عشق یار از قلم بلوچ رائٹس قسط نمبر 3 مکمل | رومینٹک ناول | #نمرہ احمد
عشق یار قسط نمبر 3 | #خمار جاں
ناول_عشقِ یار
از قلم بلوچ رائٹس
قسط نمبر3
Posted On: Hina Shahid Official
Category: Romantic Novel
Welcome to Hina Shahid Official – A Poetic Haven:
Embark on a journey into the eloquent world of poetry and insightful articles at Hina Shahid Official. This digital sanctuary is dedicated to weaving words into emotions, offering a collection of poignant verses and thought-provoking articles.
Immerse yourself in the enchanting realm of poetry, where emotions dance gracefully across verses, painting vivid pictures with the strokes of words. Explore our articles, each a narrative crafted to inspire contemplation and reflection.
At Hina Shahid Official, we transcend the ordinary, embracing the beauty of language to create a space that resonates with lovers of poetry and seekers of profound insights. Join us in this literary adventure, where every line is a whisper of the soul, and every article a captivating exploration of life’s intricacies.
Indulge in the magic of words, where poetry and articles converge to offer a unique and enriching experience. Welcome to Hina Shahid Official – where literature comes alive in verse and prose.
خوش آمدید ہے حناء شاہد آفیشل – ایک شاعرانہ معاصر:
حناء شاہد آفیشل پر خیالات بھرے شاعری اور فہم سے بھرپور مضامین کی دنیا میں سفر کریں۔ یہ ڈیجیٹل مقدس جگہ الفاظ کو جذبات میں بنانے میں مصرف ہے، جو دلچسپ غزلیات اور دلچسپ مضامین کا مجموعہ فراہم کرتا ہے۔
اپنے آپ کو شاعری کے حسین باغ میں سیر کروائیں، جہاں جذبات کسی بھی بلندی تک لذت سے چھلے جاتے ہیں، الفاظ کی مہارتوں کے زیر اثر رنگین تصاویر کو چھپاتے ہیں۔ ہمارے مضامین کا کھلم کھلا مطالعہ کریں، ہر ایک ایک قصہ وہی ہے جو خیالات کو بھڑکانے اور تفکر میں مبتلا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
حناء شاہد آفیشل پر، ہم عام سے باہر جاتے ہیں، زبان کی خوبصورتی کو قبول کرتے ہیں تاکہ ایک جگہ پیدا ہوسکے جو شاعری کے دلداروں اور عمق کی تلاشوں سے گونجتی ہے۔ ہمارے ساتھ مل کر اس ادبی سفر میں شامل ہوں، جہاں ہر لائن روح میں رچ بس جاتی ہے، اور ہر مضمون زندگی کی پیچیدگیوں کی دلچسپ خصوصیات سے بھرا ہوا ہے۔
الفاظ کے جادو کا لطف اٹھائیں، جہاں شاعری اور مضامین ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں تاکہ ایک مختلف اور ثریاتی تجربے کا حصہ بن سکیں۔
خوش آمدید ! حناءشاہد آفیشل
جہاں ادب حقیقت اور مصرعے میں زندگی کو پا لینے کا جذبہ فراہم کرتا ہے۔
Hina Shahid Official start a journey for all social media writers to publish their writes. Welcome to all Writers , test your writing abilities. They write romantic novels, forced marriage , hero police officer based urdu novels, very romantic urdu novels, full romantic urdu novels, urdu novels, best romantic urdu novels, full hot romantic urdu novels, famous urdu novels, romantic urdu novels list, romantic Urdu Novels of all, Best Urdu Romantic Novels.
ناول : عشق یار
از قلم : بلوچ رائٹس
قسط نمبر : 3
is available here to online reading.
Give your feedback Plz✍️❣️👇👇
ان سب ویب بلاگ، یوٹیوب چینل، اور ایپ والوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس ناول کو چوری کر کے پوسٹ کرنے سے باز رہیں ورنہ ادارہ حناء شاہد آفیشیل اور رائیٹرز ان کے خلاف ہر طرح کی قانونی کاروائی کرنے کے مجاز ہوں گے۔
Copyright Reserved By Hina Shahid Official
ناول پڑھنے کے بعد ویب کومنٹ بوکس میں اپنا تبصرہ پوسٹ کریں اور بتائیں کہ آپ کو یہ ناول کیسا لگا اور حناء شاہد آفیشیل کی یہ کاوش کتنی پسند آئی ہے ؟ شکریہ۔ آپ کے کمنٹس کا شدت سے انتظار رہے گا ۔
Note: All copyrights are reserved by Hina Shahid Official. So don’t reupload my meterial on any other Platform. If Anyone will try to use my content Then They will face a strike in that case.
We are Constantly working hard on making the www.hinashahidofficial.com website Better & more entertaining for you. we need your constant support to get going. Please feel free to comment box for any queries / Suggestions / problems or if you just want to say hi. we would love to hear from you. if you have enjoyed the Poetry Articles & Romantic Novel’s please don’t forget to like , share & comment’s.
___________
Disclaimer: This website does not promote or encourage any illegal activities . All the contents provided by this website ; www.hinashahidofficial.com
Is meant for educational perpose only.
______________
justpoetry,
justpoetry,
UrduShairy,
BestUrduPoetry,
BestUrdupoetryCollection,
ناول : عشق یار
از قلم : حناء شاہد
قسط نمبر : 3
رائد بھائی مجھے بات کرنی ہے ۔ عین اُس کو باہر جاتا دیکھ اُس کے پاس آئی ۔
بولو کیا بات ہے۔ رائد اُس کی جانب رخ کرکے کھڑا ہوگیا ۔
