ناول
Uraaan by Hina Shahid last episode
مکمل ناول:
اڑان۔۔۔۔۔!!!
تحریر
حناء شاہد
آخری قسط
مسجدوں میں خداوندِ باری تعالیٰ کی حمدو ثناء کی آواز جب فاطمہ کے کانوں میں پڑی تو ایک نئے جوش و ولوے سے وہ بیدار ہوئی۔ ہر ڈوبتا سورج بہت سارے غموں، پریشانیوں کو لے کر ڈوب جاتا ہے۔ ایک نئے دن کے لیے ایک نئی صبح کے لیے۔ فاطمہ کو بھی اپنی اس نئی صبح کا انتظار تھا۔ جب وہ اپنی بہنوں کو ایک اچھی زندگی گزارتا دیکھ سکے۔ اس کی ماں کی آنکھوں میں غموں کے آنسوؤں کی بجائے خوشی کے آنسو ہوں۔ باپ نشے جیسی بری لت سے چھٹکارا پا کر ایک پُروقار زندگی بسر کر رہا ہو۔
“امی! دعا کیجئیے گا۔آج میرا ایم۔ایس۔سی کا نتیجہ آنا ہے۔”
وہ پُرامید لہجے میں اپنی ماں کے قریب بیٹھی ماں سے دعا کی درخواست کر رہی تھی۔
“انشاءاللہ! میری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں۔ اللہ تمہیں ضرور کامیاب کرے گا۔”
رضیہ نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے اسے دعا دی۔ اسی اثناء میں روبینہ نے سرعت سے دروازے کی چوکھٹ کو پار کیا۔
“فاطمہ! میرے پاس تمہارے لیے ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔”
روبینہ پُرجوش انداز میں بولی۔
“وہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟”
فاطمہ نے بھی پُرجوش انداز میں کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔
“رزلٹ اناؤنس ہو گیا ہے۔ اور ہماری فاطمہ نے ایم۔ ایس۔ سی کے امتحان میں پوری یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔”
روبینہ کے تو انگ انگ سے خوشی چھلک رہی تھی۔ وہ الفاظ دبا دبا کر بول رہی تھی۔ اس کا چہرے پر مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ بھی بے حد خوش تھی۔
“اول پوزیشن آئی ہے تمہاری۔ آج نیوز پیپر میں فرنٹ پیج پر یونیورسٹی کی طرف سے تمہارا نام ٹوپ پر لکھ کر خبر آئی ہے۔ میں یہ دیکھو اپنے ساتھ لائی ہوں اخبار۔۔۔۔۔!”
روبینہ نے خوشی سے اخبار اس کی طرف بڑھا دیا۔ جسے فاطمہ نے جلدی سے تھام لیا پھر اس نے فرنٹ پیج پر بڑے بڑے حروف میں اپنا نام لکھا ہوا دیکھا تو خوشی سے ماں کے گلے لگ کر رو دی۔ یہ اس کی محنت اور خوشی کے آنسو تھے۔ رضیہ نے بھی بیٹی کا منہ ماتھا فخر سے چُوما۔ وہ بیٹی کی اس کامیابی پر بےحد خوش ہو گئی تھی۔ یہ سویرا تو ان کے خاندان کے لیے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر ابھرا تھا۔ صبح کے آغاز پر ہی اتنی بڑی خوشی سے خدا نے ان کو نواز دیا تھا۔ پھر تو بس فاطمہ کی قسمت کا ستارا ہی جگمگا اٹھا۔ اسے بہت ہی جلد سرکاری ملازمت مل گئی ۔ دھیرے دھیرے گھر کے حالات بھی بدل گئے۔ ثانیہ اور رمشا بھی تعلیمی مراحل میں شاندار کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے معاشرے میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔ رضیہ کی تینوں بیٹیوں نے اپنی محنت کے بل پر یہ مقام حاصل کیا تھا اور اپنی ماں کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ زندگی کے سفر میں اگر ہمسفر اچھا مل جائے تو زندگی میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ فاطمہ کی کامیابیوں نے لوگوں کو اس کا خواہشمند بنا دیا اور بالآخر ایک اچھے مہذب، اور تعلیم یافتہ گھرانے میں اس کی شادی ہو گئی۔ اسلم کو ایک خوش مزاج ، باکردار اور محنت پسند بیوی فاطمہ کی شکل میں مل گئی۔ اور فاطمہ کو ایک ایسا ساتھی جو عورت کے وجود سے محبت کرتا ہے۔ خواہ وہ کسی بھی روپ میں ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کا وقت تھا اور سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ جون کی گرمی میں سڑکیں اکثر سنسان ہوتی ہیں۔ لیکن ملازمت پیشہ افراد کے لیے موسم کی سردی و گرمی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ وہ ایک بامقصد زندگی گزارنے میں سرگرداں ہوتے ہیں۔ یہی زندگی کی سب سے خوبصورت حقیقت ہے۔ فاطمہ آج دفتر سے واپسی پر مال روڈ پر رکی، چند اشیاء ضرورت کو خریدنے کے لیے۔۔۔۔۔۔ جب ساری خریداری کر کے جب وہ شاپنگ مال سے باہر نکلی تو دونوں ہاتھوں میں کافی شوپنگ بیگز تھے۔ گاڑی کی بیک سیٹ پر سارے شاپنگ بیگز رکھتے ہوئے اس کی نظر اچانک سے فُٹ پاتھ پر پڑی۔ جہاں پر ایک شخص لیٹا ہوا تھا۔ جس کے چہرے پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ کپڑے نہایت ہی بوسیدہ اور پھٹے ہوئے تھے۔ اور پاؤں غبار آلود ۔۔۔۔۔۔۔!
لوگ اسے بھکاری سمجھ کر چند سکے بھیک میں دے کرجارہے تھے۔ یہ منظر فاطمہ کے لیے بہت ہی ہولناک تھا۔ فاطمہ بھی اس شخص کے قریب آئی۔ تاکہ اس کی مدد کر سکے۔ اس شخص کے چہرے کے بال بکھرے ہوئے تھے۔زمین پر بےبسی کی حالت میں پڑا ہوا یہ شخص کوئی اور نہیں تھا بلکہ اس کا اپنا باپ احمد تھا۔ احمد علی کو دیکھ کر فاطمہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ مگر ایک لمحے کے لیے اسے سکون اور اطمینان بھی ہوا۔ اس نے ہمت کر کے باپ کو سہارا دیتے ہوئے گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھایا۔ احمد علی کی حالت بہت زیادہ خراب تھی۔ مسلسل نشہ آور ادویات کے استعمال کی وجہ سے وہ کافی لاغر ہو گیا تھا۔ فاطمہ نے اسلم کی مشاورت سے احمد علی کو ہسپتال میں داخل کروایا۔ اسلم نے اس کے باپ کے مکمل علاج میں اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ فاطمہ کی محبت اور خلوص سے نہ صرف احمد علی جلدازجلد ٹھیک ہو گیا۔ بلکہ اسے اپنی تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کا احساس بھی ہو گیا۔ وہ اپنی کند ذہنیت پہ بہت زیادہ شرمندہ تھا۔ اور سب سے معافی کا طالب بھی۔۔۔۔۔۔!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ ثانیہ جو ڈرائنگ روم میں بیٹھی کتاب پڑھنے میں مشغول تھی۔ پھر اس نے اٹھ کر فون کا ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف فاطمہ تھی۔ سلام دعا کے بعد فاطمہ ثانیہ سے کچھ بات کرتی ہے ثانیہ ساری بات سننے کے بعد فون کا ریسیور رکھ دیتی ہے۔
“امی! باجی کا فون تھا۔۔۔۔وہ اور اسلم بھائی رات کو کھانے پر آ رہے ہیں۔۔۔۔”
ثانیہ نے پُرجوش انداز میں ماں کو بتایا۔
“اچھا! تو پھر میں بازار سے جا کر کچھ چیزیں لے آتی ہوں۔”
رضیہ فوراً سے چادر سنبھالتے ہوئے سرعت سے بولیں۔
“نہیں امی! باجی کہہ رہی تھیں آج ہم سب کھانا باہر کھائیں گے۔ آپ سب لوگ بس تیار رہنا۔”
