آرٹیکل

تھامس ایڈیسن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

دلچسپ معلومات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

تحریر

حناء شاہد

آج میں آپ کے ساتھ ایک بہت ہی دلچسپ معلومات شئیر کرنے جا رہی ہوں بلاشبہ تھامس ایڈیسن کے نام سے ساری دنیا ہی واقف ہو گی۔ تھامس ایڈیسن بیشک کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔

تھامس ایڈہیسن کا پورا نام تھامس ایلوا ایڈیسن تھا۔ آپ ایک امریکی سائنسدان اور موجد تھے۔ موجد بہت ساری ایجادات کرنے والے کو کہتے ہیں۔ تھامس ریاست اوہائیو کے ایک گاؤں میلان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والدیں بے حد غریب تھے۔ لہذا تھامس نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر پہ ہی حاصل کی۔ تھامس کی کاوشوں کی داستاں اتنی طویل ہے کہ اگر اسے لفظوں میں بیان کیا جائے تو شاید کاغذ کم پڑ جائیں لیکن اس عظیم الشان انسان کی جہدِ مسلسل کی داستان ختم نہ ہو پائے۔ تھامس جب بارہ سال کے ہوئے تو انہوں نے ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام شروع کر دیا۔ زمانے کا ستم تو دیکھیے ریل گاڑی میں تمباکونوشی کے چھوٹے سے ڈبے میں انہیں تھوڑی سی جگہ دی گئی تھی جہاں پہ وہ اپنا کام کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا پتنٹنگ پریس لگا لیا۔ اور اسی جگہ سے انہوں نے اپنا اخبار چھاپنا شروع کر دیا۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اسی پرنٹنگ پریس کے ایک کونے میں انہوں نے ایک کیمیاوی تجربہ گاہ بنا رکھی تھی۔ جہاں وہ مختلف تجربات بھی کیا کرتے تھے۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ تار برقی کا کام سیکھ کر وہ ڈاک خانے میں ملازم ہو گئے۔ اسی ڈاک خانے میں انہوں نے آٹومیٹک ٹیلی گراف کے لئیے ٹرانسمیٹر ریسیور ایجاد کیا۔ اسی اثناء میں انہوں نے اور بھی کئی ایجادات کیں۔ جن سے انہیں اچھی خاصی آمدنی آنی شروع ہو گئی۔ ان ایجادات سے حاصل ہونے والی آمدنی سے انہوں نے نیو جرسی میں ایک تجربہ گاہ اور ورکشاپ قائم کر لی۔

تھامس ایڈیسن کی ایجادات کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے۔ جن میں فونوگراف جو آگے چل کر گراموفون کی شکل اختیار کر گئی۔ ، بجلی کا قمقمہ، میگا فون، اور سینیما مشین وغیرہ قابلِ دید ہیں۔ اس کے علاوہ 1915 میں اس عظیم ہستی کو نوبل پرائز سے بھی نوازا گیا۔

بلاشبہ تھامس ایڈیسن کی شخصیت کسی بھی تعارف کمی محتاج نہیں ہے۔ لیکن شاید تھامس ایڈیسن کے بارے میں ایک بات بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔ وہ یہ کہ تھامس کو ایک دن اس کے پرنسپل نے ایک لفافہ دیا اور اس سے کہا کہ یہ لفافہ اپنی والدہ کو جا کے دے دینا اور کل سے سکول آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس نے بالکل ایسا ہی کیا اس نے وہ لفافہ لیا اور گھر آ کر اپنی ماں کو دے دیا۔ ماں نے اس لفافے کو کھولا اور پڑھا تو غمزدہ ہو گئی اس نے تھامس ایڈیسن کی جانب دیکھا لفافہ سائیڈ پہ رکھا اور مسکرا کر بولی۔