مجھے سالار کی کمپنی میں جاب کرنی ہے ۔ ڈگری مکمل ہوگئی ہے تو گھر اکیلے بیٹھ کر کیا کروں گی۔ عین اُسکے چہرے پر جذبات کھوجنے لگتی ہے ۔
ٹھیک ہے ، واپسی پر بات کرتے ہیں ۔ وہ کہتا جانے لگا ۔
عین بھی اندر آگئی۔ ۔
کائرہ ۔۔ حدیقہ اُس کے پاس آئی ۔
ھوں ۔۔ اُس نے اُسے دیکھے بغیر جواب دیا ۔
تُم کیوں باتیں بھول نہی جاتی ۔ اُن کو یاد رکھنے سے تکلیف کے سوا کچھ نی ملتا۔۔۔سب بھول جانا ہی بہتر ہے اب دارق تمھارا شوہر ہے اس حقیقت کو کب تک جھٹلاؤ گی۔ ابھی وہ برداشت کررہا ہے ورنہ اُسے کون روک سکتا ہے ۔۔حدیقہ کہتی اٹھ اور چلی گئی ۔
جب کے وہ وہیں بیٹھی رہی ۔۔ ۔۔
بھابی کیا ہوگا اب ۔ کائرہ ضد کرکے بیٹھی ہے ۔نہ کچھ سن رہی ہے نہ سمجھ رہی ہے ۔ جو ہوگیا وہ بدلہ تو نی جا سکتا نہ ۔ ۔اسماء کب سے کائرہ کو لے کر پریشان تھی ۔ ۔
میںنے دری اور سالار کو ایک جوٹھ پالا ہے ۔ میں کیسے سالار کو بھول کر دری کی خوشیاں۔ مانگوں ۔ کیسے دری کو چھوڑ کر سالار کی یادوں کا ساتھ دوں۔ میں سمجھ نی پا رہی کیا ہورہاہے۔ جب ابھی تک میں سب برداشت نی کر سکی تو کائرہ سے کیا شکوہ ۔۔
اسماء اُسے دیکھ کر رہ گئی ۔۔
قندیل ، سمن اور ایشان اور عاتق ایک صوفے پر جب کے دوسرے پر عشنا ،زرین اور عثمان بیٹھے تھے ۔
اُن سب کی نظریں سامنے بیٹھے رائد پر تھی ۔
بولو ۔ کب سے آئے ہو نکاح نامہ کدھر ہے ۔
یہ رہا۔ دیکھ لے ۔ رائد نے ایک فائل اُن کی جانب بڑھائی ۔
قندیل اور سمن ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے ۔۔
جب کے عثمان صاحب فائل دیکھنے میں مصروف تھے ۔
عثمان بتاؤ یے لڑکا سچ کہہ رہا ہے ۔ زرین نے پوچھا ۔اُنہوں نے اُس کی جانب دیکھا ۔
بولے نہ بابا ۔۔یہ نکاح نامہ ہی ہے ۔ دکھائیں مجھے۔ عشنا اُن کے ہاتھ سے فائل پکڑتی ہے ۔
ابھی عشنا آدھا ہی پڑتی ہے کے بیہوش ہو جاتی ہے ۔
عشنا عشنا ۔۔۔آنکھیں کھولو ۔۔ بیٹا ۔۔ سلیم گاڑی نکالو ۔۔ اور تُم نکلو اپنی بیوی کو لے کر یہاں سے ۔
ہن ۔۔ عاتق کہتا وہاں سے نکل چکا تھا ۔ جب کے اُس کے پیچھے عشنا کو بھی لیکر ہاسپٹل گئے ۔۔
بیٹھو ۔ عاتق نے کب سے دور کھڑی قندیل ، ایشان اور سمن کو کہا ، جب کے رائد کا چکا تھا ۔
ہن ۔ تُم نے نکاح نامہ کیسے بنوایا اور سگنیچر کہاں سے لیے ۔ کیسے ہوا سب ۔ قندیل سوالوں سے اُلجھتی پوچھ بیٹھی ۔
بیٹھو گاڑی میں بتاتا ھوں۔ وہ کہتا اسٹیئرنگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔
اب بتاؤ ۔ قندیل نے بیٹھتے ہے سوال پھر سے کیا ۔
نکاح نامہ نکلی ہے رائد نے بنوایا ہے میرے کہنے پر ۔ جب میں آیا تھا مجھے لگا کہ تمھارا باپ مجھے ایسے تمہیں لے جانے نہیں دے گا ۔ تو اس میں نے رائد کو میسیج کر دیا اور سائن وہاں سے لیے اُس نے تمہارے جب ہماری دوستی ہورہی تھی ہم نے ایک ایگریمنٹ سائن کیا تھا۔ وہ بتاتا آخری بات پر ہنسا ۔
قندیل جو اُس کو سن رہی تھی اُس کو ہنستا دیکھ اُس کی ہنسی میں کھو گئی ۔
کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو پتہ ہے پیارا ہوں ۔ اُس نے یکٹک خود کو دیکھتے پایا تو بولا ۔
خوش فہمی اچھی ہے مگر تُم پر نہی جچی ۔۔ وہ کہتی باہر دیکھنے لگی ۔
ڈاکٹر ڈاکٹر ،،، عثمان غصے سے چلاتا عشنا کو سٹریچر پر ڈالے بھاگ رہا تھا ۔
سر آپ رکے ہمیں چیک کرنے دیں ۔ ڈاکٹر نے آتے ہی اُنہیں باہر روک دیا۔
مان ،،، ٹھیک تو ہوجائے گی نا ؟؟؟ زرین نے پریشانی سے عثمان دو دیکھتے اُن سے سوال کیا۔
ہاں انشاءاللہ ،، تُم دعا کرو۔ میں آتا ھوں ۔ وہ کہتے باہر نکل گئے۔
گاڑی گھر کے مین گیٹ کے سامنے رکی ۔
یہ تمھارا گھر ہے ؟؟ قندیل نے گھر کو دیکھتے سوال کیا۔
ہاں ۔ اب حالات ایسے نہی ہیں کہ تُمہیں وہاں ہاسٹل میں چھوڑوں ، اور سمن کے گھر تُم جا نہیں سکتی تو یہیں ایک حل ہے اور پریشان نہ ہو گھر میں اور لوگ ہیں ۔ جو بھی مسلہ ہو مجھے بتا دینا ۔
وہ اُسے سمجھانے میں اس قدر مصروف تھا اسے دروازہ کھلنے کا علم ہی نہیں ہوا۔ اس نے گاڑی پورچ میں داخل کی ۔
دارق،،،، یہ لو چائے ، اسماء بیگم نے چائے اُس کی جانب کی ۔
نہیں پھوپو جان اس کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں ٹھیک ہوں ۔ وہ کہتا اندر چلا گیا۔
السلامُ علیکم !!!،، کیسے ہیں آپ سب ؟؟؟؟
عاتق نے اندر آتے سلام کیا ۔
جواب ملنے پر وہ صوفے پر بیٹھ گیا ۔
قندیل ! ایشو ! آؤ بیٹھو۔
اس کے کہنے پے سب اُس جانب متوجہ ہوئے۔
قندیل اُس کے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی جب کے ایشان اُس کے ساتھ بیٹھا تھا۔
بابا مجھے بات کرنی ہے آپ لوگوں سے ۔ عاتق نے سامنے بیٹھے دلاور صاحب کو مخاطب کیا۔
بولو ہم سن رہے ہیں ۔۔جواب لمحے بعد آیا۔
یہ قندیل ہے اور یہ ایشان ،،، یہ کچھ دن یہاں رہیں گے پھر چلے جائیں گے ۔
ٹھیک ہے ، نور ملازمہ سے کہہ کر کمرے صاف کروا دیں ۔ دلاور نے اُسے کہتے نور کو مخاطب کیا ۔
بابا آپ یہ نہیں پوچھیں گے کہ کون ہیں یہ ؟ اور کیا کرنے آئے ہیں ؟ عاتق اب بھی الجھن کا شکار تھا ۔
دیکھو ، عاتق میرے سوال کرنے سے کیا ہوگا ۔ تمہیں واپس چھوڑ آؤ گے ۔ نہیں نہ ، اور اگر لے کے آئے ہو تو مطلب اور کوئی آپشن نہی ہوگا تمہارے پاس تو اسلئے تعارف ہوگیا بہت ہے وجہ جاننا میرے لیے ضروری نہی ہے ۔ وہ جانے لگے جب عاتق اُن کے سامنے آیا ۔
ایک دفعہ جان لیں ۔ عاتق اپنی ضد پر قائم تھا ۔
ٹھیک ہے بولو ،،
اس نے ساری کہانی لفظوں میں بیان کی ۔
اور کچھ رہتا ہے یا بس ۔ دلاور نے اُس کے چپ ہونے پر پوچھا ۔
نہی بس یہی ہے۔ اُس نے نفی میں سر ہلاتے جواب دیا۔