ثانیہ نے ماں کو بہن کا پیغام سنایا تو وہ اچانک سے فکرمند ہو گئیں۔ چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“سب خیر تو ہے۔۔۔۔۔پہلے تو کبھی بھی فاطمہ نے باہر کھانا کھانے کا اصرار نہیں کیا۔ اللہ خیر ہی کرے۔”
وہ کافی مضطرب سی ہو گئی تھیں۔
“امی! پریشان نہ ہوں۔ سب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔باجی بہت زیادہ خوش تھیں۔”
ثانیہ نے ماں کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ سب ٹھیک ہے اور پریشان ہونے والی کوئی بات نہیں ہے۔ اسی دوران رمشا ڈرائنگ روم میں آتی ہے۔
“کیا ہو گیا ہے۔۔۔۔؟ آج خیر تو ہے امی کے ساتھ اتنا پیار جتایا جا رہا ہے۔ضرور کوئی فرمائش کرنی ہو گی۔”
وہ انگشتِ شہادت دکھاتے ہوئے ہنستے ہنستے بولی۔
“جی نہیں ۔۔۔۔۔! بلکہ تمہارے لیے بھی ایک خوشخبری ہے۔ ”
ثانیہ نے اپنے حق میں خود ہی گواہی دی کہ وہ ایسی نہیں ہے ساتھ ہی خوشخبری کی بات اسے بھی بتانے لگیں۔
“وہ کیا۔۔۔۔۔؟ جلدی بتاؤ۔۔۔۔۔۔؟”
اس نے بھی بےچینی سے پوچھا۔
“باجی اور اسلم بھائی آ رہے ہیں اور ہم رات کا کھانا باہر کھائیں گے۔”
“تم سچ کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔؟”
پُرجوش انداز میں اس نے پوچھا۔
“جی ہاں۔۔۔۔! اب اٹھو اور تیاری کرو جا کے۔۔۔۔۔۔۔!”
ثانیہ نے رمشا سے حکمیہ انداز میں کہا تو وہ دونوں خوشی خوشی رات کے حوالے سے سارے انتظامات کے بارے میں سوچنے لگیں۔ رضیہ اپنے بچوں کو دیکھ کر خوش ہو رہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثانیہ اور رمشا خوبصورت ملبوسات ذیب تن کیے ہوئے ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں۔ رضیہ مضرب کی نماز کے بعد ہاتھوں میں تسبیح لیے صوفے پر بیٹھی تھیں۔ دروازے پر بیل ہوئی۔ بیل کی آواز سنتے ہی رمشا خوشی سے اچھل پڑی۔ اور پُرجوش انداز میں بولی۔
“باجی آئی ہوں گی۔۔۔۔۔۔!”
ثانیہ فوراً سے اٹھی اور بولی۔
“میں دیکھتی ہوں۔۔۔۔۔۔”
ثانیہ کہتے ہوئے جلدی سے باہر گئی اور کچھ دیر کے بعد اندر آئی۔ ثانیہ کے ساتھ فاطمہ اور اسلم بھائی بھی تھے۔ فاطمہ اور اسلم نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک ساتھ رضیہ کو سلام کیا۔ رضیہ نے اٹھ کر بچوں کو گلے سے لگایا اور پیار کیا۔ وہ فاطمہ کے چہرے پر چھائی خوشی کو دیکھ کر بےحد خوش ہو گئی تھیں۔
“امی! اگر اچانک ابا آپ کے سامنے آ جائیں تو آپ کا ردِ عمل کیا ہو گا۔۔۔۔۔؟ ”
فاطمہ کے سوال نے سب کو ہی حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔
“یہ کیسا سوال ہے۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
رضیہ نے بیٹی سے اچنبھے سے پوچھا سب فاطمہ کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے۔
“امی! آپ شاید آج بہت زیادہ حیران ہوں گی وہ شخص جس نے کبھی آپ کو عزت نہیں دی۔ آپ کی بیٹیوں کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ بیٹے کی خواہش میں نشے کی لت کا عادی ہو گیا اور بالآخر ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔۔۔اگر وہ آپ سے معافی مانگے تو کیا آپ انہیں معاف کر دیں گی۔۔۔۔۔؟؟؟”
فاطمہ سنجیدگی سے پوچھ رہی تھی۔
“فاطمہ بیٹا۔۔۔۔! پہیلیاں نہ بھجواؤ۔۔۔۔۔بتاؤ کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔؟”
رضیہ نے فکرمندی سے پوچھا۔
“امی ایک سیکنڈ میں ابھی آتی ہوں۔۔۔۔۔۔!”