اس میں تمہارے پرنسپل نے لکھا ہے کہ آپ کا بیٹھا تھامس ایڈیسن بہت قابل ہے اتنا قابل کہ ہمارا ادارہ ایسے ذہین و فطین طالبعلم کو بالکل بھی نہیں پڑھا سکتا۔ سو آپ سے گزارش ہے آپ اپنے بیٹے کو گھر میں خود پڑھائیں ۔ اور ایسا ہی ہوا۔ تھامس نیکسٹ ڈے سے سکول نہیں گیا۔ بلکہ اس کی ماں نے اس کو خود پڑھایا ۔ اور آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا اور ایک دن جب تھامس اس قابل ہو گیا کہ وہ چیہزوں کو خود سمجھ سکے تو اس نے اپنے گھر میں جو ایک چھوٹی سی لائبریری تھی۔ وہاں کوئی کتاب ڈھونڈ رہا تھا وہ ۔ سو اس کے ہاتھے وہ کتاب لگ گئی۔ اس کتاب کے چند صفحوں کے بعد ایک پیپر جھٹ سے زمین پہ گرا۔ اس نے وہ پیپر اٹھایا اسے کھولا تو اس پہ ایک تحریر درج تھی۔ تھامس جیسے جیسے اس تحریر کو پڑھتا گیا اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے گئے۔ اور پتا ہے اس تحریر میں کیا لکھا تھا۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ کا بیٹھا تھامس بے حد نالائق ، کند ذہن ہے وہ کبھی بھی پڑھ لکھ نہیں سکتا اور کبھی بھی اپنی زندگی میں کسی مقام پہ نہیں پہنچ سکے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔! لہذا ہم اسے سکول سے نکال رہے ہیں۔

یہاں یہ بات قابلِ غور ہے ایک سکول سے خارج کیا ہوا تھامس ایڈیسن جس نے اپنی قابلیت کے جوہر دکھاتے ہوئے 1249 ایجادات کیں جسے یہ ساری دنیا تھامس ایڈیسن کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ وہ کیسے اتنی ساری ایجادات کا خالق بن گیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ اتنا قابل کہ لوگ آج بھی اس کی قابلیت کا ڈنکا بجاتے ہیں تو ریڈردز اس سوال کا سمپل سا جواب یہ ہے کہ آپ کے الفاظ یا تو نسلوں کو سنوار دیتے ہیں یا پھر کئی نسلوں کو اجاڑ دیتے ہیں۔ جہاں تھامس کے پرنسپل کو اس بچے کا ذہن کند لگ رہا تھا وہیں تھامس کی ماں کو پتا تھا ایک دن یہ کند ذہن اور مشکل سے باتوں کو سمجھنے والا بچہ بہت مشکل مشکل کام آسانی کے ساتھ کر جائے گا۔ سو اس نے خود اس کو پڑھانے کی ذمےداری اٹھائی لیکن اپنے بچے کو مینٹلی سٹرونگ بناتے ہوئے اس نے اس کی تعلیم تربیت کی۔ اور ایک ایسا بہترین انسان دنیا کو بخشا کہ رہتی دنیا تک اس کا نام زندہ و جاوید رہے گا۔

یہ بہت معمولی سی بات ہے لیکن اگر سوچا جائے تو یہی بات آپ کی زندگی یا تو بنا دے گی یا برباد کر دے گی۔ سواپنے الفاظ کا استعمال اس طرح کریں کہ لوگ آپ کے لفظوں کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں کسی مقام پہ کھڑے ہوں ۔ الللہ ہمیں ایسا اچھا انسان بنننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

آرتیکل کیسا لگا۔ کمنٹس میں ضرور بتائیے گا۔ آپ سب کے کمنٹس کا شدت سے انتظار رہے گا۔

دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

طالبِ دعا

حناء شاہد

Hina Shahid

I am an Urdu novel writer, passionate about it, and writing novels for several years, and have written a lot of good novels. short story book Rushkey Hina and most romantic and popular novel Khumarey Jann. Mera naseb ho tum romantic novel and lot of short stories write this

Related Articles

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button