۔
“روبینہ! تمہیں یاد ہو گا آج اردو کی کلاس میں پروفیسر ثمرین نے کلاس میں ایک بہت خوبصورت شعر پڑھا تھا۔ جس کو سننے کے بعد فوراً تم نے مجھ سے اس کا مطلب پوچھا تھا۔ فاطمہ نے اسے کچھ یاد دلانا چاہا تو وہ یاد آنے پر جھٹ سے بولی۔
“ہاں! اور تم نے اتنی بےرخی سے بول دیا تھا بعد میں بتاؤں گی۔”
وہ منہ بسورتے ہوئے بولی۔
؎ غریبوں کی یہ بستی ہے کہاں سے شوخیاں لاؤں
یہاں بچے تو رہتے ہیں، مگر بچپن نہیں رہتا
فاطمہ نے خوبصورت انداز میں شعر دہرایا۔ تو روبینہ جھٹ سے بولی۔
“اچھا! اب مطلب بتاؤ مجھے اس شعر کا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کا انداز استفہامیہ تھا۔
“اس شعر کا مطلب وہ موٹر مکینک کی شاپ پہ کام کرنے والا بچہ تھا۔ جو گربت و افلاس سے بےحال ہو کر اس دکان میں دووقت کی روٹی کے حصول کے لیے مشقت کر رہا تھا۔”
فاطمہ نے سنجیدگی سے مختصراً انداز میں اسے شعر کا مطلب سمجھا دیا۔
“فاطمہ! آج ایک بات میں تم سے کہہ دوں۔”
روبینہ کا اندازسنجیدہ تھا۔ جس پر فاطمہ نے فوراً سے اس سے پوچھا۔
“وہ کیا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
“فاطمہ! تم بہت زیادہ سوچتی ہو۔ ہر چیز پہ گہرائی سے مشاہدہ کرتی ہو۔”
وہ اسے اس کی اس خوبی پر سراہ رہی تھی۔
“جب زندگی تلخ تجربات، و حوادث سے گزر رہی ہو تو پھر انسان کی سوچ وقت سے پہلے ہی وسعت اختیار کر جاتی ہے۔ وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اہمیت دینے لگ جاتا ہے۔”
فاطمہ یہ کہتے ہی گہری سوچ میں ڈوب جاتی ہے۔ جبکہ روبینہ کو بس کنڈیکٹر آواز دیتا۔
“روبینہ بیٹیا۔۔۔۔۔! تمہارا گھر آ گیا ہے۔”
روبینہ اپنا بیگ اور نوٹس اٹھائے فاطمہ کو خداحافظ بول کر بس سے نیچے اتر جاتی ہے۔ جبکہ فاطمہ گہری سوچ میں ہی مبتلا ہے۔ وہ اپنے ابا کے آئے دن کے فضول جھگڑوں اور نشے کی لت میں مبتلا ہو کر کئی کئی دن گھر سے باہر رہنے کی عادت سے بےحد پریشان تھی۔ اور اس کے ابا جب جب گھر آتے اماں کو مار پیٹ کر ساری جمع پونجی چھین کر لے جاتے تھے۔ اماں کی سسکیاں، غربت اور حددرجہ افلاس یہ سب آسیب اس کے گھر ہی آ کے بسیراکر کے بیٹھ گئے تھے۔
“فاطمہ ! تمہارا گھر بھی آ گیا ہے بیٹیا۔۔۔۔۔۔۔!”
بس کنڈیکٹر کی آواز سے وہ ایکدم ہی چونک گئی۔ خیالات کا بوجھ اٹھائے وہ بس سے نیچے اتر گئی۔ بس کنڈیکٹر روزانہ اسے گلی کی نکڑ پر اتار کے چلا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا گھر دو گلیاں آگے تھا۔ اور وہاں چنچی رکشے کا جانا مشکل تھا اور یہ تو بس تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)