فاطمہ یہ کہتے ہوئے باہر چلی گئی اور کچھ توقف کے بعد آئی۔ احمد علی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے جب وہ دروازے کی دہلیز سے ڈرائنگ روم میں آتی ہے تو رضیہ حیران و ششدر رہ گئیں۔ اور حیرت سے کھڑی ہو جاتی ہیں۔ رضیہ کے ساتھ ثانیہ اور رمشا بھی اپنی نشستوں پر کھڑی ہو جاتی ہیں۔
“رضیہ! مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔مجھے معلوم ہے میں نے تمہیں کبھی کوئی خوشی نہیں دی۔ میں جہالت کے اندھیروں میں گرا ہوا تھا۔ لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میں نادم ہوں، مجھے معاف کر دو۔”
احمد نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ لیے اور اپنے کیے ہوئے ناروا سلوک پرشرمندہ ہوتے ہوئے معافی مانگنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سمندر تھا۔ فاطمہ اپنی ماں کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔رضیہ فاطمہ کی طرف دیکھتی ہیں۔ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ جیسے بےتحاشا سوالوں کے ندرمیان کھڑی ہوں۔ فاطمہ اثبات میں سر ہلاتی ہے۔ رضیہ کے چہرے پر طمانیت سے ایک تبسم بکھرتا ہے۔ وہ فوراً سے احمد علی کے قریب آتی ہیں اور معافی کے لیے جوڑے گئے ان کے دونوں ہاتھوں کو تھام لیتی ہیں۔ احمد علی کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں جاری تھیں۔ جسے رضیہ نے اپنے مخملیں گھریوں زدہ ہاتھوں کی پوروں میں جذب کر لیا۔ رضیہ کے چہرے پر چھائی مسکراہٹ اور خوشی دیکھ کر احمد علی بھی مسکرانے لگا۔ اسی اثناء میں رمشا جھٹ سے بولی۔
“میں سب کے لیے کولڈڈرنک لے کر آتی ہوں۔”
“نہیں! اس کی ضرورت نہیں ہے بس اب جلدی سے ڈنر کے لیے چلتے ہیں۔”
اسلم نے مسکراتے ہوئے سب کو کہا تو سب ہنسی خوشی ڈرائنگ روم سے باہر نکلے اور پورچ میں کھڑی اسلم کی گاڑی کے پاس آئے۔ اسلم نے فاطمہ کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم انداز میں مسکراتے ہوئے زندگی کے اس حسین پل کو جینے لگے۔ فاطمہ نے اپنی محنت، لگن ، مثبت سوچ سے اپنے خاندان کی قسمت کا ستارا بدل دیا۔ بیٹیوں سے نفرت کرنے والا باپ، گھر سے لاتعلق ہو جانے والا باپ آج فاطمہ کی محنت اور محبت کے باعث پُروقار زندگی گزار رہا ہے۔ آج فاطمہ کا گھرانہ ایک خوشحال گھرانہ ہے۔ زندگی کی تلخیوں سے گھبرا کر پیچھے ہٹنے والے لوگ کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ زندگی میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے حالات کا سامنا کرتے ہوئے ثابت قدم رہتے ہیں۔ فاطمہ کو اب اپنی زندگی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اس کے خیال میں اگر زندگی میں مشکلات و مصائب اور پریشانیاں نہ ہوں تو زندگی بےرنگ اور بےکیف ہے۔ خوشیکی اہمیت غم کی وجہ سے ہے۔ اگر زندگی میں غم نہ ہوں تو خوشیاں بےمعنی ہیں۔ علم ، محنت، لگن اور مشقت سے انسان اپنی تقدیر بدل سکتا ہے۔
فاطمہ نے تو اقبال کے ان اشعار کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