لب سے جو نکلی دعا۔۔۔۔۔۔!!!!
تحریر
حناء شاہد
لب سے جو نکلی دعا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
تحریر
حناء شاہد
قسط نمبر 2۔
وہ ایک طویل سڑک پر چل رہی تھی۔ جس کے دونوں اطراف میں لمبے گھنے سایہ دار درخت لگے ہوئے تھے۔شام کے ملگجے سائے اب رات میں ڈھل چکے تھے۔ سڑک کافیہ سنسان تھی اور وہ یونہی بے دھیانی سے سڑک پر چل رہی تھی۔ جب یخ بستہ ہوا کے تیز جھونکے نے پرسکوت ماحول میں ارتعاش پیدا کیا تو اس کے چہرے پر خوف کے باعث ایک جھرجھری ابھری۔ پتوں کی سائیں سائیں کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا تو تو اندازہ ہوا کہ وہ کافی دور تک نکل آئی ہے۔ پھر اس سنسان سڑک پر ایک برگزیدہ آواز نے اسے مزید چونکا دیا۔
“اللہ کے نام پہ کچھ دے دو بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!”
سبز جھولا پہنے وہ بزرگ ٹھنڈی زمین پر بڑے آرام سے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اور چہرہ اس قدر جھریوں زدہ تھا کہ دیکھنے والے کو یوں گماں ہو کہ جیسے کسی نے مٹی پر بہت ساری لکیریں کھینچ دی ہوں۔۔اس کے لبوں سے پھر وہی صدا بلند ہوئی۔
“اللہ کے نام پر کچھ دے دو بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔”
عشنا نے گھور کر بزرگ کی طرف دیکھا۔ پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔ پھر وہ دھیمے انداز میں بولی۔
“میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے بابا۔۔۔۔۔! جو میں آپ کو دے سکوں۔۔۔۔۔۔!
تھکے تھکے سے لہجے میں بیزاری حد درجہ تھی۔ جس پر بابا نے مسکرا کر کہا۔
“ہر کسی کے پاس سب کچھ نہیں ہوتا بیٹی۔۔۔۔! لیکن!!! یہ بھی سچ ہے کہ سب کے پاس کچھ نا کچھ ضرور ہوتا ہے۔”
بابا کی بات نے اسے چونکا دیا اور وہ حیران رہ گئی۔ پھر اپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو جوڑ کر سوالیہ نظروں سے بزرگ کی طرف دیکھنے لگی۔ اور پھر چند ثانیے کے بعد گویا ہوئی۔
“میرے پاس ایسا کچھ نہیں ہے بابا جو میں آپ کو دے سکوں۔”
وہ اس وقت بیزاری کی انتہاء کو چھو رہی تھی اور مسلسل ٹکٹکی باندھے بزرگ کی جانب دیکھے جا رہی تھی۔ جبکہ بزرگ ایک بار پھر اس کی بات سن کر مسکرانے لگے۔
“تمہارے پاس ایسا کیا نہیں ہے بیٹی۔۔۔۔۔۔۔؟ جس کی تلاش میں تم رات کے اس پہر یوں سڑکوں کی خاک چھان رہی ہو۔”
بابا نے قدرے سنجیدہ انداز میں کہا تو عشنا کی آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے۔اور وہ بابا کے قریب لیکن دو قدم کے فاصلے سے زمین پر بیٹھ گئی۔ پھر کچھ لمحے اچھا خاصہ رو لینے کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے اور سر اٹھا کر ایک نظر بابا کی جانب دیکھا اور بولی۔
“بابا! مجھ سے تو میرا سب کچھ چھن گیا ہے میری سب سے بڑی دولت۔۔۔۔۔۔۔!!”
ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ بابا استہزائیہ انداز میں مسکرانے لگے۔ اور پھر فوراً سے بولے۔
“تم دنیا والوں کے بھئ کیا کہنے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟ اب دولت کے بھی درجات رکھ لیے ہیں۔۔۔۔۔۔ سب سے بڑی دولت۔۔۔۔۔۔۔۔!!!”
بابا کی بات سن کر اس نے سرخی مائل آنکھوں کے ساتھ بابا کی جانب گھور کر دیکھا اور غصیلے انداز میں جھٹ سے بولی۔
“کسی بھی انسان کی سب سے بڑی دولت محبتِ سکون اور چین کا ہونا ہے۔لیکن !!! میری زندگی میں نہ تو محبت ہے اور نہ ہی میرے دل و دماغ میں سکون اور چین ہے۔”
عشنا نے رنجیدہ انداز میں کہا تو درد و غم کے بادل اس کے چہرے سے صاف عیاں ہونے لگے۔
“ہاں! تم نے سچ کہا ہے۔ یہ تو سب سے بڑی دولت ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی ہے۔ لیکن ! وہ تو مولا ہے، داتا ہے، ہم سب کا پالنے والا ہے۔”
بابا نے ہاتھ اٹھا کر اس خالق و مالک کی تعریف و توصیف بیان کی پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے۔
“وہ تو کل کائنات کا خالق ہے مالک ہے رازق ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم کر دیتا ہے۔ ہم تو منگتے ہیں اس کے در کے صرف منگتے ہیں۔”
بابا نے عاجزی و انکساری سے ربِ کائنات کی تعریف بیان کی جبکہ عشنا وہ تو بس اپنا سر جھکائے بابا کی ہر بات پہ اثبات میں سر ہلائے جا رہی تھی۔بابا نے اپنا لرزتا کانپتا ہوا ہاتھ اس کے سر پہ رکھتے ہوئے کہا۔
“تم بھی اپنے رب سے مانگو اور اس یقین کے ساتھ مانگو کہ جو تم اس سے مانگ رہی ہو وہ تمہیں ضرور اس سے نواز دے گا۔۔ بس لگن سچی ہونی چاہئیے بیٹی۔۔۔۔۔۔۔!!!”
بابا نے اسے حوصلہ دیا تو وہ بابا کی بات سن کر جھٹ سے بولی۔
“لیکن ! میں تو بے حد گناہگار ہوں۔ میں کیسے اپنے رب کا سامنا کروں گیکیا میرا رب میری ساری خطائیں معاف کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟”
اس کا انداز سوالیہ تھا اور دل بے حد بے چین اور بے سکون۔
“بیٹی! وہ تو بڑا رحیم و کریم ہے۔ ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے وہ انسان سے۔۔۔۔۔۔۔ کیا میرا رب میری ساری خطائیں معاف کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ تم سچے دل سے جو بھی مانگو گی وہ تمہیں ضرور دے گا۔”
بابا نے پر یقین انداز کے ساتھ عشنا کو سمجھایا اور اس کے کندھے کو تھپتھپاتے ہوئے گویا ہوئے۔
“اب تم گھر جاؤ بیٹی۔۔۔۔۔! اور سجدے میں گرگرا کر اپنے رب سے مانگو وہ تمہیں ضرور دے گا وہ سب کو دینے والا ہے وہ تمہیں بھی ضرور دے گا۔”
بابا کے پریقین انداز نے اس کے دل پر اثر کیا۔ اور وہ جلدی سے اٹھی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ چلنے لگی۔ بابا کی نظروں نے دور تک جاتے ہوئے اس کا تعاقب کیا۔ بابا کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی وہ جھلک دکھائی دے رہی تھی جو شاید دنیا میں کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ کچھ سوچتے سوچتے چلتے ہوئے وہ نجانے کب گھر کے دروازے کے پاس پہنچ گئی اسے خود بھی اندازہ نہ ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