تمہیں پتہ ہے اگر اُسے حقیقت معلوم ہوگئی تو ہراسمنٹ کے کیس میں اندر جاؤ گے تُم ، ابھی وہ پریشان تھا اس لیے کچھ نہی کیا لیکن عنقریب ایک طوفان کو جھیلنا ہوگا تمہیں ۔۔ دلاور نے اُس کی باتیں سننے کے بعد اُسّے سمجھانے کے انداز میں کہا۔ ۔۔
آپ ساتھ دیں گے تو سب کرلوں گا ۔ عاتق اُن کے قدموں میں بیٹھا تھا ۔
اٹھو اوپر جوان اولاد پیروں میں اچھی نہی لگتی ۔ مُجھ سے جو ہوا کروں گا ۔ وہ کہتے جا چکے تھے ۔
اُن کی سب سے ملاقات ہوگئی تھی ،لیکن دارق ، کائرہ اور عین سے نہی ہوئی تھی ۔
کھانا کھائیں بیٹا ایسے کیوں ہچکچا رہیں ہیں ۔ اسماء نے قندیل کو نہ کھاتے دیکھ کر کہا۔
نہیں آنٹی میں اُس سے زیادہ نہیں کھا سکتی ۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ آنٹی مت بولو آتی کی طرح پھوپو کہو ۔
جی آنٹی ۔۔۔ سوری پھوپو ۔۔۔
ہممم ، اب لگی نہ اپنی اپنی ۔۔۔
عین آؤ کھانا کھا لو بیٹا۔ پاس سے گزرتی عین کو اسماء نے بلایا۔
سب نے اُس جانب دیکھا جو کہیں سے بھی پہلے جیسی نہی تھی ۔
بھوک نہی ہے پھوپو ،،،وہ جانے لگی۔
عین آجاؤ ۔ کائرہ نے آتے ہی اُس کو پکڑ کر بٹھایا ،،
کائرہ نہ کرو نہ بھوک نہیں ہے ،، وہ بیزاری سے کہنے لگی۔
بھوک کی ایسی کی تیسی ، ہم تو کھائیں گے ۔۔ چلو بھئی دو ادھ دير کھانا ۔ اُس نے زبردستی عین کو کھانا کھلا دیا۔
قندیل باہر بیٹھی تھی جب اُس نے ہارن کی آواز سنی ۔
اس نے آواز کی سمت دیکھا ۔
دارق بے دھیانی میں آگے نکل گیا ۔
قندیل اُس کو دیکھ کر سوچ میں ڈوب گئی ایک وہی تھا جس سے تعارف نہی ہوا تھا۔
رائد بھائی میںنے صبح آپ سے کچھ کہا تھا۔
ہاں کام ہے تو سہی اور اچھا بھی ہے کرو گی ۔
کیسا کام ۔۔۔
تمہاری فردر اسٹڈی ، میںنے لندن کا ویزہ لگوا دیا ہے تمھارا ، ایڈمیشن ہوگیا ہے ۔ تُم آگے پڑھو گی ۔۔
مگر میں نے کچھ اور ۔۔۔
تُم نے جو بھی کہا تھا ، معنی نہی رکھتا ، اگر سالار بھائی ہوتے تب وہ بھی ایسا کچھ نہ کرنے دیتے تمہیں ۔۔
وہ ہوتے تو نوبت ہی نہ آتی ۔۔۔
مگر اب میں کہہ رہا ہوں نہ میری بے مان لو یہاں سے دور چلی جاؤ فلہال ، جب واپس آؤ گی تب سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔۔
بھائی آپ مجھے یادوں سے دور بھیج رہے ہیں جب کے یادیں تو سینے میں دفن ہوتی ہیں نہ ، روح میں بسی ، بس نس میں دوڑتی ہیں ۔۔پھر کیسے دور جانے پے سب ٹھیک ہوجائے ۔۔
تُم جاؤ تو سہی واپسی پر نئی عین سے ملاقات ہوگی میری ایسا یقین ہے مجھے ۔۔
چلیں آپ کی بات بھی مان لیتی ہوں ۔۔
ہممم گڈ گرل ۔۔۔جاؤ ۔۔۔
قندیل کیا سوچ رہی ہو ۔۔ کب سے دیکھ رہی ہوں کھوئی کھوئی سی ہو ۔۔
کچھ نہی سمن ۔ بس واپس جانا ہے ۔۔۔
تمہیں ایک دفعہ کی بات سمجھ نہیں آتی ۔
عاتق ایک دن تو جانا ہی ہے نہ تو آج یا کل کیوں نہی ۔۔
تمہارے پیارے اور عزت دار باپ نے نہ تمھارے ہاسٹل کے باہر نہ لوگ کھڑے کیے ہوئے ہیں ۔وہیں سے آرہا ھوں اور کہاں جاؤ گی ۔۔۔
مگر یہاں تو کوئی بلاتا ہی نہی ہے مجھے ، میں کس سے بات کروں ایسا لگتا ہے سب خوش نہی ہیں میرے اور ایشو کے آنے سے ۔
ایسا کسی نے کہا ہے ۔۔
نہیں ۔۔۔ مگر لگا مجھے ۔۔ سب ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے مصروف ہوں ۔۔اور بات نہ کرنی ہو ۔۔
تمہیں بلکل سہی لگا ، سب مصروف ہونے کا ڈھونگ ہی کررہے ہیں ، یہاں کوئی خوش نہی ہے مگر تم لوگوں کے آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ میرے بھائی کے جانے کے بعد سے سب ایسے ہی ہیں ۔ اور تُم بات کرو تو کوئی بات کرے نہ ایسے ہی کوئی بات نہیں کرے گا ۔۔۔
پھر بھی ۔۔کوئی تو ۔۔
تمہیں کس سے بات کرنی ہے کس کا رویہ سمجھ نہی آرہا یا پریشان کررہا ہے ۔۔۔۔
ایک تمھارا وہ کزن جو ایس پی ہے ، اور عین اور کائرہ ،،،،
تُم دارق بھائی کی بات کررہی ہو ۔
وہ ایسے ہی ہیں ، وہ پہلے بھی صرف سالار بھائی سے فریلی بات کرتے تھے ، ان کے جانے کے بعد سب کا دارق بھائی کو اُن کی موت کی وجہ سمجھنا ،، اُنہیں مزید خاموش کرگیا ۔۔اور رہی عین اور کائرہ کی بات تو تُم اُن سے بات کرو وہ بات کریں گی تُم سے ۔۔اور ایشو کہاں ہے ۔۔۔
سو رہا ہے ۔۔
ہمم میں بھی تھک چکا ہوں تھوڑا آرام کروں گا ۔۔۔
السلامُ علیکم!!
بات ہوسکتی ہے ؟؟؟
عین نے اُسے دیکھا ۔۔اور تھوڑا سائڈ پر ہوگئی ۔۔
مائنڈ نہ کرو تو عین ایک بات پوچھوں ؟؟
پوچھیں …
ہائے ۔۔مجھے آج تک اتنی عزت کسی نے نہیں دی تُم بھی مت دو ہنسی آجائے گی مجھے …
کیوں آپ اپنے آپ کو عزت کے قابل نہی سمجھتی کیا ؟؟؟
جواب لا جواب کردینے والا تھا ۔
ارے ایسی بات نہی ہے بس مجھے لگتا ہے دوستوں میں ایسے عزت نہیں دیتے نہ بس اس لیے کہا ۔۔
جب دوست ہی آپکی عزت نہ کرسکے تو دوست کیسا ، اور عزت دے کر بھی رشتہِ گہرا ہو سکتا ہے ۔ میرے نزدیک یہ دوستی تب گہری ہوتی ہے جب دوست عزت نہ کرتے ہوں ، والا فلسفہ بے معنی ہے ۔۔۔
یہ تو ہے ،، تُم تو اتنی اچھی باتیں کرتی ہو ، تو خاموش کیوں رہتی ہو ؟؟
جس نے یہ فلسفے سکھائے وہ سننے کیلئے رہا ہی نہیں ۔۔۔
ضروری تو نہیں کوئی چلا جائے تو انسان بولنا چھوڑ دے ۔۔۔آس پاس اور بھی بہت لوگ ہیں باتیں کرنے کیلئے ۔۔۔
اگر اور لوگوں سے مراد آپکی خود کی ذات ہے تو معافی چاہتی ہُوں سچ بولنے کیلئے ،، آپ کی باتیں آپ کا لہجہ ،، سالار کے لبو لہجے سے میل نہیں کھاتا ،، نہ آپکی گفتگو نہ آپ کی باتیں ،، نہ آپکا انداز کچھ بھی سالار جیسا نہیں ہے ،،، تو کیا بات کریں ہم ۔۔۔
جدائیوں کے راستے تو بہت طویل ہوتے ہیں، جانے والے کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ سراب کے پیچھے بھاگنا بیوقوفی ہے ۔۔۔
اس آن میں جیے جانا کے وہ لوٹ آئے گے ہمیں دوبارہ ملے گے ،، پھر سے ہمارا نصیب بنے گے۔ احساس ہی کتنا پرسکون ہے نہ ۔۔۔
جو اس نے ملنا ہی ہوتا تو بچھڑتا ہی کیوں ؟اگر تم تنہا ہو اور وقت کے دل شکن لمحات تمہارے محسوسات کو پامال کر رہے ہیں تو کیا ہوا؟ تُم جیے جاؤ اس سراب میں کے کوئی لوٹے گا اور تنہائی میں بیٹھی رہو۔
اس دنیا میں اکیلے آئے ہیں اور اکیلے ہی جائیں گے ۔جب قدرت نے ہمیں اکیلا ہی تخلیق کیا ہے تو پھر تنہائی سے کیا گھبرانا….؟
تُم پاگل ہوجاؤ گی ایسے رہتے رہتے ۔۔۔
پاگل ہوجانے میں کسر باقی ہے کیا ؟؟؟
بدنام ہوجاؤ گی ابھی زندگی پڑی ہے تمھارے آگے ۔۔۔
بدنام ہوئی تو گمنام ہوجاؤں گی ،، کہیں جا کر فنا ہوجاؤں گی ۔ بے نشاں ہوجاؤں گی ۔۔۔
میں نے عین کا لندن کا ویزہ لگوا دیا ہے ، وہ آگے پڑھنے کیلئے لندن جا رہی ہے پرسوں کی فلائٹ ہے اُسکی ۔
سب لمحے کو ساکت ہوئے تھے ۔
مگر اتنی دور اکیلے ،، نور بیگم نے خدشہ ظاہر کیا ۔۔۔
تائی جان میں جانتا ہوں دور ہے لیکن فلهال اُس کا دور جانا ہی بہتر ہے اُس کی آگے زندگی پڑی ہے کب تک یونہی رہے گی اُسے زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے کوئی وجہ چاہیے ،، جب وہ مل جائے گی مجھے یقین ہے وہ ٹھیک ہوجائے گی ۔۔۔
وہ سب تو ٹھیک ہے مگر اتنی دور رہے گی کیسے ۔۔۔
آپ فکر نہ کریں میںنے اپنے ایک دوست سے بات کی ہے وہاں اُسکی فیملی رہتی ہے اُسے کوئی پروبلم نہیں ہے عین کے وہاں رہنے سے ۔۔۔
۔
اور عین ۔۔وہ رہ لے گی ۔۔۔
عین جن حالات سے گزر رہی ہے اُس کا جانا ہی بہتر ہے اور وہ کچھ نہی کہے گی ۔
ٹھیک ہے تُم نے اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا ۔۔
جی تائی جان ۔۔۔
قندیل تمہاری بھی اسٹڈی کمپلیٹ ہوگئی ہے تو تُم نے کیا سوچا ہے ؟؟ رائد نے اُسکی جانب دیکھا ۔۔
میں نے میڈیکل کی فردر اسٹڈی کیلئے جانا تھا ،، مگر ویزا بابا نے ریجیکٹ کروا دیا ہے ۔۔۔
عجیب انسان ہے نہ بیٹی کی پروا ہے نہ اُس کو سکون سے رہنے دینا ہے ۔
کیا کر سکتے ہیں انکل ،
صاحب جی یہ نوٹس دارق صاحب کے نام پر آیا ہے ۔۔
دارق اندر ہے اُسے بلا کر لاؤ ۔دلاور صاحب کے کہنے پر حدیقہ بلانے گئی ۔۔
السلامُ علیکم بھائی!!
دارق جو فریش ہوکر ابھی باہر آیا تھا اُسے دیکھ کر فوراً شرٹ کی طرف لپکا ۔۔
گڑیا دیکھ کر آیا کرو ۔۔اور بولو کیا کہنا ہے ۔وہ شرٹ پہن کر اُس کی جانب آیا ۔
بھائی وہ آپکے لئے کوئی کورٹ کا نوٹس آیا ہے بڑے بابا آپ کو بولا رہے ہیں۔
میرے لیے ؟؟ اُس نے حیرت سے پوچھا ۔۔
اچھا آتا ہُوں ۔۔۔ وہ کہتا موبائل اٹھاتا نیچے آگیا ۔۔
۔
کدھر ہے نوٹس ،،،
اس کی آواز میں ایک سحر تھا لمحے بھر کو قندیل جس نے پہلی بار اُسکی آواز سنی تو کھو گئی ۔
یہ لیں صاحب جی ۔۔
وہ نوٹس کو جیسے جیسے پڑھتے گیا اُس کے حواس کھونے سے لگے ۔۔۔
آپ قندیل ہیں ؟؟
وہ قندیل تک آیا کیونکہ باقی تو گھر والے ہی تھے ،
ججججی،،،
اور رائد تُم اتنے بڑے ہوگئے ہو کے جعلی نکاح نامے بنوا لو ۔
بببھائی وہ ۔۔۔
اور عاتق تُم ایک دفعہ پوچھ لیتے ،، اور زیادہ نہ سہی اس گھر کا فرد ہی ھوں میں ،،،
بھائی وہ حالات ایسے ہوگئے تھے کہ ۔۔۔
حالات کا رونا مت رویا کرو میرے سامنے ۔۔ہر چیز کا حل ہوتا ہے ،، غیر قانونی طور پر نکاح نامے بنوا لیا ، پوچھنا تک گوارہ نہی کیا ۔۔۔
دری آرام سے بیٹھ کر بات کرو ، جو ہونا تھا ہوگیا بدل نہی سکتا تو چیخنے چلانے کی ضرورت نہی ہے ۔
نوٹس میں پتہ کیا لکھا ہے ،،
اس میں لکھا ہے یہ نکاح نامہ نکلی ہے اور اس میں ملوث اس گھر کا ہر فرد ہے ، سب کو کم سے کم بھی 3 سال کی قید ہوگی جرمانہ الگ سے ۔۔اور کورٹ میں اس کا معائنہ کروایا جائے گا اگر نکاح نامہ نکلی ہوا میری نوکری چلی جائے گی کے ایس پی ہوکر غیر قانونی طور پر نکاح نامہ بنوایا ہے ۔۔
اس چیز کا ایک ہی حل ہے آج ابھی نکاح کرو تُم دونوں تاکہ کورٹ کی ہیرنگ میں ریئل نکاح نامہ بھیجا جائے ،، وہ کہتا باہر نکل گیا ۔ ۔۔
بابا اب کیا کریں ،،
آپ نے پہلے مُجھ سے پوچھ کر کیا تھا سب ،، جائیں اب بھی کریں جو کرنا ہے ۔۔۔
قندیل جب کے اب تک دارق کے الفاظ میں گن بیٹھی تھی ۔۔۔
لمحے بعد سب اُس کی جانب متوجہ ہوئے ۔۔
بیٹا آپ کیا چاہتے ہیں اب ،
انکل میں نکاح کیلئے تیار ھوں آپ نے مجھے تب سہارا دیا جب کوئی نہی تھا میں اتنا تو کر ہے سکتی ھوں آپ لوگوں کیلئے ۔
بیٹا غیروں جیسی باتیں نہ کرو بیٹی کہا ہے فرض بھی نبھائیں گے اور نکاح بہت بڑا فیصلہ ہے آپ سوچ لیں اگر آپ کو کوئی بھی مسلہ ہے تو ہم اس صورتحال سے کسی اور طریقے سے بھی نکل سکتے ہیں دارق کی باتوں پر دھیان نہیں دو ۔
نہیں انکل میں سچ کہہ رہی ہوں سوچ سمجھ کر، اگر اس نکاح سے مسلہ حل ہوجائے گا تو مجھے کوئی اعتراض نہی ہے ویسے بھی تو کسی نہ کسی سے کرنا ہے تو عاتق کیوں نہی ۔
ٹھیک ہے میں مولوی جو عصر کے بعد بلاؤ گا تب تک آپ سب آرام کرلیں۔۔۔
۔۔
بابا مجھے وہی چاہیے،میں مر جاؤں گی اگر وہ نہ ملا ۔۔
بیٹا اُس کا نکاح ہوچکا ہے ۔۔۔
نہیں ہوا ہے ورنہ کب سے قندیل ہمارے گھر تھی وہ پتہ کرتا نہ اُس کا ،، سمن کے آنے کے بعد ہی کیوں وہ آیا ۔۔
بیٹا میںنے آپ کی بات مان کر نوٹس بھجوایا ہے ، لیکن اگر نکاح اصلی ہوا تو آپکو پتہ ہے میری کیا عزت رہ جائے گی آخر میں نے درانی فیملی کو پوائنٹ آؤٹ کیا ہے ،، کوئی سیاست میں ہے تو کوئی پولیس میں ، اُن کی پاور ہم سے کئی زیادہ ہے ۔۔۔
مجھے کچھ نہی پتہ وہ میرا ہے مطلب میرا ہے اگر نکاح بھی ہوگیا ہے اُن دونوں کا میں تب بھی اُسے چھین لوں گی قندیل سے۔۔وہ صرف میرا ہے صرف میرا ۔۔۔
نکاح ہوچکا تھا ،، سب اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے ۔
قندیل باہر کیوں بیٹھی ہو ؟؟
مما وہ میں ،، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہاں جاؤں ۔۔
اوہ اچھا میں سمجھ گئی ۔۔
ابھی تُم اپنے کمرے میں جاؤ بعد میں تمھاری شادی دھوم دھام سے کریں گے ہم ۔۔
پکا نہ مطلب عاتق کچھ کہے گا تو نہیں ۔۔۔
ارے نہی نہی اُس نے کیا کہنا ہے تُم اپنے کمرے میں جاؤ ۔
حدی کہیں باہر جائیں ۔
اس وقت باہر ،،، دماغ جگہ پر ہے اور
کائرہ میں نوکری دیکھ رہی ہوں ۔۔دیکھنے دو نہ ۔۔
کیوں تمہیں کیا ضرورت ہے نوکری کی ۔۔
ویسے ہی ،،، فارغ ہوتی ھوں تو ۔۔۔
ایک تو اس گھر میں سب کی کمانے کا بڑا شوق ہے ۔۔۔
بات وہ نہی ہے کائرہ ۔۔۔
پھر کیا ہے ۔ابھی چھوڑو اسے میرے ساتھ چلو ۔۔
کہاں باہر ۔۔
اس وقت میں نہی جا رہی ۔۔۔
کیوں اس وقت کیا ہوتا ہے ۔ ابھی آٹھ ہی بجے ہیں رات کے ۔۔۔
آٹھ مطلب میرے سونے کا وقت میں سونے چلی کسی اور کے ساتھ چلی جاؤ ۔۔
مگر حدی ۔۔۔
جاؤ کائرہ ۔۔۔ وہ اُسے کمرے سے باہر نکال دیتی ہے ۔۔۔
کیا مصیبت ہے باقی سب بھی سونے چلے گئے ہیں میرا دل اتنا گبھرا ہے کیا ہوجاتا میرے ساتھ آجاتی ۔۔
میں اکیلے ہی چلی جاتی ہوں ڈرتی تھوڑی ہوں کسی سے ۔۔
مگر اندھیرا ہے باہر تو ۔۔اکیلے جانا سہی رہے گا۔ کیا کروں۔ کچھ نہیں ہوتا کائرہ ،، اکیلے جا بہادر بن۔ ۔
کہاں جا رہی ھو۔ ۔اُسے خود سے ہی باتیں کرتا دیکھ دارق نے پوچھا۔
کہیں بھی جاؤں تُم سے مطلب ۔۔وہ بے رخی سے کہتی جانے لگی ۔۔
ٹھیک ہے دھیان سے جانا۔ وہ کہتا اندر جانے لگا۔
کائرہ نے پیچھے مڑ کر اُسے دیکھا ۔۔۔۔
اچھا سنو!! کائرہ نے اُسے آواز دی
۔ہاں بولو ،،،
میں باہر جا رہی تھی میرے ساتھ آؤ گے ۔۔
تمہارے ساتھ ،،
کیوں مسلہ ہے کوئی یا آنا نہی چاہتے ۔
نہیں ایسی بات نہی ہے چلو ۔۔
۔
اب وہ دونوں سڑک کے کنارے پر چل رہے تھے ۔۔
ایک بات تو بتاؤ ۔
پوچھو ۔۔
تُم واقعی سالار سے محبت کرتی ہو ؟؟ سوال پر اُس نے دری کو دیکھا ۔
تمہیں کیا لگتا ہے ۔۔
مجھے کچھ پتہ ہوتا تو پوچھتا ہی کیوں ۔۔
دیکھو دری تُم نے جو کیا بھلے ہی مجھے پانے کیلئے کیا لیکن اُس نے کسی کی جان لے لی ۔ داور مامو کے پاس سالار اور رائد کے علاوہ تھا ہی کون ، ہم سب ہیں ٹھیک ہے لیکن اُن دونوں کو دیکھا ہے تُم نے ، کتنا بدل گئے ہیں ۔
بدل تو میں بھی گیا ھوں نہ کائرہ ،،
ہاں لیکن تمھارا بدلنا معنی نہی رکھتا جانتے ہو کیوں ، کیونکہ سب کے پیچھے جانے انجانے میں تُم قصور وار ہو ۔
کائرہ میرے پاس تمھارے علاوہ کوئی نہی ہے تمہیں مجھ پر ترس نہی آتا ۔۔
تمہارے پاس سب ہیں دری کون نہی ہے ماں باپ بھائی بہن کزنز سب ہیں ۔۔میرے پاس میری ماں بھی نہی ہے۔ وہ مجھے زمانے کے ڈر سے چھپا لینا چاہتی ہے جب کے اس سب سے میرا دم گھٹتا ہے ۔۔
کیوں کائرہ ، سب جو کہتے ہیں تمہارے لئے بہتر ہوتا ہے ، تمہاری حفاظت کیلئے کہتے ہیں ۔
ہاں جانتی ھوں ،، مگر میں ایسی حفاظت سے گھٹ رہی ہوں کیا کروں ۔تُم نے مجھے اُس دِن مجرہ کرنے والی کہا ، یعنی جو لڑکی فزیکلی اسٹرونگ ہوگی وہ طوائف ہوگی ۔۔
میں ایسا نہی کہنا چاہتا تھا نہ ہی تُم پر ہاتھ اٹھانا چاہتا تھا ، قسم لے لو کائرہ دارق مر تو سکتا ہے تمہیں تکلیف نہی دے سکتا ۔۔اس دن وہ وڈیو دیکھی اُس کے نیچے کمنٹس میرا دماغ گھوم گیا کے میں جس لڑکی کو سات پردوں میں رکھنا چاہتا ہوں کوئی اُسے بری نگاہ سے نہ دیکھے اُس کے بارے میں ایسے الفاظ سنوں گا تو غُصہ تو آئے گا ۔۔
ہاں شاید مگر سچ بھی جاننا ضروری ہوتا ہے تصویر کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں اور ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں نہ یہاں کانوں سنا بعد میں آنکھوں دیکھا بھی جھوٹ ہوسکتا ہے ۔۔تُم عین سے پوچھنا اُس دن کیا ہوا تھا ۔۔اور دل گھبراتا ہے گھر میں باہر کہیں نکلوں تب ، ایسا لگتا ہے ہوا میں آکسیجن نہ ہو ۔۔تُم نے ایک غلط انتخاب کیا ہے تُم میری جیسی لڑکی کیلئے اتنا مت کرو ۔۔ تُم نے میرے لیے اپنا یار گوا دیا ۔۔
تمہاری باتوں کا کیا مطلب ہے مجھے نہی جاننا مجھے بس اتنا معلوم ہے تُم میرا انتخاب ہو اور میرا انتخاب کبھی عام نہی ہوسکتا ، اور اگر دنیا کا حسن یکجا ہوجائے تب بھی میرے لیے صرف تُم سب سے حسین ہوگی ۔۔میں نہی جانتا مگر میرا عشق صرف تُم سے ہے تمہاری یادوں سے ہے ، تمہاری تا عمر بے رخی بھی قبول بس تُم ایک بار کہہ دو تم دارق درانی کی ہو ۔۔۔تمہیں معلوم ہے جنت میں ستر حوریں ملتی ہیں اگر میرے نصیب میں جنت ہوئی تو میں حوریں نہی تمہیں پسند کروں گا ۔۔۔ایسا عشق ہے تُم سے ۔۔۔
ویسے نہ میں آئسکریم کھانے آئی تھی اور تمہاری یہ فلسفے والی باتیں سر سے گئی ہیں ۔۔خاک سمجھ نہی آئی ۔۔
آجائے گی جب تُم کسی سے روح کی گہرائی سے عشق کرو گی ۔۔
ویسے نہ مجھے بہت شوق ہے جاننے کا عشق کیسا ہوتا ہے۔ اللہ کرے مجھے بھی ایک بار ہوجائے۔ ۔۔
اللہ کرے نہ ہو ۔۔
کیوں ۔۔۔کیوں نہ ہو ۔۔۔
عشقِ وہ آگ ہے جو جلتی نہیں جلاتی ہے ۔ اندر سے مار دیتی ہے انسان کو ،، سانسیں چلیں لیکن وجود مردہ ہو ، باہر لگی آگ بجھانے سے بجھ جاتی ہے اور عشق وہ آگ ہے جو ہر پل شدت پکڑتی ہے صرف محبوب کی نظریں جس کا علاج ہو اور محبوب میسر نہ ہو اُس پل کی ازیت سو بار جان نکلنے کے برابر ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
اتنی گہری باتیں ۔۔اب تو میں لازمی کروں گی ۔۔ مجھے بھی عشق ہوجائے ۔۔۔
مجھے بھی عشق ہوجائے ۔۔۔
آئسکریم کھا لو آکے۔۔ پُہنچ گئے ہیں ہم .
ہن ایک بات بتاؤ تمہیں تکلیف نہی ہوتی یک طرفہ محبت کرنے سے ۔
یک طرفہ عشق ۔۔۔
ہاں لیکن فرق کیا ہے محبت میں اور عشق میں ۔۔۔
محبت ہر کسی سے نہی ہوتی سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے اس میں محبتوں کی گنجائش ہوتی ہے ، ایک دھوکے کے بعد ایک بار ٹھکرائے جانے کے بعد ہم کسی اور سے کرلیتے ہیں جہاں ہماری قدر نہ ہو وہاں سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں ۔لیکن عشق میں ایسا نہی ہوتا۔ عشقِ بے اختیار ہوتا کسی سے بھی ہوجاتا ہے کہیں بھی کسی بھی وقت ، عشق میں بس چاہنا ہے کسی دوسرے کو ، بے وجہ ہے انتہا بس چاہے جاؤ وہ چاہے یا نہ چاہے ،عشق میں شرک نہی ہوتا ، بس ایک ہی شخص کے سامنے جھک جانا ہوتا ہے اس میں انا نہیں ہوتی ، دھتکار ، نفرت کے بعد بھی سامنے والا دل پر راج کرتا ہے اور روح میں ایسا بس جاتا ہے کے کنارہ کش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔۔
ہمم مجھے پھر بھی سمجھ نہیں آئی ۔
آجائے گی ابھی تو گھر چلو رات کافی ہوگئی ہے ۔۔
کافی ابھی دس بھی نہی ہوئے ،اتنی جلدی تمہاری رات ہوجاتی ہے ۔۔
میں تمہاری بات کررہا ہوں میری تو رات ہی نہی ہوتی ۔
تُم ہفتے بھر سے سوئے نہی ہو نہ ؟؟؟
سوال منجمد کردینے والا تھا ۔۔
ایسے مت دیکھو ، سالار کے بعد کوئی بھی سکون سے نہی سویا تمھارا تو پھر لیلیٰ مجنوں والا دوست تھا ۔
لیلیٰ مجنوں ؟؟
ہاں بھئی ایک ساتھ ہی پائے جاتے تھے تُم دونوں تو مینے یہ نام رکھ دیا تُم دونوں کا اور تمہیں پتہ ہے میں عین ،حدی اور عائش اس نام کو بار بار لے کے ہنستے تھے ۔۔وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی ۔
آج برسوں بعد اُس نے اُسے مسکراتا دیکھا تھا ۔۔
ہنستی رہا کرو کسی کے جینے کا سبب ہے تمہاری ہنسی ،، تُم ہنستی ہو تو دل دھڑکتا ہے اور دل نہ دھڑکے تو انسان کسی کام کا نہی ہوتا ۔۔
ہممم ،،
کافی دیر خاموشی رہی ۔۔
ایک بات پوچھوں ؟؟
پوچھو ۔
اس دِن تُم نے سالار سے کیا کہا تھا ؟
وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا ،، اُسے اس سوال کی اُمید نہ تھی ۔۔
یادوں کے پہروں میں ایک آواز گونجی ،
(میں ہار گیا سالار ۔ میں مرجاوں گا ۔ مجھے میرا عشق بھیک میں دے دے ۔
دارق دلاور درانی تُجھ سے کائرہ درانی کی محبت کی بھیک مانگتا ہے ۔ سالار میری محبت مجھے لوٹا دے تیرا ظرف بہت بڑا ہے تو رہ لے گا لیکن دارق مر جائے گا۔ )
سالار میںنے صرف کائرہ کو مانگا تھا تیری زندگی تو نہی مانگی تھی ۔ اگر نہیں رہ سکتا تھا اُس کے بغیر بول دیا ہوتا۔ دارق تیری محبت میں یہ بھی کر لیتا ۔ کیوں سالار ۔ ایک بار اٹھ جا یار سب تیرا ہوجائے گا ۔ سب دے دوں گا تُجھے ۔ وہ بچوں کی روتا اُس کو جھنجھوڑ رہا تھا ۔
بھائی جنازے کا وقت ہوگیا ۔ پلیز بھائی ، بھائی کو جانے دیں ۔
رائد اُس کے قدموں میں بیٹھا ۔
رائد اسے کہو نہ اٹھے ۔ایسے کوئی خفا ہوتا ہاں یار سے ۔ میں تو پھر اس کا بچپن کا دوست ہوں بول نہ اسے اٹھے ۔ میرے لیے نہ سہی کائرہ کیلئے اٹھ جائے ۔
کائرہ جو کب سے پتھر بنی بیٹھی تھی دارق کی آواز پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔۔
بھائی پلیز اُنہیں جانے دیں ۔ ۔ رائد اُس کہتا جنازے کی اور بڑھا ۔
جنازہ پڑھا جا چکا تھا ۔
بھائی قبر میں اُتارنے کیلئے آجائیں ۔ رائد نے دارق کو کہا جو دور ہوکر کھڑا ہوگیا ۔
رائد میں آج اُسے تھام نہی سکتا ۔ آج اُس نے دارق کو چھوڑ دیا ۔ اُس کے علاوہ میرا تو کوئی رازدار ہی نہی تھا ۔ میں آج خود کو سمبھال نہی پا رہا ۔ مجھے سنبھالنے والا مٹی کو گلے لگا رہا ہے ۔ دارق کہتا قبرستان کی حدود سے نکل گیا۔ ۔
سالار کو رائد ، عاتق ، اور دلاور نے قبر میں اتارا ۔ داور پہلے ہی جا چکا تھا ۔
سب خاموش تھے ۔ آج کھانے کے ٹیبل پر تھے بس وحشت نے غیر رکھا تھا سب کو ۔
دارق ، یہاں کیوں بیٹھے ہو ۔
کائرہ اُسے لان میں بیٹھے دیکھ کے اُس تک آئی ۔
سالار کو واپس لے آؤ کائرہ ۔ میں مر جاؤں گا ۔ میری سانسیں بند ہورہی ہیں ۔
تو بند کیوں نہی ہوتی ۔ کائرہ نے بے حسی سے پوچھا۔
اس نے حیرت سے اُسے دیکھا۔
ایسے مت دیکھو ، جاؤ نکاح کی خوشیاں مناؤ ، یار کے کفن پر تُم نے اپنی قسمت کی خوشیاں لکھی ہیں ۔
تم مرجاتے اتنا درد نہ ہوتا پر سالار نے تمہیں خوشی دینے کیلئے خود کو ہار دیا ۔ اُس نے یاری میں ایسا کیا محبت میں کیا کیا کر دیتا ۔ پہلے میں اُسے شادی صرف تمہیں نیچا دکھانے کیلئے کررہی تھی ۔ لیکن اب مجھے اُس سے محبت ہوگئی ۔ کاش وہ نہ مرتا تُم مرجاتے اتنی خود غرضی ، اُس کے باپ کو کیا منہ دکھاؤ گے۔ اپنی بہن کو کیسے بہلاؤ گے جو زندہ اس وجہ سے تھی کے کسی کا ہی سہی میری نظروں کے سامنے تو ہوگا ۔ تُم اتنے خود غرض ہو نہ کے تم سے محبت تو کیا نفرت کا بھی دل نہی کررہا ۔ اپنی ماں کو کیا کہو گے جس نے سالار کو تمہارا جوڑواں بھائی بنا کر پالا ۔ تُم واقعی مرجاؤ اتنی نفرتیں تُم برداشت نہی کر سکتے ۔ وہ کہتی اندر جا چکی تھی ۔
دارق اُس کے الفاظوں کو سوچ رہا تھا۔ سب کو سوچ رہا تھا ۔ کچھ سوچتے باہر کی جانب نکل گیا ۔
عین کھانا کھا لو ۔ حدیقہ مسلسل اُسے کھانا کھلانے کی کوششیں کررہی تھی ۔ مگر سامنے والی پتھر کی مورت بنے بس ایک نکتے کو گھورنے لگی ہوئی تھی ۔
کائرہ اسے کہو نہ کھانا کھا لے تمھاری بات مان لے گی ۔ حدیقہ نے پاس سے گزرتی کائرہ کو کہا ۔ ۔
حدیقہ جب چوٹ پر دل لگے نہ تو کھانا تو کیا سانسیں بھی بوجھ لگنے لگتی ہیں ۔ تُم رہنے دو جب اُس کا دل کرے گا کھا لے گی ابھی اس کا اندر ویران ہے اُس بھوک نہی لگ رہی ۔ جب من سمبھل جائے گا وہ کھا لے گی ۔ کائرہ کہتی باہر نکل گئی۔
رائد ، داور کہاں ہے ۔ دلاور نے اُسے نہ پاکر پوچھا ۔
کمرے میں ہیں تایا جان ۔ بیٹا کھونا آسان نہیں ہے اور بیٹا بھی جب جوان ہو ، سہرا سجائے اُن کے روبرو کھڑا ہو ۔
ایک سال بعد :
سب خود میں ہی رہنے لگے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
کائرہ تُمہاری پڑھائی مکمل ہوگئی ہے تو رخصتی کردیں۔ دلاور نے ناشتے کے ٹیبل پر پوچھا ۔
مامو جان اتنا کافی نہی ہے کے آپ کے بیٹے نے کسی کی قبر بنا کر اپنے لیے سیج سجائی ہے ۔ جتنی خوشی اس نے دیکھنی تھی دیکھ لی ۔ کوئی رخصتی کی تقریب نہی ہوگی۔ آپ میں عزت بچانے کیلئے نکاح کا کہا تھا میںنے کرلیا اگر اُس دِن معلوم ہوتا نہ سالار کیوں نہی آیا تو کبھی بھی میں اس سے نکاح نہ کرتی۔ رخصتی تو نہی ہوگی ۔ کائرہ کہتی جانے لگی ۔ جب داور نے اُسے روکا ۔
کائرہ ، میں معاف کرچکا ہوں دارق کو ، تُم بھی کردو ۔ سب نے کردیا ہے ۔ داور نے اُسے دیکھتے کہا ۔
مامو جان ۔ نہ آپ نے نہ گھر کے کسی اور فرد نے اسے معاف کیا ہے بس سمجھوتہ کرلیا ہے ۔ میرا ایسا کو ارادہ نہی ہے ۔ میں معاف نہی کروں گی ۔ آپ بتائیں آپ کو بیٹا یاد نہی آتا ،
نہیں آتا دارق کو دیکھ لیتا ہوں نہ تو ایسا لگتا ہے سالار سامنے کھڑا ہے ۔ وہ جانے لگے ۔
رکیں ، اگر آپ کو سالار یاد نہی آتا تو پچھلے ایک سال سے بنا بھولے اُس کے کمرے میں دودھ کیوں لیکر جاتے ہیں ۔کیوں رات کو اُس کے کمرے میں سلیپنگ پلز رکھ کر آتے ہیں ۔ آپ ایک سال میں اپنی دوائیں کھانا بھول گئے لیکن یہ نہی بھولے کہ سالار رات کو دودھ پئے بغیر سو نہی سکتا تھا ، وہ سلیپنگ پلز لیتا ہے آپ نہی بھولے کیوں ۔ آپ کو یاد نہیں آتی ۔ تو کس کو بہلا رہے ہیں یہ سب کرکے ۔ روز صبح وہ دودھ کا گلاس میں کسی غریب کو پلا کر آتی ہوں ، اور ایک سال میں ایک دن ایسا نہی تھا جب صبح مجھے وھاں دودھ کا گلاس نہ ملے ۔
اور رائد کو بھی بھائی یاد نہی آتا ۔ اگر نہی تو ساری رات کیرم بورڈ لیے
بالکونی میں کیوں بیٹھتا ہے کس کا انتظار کرتا ہے کون آئے گا ۔ کیرم تو سالار اور رائد کے علاوہ کوئی نہی کھیلتا دارق جو تب بھی کیرم آنے کے باوجود یہ کہتا تھا اُسے پسند نہی ہے ۔ وہ کھیلے گا نہی نہ تو کس انتظار ایک سال سے راتیں جاگ کر رائد کرتا ہے ۔ بولیں مامو جان ۔ اب بھی کسی کو یاد نہی آتی اُسکی ۔
عین کو لے لو جس نے آج تک فجر نہی پڑھی کہ نیند خراب نہ ہو ۔ ایک سال سے تہجد بھی پڑھ ہے پوری رات اُسکی آہیں اور سسکیوں سے رونا سنائی دیتا ہے ۔ جب وہ خدا سے یہ کہتی نہ کہ ایک بار بات کروا دے وہ اُسکی سالار سے۔ تب نفرت ہوتی ہے مجھے دارق سے ۔ جب ممانی جان اور مما چھپ چھپ کر روتی ہیں میں تب تڑپتی ہوں تب نفرت ہوتی ہے مجھے اُس سے ۔ کیوں خود غرض بن گیا۔ جب عائش حدیقہ مذاق نہی کرتے ، رائد نے ڈاکٹر کی خواہش چھوڑ کے سالار کا بزنس سمبھال لیا ۔ عاتق گھر نہی آتا ، عین راتوں کو روتی ہے آپ سالار کے کمرے میں ٹہلتے رہتے ہیں ۔ کسی کی رات بالکنی میں گزرتی ہے تو کسی کی روتے ہوئے فریادیں کرتے ۔ اب بھی آپ کہیں گے آپ کو سالار یاد نہی آتا ان کو یاد نہی آتا ۔ میرا اتنا بڑا ظرف نہیں ہے کے سمبھال لوں خود کو ۔ مجھے سالار کی آج تک بس ایک بات یاد آتی ہے میں نے لڑکیوں والا حلیہ اپنا لیا۔ جانتے ہیں میں وہ کپڑے کیوں پہنتی تھی۔ مجھے لڑنا سیکھايا سالار نے ، سیلف ڈیفنس سکھایا سالار نے ، کپڑوں پر بات آئی تو اُس نے کہا تُم جو بھی پہنو مگر باہر اگر تُمہیں کوئی چھیڑے تو اس کا منہ نوچ لینا ۔ اُس کو ہسپتال لے جانے کےلئے ایمبولینس آئے اُسے اتنا مارنا ۔ کیس بنے تو تمہارا کزن ہے نہ پولیس میں اگر وہ نہی ہے نہ تو سالار داور درانی ہر وقت تمہارے لیے موجود ہے ۔ اُسے جج بھی ، منسٹر بھی خریدنا پڑے گا نہ وہ بھی خرید لے گا ۔ میں جانتی تھی وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میں اُس کی محبت کا احترام کرتی تھی کیوں کہ اُسنے دارق کی طرح کبھی نیچا نہی دکھایا ، اُس نے خود کو مطمئن کرنے کے لیے دوسروں کو چوٹ نہیں دی ۔ اُس کی اچھائی کا کیا ثبوت دوں اُس نے دوست کے لیے محبت چھوڑ دی جب اُس سے کام نہ ہوا زندگی بھی ہار دی ۔ وہ عشق میں ہارا تھا اُس نے نبھا کر بتایا تھا یہ یاری ہے ۔ اب بھی اُس کی یاد نہی آتی کسی کو۔ حیرت ہے ۔ وہ کہتی کمرے میں چلی گئی ۔
جب کے باقی لوگوں کو انگاروں پر لوٹنے کیلئے چھوڑ گئی۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہی تھا جو وہ کررہے ہیں کوئی اُنہیں دیکھ رہا ہے۔
رنگ رنگ رنگ رنگ رنگ رنگ ۔۔۔۔
سمن بولو کیا بات ہے۔ اس ایک سال میں عاتق سمن اور قندیل سے رابطے میں رہا۔
ایڈریس سنڈ کررہی ہوں آسکتے ہو ۔۔ پلیز ۔ جلدی آجاؤ ۔۔ سمن نے گھبراتے لہجے میں بات کرکے فون کاٹ دیا ۔
وہ اب ایک بڑے سے بنگلہ کے باہر کھڑا تھا۔ اُسّے یہ تو معلوم تھا کہ یہ قندیل کا گھر نہی ہے ۔ کس کا ہے کام۔آسان ہوجاتا اگر باہر بورڈ پڑھ لیتا ۔ ۔
جی آپ کو صاحب ۔
اندر بتاؤ عاتق درانی آیا ہے ۔
جی آپ انتظار کریں میں آتا ہوں ۔
صاحب جی کوئی عاتق درانی آیا ہے ۔
یہ کون ہے ۔ غلط ایڈریس پر آگیا ہوگا ۔ کس سے ملنا ہے بتایا اُسنے ۔
مُجھ سے ملنا ہے میںنے بلایا ہے ۔ میرا دوست ہے ۔ سمن نیچے آتی اُنہیں کہتی ہے۔
راتوں رات دوست کہاں سے آگیا۔
آپ نے کبھی خبر نہی رکھی ایک سال سے دوست ہے میرا ۔اندر آنے دیں اُنہیں ۔
آجائیں صاحب جی۔
ہائے سمن ۔۔کیسی ہو ۔ سب ٹھیک ہے نہ ۔۔تُم نے ۔ابھی وہ بات مکمل کرتا سمن بول پڑی ۔
ہم سب ٹھیک ہے بس ایشو ملنا چاہتا تھا تُم سے ۔ جاؤ اوپر والے دوسرے کمرے میں ہے ۔ سمن کے بتانے پر وہ اوپر چلا گیا۔ ۔۔
تُم یھاں کیسے ۔ میرا مطلب ہے بابا نے بلایا ہے ۔ وہ میری ہر ضد پوری کرتے ہیں دیکھو میںنے پرسوں اُنہیں کہا کہ مجھے تُم سے شادی کرنی ہے تمہیں آج بلا لیا ۔ وہ آگے بڑھتی گلے لگنے لگتی ہے جب وہ دور کرتا ہے اُسے ۔
دور رہو عشنا عثمان رہبانی ۔ میں تمہارے لیے نہیں آیا نہ ہی تمہارے باپ کے کہنے پر آیا ہوں ۔ میں ایشو سے ملنے آیا ہوں ہٹو آگے سے۔
وہ اُسے سائڈ کرتا آگے جا چکا تھا۔
ایسا کیا ہ اُن دونوں بہن بھائی میں جو صدقے واری جاتا ہے اُن پر ۔ مگر تُم جو بھی میری سال بھر سے نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ تُم تو صرف میرے ہو۔ جیسے میری مما نے اپنی محبت اُس عورت سے چھین لی تھی میں بھی چھین لوں گی ۔ برسوں پہلے میری ماں نے اپنی سوتن کو اُس جگہ بھیجا تھا اب اُس کی بیٹی کی باری ۔۔وہ کہتی نیچے چلی گئی۔
ایشو ۔۔ ایشو۔۔۔ عاتق اندر آیا مگر اندر کوئی نظر نہی آیا ۔ ۔
اچانک الماری کے پیچھے سے قندیل باہر نکلی ،
تُم رو رہی تھی ۔۔ عاتق نے اُس کے چہرے پر آنسوؤں کے نشان دیکھ kr پوچھا ۔
مجھے یھاں سے لے چلو ۔ مجھے یھاں سے نکالو ۔۔ وہ پتہ نہی مجھے کیوں لائے ہیں ۔ کیا جاننا چاہتے ہیں ۔
مطلب کی ہوا ہے ۔یھاں اپنی مرضی سے نہی آئی تُم ۔
نہی نہ میں نہ سمن نہ ایشو ۔۔ کوئی بھی اپنی مرضی سے نہی آیا ۔۔ ہمیں لے چلو یھاں سے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
ٹھیک ہے سامان باندھو اور آجاؤ ۔۔۔
عاتق نیچے جا کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔ جب کے اب اُس کے ساتھ سمن اور ایشو بھی بیٹھے تھے ۔
اس کے سامنے عثمان ، زرین اور عشنا بیٹھے تھے ۔ عشنا مسلسل اُسے دیکھنے میں مصروف تھی ۔
چلیں ۔ اوپر سے آتی قندیل نے بایگز سامنے رکھے ۔ وہ تینوں اٹھ کھڑے ہوئے ۔
کہاں جا رہے ہو تم لوگ ۔ کوئی کہیں نہی جا سکتا ۔۔۔
بابا جس لڑکے کا ہم نے اس لڑکی سے پوچھنا تھا وہ یہی ہے عاتق ۔۔ آپ اُن تینوں کا جانے دیں اور میرا اور عاتق کا نکاح پڑھوا دیں ۔
کیا بکواس ہے یہ ۔ عاتق چلایا ۔
بکواس نہی ہے میں محبت کرتی ہوں تُم سے ۔ بعد میں آؤ نہ آؤ پتہ نہی ابھی نکاح کرنا ہے۔
میرا نکاح ہوچکا ہے ۔ اُس کے لمحے میں کہنے پر عشنا اور قندیل نے اُسے دیکھا ۔ آنکھوں دونوں کی آنکھوں سے رواں تھے ۔ ۔
جھوٹ ہے ۔ تُم مذاق کررہے ہو ۔ عشنا اُس کے سامنے آئی ۔
میں سچ کہہ رہا ہوں میرا نکاح ہوچکا ہے یہ ہے میری منکوحہ ۔ اُس نے قندیل کو خود سے لگاتے کہا ۔ جب کے لمحے کو تو قندیل کو سمجھ ہی نہی آیا کے ہوا کیا ہے ۔
نہیں نہیں ایسا نہی ہوسکتا میں اس کو جان سے مار دوں گی ۔۔
دور رہو اس سے عشنا ورنہ جان لے لوں گا ۔۔میں اپنی بیوی اور اُس کی فیملی کو لینے آیا تھا ۔ اُس کو لے کر جا رہا ہوں ۔
رکو لڑکے ۔۔ نکاح نامہ دکھاؤ پہلے ۔
لمحے میں سب کی رنگت زرد ہوئی ۔
صرف ایک عاتق کو چھوڑ کے۔
ٹھیک ہے میں نکاح نامہ جیب میں لے کے نہی گھومتا ۔ میں آپ کو گھر سے منگوا کر دیکھا دیتا ہُوں ۔
ٹھیک ہے منگواو مگر کال ہمارے سامنے کرو گے ۔۔۔
ٹھیک ہے۔ او کے سامنے کرلیتا ہوں ۔۔۔
قندیل سمن اور ایشو سوچ رہے تھے نکاح نامہ کہاں سے آئے گا ۔اگر آئے گا تو اس پر سائن کہاں سے آئے گیں ۔۔
جبکہ عشنا عثمان اور زرین سوچ رہے تھے اگر سچ میں نکاح ہوگیا ہوا تو ۔ عشنا کیا کرے گی یہ سوچ آتے ہی عثمان نے اُس کی جانب دیکھا ۔
جب کے عاتق سب کو نظر انداز کرتا کیا کرنے میں مصروف تھا ۔
جاری ہے ۔۔